فرحت اللہ بابر کو اب پیپلز پارٹی کی ترجمانی کب ملے گی؟
از، عرفانہ یاسر
سینیٹ سے اس سال جو سینٹرز ریٹائر ہوئے ہیں، ان میں ایک بڑا نام فرحت اللہ بابر کا بھی ہے۔ ریٹائرمنٹ سے پہلے انہوں نے سینیٹ میں جو تقریر کی اس کو پاکستان کی مصلحت پسند میں گُندھی سیاست اور نظریات سے بانجھ ہوتی سیاسی فضا میں ایک عمدہ اور متوازی حوالے کے طور پر تا دیر یاد رکھا جائے گا۔ مفاد پرستی کی سیاسی ماحولیاتی فضا کے پروردہ مبصرین میں سے کچھ نے اس تقریر کو جذباتی کہا۔ تو ان کی پارٹی پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنے لیے اسے ایک inconvenient truth مانتے ہوئے ان کی اس تقریر کو ان کا ذاتی بیان قرار دیا۔ اس
تقریر کی وجہ سے ان کو پاکستان پیپلز پارٹی کے ترجمان کے عہدے سے بھی ہٹا دیا گیا۔
فرحت اللہ بابر ٹیکنو کریٹ کی حثیت سے ایک لمبے عرصے تک سینیٹ کے ممبر رہے۔ وہ خارجہ امور، سول ملٹری تعلقات، مذہبی انتہا پسندی کے اضافے، جمہوری دائرے کی تنگی اور سیاسی بالادستی کے معاملے اور خفیہ اداروں کا بے لگام ہو کر سیاسی اور شہری زندگیوں میں مداخلت جیسے معاملات پر سینیٹ میں بات کرتے رہے ہیں۔
فرحت اللہ بابر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایک بیوروکریٹ جیسی زندگی گزارتے ہیں جو کہ میڈیا کے لیے صرف دفتری اوقات میں میسر ہوتے ہیں۔ وہ اپنی گاڑی خود ڈرائیو کرتے ہیں اور وہ آپ کو اپنی گروسری خریدتے بھی نظر آ ئیں گے۔
فرحت اللہ بابر کا تعلق ایک متوسط طبقے کے گھرانے سے تھا۔ ان کے والد ایک اسکول ٹیچر تھے جو کہ 1950 میں 225 روپے کماتے تھے۔ فرحت اللہ بابر پشاور کے علاقے نشتر آباد میں اپنے آٹھ بہن بھائیوں کے ساتھ ایک دو کمروں کے گھر میں رہتے تھے۔ 1961 میں آپ نے اپنے والد کی خواہش اور پر زور اسرار پر پاکستانی فوج میں بھرتی ہونے کے لیے ایک انٹرویو دیا اور اس کے لیے منتخب بھی ہو گئے، لیکن انہوں نے آرمی جوائن نہیں کی کیونکہ اسی دوران ان کا یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی پشاور میں داخلہ ہو گیا تھا۔
فرحت اللہ بابر نے 1970میں انفارمیشن گروپ جوائن کیا۔ ان کی زندگی میں ایک بڑی تبدیلی اس وقت آئی جب اٹامک انرجی کمیشن کے چئیرمین منیر احمد خان کو ایک ایسے انفارمیشن اسسٹنٹ کی ضرورت تھی جس کا بیک گراؤنڈ سائنس کا ہو۔ فرحت اللہ بابر اس کام کے لیے درست انتخاب تھے۔
انہوں نے اٹامک انرجی کمیشن میں 1973 سے 1976 کے دوران کام کیا اور پھر 1971 سے 1981 تک بھی اس عہدے پر کام کرتے رہے۔ اٹامک انرجی کمیشن میں کام کرنے کے حوالے سے فرحت اللہ بابر کہتے ہیں کہ ان کو یہ نہیں پتا تھا کہ وہاں کیا ہو رہا ہے لیکن وہ یہ جانتے تھے کہ کچھ بڑا کام ہو رہا ہے۔ اسی لیے فرحت اللہ بابر کا کہنا ہے کہ ریٹائرمنٹ کے بعد اگر وہ کوئی کتاب لکھیں گے تو وہ سیاست پر نہیں ہو گی بلکہ پاکستام اٹامک انرجی کمیشن کے بانی منیر احمد خان کے بارے میں لکھیں گے۔
فرحت اللہ بابر کی ذوالفقار علی بھٹو سے دو ملاقاتیں ہوئیں۔ پہلی ملاقات 1977 میں گورنر ہاؤس پشاور میں ہوئی جہاں وزیر اعظم بھٹو نے ایک صحافی کے بارے میں جانکاری چاہی۔ دوسری ملاقات میں ذوالفقار علی بھٹو نے ان سے خواہش کا اظہار کیا کہ وہ بیگم نصرت بھٹو کو پشتو زبان سکھائیں کیونکہ چند دن بعد بیگم نصرت بھٹو کے پی کے اسمبلی کا دورہ کرنے والی تھیں۔
1981 میں انفارمیشن منسٹری میں ان کی ترکی میں پریس اتاشی کے طور پر تعنیاتی کو کینسل کر دیا گیا جس کے بعد وہ دلبرداشتہ ہو گئے اور سعودی عرب چلے گئے جہاں انہوں نے کچھ عرصے کے لیے ٹائپسٹ کے طور پر کام کیا۔ اس کے بعد ڈہلا ایوکو جو کہ ایک ایویشن سروس کمپنی تھی اس میں انجینئر کے طور پر کام کیا۔ کچھ مہینوں کے بعد ان کو رائل سعودی ائیر فورس کا مینجر بنا دیا گیا۔
