ہمیں سچ بیان کرنے کا ہنر نہیں آتا
از، نصرت جاوید
تصویر کھینچتے ہوئے کیمرے کے بٹن کو دبایا جائے تو click کہتی ایک آواز سنائی دیتی ہے۔ click کا لفظی ترجمہ لہذا بٹن دبانا بھی ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ایک لفظ ہوتا ہے Bait۔ اس کے معنی وہ دانہ ہے جو پرندوں کو شکار کے لیے جمع کرنے کو پھینکا جاتا ہے۔ ان دونوں کو ملاکر ایک ترکیب بنی ہے: click-bait اس ترکیب کا اطلاق ان دنوں ”صحافت“ کے اس انداز پر ہو رہا ہے جو اس پیشے سے کسی نہ کسی طور متعلق ہوئے افراد اپنی بتائی کہانی کے لیے فیس بک پر زیادہ سے زیادہ Likes اور Share حاصل کرنے کے لیے ڈھونڈتے ہیں۔ کسی بھی کل وقتی ”صحافی“ کے لیے روزانہ ایسی ”خبر“ کا حصول مگر ممکن ہی نہیں۔ click bait کی لذت مگرچند ”صحافیوں“ کو کچھ کہانیاں گھڑنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ ایسی کہانیوں کو ہم Fake News کہتے ہیں۔
ٹرمپ کے امریکی صدر بن جانے کے بعد سے ایسی news کے دنیا بھر میں بہت چرچے ہیں۔ سوچ بچار کے عادی کئی محقق ٹھوس مثالوں سے خبردار کر رہے ہیں کہ اس رجحان کو روکا نہ گیا تو اندھی نفرت اور عقیدت میں تقسیم ہوئے معاشروں میں ہیجان پھیلتا چلا جائے گا۔ ہولناک خانہ جنگی کی کیفیات نمودار ہوں گی۔ انسان جنگلوں میں بھٹکتے وحشی درندوں کی مانند غول میں بٹے ایک دوسرے کی جانوں کے درپے ہونا شروع ہوجائیں گے۔
Fake News کو روکنا مگر ممکن ہی نہیں۔ اس دنیا میں آئے لوگ مختلف النوع وجوہات کی بناءپر گروہوں میں تقسیم ہوجاتے ہیں۔ ان گروہوں سے متعلق افراد مخالف گروہوں کے خلاف چند تعصبات کو جبلی طور پر ورثے میں حاصل کرتے ہیں۔ click bait کی لذت کا عادی ان گروہوں میں سے عددی اعتبار سے طاقتور ترین گروہ کا بہت سوچ بچار کے بعد انتخاب کرتا ہے۔ اپنا گروہ چن لینے کے بعد وہ اس گروہ کی جبلت میں موجود تعصبات کا اثبات کرتی ”خبریں“ بتانا شروع ہوجاتا ہے۔
ایسا کرتے ہوئے وہ بالآخر انٹرنیٹ اور ٹیلی وژن سکرین کا ”مقبول ترین“ اور ratings میں ”ہمیشہ نمبر ون“ صحافی یا اینکر پرسن بن جاتا ہے۔ اس کی بتائی کہانیوں کو جھٹلانے کی جرا¿ت دکھانے والا شخص بدعنوان نا سہی تو کم ازکم حاسد ضرور کہلاتا ہے۔ مبینہ طورپر ”چور لٹیرے سیاستدانوں“ اور ”جعلی جمہوریت“ کا دفاع کرنے والا صحافی جو بالآخر ”لفافہ صحافی“ بن جاتا ہے۔ Click-Baits کی بدولت تہمتوں کے لگائے انبار کے سامنے بے بس ہوا صحافی جس پر رحم کھانے کی مسلسل ہیجان میں مبتلا معاشرے میں کسی کو فرصت ہی نہیں۔
