فروا
کہانی از، نادیہ عنبر لودھی
وہ بھولی بھالی شکل و صورت والی معصوم بچی تھی جس کی عمر آٹھ سال تھی اس کا نام فروا تھا۔ اس کے والدین ملازمت پیشہ تھے۔ ماں ایک سکول میں استانی تھی اور باپ ایک سرکاری محکمے میں ملازم تھا۔ اس نے گھر کا گیٹ کھولا اور کھیلنے کے لیے باہر نکلی۔ وہ ہمسایوں کے گھر سے اپنی ہم عمر کرن کو بلانے کے لیے بیل بجانے لگی۔ دروازہ کرن کے خانسامے نے کھولا۔ اسے دیکھ کر خانسامے کی آنکھیں چمکنے لگی۔
“کرن گھر پہ ہے،” فروا نے پوچھا۔
“ہاں ہاں،” آ جاؤ۔ خانساماں بولا۔
وہ اندر داخل ہوئی۔ گھر میں بہت خاموشی تھی۔ کرن ! کرن!
فروا نے صدا لگائی۔
“ادھر آ جاؤ! کرن یہاں ہے،” خانساماں نے اسے بازو سے پکڑا، اور گھر کی پچھلی طرف لے جانے لگا۔
وہ اسے اپنے کواٹر میں لے گیا اس نے دروازہ بند کیا اور فروا کو گود میں بٹھا لیا۔
اس کے ہاتھ کسی چھپکلی کی طرح سے فروا کے بدن کی دیوار پر رینگنے لگے۔ آہستہ آہستہ، بے آواز مگر محتاط۔
“تم بہت پیاری ہو مجھے بہت اچھی لگتی ہو مجھ سے دوستی کرلو۔ یہ پیسے لے لو ٹافیاں لے لینا۔” خانسامے نے جیب سے پیسے نکال کے اسے دیے۔
“نہیں انکل مجھے نہیں لینے۔ مما نے منع کیا ہے مجھے چھوڑیں مجھے گھر جانا ہے،” فروا بولی۔
“ابھی تھوڑی دیر رکو پھر چلی جانا،” خانساماں بولا۔
فروا نے خود کو ِچھڑ وانے کی کوشش کی لیکن بے سُود۔
وہ اپنی ہَوَس بھی پوری کرتا رہا اور فروا کو ڈراتا بھی رہا۔ فروا کی معصومیت اس جنسی ہراسانی کو سمجھنے سے قاصر تھی جس کا وہ شکار ہو رہی تھی۔
“انکل مجھے چھوڑیں۔ مجھے جانے دیں،” فروا ممنائی۔
“ٹھیک ہے ابھی تم جاؤ، مگر تم کسی کو یہ بات نہیں بتاؤ گی کہ تم یہاں آئی تھی۔ ورنہ میں تمہیں بڑی چھری سے مار دوں گا، جس سے میں گوشت کاٹتا ہوں،” خانسامے نے فروا سے کہا۔
“کسی کو اگر بتایا تو سب تمہیں ماریں گے،” اس نے فروا کو مزید ڈرایا۔ اور چھوڑ دیا۔ فروا اپنے گھر کی سَمت بھاگی۔
گھر جا کر وہ خاموشی سے بستر میں لیٹ گئی۔ اس کا معصوم ذہن کچھ بھی سمجھنے سے قاصر تھا، لیکن جو بھی تھا اس کے لیے عجیب تھا، بے حد عجیب۔
ماں سکول سے تھکی ہوئی آئی تھی سو رہی تھی۔ اسے علم ہی نہ ہو سکا بیٹی کسی بھیڑیے کے جال میں پھنسنے جا رہی ہے۔
فروا نے اب کرن کے گھر جانا چھوڑ دیا۔ اب وہ گھر سے بھی بہت کم نکلتی۔ وہ سہمی ہوئی سی رہتی۔
ایک دن کرن اس کے گھر آئی اور اسے کھیلنے پر مجبور کرنے لگی۔ “یہیں پر کھیلتے ہیں،” فروا نے مشورہ دیا۔ لیکن کرن نہ مانی اور اس کی مما کو شکایت لگانے پہنچی۔
“کرن اتنا اصرار کر رہی ہے تو اس کے ساتھ چلی جاؤ،” مما بولی۔
