مختصر سی زندگی فاشزم کی نذر کرنا
از، نصیر احمد
سب چلتا ہے۔ اگرچہ عمومی دانائی کا یہ ٹکڑا بہت زیادہ مقبول ہو گیا ہے لیکن بہرحال یہ ایک فاشسٹ بیان ہے جس کے نتائج تشدد کی مختلف صورتوں میں نمودار ہوتے ہیں۔ اور روزمرہ زندگی اگر اس میکسم کی تفسیر ہو جائے تو جانیں معاملات بہت گھمبیر ہو گئے ہیں۔ اتنے گھمبیر کہ معاملات میں زندگی ڈھونڈنا مشکل ہو جاتا ہے۔
میکسم پر بوڑھے کانٹ یاد آئے کہتے تھے کہ اپنے عمل کو ایسے سر انجام دو کہ وہ اخلاقی دانائی کے متعلق سچ پر مبنی ایک قابل تقلید بیان بن جائے۔ لیکن ان کی اس بات پر عمل کرنا تقریبا ناممکن ہے کیونکہ زندگی میں چیزیں اونچی نیچی آگے پیچھے ہو جاتی ہیں۔
انسانی کوتاہیوں کے باوجود بوڑھے کانٹ دنیا کے ایک اہم اخلاقی فلسفی ہیں جنھوں نے اقوام متحدہ کے لیے راہیں اجاگر کی تھیں اور اقوام متحدہ اخلاقی دانائی کے متعلق سچ پر مبنی بہت سارے قوانین قائم کرنے میں کامیاب ہو گئی جن پر عمل درآمد کے حوالے سے بہت ساری کوتاہیاں مسلسل سرزد ہوتی رہتی ہیں۔ لیکن ان قوانین کی اچھائی اور سچائی پر انسانیت کی اکثریت متفق ہے۔ دست خطوں سے تو یہی لگتا ہے۔
بوڑھے کانٹ اور ان کے فلسفیانہ نظام پر پھر کبھی بات ہو گی لیکن لیکن لگتا ہے کہ ان کی میکسم سازی ہمارے ہاں تک پہنچتے پہنچتے بہت ہی بد عنوان اور گمراہ ہو گئی ہے۔ ہو سکتا ہے کچھ اس میں بوڑھے کانٹ کا بھی ہاتھ ہو کہ ،کیا نام تھا اس کا، آئکمین ۔۔۔۔ تو آئکمین نے گیسوں کے نرکھ میں انسانیت کو دھکیلنے کے جواز میں ان کی فرائضی اخلاقیات کا سہارا لیا تھا۔ ادھر ہم ہیں کہ ہر قسم کی دانائی کے بارے میں کافی مشکوک سے رہتے ہیں کیونکہ بدی کے سراغ دانائی کی کسی نہ کسی کی شکل میں ہی ملتے ہیں۔
تو یہ سب چلتا ہے ہمارے ہاں اور تقریبا ہر جگہ ایک ایسا میکسم بن گیا ہے جس پر بہت زیادہ عمل کیا جاتا ہے لیکن یہ میکسم دانائی سے متعلق نہیں ہے اور سچ پر بھی مبنی نہیں ہے۔ سچ کو اگر کھینچ تان کر ریلیٹو بھی کر لیں، تب بھی اس میکسم کا اخلاقی دانائی سے سنجوگ نہیں ہوتا کیونکہ یہ تشدد اور تشدد کے نتیجے میں انتشار اور خلفشار کا باعث بن جاتا ہے۔
اس کا ایک مظاہرہ تو ہم خادم رضوی کے دھرنے میں دیکھ چکے ہیں جس میں اس میکسم کا مذہب کے نام پر بہت زیادہ استعمال کیا گیا۔ اس میکسم کے نتیجے میں حکومتی مرکز کی شاہراہ بند کر دی گئی، اتنے قوانین کی خلاف ورزی ہوئی کہ ہمارے قانون دان دوست اگر گننے اور دہرانے بیٹھیں تو شاید فرد جرم مرتب کرتے ہوئے انھیں کافی دن لگ جائیں۔
عوام کو اتنی تکلیف پہنچائی گئی کہ جسے جسے تکلیف پہنچی، ان سب کی اگر کہانیاں لکھی جائیں تو شاید اندراج اور تلافی کے لیے ایک علیحدہ حکومتی محکمہ قائم کرنا پڑے۔ اور پولیس پر جو تشدد ہوا، اس کا بھی احاطہ کرنا شاید اتنا آسان نہ ہو۔ امن برقرار رکھنے والی پولیس مجرمانہ بد امنی کا شکار ہو جائے تو وجوہات، حقائق اور نتائج تک رسائی کے لیے تین چار دانش گاہوں سے مدد لینی پڑ تی ہے۔ اور پھر ریاستی اداروں کا حکم جس طرح نحیف و نزار ہوا اس پر محکمے رپورٹیں لکھتے لکھتے بوکھلا جائیں۔ اور سیاسی محرکات اور اسباب کے تو شاید باب ہی نہ بند ہوں مگر اتنے کشٹ اٹھانے کی کیا ضرورت ہے؟ اور کون ایسے کشٹ اٹھائے گا؟ اک آہ سرد، اک خندہ استہزا یا آنکھ میچ کر کہہ دیں کہ سب چلتا ہے تو ہر چیز کی تفسیر اور توضیح ہو جاتی ہے۔
