ادی فریال ٹالپر کو سندھ کی وزیر اعلٰی بننے کے لیے سیکیورٹی کلیئرنس نہ مل سکنے کا قصہ
(اللہ بخش راٹھور)
(سندھی سے اردو ترجمہ: ابراہیم صالح)
چیف منسٹر ہاؤس سندھ بھی آج کل محلاتی سازشوں کا محور بنا دکھتا ہے۔ یہ تو قائم علی شاہ تھے جو اتنا لمبا عرصہ بحیثیت وزیر اعلیٰ گزار گئے لیکن اب ایک بار پھر یہاں غیر یقینی صورتحال منہ اٹھائے کھڑی ہے۔ سی ایم ہاؤس کے قریبی حلقوں کا کہنا ہے کہ ادی فریال ٹالپر جو اپنے تئیں سندھ کے سیاہ وسفید کا مالک سمجھتی ہیں، انہوں نے ایک بار پھر اپنے بگ باس بھائی سے مل کر ایک نئی اننگز کھیلنی شروع کی ہے۔ لیکن وہ جو کہتے ہیں نا کہ ’بندے کے من میں ایک، اور صاحب کے من میں دوجا‘۔ اس کے باوجود فریال ٹالپر مایوس نہیں ہوئیں۔
خبریں گرم ہیں کہ فریال ٹالپر نے وزیر اعلیٰ سندھ کو ہٹانے کا بڑا جوا کھیلا اوراس میں انہیں منہ کی کھانی پڑی۔ کہتے ہیں کہ انہوں نے خود ہی وزارت اعلیٰ کا تاج اپنے سر پہننے کی کوشش کی۔ ہوا یوں کہ وزیر اعلیٰ سندھ اور ادی فریال ٹالپر کے درمیاں اختلافات ہونے کے بعد فریال ٹالپر بڑے زرداری صاحب سے مل کر سندھ کی پہلی خاتوں وزیر اعلیٰ کا تاج اپنے سر سجانے کے لیے بڑے ہاتھ پاؤں مارنے لگیں لیکن جب ان کا نام سیکیوریٹی کلیئرنس کےلیے متعلقہ اداروں میں بھیجا گیا تو انہوں نے انہیں کلیئرنس دینے سے صاف انکار کر دیا۔
یہ سندھ کی متوقع ’رابڑی دیوی‘ کے لیے ایک بہت بڑا دھچکا تھا جسے ہضم کرنا ان کے لیے اتنا آسان نہ تھا۔ بعد ازاں سیکوریٹی حلقوں کے مطابق انہوں نے دوسرے شاٹس کھیلنے کے فیصلے کیے ہوئے ہیں۔ فریال ٹالپر کے دایاں اور بایاں ہاتھ سمجھے جانے والوں میں سے ایک ضياء الحسن لنجار جنہیں قانوں اور پارلیمانی امور کے معاملات سونپے گئے ہیں وہ ایک طرف ان کا دایاں ہاتھ بنے بیٹھے ہیں تو دوسری طرف سہیل انور سیال، جو ان کے لیے دنیا کا ہر کام کرنے ہمہ وقت کرنے کو تیار رہتے ہیں، اور فریال کے لیے کی گئی جن کی خدمات سے کوئی کافر ہی انکار کر سکتا ہے، اور جو فریال ٹالپر کا بایاں بازوبھی ہیں۔ لہٰذا اب فریال ٹالپر ضياءَ الحسن لنجار کی بجائے سہیل انور سیال کو سندھ کا نیا وزیر اعلیٰ بنانے کے جتن کر رہی ہیں۔
وہ یہ جتاتی ہیں کہ اگر پارٹی کو سندھ میں آئندہ انتخابات میں کلین سویپ حاصل کرنا ہے تو انہیں سید مراد علی شاہ کی بجائے لنجار اور سیال جیسے وزیر اعلیٰ رکھنے ہوں گے۔ یہ الگ بات کہ ضياء الحسن لنجار کا جس ضلع سے واسطہ ہے وہاں انہیں بڑا دھچکا بھی لگ سکتا ہے۔ اگر ضلع نوشہرو فیروز میں پارٹی کے اولڈ گارڈز کے مطالبوں کو نہیں مانا گیا تو وہ تحریک انصاف جوائن کر لیں گے۔
