کنبے کٹم میں فاشزم
از، نصیر احمد
کاملیت پرستی انسانی نفسیات کی اس جہت سے نکلتی ہے جس میں غرور، تکبر، گھمنڈ، حماقت اور انا کو ایک اعلی مقصد کا درجہ دیکھ کر اختلاف کے مکمل خاتمے پر اصرار کیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں جس طرح کے جرائم کیے جاتے ہیں، ان کے بارے میں تھوڑی بہت آگاہی ہی اس بات کو واضح کر دیتی ہے۔ انگریزی اخبار ڈان میں ایک خبر چھپی ہے جس کے مطابق ایک ساس نے اپنی بہو اور اس کے شِیر خوار بچے کو ایک اونچی منزل سے دھکا دے کر گرا دیا جس کے نتیجے میں بہو اور اس کا بچہ ہلاک ہو گئے۔ وجہ مرضی کی شادی ہے۔
اب یہ خاتون جنھوں نے یہ گھناؤنا جرم کیا ہے وہ کاملیت پرستی کی اسی نفسیات کا شکار لگتی ہیں جس کا ہم نے ذکر کیا ہے۔ بیٹے نے ان کی مرضی کے مطابق شادی نہیں کی۔ اس اختلاف کی ماں کے ذہن و دل میں کوئی گنجائش نہیں۔ اور اس اختلاف کا روزانہ جیتے جاگتے ثبوت بہو اور اس کا بچہ ہیں اور ان کا مکمل خاتمہ کر کے ہی دل میں چین پڑے گا۔
رشتہ تو دور کی بات ہے یہ خاتون اس بات سے ہی انکار کرتی دکھائی دے رہی ہیں کہ ان کی بہو اور بچہ، انسان ہیں، افراد ہیں، شہری ہیں اور زندہ رہنا ان کا حق جس سے انہیں یہ خاتون محروم نہیں کر سکتیں۔ وہ اس طریقے سے سوچ ہی نہیں رہیں۔ انہوں نے اپنے بیٹے پر حق ملکیت کو اس قدر فزوں کر لیا ہے اور اس کو غرور، تکبر، گھمنڈ حماقت اور انا کی سپورٹ دیتے ہوئے اپنی بہو اور بچے کا مکمل خاتمہ اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا ہے۔
سیدھے سادے بیٹے کو ڈائن نے گمراہ کردیا۔ اب اس ڈائن اور اس کے بچے کا وجود ناقابلِ برداشت ہے اور ان کے خاتمے سے ہی اپنے بیٹے پر ملکیتی تصرف بحال ہو گا۔ ہو سکتا ہے جس طرح ہم سوچ رہے ہیں اس سے کچھ مختلف ہو، لیکن اختلاف کا مکمل خاتمہ جرم کی نوعیت سے ہی فاش و ظاہر و برملا ہے۔ کچھ پیسوں کا معاملہ بھی ہو سکتا ہے لیکن پیسے بھی تو اختلافات کی طرف لے جاتے ہیں اور اس صورت میں بھی مقصد تو اختلاف کا مکمل خاتمہ ہی ہے۔
اسی اخبار میں ایک اور خبر ایک ماں کے متعلق ہے جو برطانیہ سے اپنی بیٹی کو بہلا کر پاکستان لے آتی ہے اور یہاں زبردستی اس کی شادی کر دیتی ہے۔ ایک ایسے شخص سے جو اس کا رشتہ دار ہے مگر اس کی بیٹی کا اس کی بیٹی کی ٹین ایج ریپ کر چکا ہے۔ ماں نے یہ گھناؤنا جرم بچوں کی نادانی قرار دے کر اپنا ضمیر سلانے کی کوشش کی حالانکہ اس ریپسٹ کی عمر اس کی بیٹی سے سولہ سال زیادہ ہے۔ اس کیس میں بیٹی نے برطانیہ کی عدالت میں مقدمہ دائر کیا اور اسے انصاف مل گیا۔ شادی مسوخ ہو گئی اور اس ماں کو بدھ کے دن سزا سنائی جائے گی۔ برطانیہ میں ی اور انفرادی حقوق کا معیار پاکستان سے کہیں بہتر ہے جس کی وجہ سے لڑکی کے لیے انصاف کا حصول ممکن ہو گیا۔