Fake News کے بارے میں چند ماہ قبل تک میرا دل بھی مستقل پریشان رہا۔میں ”سیاپا فروشی“ اور ”فروغ پارسائی میں مبتلا“ رجحان کی مذمت میں بے تحاشہ کالم لکھتا رہا۔ بہت غور کے بعد دریافت ہوا کہ میں اپنا وقت ضائع کر رہا ہوں۔ اصل بات niche کو ڈھونڈنا ہے۔ ایسے لوگوں کی تلاش جو آپ کے ذہن میں آئی بات کو پڑھنے اور سننے کو آمادہ ہوں۔ ان سے مستقل مکالمہ ہی مجھ ایسے لوگوں کو اطمینان فراہم کرسکتا ہے۔ یہ تسلی مہیا کرتا کہ ایسا سوچتے ہوئے میں اکیلا نہیں اور یقین مانیے کہ لوگوں کی بے نپاہ اکثریت کو اب بھی حقائق معلوم کرنے کی تڑپ ہے۔
مجھ ایسے لوگوں کا اصل المیہ یہ ہے کہ ہمیں سچ بیان کرنے کا ہنر نہیں آتا۔ مثال کے طور پر ٹالسٹائی کو آتا تھا۔ انتہائی سادہ زبان میں روزمرہّ زندگی کے بارے میں ضخیم ناول لکھنے والے اس روسی لکھاری نے ایک بار کہا تھا کہ سچ سے زیادہ مسحور کن کوئی اور شے نہیں ہوتی۔ وہ سچ کو as it is بیان کرنے کے ہنر کو جان گیا تھا۔ زار شاہی کی مسلط کردہ اطاعت کے انتہائی ایام میں سرکاری سنسرشپ سے گزر کر بھی اس کے ناول اس کی زندگی ہی میں لاکھوں کی تعداد میں چھپتے۔ رسالوں میں چھپتے اس کے ناولوں کی آئندہ اقساط کا بے تابی سے انتظار ہوتا۔
ٹالسٹائی کے دور ہی میں چیخوف بھی نمودار ہوگیا تھا۔ جدید ادب میں حقیقت پسندی کا رجحان شاید اس کے بغیر فروغ نہ پاتا۔ جھوٹ اس نے کبھی نہیں لکھا۔ ”انقلابی“ ہونے کا وہ دعوے دار بھی نہیں تھا۔ اس کے باوجود اس کے لکھے ڈرامے ”کھڑکی توڑ“ رش لیتے۔ زار شاہی ہمیشہ یہ محسوس کرتی رہی کہ اس کی تحریریں کسی نہ کسی صورت ”تخریبی“ ہیں۔ وہ اس کی تحریروں میں لیکن ایک سطر بھی اسے گرفت میں لانے کے لیے نہیں ڈھونڈ پائی۔
ہماری اپنی تاریخ میں 1857 بنیادی طور پر Fake News کا مجسم اظہار تھا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے سپاہیوں میں بغاوت کو اس ”افواہ“ نے اُکسایا کہ ان کے لیے جاری ہوئے کارتوس جنہیں بندوق میں ڈالنے سے پہلے دانتوں سے کاٹنا پڑتا تھا ایسی ”چربی“ میں لپٹے ہوئے تھے جو حرام جانوروں کے جسم سے نکالی گئی تھی۔ حیران کن بات یہ بھی ہے کہ آج تک یہ طے نہیں ہو پایا کہ وہ چربی کس جانور کی تھی۔ ہندو اور مسلمان سپاہی مگر بضد رہے کہ وہ ایسے جانوروں کی چربی تھی جو ان کے مذاہب میں حرام قرار دئیے گئے ہیں۔ مسلمان سپاہیوں نے ایک جانور کا نام لیا، ہندو سپاہیوں نے ایک اور جانور کا۔ بغاوت مگر ہوگئی اور دونوں یکجا ہوکر انگریز کو برصغیر سے نکالنے کی جنگ میں مصروف ہوگئے۔
بہادر شاہ ظفر کے دلّی میں جامع مسجد کی دیوار پر بھی Fake News پھیلاتے اشتہار ”اچانک“ لگے نظر آتے۔ ان کے ذریعے برصغیر کے مسلمانوں کو حوصلہ دیا جاتا کہ ان کی مدد کے لیے ایران نے اپنی سپاہ مختلف راستوں سے ہندوستان روانہ کردی ہیں۔ اک ذراصبر کہ فریاد کے دن تھوڑے ہیں۔ دلّی ہی کے ایک کوچہ کے گھر میں محصور ہوا غالب مگر Fake News کی حقیقت کو جان چکا تھا۔ اسے حیرت تھی کہ انگریز نے دھوئیں سے ریل کار چلادی ہے۔ ریل کار کے ذریعے پہنچائی رسد کا گھوڑوں اور بیل گاڑیوں کے محتاج باغی مقابلہ نہیں کر پائیں گے۔ Fake News سے لاتعلق ہوا وقت کے بدلنے کا انتظار کرتا رہا۔
