فرد اور ریاست اہم کون؟
از، ڈاکٹر عرفان شہزاد
فرد کی سلامتی، ریاست کی سالمیت پر مقدم ہے۔ انسانی جان کو تقدس خدا نے دیا ہے اور ریاست کو انسان نے۔ ریاست کا تقدس بیسویں صدی کے آذروں کا تراشا ہوا بت ہے جس کے چرنوں میں انسانی جان کی قربانی دینے کا رواج ڈالا گیا۔ ایک شخص کا ناحق قتل پوری انسانیت کا قتل خدا نے قرار دیا ہے مگر اسی انسان کو ریاست پر قربان کرنے کا عقیدہ انسان نے ایجاد کیا ہے۔
کسی فرد کی جان بھی صرف اس لیے لی جا سکتی ہے کہ جب وہ دوسرے انسانوں کی جان کے درپے ہو؛ جنگ محض اس بنا پر جائز ہو سکتی ہے کہ کچھ لوگوں کو دوسرے لوگوں کی جارحیت سے محفوظ کرنا مقصود ہو، مگر صرف ریاست کی آن بان شان کے لیے انسانی جان کو قربان کرنا قتل نا حق ہے۔ ریاست اگر ایک بھی فرد کے قتل نا حق میں ملوث ہو تو کسی اخلاقی اصول پر اس کو کوئی رعایت نہیں دی جا سکتی۔ وہ ایسی ہی ہے جیسے ساری انسانیت کی قاتل۔
مزید دیکھیے: کیا ہم سب صرف اور صرف سماجی گناہ گار ہی ہیں؟
ریاست نہ رہے یہ اس سے بہتر ہے کہ فرد کی سلامتی اس کی وجہ سے خطرے میں ہو۔ ریاست کی سالمیت کے نام پر ریاست کے غیر قانونی اور غیر اخلاقی اقدامات کی حمایت یا اس پر خاموشی یا منت نما فریاد کی تلقین وہی کرتے ہیں جن کے مفادات ریاست کی سالمیت سے وابستہ ہیں؛ اور وہ جن کا وجود عزت و آبرو ریاست کی وجہ سے متاثر اور خطرے میں ہیں وہ بھلا اس خود ساختہ ظالم خدا کی پرستش کیسے کر سکتے ہیں۔
اس خیال کو بدلنا ہوگا کہ ریاست مقدس ہے۔ ریاست ایک انتظامی بندوبست ہے کل اس سے بہتر انداز میں سرحد کی لکیریں کھینچی جا سکیں تو مفاد عامہ خاطر کرنا چاہیے۔ اس کو محض اس بنا پر رد نہیں کر دیا جائے گا کہ سرحدوں میں رد و بدل سے ریاست کی توہین ہو جائے گی۔ قومی ریاستوں کو وجود گزشتہ سرحدوں میں رد و بدل کر کے دیا گیا تھا۔ اس میں بسنے والے اصولی طور پر اپنی آزاد مرضی سے ایک بند و بست کے اندر رہنے پر رضا مند ہوئے تھے اب یا آیندہ اگر وہ اس سے الگ ہونا چاہیں یا سرحدوں میں کوئی تبدیلی لانا چاہیں تو کوئی چیز اس میں مانع نہیں ہو سکتی۔ ایسے جائز مطالبات کو بزور دبانے کا کوئی اخلاقی اور قانونی جواز نہیں ہے۔ پاکستان خود اسی اصول پر متحدہ ہندوستان کی سرحدوں میں تبدیلی کر کے بنا تھا وہ علیحدہ ہونا چاہتا تھا۔ یہی حق یہاں بسنے والی ہر قوم کا ہے۔ وہ ساتھ رہیں تو رضا مندی سے الگ ہونا ہیں تو ہو جائیں۔
یہ کہنا کہ یہ ریاست نہ رہی تو ہم نہیں رہیں گے، غلط ہے۔ جب یہ ریاست نہیں تھی تب بھی یہ زمین موجود تھی۔ حُدودِ اربعہ مختلف رھا مگر یہاں کے باشندے یہیں رہتے تھے۔ ریاست نہ رہی تب بھی افراد یہیں ہوں گے۔ حدود اربعہ کچھ مختلف ہو جائے گا۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ فرق اس سے پڑھا ہے کہ تقسیم مصنوعی نہ ہو۔ جو یہ چاہتے ہیں کہ یہ سب ساتھ رہیں اس کے لیے نفرت حقارت اور جبر نہیں بلکہ انصاف اور عدل کے وصف کو اپنانا ہوگا۔