فرمودات نیٹشا : کِن کے ہاتھ آن لگے
انتخاب و ترجمہ نصیر احمد
تفہیم صرف تفہیم کے لیے، یہ اخلاقیات کا حتمی پھندہ ہے جو ہمارے لیے بنا جاتا ہے ایک دن ہم اس میں مکمل طور پر پھنس جائیں گے۔
تفہیم کی دل کشی کم ہی ہوتی اگر ہمیں بہت ساری عاجزی کو شکست نہ دینی پڑتی۔
آدمی اپنے خدا سے بے حد بے ایمانی کرتے ہیں۔ اسے گناہ کی اجازت نہیں ہے۔
اپنے آپ کو نیچا دکھانے، اپنے آپ سے لاپرواہی کا اظہار، دوروغ گوئی کا شکار بننے کا رجحان، اپنا استحصال ہونے دینے کا رجحان ایک دیوتا کی عاجزی ہو سکتا ہے جو آدمیوں کے درمیان رہتا ہے۔
کسی ایک سے محبت وحشی پن ہے کیونکہ یہ دوسروں کے پیار سے محرومی کا باعث بن سکتا ہے۔ عشق الہی کا بھی یہی معیار ہوتا ہے۔
یہ میری ہی کرتوتیں ہیں۔ یادداشت کہتی ہے۔ میں ایسے کیسے کر سکتا ہوں۔ غرور کہتا ہے۔ آخر کار یادداشت ہار جاتی ہے۔
اس نے زندگی کا بھرپور مشاہدہ نہیں کیا جو میٹھی چھری کی قتل گری سے بے خبر ہے۔
کسی کا کردار اس کے وہ عمومی تجربات ہوتے ہیں جو بار بار رونما ہوتے ہیں۔
ایک دانا آدمی بطور ماہر فلکیات۔ جب تک آپ ستاروں کو اپنے سے بلند سمجھتے ہیں، آپ نگاہ بصیرت افوز سے محروم رہتے ہیں۔
قوت کی بجائے برتر احساسات ایک برتر آدمی کی نشانیاں ہیں۔
جو اپنے مثالی مقصد تک پہنچ جاتا ہے، وہ اسے پیچھے چھوڑ جاتا ہے۔
کئی ایسے مور ہیں جو اپنے پر تمام آنکھوں سے چھپاتے ہیں اور اس عمل کو اپنا غرور قرار دیتے ہیں
ایک آدمی کی شہوت کی نوع اور مقدار اس کی روح کی بلندیوں تک پہنچ جاتی ہے۔
حالت امن میں جنگجو اپنے آپ پر حملہ آور ہو جاتا ہے۔
جو خود کو ناپسند کرتا ہے وہ اصل میں اپنی یاسیت کی تکریم کر رہا ہوتا ہے۔
سمندر میں تو پیاسا مر جانا تو بہت ہی خوفناک ہے۔ کیا سچ کو اتنا کڑوا بنانا اتنا ہی ضروری ہوتا ہے کہ پیاس بھی نہ بجھا سکے۔
سب کے لیے الفت تم پہ مشقت اور جبر ہے، پیارے پڑوسی۔
عورتوں کی تسکین پہنچانے کی صلاحیت میں کمی کے ساتھ ان کی نفرت کرنے کی قوت بڑھ جاتی ہے۔
اپنی نمائشی ذاتی انا کے پردے میں عورتیں غیر ذاتی انداز میں عورت سے نفرت کرتی ہیں۔
اداس پریشاں اشخاص ان باتوں پر مسرور ہوتے ہیں اپنا اصل روپ دکھاتے ہیں جو اوروں کو آزردہ کرتی ہیں۔
کون ہے جس نے اپنی شہرت بچانے کے لیے زندگی کے ایک یا دوسرے موڑ پر اپنی ذات کی قربانی نہ دی ہو؟
خوش خلقی میں بیزاری تو نہیں پائی جاتی لیکن شدید حقارت موجود ہوتی ہے۔
آدمی کی سمجھداری، ایک کھیلتے ہوئے بچے کا سنجیدگی کا دوبارہ حصول۔
اپنے فسق وفجور پر نادم ہونا اس سیڑھی پر چڑھنے کے مترادف ہے جس کے دوسرے سرے پر آدمی اپنے حسن اخلاق پر شرمندہ ہو رہا ہوتا ہے۔