سرسید کو یہ بات بھی اسی نے سمجھائی تھی کہ وقت کے ہاتھوں تباہ ہوئی مسلمانوں کی عظمتِ رفتہ سے وابسطہ عمارتوں کی داستانیں نہ لکھو۔ بلھے شاہ والا رویہ جس نے اصرار کیا تھاکہ ”حشر عذاب“ کا سامنا کرتے اور ”شک شبے کے وقت“ کا شکار ہوئے پنجاب میں ضروری ہے کہ اس کا غور کرنے والا ہر فرد ”آئی صورتوں سچا“ رہے۔ آنکھ جو کچھ دیکھ سکتی ہے پہلے اس کو بھرپور انداز میں دیکھے، بیان کرے اور اپنی بچت کی راہ تلاش کرے۔
قصور میں بچوں کے ساتھ ہوئی درندگی سے وابستہ چند ٹھوس حقائق ہیں۔ ہمارے ہاں ”عام“ سے اور بسا اوقات ”نیک پاک“ نظر آنے والے کئی افراد ہیں جو بچوں کو اپنی سفلی خواہشات کی تسکین کے لیے استعمال کرنے کے عادی ہیں۔ ان میں سے چند ایک اس لت میں مبتلاہوکر بالآخر وحشی درندوں کا چلن اختیار کرلیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو تلاش کرنے کے بعد ان پر نگاہ رکھنا بنیادی طورپر ہم شہریوں کی ذمہ داری ہے۔
پولیس کا کردار واردات کے بعد شروع ہوتا ہے اور پویس بھی ہمارے بے حس معاشرے ہی سے اُبھری ہے۔ اس کی کوتاہیوں کی مذمت بالکل ضروری ہے۔ اس کے کردار کونظراندز کیا ہی نہیں جاسکتا۔ وسیع تر حوالوں سے اس کا کردار مگر ثانوی ہے۔
زینب کے واقعے کے بعد گرفتار ہوئے شخص کی نظر بظاہر یہ آٹھویں واردات تھی۔ اس واردات کا ارتکاب کرنے کے بعد بھی وہ لیکن پولیس اور مقامی انتظامیہ کے خلاف پھوٹے مظاہروں میں نمایاں ترین رہا۔ اس کی پہچان پہلے کیوں نہ ہوپائی۔ وہ دوبار اپنا DNA پولیس کو دینے سے کیسے بچارہا۔
قصور کے حوالے سے بنیادی حقائق ایسے ہی سوالات تھے۔ انہیں اٹھانے کے بجائے ہم نے طے کرلیا کہ ”ظالم سیاستدانوں“ میں کوئی ایک طاقت ور شخص ہے۔ وہ بین الاقوامی طورپر متحرک بچوں سے زیادتی کی وڈیوز بنانے والے کسی گروہ کا سرپرست ہے۔ گرفتار ہوا عمران اس کا محض آلہ کار ہے۔ lone wolf نہیں۔
گرفتار ہوئے ملزم کی ”سرپرستی“ ہمارے متعصب اذہان کے ذہنوں پر چھپائی ہوئی تھی۔ click bait والی مہارت کے حتمی حامل ایک اینکر پرسن نے ہمارے ذہن میں موجود اسی تعصب کا ایک کہانی کے ذریعے اثبات فراہم کردیا۔اب ذکر اس اینکر پرسن کا ہے اور بنیادی سوال یہ کہ وہ سچا ہے یا جھوٹا۔ دریں اثناءملک کے مزید شہروں سے بھی بچوں اور بچیوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات کی خبریں آتی چلی جارہی ہیں۔ ان پر توجہ دینے کی فرصت کسے؟۔
بشکریہ: نوائے وقت