جب فرحت اللہ بابر سعودی عرب سے واپس آئے تو وازرت اطلاعات کی نوکری کرنے کی بجائے انہوں نے فرنٹئیر پوسٹ اخبار کو جوائن کر لیا۔ اس اخبار کی وجہ سے وہ دوبارہ انفارمیشن کے بزنس میں آ گئے۔ فرحت اللہ بابر کے بارے میں کہا جا تا تھا کہ وہ ایک صحافی کے طور پر اپنے رشتہ داروں کو بھی نہیں بخشتے تھے۔
فرنٹئیر پوسٹ کو جہاد افغانستان پر مسلسل تنقید اور پاکستان میں فوجی حکومت کی وجہ سے پاکستانی صحافت میں اہم مقام حاصل ہو چکا تھا۔ فرنٹئیر پوسٹ جمہوری قوتوں کا پسندیدہ اخبار تھا جسے پشاور سے نکالنا آسان کام نہ تھا مگر فرخت اللہ بابر نے کر دکھایا۔
یہ وہ زمانہ تھا جب فرنٹئیر پوسٹ اپنی پالیسوں کی وجہ سے ضیاء الحق کے زیرِ عتاب تھی جس کی وجہ سےفرحت اللہ بابر کی سیاست میں دلچسپی بڑھی۔ 1988 میں فرنٹئیر پوسٹ میں پاکستان آرمی کے جوانوں کی افغان حکام کے ہاتھوں حراست کی خبر شائع کی تو اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی حمید گل نے پوسٹ کے مالکان پر دباؤ ڈالا کہ وہ بابر سمیت کچھ دوسرے سٹاف کو نکال دے۔ اس پرآپ رضاکارانہ طور پر پوسٹ سے مستعفی ہو گئے۔
1986 میں جب بے نظیر بھٹو پاکستان واپس آئیں تو ان کے علم میں تھا کہ ضیاء الحق کے خلاف ان کی جدو جہد میں فرنٹیئر پوسٹ نے ان کا ساتھ دیا ہے اس لیے وہ سب سے پہلا انٹرویو اس اخبار کو دیں گی۔ وہ انٹرویو فرحت اللہ بابر نے کیا۔ اس انٹرویو کے بعد بے نظیر بھٹو نے 1987 میں ان کو اپنی شادی میں شرکت کی دعو ت دی۔
فرنٹیئر پوسٹ کو چھوڑنے کے بعد فرحت اللہ بابر دی مسلم، پاکستان آبزرور اور فرائیڈے ٹائمز کے لیے فری لانس صحافی کے طور پرمضمون لکھتے رہے۔ 1988 ان کی زندگی کے لیے ایک ٹرننگ پوائنٹ تھا جب ان کو وزیر اعظم ہاؤس سے ایک کال موصول ہوئی کہ کیا وہ وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے لیے تقریر لکھیں گے۔ فرحت اللہ بابر نے حامی بھری اور پوچھا کس موضوع پر لکھنا ہے۔
بے نظیر بھٹو نے قومی اسمبلی میں جو پہلی تقریر کی وہ فرحت اللہ بابر نے لکھی جس میں ان لوگوں کو خراج تحسین پیش کیا گیا تھا جنہوں نے کسی بھی مسلمان ملک میں پہلی دفعہ ایک خاتون کو وزیر اعظم بنایا تھا۔ اس کے کچھ عرصے بعد بے نظیر کے لیے ایک اور تقریر لکھنے کے لیے کہا گیا اور پھر یہ ایک روٹین بن گئی۔
بے نظیربھٹو نے اور بہت سارے لکھاریوں کے ساتھ کام کیا لیکن 1989 میں فرحت اللہ بابر کو باضابطہ طور پر اپنا سپیچ رائٹر مقرر کیا۔ فرحت اللہ بابر کا بے نظیر بھٹو کے ساتھ تعلق 1990 میں ان کی حکومت کے ختم ہونے کے بعد بھی جاری رہا اور وہ ان کے لیے تقاریر اور مضامین لکھتے رہے۔ 1996 میں جب بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت برطرف ہوئی تو فرحت اللہ بابر کو پارٹی کا میڈیا دیکھنے کی ذمہ داری سونپی گئی۔
فرحت اللہ بابر اپنا انتخابی حلقہ نہیں بنا سکے تاہم وہ ٹیکنو کریٹ کی سیٹ سے سینیٹ کے رکن منتخب ہوتے رہے۔ پیپلزپارٹی کے دورہ حکومت 2008 سے 2013 تک وہ صدر مملکت آصف علی زرداری کے ترجمان تھے۔
اب ایک اہم سوال یہ ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی کو جانے فرحت اللہ بابر جیسے لوگوں کی بطور ترجمان ضرورت کب محسوس ہوگی؟ شاید ان لمحوں میں تو نہیں جب زرداری صاحب پر “بھاری” پن طاری ہو، شاید “مشترکہ مفادات” کی لائن لینے کی بجائے فرحت اللہ بابر کو پھر سے کسی انجیئرنگ یونیورسٹی میں داخلہ لینا پڑ جائے؟
بھٹو تو نعروں میں زندہ ہے، لیکن ضیاء پتا نہیں کہاں، کہاں زندہ ہو رہا ہے۔
اس مضمون میں کچھ معلومات فرحت اللہ بابر کی جانب سے ہیرالڈ میگزین کو 2017 میں دیے گئے انٹرویو سے اخذ کی گئی ہیں۔