تم نے کہا ایک عظیم آدمی، میں تو ایک اداکار کو اپنا مثالی امیج تخلیق کرتے دیکھ رہا ہوں۔
ہماری زندگیوں کے زریں عہد اسی وقت رہنما ہوتے ہیں جب ہم اپنے شر کو اپنے بہترین کا درجہ دے کر بپتسمہ دیتے ہیں۔
حرم کو بھی شادی نے آلودہ کر دیا۔
ہم نے نیٹشا کے یہ افورزم اس کی کتاب ‘ نیک و بد سے پرے’ سے لے کر ترجمہ کر دیے تھے۔ ہم تو جب بھی کبھی نیٹشا کا ذکر ہو برٹرینڈ رسل کی طرح نیٹشا پر ہنستے ہی رہتے ہیں اور اس کے عظمت کے حوالے سے سندر سپنوں کا تمسخر ہی اڑاتے رہتے ہیں اور اس کی خواتین دشمنی کی ملامت ہی کرتے رہتے ہیں لیکن فلسفے کے حلقوں ستراور اسی کی دہائی میں نیٹشا کی بحالی ہو گئی تھی۔
لیکن اس بحالی کے نتائج اسی طرح کے رونما ہو رہے ہیں جیسے اس کے عروج کے زمانے میں رونما ہوئےتھے۔ ناٹزیوں اور دوسرے بہت سے آمریت پسندوں کو فلسفے سے نیٹشا کی صورت میں حمایت مل گئی اور فوق البشر کی صورت میں آمروں کو ایک اپنی آمریت کے جواز کے طور پر ایک مثالیہ مل گیا تھا جس کے ارد گرد وہ انسان دشمنی کے تانے بانے بن سکیں۔
اور اس کی بحالی کے بعد بھی ایسی ہی صورتحال پیش آئی کہ کارپوریشنوں کے مالکوں کو اپنے اعمال کے جواز کے طور پر ایک مثالیہ درکار تھا تو انھوں نے سوپر مین کی بحالی کی سرپرستی کرنا شروع کر دی۔ اور فلسفے کی بہت سی گفتگو انسانوں کی ٹیکنالوجی کی مدد سے دانشورانہ صلاحیتوں کو فزوں کرنے سے متعلق ہو گئی۔ لیکن اس سب سندر گفتگو کے نتائج قوم پرستی، آمرانہ طرز عمل، سنگدلی اور حماقت کی طرف رواں دواں ہیں۔ جو آپ ٹرمپ، پوٹن ، اردگان اور نریندر مودی جیسے حکمرانوں میں دیکھ سکتے ہیں۔
بہرحال یہ ہماری رائے ہے، اور نیٹشا کے حمایتی اس کی نفسیات دانی کی بہت تعریف کرتے ہیں اور ناٹزیوں کی نیٹشا کے لیے اپنائیت کو تفسیر کی غلطی پر محمول کرتے ہیں اور سوپر مین کو انسانوں کی عاقلانہ صلاحیتوں میں اضافے کی ایک منزل گردانتے ہیں اور اس کی خواتین دشمنی کی بھی وضاحتیں دیتے رہتے ہیں کہ نیٹشا کی زندگی میں خواتین دشمنی کوئی انوکھی بات نہیں تھی۔ اور کسی فلسفی کو کسی ایک زاویے کی وجہ سے یکسر مسترد نہیں کرنا چاہیے۔
اور رہی بات فرمودات کی تو یہ ایک مختصر زندگی، محدودد تجربے اور جزوی سچائی کا افسانہ ہوتے ہیں۔ اگر ہم لوگوں مختصر زندگیوں کے محدود تجربوں کی جزوی سچائیوں سے ان کا کچھ تال میل ہو جائے تو ہمیں حکمت اور دانائی کے خزانے لگنے لگتے ہیں اور اگر کچھ ایسا تال میل بن نہ پائے تو ہم ان پر کوئی اتنا غور و فکر نہیں کرتے۔
1 Trackback / Pingback
Comments are closed.