لیکن جرم کی نوعیت اس کیس میں بھی فاشسٹ ہے۔ وہی احساس ملکیت اور اپنوں کی پوجا جو بیٹی کی انفرادیت، انسانیت اور شہریت ماننے سے انکاری ہے۔ اور اس انفرادیت، شہریت اور انسانیت کا خاتمہ کرنے کے لیے یہ ماں بھی ہر قسم کی اخلاقی پستی اختیار کرنے سے گریز نہیں کرتی۔ ماؤں کی طرف سے کیے گئے ایسے گھناؤنے جرائم اور اتنی گندی ذہنیت بر صغیر میں رائج تصورِ محبت پر ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب دینے کی خطے میں ہمت ہی نہیں ہے۔
مزید ملاحظہ کیجیے: جب گُھلی تیری راہوں میں شام الم از، ڈاکٹر صولت ناگی
لیکن یہ ہمت نہیں پیدا ہو گی تو محبت کا معیار بہتر نہیں ہو، محبت کا معیار بہتر نہیں ہو گا، تو انسانیت کا معیار بھی بہتر نہیں ہو گا تو انسانیت کا معیار بہتر نہیں ہو گا اور انسانیت کو معیار بہتر نہیں ہو گا تو جمہوریت کا معیار بہتر نہیں ہو گا جمہوریت جس کی اساس ہی فرد کی رضا اور شہری کی شمولیت جیسے خیالات پر استوار ہے۔
اسی طرح ایک اور اخبار میں ایک خاتون کے بھائی کی طرف سے الزام ہے کہ اسے سُسرالیوں نے گلا گھونٹ کے مار دیا ہے۔ اب اس مقدمے کا جانے کیا فیصلہ ہو مگر اس طرح کے واقعات خبروں میں روزانہ موجود ہوتے ہیں جس میں معمولی سے اختلاف کے نتیجے میں اختلاف کرنے والے کا مکمل خاتمہ کر دیا جاتا ہے۔
بات سادہ سی ہے کہ اپنے جیسے ایک انسان میں کون سے سرخاب کے پر لگے ہوتے ہیں کہ اس سے اختلاف ممکن نہیں ہے؟ یہ پر دکھائی تو نہیں دیتے لیکن گھروں میں بھی فیصلہ سازوں نے شہریاروں، حکمرانوں اور دیگر صاحبانِ اقتدار کے طریقےاپنائے ہوتے ہیں۔ وہی طریقے جویہ مقتدر دولت، طاقت اور شہرت میں اضافے کے لیے آزماتے رہتے ہیں۔ اور اس بدی کے جواز کاملیت پرستی سے کشید کی ہوئی پارسائی سے لیے جاتے ہیں۔ کچھ لوگوں کے لیے ان کی دولت سُرخاب کا پر بن جاتی ہے جو اختلاف کے خاتمے پر اصرار کرتی ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے ان کا عہدہ سرخاب کا پر بن جاتا ہے جس کی بنیاد پر وہ اختلاف کے خاتمے کے خواہاں ہوتے ہیں اور کچھ لوگ اپنی شہرت کو اختلاف کے خاتمے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اور دولت، شہرت اور طاقت سے جمہوری اصول، جمہوری قوانین اور جمہوری اخلاقیات کی جدائی ہی کاملیت پرستی کو عام کر دیتی ہے۔
کاملیت پرستی کے بنیادی تصورات ہی زندگی کے خلاف ہیں اور ان تصورات کے زیر اثر اعمال بھی زندگی سے دشمنی میں اضافہ کرتے رہتے ہیں۔ لیکن پورے خطے میں کاملیت پرستی کو ایک چھچھوری سی جذباتیت کی حمایت حاصل ہے جس کی وجہ سے کاملیت پرستی کا مقابلہ کرنا مشکل ہے کیونکہ یہ چھچھوری سی جذباتیت مذہب اور ثقافت میں مدغم کر دی ہے۔ اس کی وجہ سے متشدد معتبر ہو گیا ہے۔ اب ایک متشدد، متکبر، احمق، مغرور،گھمنڈی غنڈے سے یہ توقع کرنا کہ وہ زندگی کا، فرد کا، شہری کا اور انسان کا دھیان رکھے گا اور اختلاف کو برداشت کرے گا، بہت ہی مشکل ہے۔ بر صغیر کے لوگوں کو یہ سوچنا پڑے گا کہ ان کی ثقافتی تربیت وحشتوں کا مدرسہ ہے اور اگر وہ اس وحشتوں کے مدرسے سے نجات حاصل کرنے کے خواہاں ہیں تو انھیں جمہوری تعلیم و تربیت کی طرف رخ کرنا پڑے گا۔