سرمایہ داریت اور فرد کی عملی طاقت
از، عدیل حسن
سرمایہ داری نظام پہلے کی نسبت نئی شکلوں اور نیے جبر کے ساتھ قائم ہو رہا ہے۔ صنعتی دور کے آغاز سے ہی مارکس اور اینگلز کی تحریروں نے اس ظلم اور جبر سے پردہ اٹھا دیا تھا جو سرمایہ داری نظام اپنے اندر سمیٹے ہوئے تھا۔ اسی راز افشانی کی وجہ سے مارکسزم روز اول سے مطعون بنی ہوئی ہے۔ بالادست طبقہ جو کمزور لوگوں کے جسم سے محنت کا آخری قطرہ تک نچوڑ لیتا ہے جبک نڈھال ہونے پر اسی مزدور کو لاچار مرنے کے لیے چھوڑ جاتا ہے اور دوسری طرف وہ اپنے لیے انہی مزدوروں کی محنت سے دنیا بھر کے خزانے اکٹھے کر لیتا ہے۔ بد قسمتی سے یورپ میں پرولتاری انقلاب برپا نہ ہو سکے مگر مشرق کی دو بڑی نیم صنعتی طاقتوں میں یہ انقلاب برپا ہوا۔
سوویت یونین کے انہدام کے بعد کبھی تاریخ اور کبھی فلسفے کے خاتمے کا نقارہ بجایا گیا۔ کبھی لفظوں کا “ساختیاتی کھیل” کھیلا گیا اور کبھی وجودیت کے “مطلق آزادی” کے نظریے کو منظر عام پر لایا گیا۔ انسان کو معنی، مفہوم، موجودگی، التوا اور کبھی وجود کی بیہودگی، بے معنویت اور لاچارگی کے جال میں پھانسا گیا۔
وہ فلسفہ جسے مارکس نے عوام الناس کے لیے عام فہم بنایا تھا آج اسے لفظوں کے گرداب سے نا پاک کیا جا رہا ہے اور وجہ صرف ایک ہے کہ کسی طرح یہ استحصالی اور جبری نظام قائم رہے۔ یہی وجہ ہےکہ مارکسزم کو ہر زمانے میں جعلی پروپیگنڈا کا سامنا کرنا پڑا کیونک بالادست اور برسر اقتدار قوتیں کو کبھی یہ گوارا نہ تھاکہ وہ اس استحصالی اور غیر انسانی نظام کو پاش پاش ہونے دیتے۔
آج کا دور ہمیشہ کی طرح مارکسسٹوں پر بھاری ہے جس کی وجہ وہی ہے جو ماضی میں تھی۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعد بڑوں بڑوں نے اپنا قبلہ تبدیل کر لیا مگر سچے نظریاتی مارکسی اپنی سچائی پر قائم رہے۔ اس بات سے قطع نظر کہ کون قدامت پسند، سٹالنسٹ یا ٹروٹسکی ہے آج کے دور میں کیپیٹلزم کے خلاف محاذ کھڑا کرنا کسی کارنامہ سے کم نہیں۔
بغور جائزہ لیں تو سرد جنگ کی نسبت آج بھی سرمایہ دار مملک میں ایک منظم سازش کے تخت سوشلزم سے خلاف پروپیگنڈا جاری ہے۔ آج یہ پروپیگنڈا علمی میدان میں لڑا جا رہا ہے۔ آج مغرب میں ادبی، لسانی اور ساختیاتی تحریکوں میں چھپے عناصر مارکسی نظریے کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان ادبی اور نام نہاد فلسفیانہ تحریکوں کا مرکز انسان نہیں بلکہ الجھے ہوئے خطوط ہیں۔ وہ متن، معنی، ساخت اور زبان کا مطالہ کرکے ان رازوں کو افشاں کرنا چاہتے ہیں جو ان لفظوں کی کاریگری سے کبھی اس قابل ہو ہی نہیں سکتے۔ مابعد جدیدیت خاص طور پر ایک ایسی تحریک تھی جو فلسفے کو اس کے “جوہر” سے جدا کرنے کے لیے قائم کی گئی۔
آج کی تمام تحریکوں کا مقصد بھی انسان کو “عمل” (praxis) سے محروم کرنا ہے۔ رہی بات موجودہ مارکسیوں کی تو جو بھی ہو ان پر دشنام طرازی اس لیے ہوتی ہےکہ یہ “موجودہ ” کے خلاف صف آرا رہتے ہیں۔ سوویت یونین کے انہدام کے شدید صدمے کے باوجود سچے مارکسی اپنے نظریے پر نہ صرف قائم رہے بلکہ سرمایہ دارانہ نظام کی چال بازیوں کے راز بھی کھولتے رہے۔
آج مغرب میں دیدہ دانستہ لفظی گورکھ دھندوں کا جال بچایا جا رہا ہے اور یہ سب انسان کو فکری لاچاری اور تجرید کی طرف دھکلنے کی سازش کے سوا کچھ نہیں۔ جبک مارکسٹ ان کی سازشوں کو بے نقاب کرنے میں مطعون قرار دیے جاتے ہیں۔ لفظ، معنی کی جنگ، موجودگی کا مسئلہ، لغویت، مطلق آزادی، مابعد جدیدیت، ساختیات کے ادبی ڈرامے سبھی اپنے اندرون میں “انسان کی مرکزیت” کو چلینج کرتے دکھائی دیتے ہیں اور فرد کی عملی طاقت پر سوال اٹھاتے ہیں۔
مغرب “تخلیق کا قبرستان” بنتا جا رہا ہے، یہ وہ تخلیق ہے جو “تخلیق” کے خلاف سازش کر رہی ہے۔ مارکسزم کل بھی ان کے خلاف سینہ سپر تھا اور آنے والے وقت میں بھی رہے گا۔ کیپیٹلزم اپنے استحصال اور جبر کو قائم رکھتے ہوئے نئی دنیا کی تشکیل کا ڈھونگ رچا رہا ہے مگر نئی دنیا کی تشکیل تبھی ممکن ہے جب دنیا استحصال کی لعنت سے باہر نکلے گی اور مارکسٹ اپنا یہ کام ہر حال میں کرتے رہیں گے۔