پھر دیکھنا یہ ہوگا کہ تب لنجار کتنے پانی میں کھڑا ہوگا۔ فی الوقت تو بگ باس آصف زرداری بھی وہاں کے معاملات کی ڈور سلجھا نہیں سکے ہیں۔ اسی لیے انہوں نے وہاں جا کر کسی کی چائے پی تو کسی سے دو میٹھے بول بول لیے اور جھٹ دادو روانہ ہو گئے۔
یہ بات بھی سننے میں آئی ہے کہ جس وقت آصف زرداری نوشہرو فیروز کی یاترا پر تھے تو انہیں علاقے کے ایک شاہ صاحب نے جو مطابات پیش کیے ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ مستقبل میں سندھ کا وزیر اعلیٰ کوئی اور نہیں، بلکہ سکھر میں ان کے قریبی عزیز سید صاحب ہی ہوں گے۔ واہ! سیدوں کی بھی کیا بات ہے!
آخر وہ کیا بات ہے کہ سندھ کےموجودہ وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ، فریال ٹالپر کو قابل قبول نہیں؟ انہوں نے اب تک کوئی ایسا کام تو نہیں کیا جس سے پارٹی کو کوئی نقصان پہنچا ہو؟ مراد علی شاہ پیپلز پارٹی کے جیالے کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں، اگر ایسا ہی ہے تو انہیں ہٹانے کی کوششیں کیوں کی جارہی ہیں ؟
یہ سوالات میں نے دونوں اطراف کے حامیوں سے پوچھے۔ فریال ٹالپر کے حامیوں کا کہنا ہے کہ مراد علی شاہ ضرورت سے زیادہ اصول پرست ہیں، وہ ہاں میں ہاں ملانے والوں میں سے نہیں، انہوں نے اب تک کچھ ایسے احکام ماننے سے انکار کیا جو پارٹی کے مفادات میں تھے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ کیسے احکامات تھے؟ اس پر ایک معاملہ تو اے ڈی خواجہ کا سامنا آیا، ان کے کہنے کے مطابق پارٹی اور حکومت نے فیصلہ کیا کہ اے ڈی خواجہ کو ان کے عہدے سے ہٹایا جائے۔ لیکن سید مراد علی شاہ کا آئی جی سندھ کی جانب اتنا سخت harsh موقف نہیں دیکھا گیا جن کی ان سے توقع رکھی جا رہی تھی۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ فریال ٹالپر یا پارٹی نے بالآخر وزیراعلیٰ سے کیا توقعات expectations باندھ رکھی تھیں؟ اس پر ان کا جواب تھا کہ یہ ایک لمبی داستان ہے۔ جہاں تک سید مراد علی شاہ پر لگائے جانے والے ان الزامات کا واسطہ ہے تو اس ضمن میں ان کے حامیوں کا خیال ہے انہوں نے آئی جی سندھ سے محض ورکنگ ریلشن شپ بہتر بنانے کی بات کی۔
انہوں نے اے ڈی خواجہ کی صرف اس بات سے اتفاق کیا کہ پولیس میں بھرتیاں میرٹ کی بنیاد پر ہونی چاہئیں، مقرر شدہ پولیس عملداروں اور اہلکاروں کی تربیت فوج سے کرائی جائے۔ جبکہ وزیراعلیٰ پر کچھ اس قسم کے بھی شکوک ہیں کہ جیسا کہ اے ڈی خواجہ سندھ کے سابق وزیراعلیٰ سید عبداللہ شاہ (موجودہ وزیراعلیٰ کے والد) کے پی ایس او بھی رہ چکے ہیں اس لیے ان دونوں کے درمیاں ذاتی نوعیت کے مراسم بھی ہو سکتے ہیں اسی لیے وہ ان کی پشت پناہی بھی کر رہے ہیں۔
آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کی کیمسٹری یہ ہے کہ وہ ادی فریال کا جی حضوری yes man بننے کے لیے تیار نہیں تھے۔ خاص کر جب انہوں نے شوگر مافیا کے باس کے بیٹے کے خلاف بھی اقدامات کیے۔ جب اے ڈی خواجہ کو دو ہفتوں کی رخصت پر بھیجا گیا تو اس وقت بھی وزیراعلیٰ نے ان سے ہمدردی کا اظہار کیا۔ یہ الگ داستان ہے کہ جب سے اے ڈی خواجہ کو عہدے سے علیحدگی کی کوششیں کی گئیں وہ تب سے ہی اہم قوتوں کے اور نزدیک چلے گئے ہیں۔
سید مراد علی شاہ کے حامیوں کا کہنا ہے کہ وزیراعلیٰ ایک متحرک شخصیت ہیں اور پیشے کے لحاظ سے انجنیئر ہونے کی وجہ سے انہوں نے کراچی سمیت پورے سندھ کے کئی شہروں میں ترقیاتی کاموں کا ایسا ماڈل پیش کیا ہے جو ظاہر میں نظر بھی آتا ہے۔ انہوں نے چھوٹے بڑے شہروں میں روڈ رستوں سمیت بنیادی سہولیات کی فراہمی کی طرف توجہ دی ہے۔ انہوں نے کراچی کی ان شاہراہوں کی مرمت کرائی جو برسوں سے کھنڈر بنی تھیں۔
ان کے کہنے کے مطابق کراچی یونیورسٹی روڈ کی تعمیر اور مرمت میں مصطفیٰ کمال کے دور میں ستر ارب کی کثیر رقم خرچ کی گئی پھر بھی کچھ ہی عرصے میں یہ شاہراہ کھنڈر بن گئی لیکن اسی کام کو موجودہ وزیر اعلیٰ محض سات ارب میں بڑی تیزی سے مکمل کرا رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی کراچی کے اولڈ ایریاز میں جہاں روڈ اور گٹر چیلنج بنے ہوئے تھے ان کی مرمت کرائی گئی ہے۔
سائیں قائم علی شاہ کے دور میں پورا کراچی کچرے کے ڈھیر کا منظر پیش کرتا تھا لیکن موجودہ وزیر اعلیٰ کے دور میں صفائی کے ستر فی صد مسئلے کو حل کیا گیا ہے۔
اب جامشورو ضلع کے ملک اسد سکندر اور ملک ریاض تنازع کی وجہ سے پیدا ہونےوالے اختلافات میں بھی وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ، عبدالحکیم بلوچ سمیت کئی پارٹی رہنماؤں نے بگ باس کی ہدایات ماننے سے انکار کیا ہوا ہے اور وہ ملک ریاض کی سرگرمیوں کو مشکوک نظروں سے دیکھتے ہیں۔
وزیر اعلیٰ کے حامیوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ جامشورو میں کی گئی بڑی انتظامی تبدیلیوں میں بھی وزیراعلیٰ کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ ہاں یہ الگ بات کہ کان سیدھے ہاتھ پکڑو یا ہاتھ گھما کر کے، ایک جانب ملک اسد سکندر ہے تو دوسری جانب ملک ریاض اور دونوں کو شک کی نگاہوں سےہی دیکھا جارہا ہے۔ سی ایم ہاؤس کے ذرائع کا کہنا ہے کہ شاید ہی کوئی ایسا دن خالی جاتا ہو جب وزیر اعلیٰ سندھ بھیس بدل کرخود مختلف کاموں کی نگرانی کے لیے نہ جاتے ہوں۔
