مشہور تجزیہ نگار، ٹارزن اور سنڈریلا

مہمان آئے ہیں تجزیہ نگار

تجزیہ نگار کی تصویر

(عظیم نور)

السلام علیکم۔ ناظرین آج کے شو میں ہمارے مہمان ہیں مشہور تجزیہ نگار جناب الف میم جیم میرا مطلب ہے الف ب جیم صاحب۔ ہم ان سے مختلف موضوعات پر بات کریں گے۔ اوران سے ان کی ماہرانہ رائے لیں گے۔ جی تو سر بڑھتی ہوئی مہنگائی پر آپ کا کیا خیال ہے؟

تجزیہ نگار: قوموں کی تاریخ میں جب ایسے حکمران آئیں کہ ان کو عوام کی فلاح کا احساس ہی نا ہو تو پھر قیامت کا انتظار کیا جانا چاہئے۔ آپ یقین کریں کہ اس قدر مہنگائی ہے کہ کیلے دو سو روپے درجن ہیں۔ اۤپ اندازہ لگا ئیں کہ غریب آدمی اگر بیمار ہو جائے تو کیلے بھی نہیں کھا سکتا۔ میں یہاں آپ کو بتاؤں کہ مشہور انگریزی فلم کا کریکٹر ہے ٹارزن۔ ٹارزن بھی کیلے کھاتا ہے اور جنگلوں میں رہتا ہے آپ اندازہ لگائیں کہ جنگل میں رہنے کے باوجود وہ روز شیو کرتا ہے۔ یعنی جنگل میں نائی کی دوکان بھی ہے۔ دیکھیں انگریز نے کس چالاکی سے داڑھی منڈوانے کی سازش رچائی ہے۔ ہمارا معاشرہ تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا ہے۔ مغربی تہذیب نے ہمیں اندھا کر کے رکھ دیا ہے۔

عظیم نور

اینکر: سر سر سر۔ یہ بتائیے گا پانامہ پیپرز کا کیس کس سمت جا رہا ہے۔

تجزیہ نگار: دیکھیں جی۔ پانامہ پیپرز حکمرانوں کی لوٹ مار کی داستان ہے اور اس ملک کی سپریم کورٹ اب ایک نئی تاریخ لکھ رہی ہے۔ آنے والی نسلیں فخر سے کہیں گی کہ اس قوم کے نظامِ عدل کی وجہ سے آج ہم سکھ کا سانس لے رہے ہیں۔ ان حکمرانوں کی چوری پکڑی گئی ہے۔ اور چوری سے یاد آیا کہ ایک مشہور کردار ہے سنڈریلا۔ جس قوم کو یہ پڑھایا جائے کہ سنڈریلا اپنےوالدین سے چوری اپنے عاشق سے ملنے جاتی تھی تو اس ملک کی آئندہ نسل کا کیا اخلاقی معیار ہوگا۔ تباہ کر کے رکھ دیا ہے مغربی معاشرہ نے ہمیں۔ میں حکومت سے مطالبہ کرتا ہوں کہ فوری طور پر سنڈریلا کی کہانی نصاب سے ختم کر دی جائے اور اس کی جگہ ہیر رانجھا کی کہانی شامل کی جائے۔اب دیکھیں جی میڈیا بے لگا م ہو گیا ہے۔ سنسر بورڈ سویا ہوا ہے ایک فلم ہے ٹارزن۔ ٹارزن جنگل میں رہتا ہے اور روز شیو کرتا ہے۔۔۔۔

اینکر: محترم ۔ میرے پاس وقت کی کافی کمی ہے اور سوال بہت زیادہ ۔کراچی کے حالات پر آپ کا کیا تبصرہ ہے؟

دیکھیں جی۔ کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے۔ کراچی کو شہرِ قائد بھی کہتے ہیں۔ لیکن یہاں صفائی کا نظام انتہائی ناقص ہے۔ ناقص تو ہمارے ٹیلی ویژن پر چلنے والے اشتہارات بھی ہیں۔ میں نے پیمرا کے چیئرمین سے کہا کہ ٹیلی ویژن پر یہ جو ویٹ کریم کا اشتہار چل رہا ہے یہ فحاشی پھیلا رہا ہے۔ کیا پاکستان کا کوئی بھی گھرانہ ویٹ کریم کا اشتہار اکٹھے بیٹھ کر دیکھ سکتا ہے۔ ہم اپنی اخلاقی قدریں ہی کھو چکے ہیں۔ جس ملک میں سنڈریلا پڑھائی جائے اور ٹارزن فلم دکھائی جائے جو جنگل میں رہتا ہے لیکن روز شیو کرتا ہے تو اس ملک کے مقدر میں تباہی کے علاوہ اور کیا ہو سکتا ہے۔ بیڑہ غرق کر دیا ہے ان لبرلز نے ملک کا۔

اینکر: سر NAB کے اختیارات وسیع کرنے پر بہت زیادہ بات ہو رہی ہے۔ آپ کی اس بارے کیا رائے ہے؟

دیکھیں جی میں نے اپنی تیس سال کی بیوروکریسی کی سروس میں NAB سے بہتر ادارہ نہیں دیکھا۔ ان کو ضرور اختیار ملنے چاہئیں تا کہ چور بھاگ نا سکیں۔ اب بھاگنے سے مجھے یاد آیا کہ مجھے کیو موبائل کے اشتہار پر شدید اختلاف ہے۔ کس قدر بے حس اور بے حیاء ہو گیا ہے ہمارا میڈیا کہ اس کا جو دل کرے گا وہ کرتا جائے گا۔ نہیں نہیں۔ ہم ایسا بالکل نہیں ہونے دیں گے۔ یہ عورتوں کا نیکر ٹی شرٹ پہن کر بھاگنا ہمارے معاشرے کا حصہ نہیں ہے۔ یہ یہود و نصاریٰ کی سازش ہے۔ اور وہ بہت چالاکی سے اپنا غلیظ معاشرہ ہمیں تحفہ میں دے رہے ہیں۔ اب دیکھیں جی ایک فلم ہے ٹارزن۔۔۔ اور ایک لڑکی ہے سنڈریلا۔

2 Comments

  1. استاد عظیم نور آپ کا علمی زوق و معاشرتی مشایدہ بہت پاورفل ہے ۔۔۔ جیوآپ ویسے ۔۔۔۔۔ کافر کافر سمجھ تے گئے ہوئو گئے

  2. مغربی تہذیب کی اندھی تقلید کرنیوالوں کے پھڑپھڑاتے اعصابوں پر سوار اوریا مقبول جان کی کامیاب شہسواری کی ایک اور مثال!

Comments are closed.