“آنٹی میں اس کو اپنی نئی ڈول بھی دکھاؤ گی،” کرن نے کہا۔
“تم نے تو فروا گھر سے نکلنا ہی چھوڑ دیا ہے۔ کرن کے ساتھ جاؤ اور کھیلو،” مما نے سختی سے کہا۔
فروا مجبوراً کرن کے ساتھ چلی آئی۔
وہ دونوں گیٹ سے اندر داخل ہوئیں، اور لان میں جھولے جھولنے لگیں۔
خانساماں کچن سے نکلا تو ان کی آوازیں سن کر اس طرف آ نکلا۔
فروا کو دیکھ کر اس کی آنکھیں ہَوَس سے چمکنے لگیں۔ اس کا ذہن منصوبہ بندی کرنے لگا کہ کیسے اسے اپنا نشانہ بنائے۔
اتنے میں کرن کو اپنی ڈول کا خیال آیا۔ اس نے فروا سے کہا، “میں ڈول لے کے آتی ہوں،” یہ کہہ کر وہ اندر کی طرف بھاگی۔
خانساماں نے فروا کو گود میں اٹھایا اور اپنے کواٹر کی سمت چلا۔ اس نے کمرے کی کنڈی چڑھائی اور فروا کو بستر پر اپنے ساتھ لِٹا لیا۔ اس کے ہاتھ فروا کے بدن پر حشرات العرض کی مانند رینگنے لگے۔ اس نے فروا کو اپنے ساتھ چِپکا لیا۔ خانسامے نے بہت ہوشیاری سے واردات بھی کی اور کوئی ثبوت بھی نہ چھوڑا۔ اس نے تتلی کو بہت احتیاط سے پکڑا، چھوا۔ مَسلا لیکن ٹوٹنے نہیں دیا۔
اس نے فروا کو خوب ڈرایا اور کسی کو نہ بتانے کا کہا۔
فروا گھر چلی آئی۔ ماں نے اس کا اترا ہوا چہرا دیکھا تو پوچھا، “کیا ہوا کرن سے جھگڑا ہو گیا ہے جو مُنھ لٹکا ہوا ہے؟”
یہ سن کر فروا رونے لگی لیکن اس نے ماں کو کچھ نہیں بتایا۔ البتہ اس کی ذہنی حالت بدلنے لگی۔ وہ نیند میں ڈرنے لگی اور کھوئی کھوئی سی رہنے لگی۔ پڑ ھائی میں بھی اس کے مارکس کم آنے لگے۔
خانسامے نے کئی دفعہ موقع سے فائدہ اٹھایا اور فروا کو اپنی ہوس کا نشانہ بنایا۔
فروا کی ماں کے پاس بچوں کو دینے کے لیے وقت نہیں تھا۔ وہ بیٹی میں پیدا ہونے والی تبدیلیوں سے بے خبر تھی۔
ایک دن فروا کی ٹیچر نے سکول میں بچوں کو گُڈ اور بیڈ ٹچ کا فرق سمجھایا، اور ایسے لوگوں سے دور رہنے کا مشورہ دیا۔ اس کے بعد فروا نے گھر سے نکلنا بالکل چھوڑ دیا۔
چند دن بعد کرن اس کے گھر آئی اور اسے کہا تمہیں چاچا (خانساماں) بلا رہے ہیں؛ انہوں نے کہا، “اگر تم نہ آئی تو وہ تمہارے پاپا کو تمہاری شکایت لگائیں گے۔”
فروا کو میم کی بات یاد آ گئی اس نے بے خوف ہو کر کہا، “لگادیں میں ان سے نہیں ڈرتی۔”
ٹیچر کے سمجھانے سے فروا اس وحشی درندے کی مزید دستِ بُرد سے تو بچ گئی۔ لیکن اس واقعے نے اسے ذہنی اور نفسیاتی طور پر توڑ پھوڑ کے رکھ دیا۔ وہ دو بارہ کبھی ہنستی مسکراتی بچی نہ بن سکی۔ اس واقعے کے دُور رَس نتائج اس کے آنے والی زندگی پر اس طرح پڑے کہ ہوش سنبھالنے کے بعد وہ شادی سے متنفر ہو گی اور ساری زندگی تنہا گزار دی۔