انہوں نے روایتی وڈیروں کے برخلاف اپنی سکیوریٹی کے مسائل کو ایک جانب رکھا ہوا ہے، ساتھ ہی یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ سی ایم ہاؤس کو سندھ کے دیگر معاملات سے الگ رکھنے کی مہم زوروں پر ہے جس کے تحت سندھ کے وزیر داخلہ سہیل انور سیال اور وزیر قانون ضياء الحسن لنجارکو مختارِ کل بنانے کی کوششیں زور و شور سے جاری ہیں۔
اب جب سے وزیر داخلہ کو پولیس افسران کے تقرر اور تبادلے میں مکمل فری ہینڈ دیا گیا ہے تب سے تمام متعلقہ فائلیں وزیر اعلیٰ ہاؤس نہیں آ رہیں اور اس ضمن میں وزیر اعلیٰ کو مکمل اندھیرے میں رکھا جارہا ہے۔ اور الٹا تاثر یہ دیا جا رہا ہے کہ وزیر اعلیٰ خود ان معاملات سے الگ ہوئے ہیں۔ اب ایک بار پھر ماضی کی طرح تمام شاٹس فریال ٹالپر اور ان کے لیفٹیننٹ کھیل رہے ہیں۔
وزیر اعلیٰ کے حامیوں کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے ریکارڈ توڑ ترقیاتی کام کرائے ہیں جس سے خاص طور پر کراچی میں پارٹی کا امیج بہتر ہوا جس کی ایک مثال پی ایس 114 سے پارٹی کے امیدوار سعید غنی کی غیر معمولی کامیابی قراردی جا رہی ہے۔
فریال اینڈ کمپنی کا کہنا ہے کہ سعید غنی کی جیت ان کی جوڑ توڑ کی پالیسی کا نتیجہ ہے، جبکہ سی ایم کے حامیوں کا کہنا ہے کہ اگر فریال ٹالپر کی پالیسیاں اتنی ہی کامیاب تھیں تو گزشتہ انتخابات میں اس نشست پر پارٹی کے امیدوار نے صرف پانچ ہزار ووٹ کیوں حاصل کیے؟ جبکہ اس بار وہاں سعید غنی کو چوبیس ہزار ووٹ ملے ہیں اور اس کا سارا کریڈٹ فریال ٹالپر کو نہیں بلکہ علاقے میں وزیر اعلیٰ کی جانب سے کرائے گئے ترقیاتی کاموں کو جاتا ہے۔
اس بار پہلی مرتبہ اس علاقے کی پنجابی برادری، عیسائی برادری، پشتون برادری اور اردو بولنے والوں کے ایک بڑے حلقے نے پارٹی کے امیدوار کو ووٹ دیےاور یہ وزیر اعلیٰ کی کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ان کے مطابق حلقے میں سعید غنی کی اپنی اہمیت ان کا وہاں کا مقامی رہنما ہونا ہی تھی، باقی جیت کا جملہ کریڈٹ سندھ حکومت کو ہی جاتا ہے۔
دونوں گروہوں کے حامیوں کی سرگرمیاں دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ فریال ٹالپر اور مراد علی شاہ دو مخالف قطبین پر کھڑے نظرآتے ہیں۔ اس محاذ آرائی میں فی الوقت وزیر اعلیٰ کو سائیڈ لائن کرنے کی تمام ترکوششیں کامیاب ہوتی تو نظر نہیں آتیں لیکن اہم بات یہ ہے کہ کب تک انہیں برداشت کیا جا ئے گا۔
اب جبکہ وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ کو ہٹا کر سہیل انور سیال کو وزارتِ اعلیٰ کا قلمدان سونپنے کی باتیں زیرِ گردش ہیں، ایسے میں کئی سیاسی پنڈتوں نے تو اپنی انگلیاں دانتوں تلے دبا لی ہیں۔ اردو کا یک محاورہ یہ بھی ہے کہ ’کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ’!
اب آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا