عصر حاضر کے صوفی کی دو نمبری
نصرت جاوید
البرٹ کامیو جدید فرانسیسی ادب کا ایک بہت بڑا نام ہے۔ ”اجنبی“ اس کا پہلا مشہور ناول تھا یہ اس شخص کی کہانی تھی جسے اس کی ماں کی موت کی خبر سن کر اور اسے دفنانے کی رسومات کے دوران ایک لمحے کو بھی دُکھ کا کوئی احساس نہیں ہوتا۔ وہ ان رسومات میں جذبات سے قطعی بیگانہ ہوئے شخص کی طرح شریک ہوتا ہے اور کہانی آگے بڑھ جاتی ہے۔
میں اس کہانی کو دہرا کر اس کا کوئی تجزیہ وغیرہ نہیں کرنا چاہتا۔ ادبی تنقید میرے بس کی بات نہیں۔ ”تحلیلِ نفسی“ جیسی تراکیب کے نام ضرور سنے ہیں۔ گورنمنٹ کالج لاہور میں فلاسفی کا طالب علم تھا۔ نصاب میں علم نفسیات کو تھوڑا سمجھانے کی بھی کوشش کی جاتی تھی۔ نصاب میں لگائی کتابوں کو یاد کرکے میں امتحانوں میں نمبر تو کافی شاندار حاصل کرتا رہا۔ علم مگر حاصل نہ کرپایا۔
پیر کی شام سے البتہ یہ جان کر کافی تسکین ہورہی ہے کہ نصابی اعتبار سے ”16جماعتیں پاس“ ہونے کے باوجود جاہل مطلق رہ جانا صرف مجھ بدنصیب کا مقدر ہی نہیں تھا۔ اپنے فون یا انٹرنیٹ کے ذریعے ٹویٹر اکاﺅنٹ پر جاﺅں تو ایک نہیں ہزاروں جاہل مل جاتے ہیں۔ علم کی روشنی سے محروم ،تعصب سے اندھے ہوئے دونمبری دانشور جو قوم کو گمراہ کرنے کے فریضے کو ایک جنون کی صورت اپنائے ہوئے ہیں۔
دوپہر کے کھانے سے فراغت کے بعد تھوڑا قیلولہ ہوگیا تو لیپ ٹاپ اور ٹی وی کھول کر چودھری نثار علی خان کی پریس کانفرنس کا انتظار کرنا شروع ہوگیا۔ وقت ان کی پریس کانفرنس کا سہ پہر 5 بجے طے ہوا بتایا گیا تھا۔ 4 بجے سے ذرا ہی دیر پہلے مگر ایک breaking news نمودار ہوگئی۔ میرے شہر لاہور میں ایک خودکش دھماکہ ہوا۔
نظر بظاہر نشانہ اس کا میری اور آپ کی حفاظت پر مامور پولیس والے تھے۔ میرے سونے تک شہادتوں کی تعداد 25 تک پہنچ چکی تھی۔ یاد رہے کہ حالیہ دنوں میں پولیس والوں کو نشانہ بنانے کی یہ پہلی واردات نہیں تھی۔ گزشتہ 15 دنوں کے دوران کوئٹہ، چمن اور پشاور میں گشت میں مصروف پولیس والوں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔
22 جون کی سہ پہر پارا چنار کے بازار میں بھی دہشت گردی کی ایک خوفناک واردات ہوئی تھی۔ اس واردات کی وحشت سے پریشان ہوکر پارا چنار کے شہری کئی دنوں تک دھرنا دیے بیٹھے رہے۔ بالآخر آرمی چیف جنرل باجوہ وہاں تشریف لے گئے۔ مظاہرین کے نمائندوں سے مذاکرات کیے اور کچھ یقین دہانیوں کے بعد شہریوں کے جذبات کو ٹھنڈا کیا۔
ان تمام واقعات کا ایک تناظر ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ وائٹ ہاﺅس پہنچنے کے بعد افغانستان کے حوالے سے ”کچھ نیا“ کرنا چاہ رہا ہے۔ ان دنوں اس کے سیاسی اور فوجی مشیر طویل اجلاسوں کے ذریعے کوئی ”نئی پالیسی“ تیار کر رہے ہیں۔
ممکنہ پالیسی کے بارے میں بہت اعتماد کے ساتھ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ وہ انتہائی سخت گیر ہوگی صرف اور صرف وحشیانہ فوجی قوت کے ذریعے مسئلہ افغانستان کا ”حتمی حل“ ڈھونڈنے کی کوشش ہوگی۔ مذاکرات یا سفارت کاری کی فی الوقت اس ممکنہ پالیسی میں کوئی جگہ نظر نہیں آرہی اس ممکنہ پالیسی کی سفاکی کی جانب ایک اشارہ چند ہفتے قبل پاکستان کی افغان سرحد کے بہت ہی قریب ایک مقام پر Mother of all Bombs کا گرا کر دیا گیا ہے۔
افغانستان اور پاکستان میں ”امریکہ اور اس کے حواریوں“ کے خلاف برسر پیکار دہشت گرد ٹرمپ کی نئی پالیسی کے اعلان اور اس کا اطلاق ہونے سے پہلے ہی پے در پے واقعات کے ذریعے اپنی قوت کا مظاہرہ کرتے ہوئے امریکہ اور باقی دنیا کو یہ پیغام دینے کی کوشش کررہے ہیں کہ انہیں فوجی طاقت کے بل بوتے پر شکست دینے کا تصور بھی نہ کیا جائے۔ ہمارے ہاں دہشت گردی کو جو لہر گزشتہ دو ہفتوں میں اُبھرکر سامنے آئی ہے وہ اسی پیغام کا اظہار ہے۔
لاہور میں ہوئی واردات اگرچہ زیادہ ہولناک تھی اس کی ایک واضح دِکھتی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ چند ہی روز قبل پاک فوج نے بہت جانفشانی سے خیبر پہاڑ کی ایک بلند ترین چوٹی پر دہشت گردوں کے ایک مرکز کو تباہ کیا ہے۔ پیغام ریاستِ پاکستان کو غالباََ یہ دینا مقصود تھا کہ اگر تم قبائلی علاقوں میں ہمارے محفوظ ٹھکانوں اور پناہ گاہوں کو تباہ کرو گے تو ہم اپنے Sleepers Cells کی مدد سے تمہارے بڑے شہروں میں تباہی مچادیں گے۔
دہشت گردی کی حالیہ وارداتوں کا تناظر لہذا گزشتہ کئی دھائیوں تک پھیلا ہوا ہے۔اس میں آئی شدت کی وجوہات جاننے کےلیے آپ کو کسی فوجی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنا ضروری نہیں ہے۔
ہمارے ہاں مگر ٹویٹر کے ذریعے علم ودانش کے موتی بکھیرتے کچھ دونمبری دانشور ہیں جن کا اصرار ہے کہ لاہور میں پیر کی سہ پہر جو دھماکہ ہوا مقصد اس کا صرف اور صرف پانامہ والے قصے سے شریف خاندان کی جند چھڑانا تھا۔ سلمان احمد نام کا کوئی گلوکار ہے۔ خود کو ”صوفی“ کہتا ہے۔
سنا ہے اقوام متحدہ کے کسی ادارے نے اسے ”گڈول سفیر“ بھی بنارکھا ہے۔ لوگوں میں محبت بانٹنے کا دعوے دار ی یہ دونمبری”صوفی“ میری نگاہ میں گزشتہ سال کے نومبر میں اس وقت آیا جب اسلام آباد کے لاک ڈاﺅن کے ذریعے سپریم کورٹ کو پانامہ کے بارے میں ازخود تفتیش پر مجبور کیا جارہا تھا۔
عمران خان صاحب کے ساتھ قلعہ بنی گالہ کی فصیل کی دیوار پر پش اپس لگانے کے بعد جوگیوں کا روپ دھارے یہ ”صوفی“ جب سڑک پر آیا تو پولیس نے اسے گرفتار کرنا چاہا۔ وہ اس پر ہاتھ ڈالنے لگے تو یہ دونمبری” صوفی“ پکار اٹھا کہ وہ فلاں بین الاقوامی ادارے کا ”گڈ ول ایمبیسڈر“ وغیرہ ہوتا ہے۔ اقبال کا سمجھایا تلاش حق کا مسافر اس وقت آگ میں بے خطر کود پڑتا ہے جب عقل لب بام تماشہ دیکھنے میں محو ہوتی ہے۔
کرپشن کے خلاف جہاد کا دعوے دار یہ گٹار بردار دونمبری البتہ ”پُلس“ کو بڑی محنت سے اپنائے انگریزی لہجے میں Shut up Call دیتا پایا گیا۔ لاہور میں پیر کے روز ہوئے دھماکے کے فوری بعد اس نے ایک ٹویٹ بھی لکھا اور اس کے ذریعے سپریم کورٹ کو تقریباََ حکم دیا کہ وہ جلد از جلد پانامہ پر اپنا محفوظ ہوا فیصلہ سنا دے۔ ”عوام کا صبر جواب دے رہا ہے“ اس ”صوفی“ کا اصرار تھا۔
عصرِ عاضر کے جوگی کا روپ دھارنے والے اس دونمبری ”صوفی“ کی ٹویٹ جب منظرِ عام پر آئی تو ہمارے کئی خود ساختہ ماہرین Strategic Affairs بھی متواتر ٹویٹس کے ذریعے ہم جاہلوں کو یہ بتانا شروع ہوگئے کہ لاہور میں ہوئے دھماکے کا اصل مقصد لوگوں کی توجہ اس ”عظیم جدوجہد“ سے ہٹانا ہے جس کی وجہ سے ہماری تاریخ میں ”پہلی بار“ ایک طاقت ور خاندان کا”احتساب“ ہورہا ہے۔
وہ احتساب سپریم کورٹ کا فیصلہ آجانے کے بعد کڑے انداز میں شروع ہوگیا تو پھر کوئی بھی بدعنوان اپنی حرام کی کمائی بچا نہیں پائے گا۔ عدالتی کٹہرے میں کھڑا ہوگا۔ JIT کے سامنے پیشیاں بھگت رہا ہوگا یا تو جیل میں چکی پیس رہا ہوگا۔
ہمیں ایک حوالے سے قائل کر دیا گیا ہے کہ سپریم کورٹ اپنا محفوظ ہوا فیصلہ سنا دے تو لاہور جیسے شہروں میں دھماکے ہونا رُک جائیں گے۔
ان سب ”دانشوروں“ کی ٹویٹس پڑھنے کے بعد میری بھی سپریم کورٹ سے آنکھوں میں آنسوﺅں کے ساتھ ہاتھ باندھ کر التجا ہے کہ اپنا محفوظ ہوا فیصلہ اب سنا ہی دے۔ شریف خاندان کو عبرت کا نشان بنائے اور ہمیں دہشت گردی کی وارداتوں سے بچائے۔ میری فریاد کے بعد سوال مگر یہ بھی اُٹھتا ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ سنائے جانے کے بعد بھی لاہور میں اگر دہشت گردی کی کوئی ہولناک واردات ہوئی تو کیا مجھے عصرِ حاضر کے جوگی کا روپ دھارے دونمبری صوفی کا برسرعام گریبان پھاڑنے کی اجازت ہوگی؟