اسی طرح جس طرح نواز شریف کا شکار کیا جارہا ہے یا ان کی سیاست کے مردہ لاشے کو جس طرح گھسیٹا جا رہا ہے اس میں بھی سب چلتا ہے درخشندہ و تابندہ ہے۔ حالات یہ ہو چکے ہیں کہ جیسے مجتبی کہتے تھے کہ ذرا سی یاداشت کچھ لوٹ پلٹ گئی اور کاغذ نہیں مل پارہے تو چاہے شمال سے آئیں یا جنوب سے بکریاں اور بھیڑیں بھی پوچھتی ہیں کہ کیا کاغذ دوبارہ بنے ہیں کہ نہیں۔ اسی طرح ہر کوئی اپنی آئینی، قانونی اور اخلاقی ذمہ داریوں سے غافل یہی کہہ رہا ہے کہ نواز تو تو گیا۔ اب نواز جائے یا رہے لیکن آئین، قانون اور اخلاقیات کا جانا تو زیادہ تباہ کن ہے
اور شاید ہر کسی کو اس کا احساس بھی ہے لیکن سب چلتا ہے ایسی بیڑی بن گیا ہے کہ چاہے کچھ بھی نہ رہے لیکن یہ بیڑی اسی وقت کٹے گی جب نواز شریف کی سیاست ختم ہو گی۔ نواز شریف کی سیاست بھی سب چلتا ہے کی دین ہے ، وہ بھی اتنی آسانی سے جانے والے نہیں۔
ہمیں تو ان سے ہمدردی ہے کہ تیس چالیس سال کے بعد انھوں نے سب چلتا ہے کی ڈگر سے کچھ علامتی گریز کرنا چا ہا تھا کہ سب چلتا ہے کا شکار ہو گئے۔ سب چلتا ہے سے یہ وابستگی در اصل ایک اور نسل کے ضیاع کی وجہ بن جائے گی اور نواز شریف کی رخصتی کے بعد سب چلتا ہے سے علامتی گریز بھی ممکن نہیں رہے گا جس کے آثار ان معصوموں کے غیاب اور گمشدگیوں کی صورت میں نظر آ رہے ہیں جن کی کوئی بھی نہیں سنتا۔ لیکن صرف اس وجہ سے وہ غائب اور گمشدہ ہیں کہ کہیں نہ کہیں ان کے اندر سوچنے والا، سمجھنے والا اور اپنی رائے کا اظہار کرنے والا انسان موجود ہے جسے درمندی کا بھی عارضہ ہے۔ ان کا دکھ اپنی جگہ لیکن سب چلتا ہے دراصل ایک قومی، عالمی اور انسانی سانحہ ہے جس کے نتیجے میں بقول بھوپن پزاریکا ‘ بھوکی یہ فصلیں، آدمی کی نسلیں’ گمشدہ اور غائب ہو جائیں گی۔اپنے بچوں کو ایک اچھی زندگی نہ دینے کا ملال بہت گہرا اور گھنا ہوتا ہے چاہے سب چلتا ہے کہ تحت وہ محل میں کسی آمر کے درباری بن جائیں یا سب چلتا ہے کےنتیجے میں کسی اجتماعی قبر میں دفن ہوں۔
پھر سب چلتا ہے زندگی کے ہر زاویے اور گوشے میں رواں ہو جاتا ہے۔ جب کوئی کشتی زیادہ بوجھ کی وجہ سے ڈوبتی ہے تو اس میں سب چلتا ہے کی شکل آپ دیکھ سکتے ہیں۔ جب کوئی چھت گرتی ہے ، تب بھی سب چلتا ہے کا جلوہ موجود ہے۔ دودھ میں کیمیکل ملتے ہیں، تب بھی سب چلتا ہے کا دیدار ہو جاتا ہے۔اور دہشت گردی کے سانحوں میں تو سب چلتا ہے تو سمجھیں جاری و ساری ہے۔
ہم تو کہیں گے صورتحال کی گھمبیرتا دیکھ کر سارے لوگ سب چلتا ہے سے انکاری ہو جائیں تو شاید معاملات کچھ بہتر ہو جائیں لیکن ان کا کیا کریں جو ہمدرد بن کر سرگوشیاں کرنے لگتے ہیں کہ انکار کی دنیا تنہائی، بے وقعتی اور بے قدری کی دنیا ہے اس لیے سب چلتا ہے سے سمجھوتا کر لیں کہ بھلے بوڑھا کانٹ کچھ بھی کہے یہ تیر بہ ہدف نسخہ ہے اور یہی میکسم ہی دانائی کا اظہار کرتا ہے۔
کہ جب صدر امریکا بھی بدعنوانی سے تفتیش سے بچنے کے لیے سب چلتا ہے کا رستہ اختیار کرتے ہیں تو تیسری دنیا کے لوگ تو ویسے ہی تقلید کے مارے ہوئے ہیں۔
کلجگ ہی سہی لیکن پھر بھی کچھ تو ہمت کرنی ہی پڑے گی کہ انسانیت، اخلاقیات، جمہوریت، قانون اور عدل کے تحفظ کا مقام ہے۔ اس لیے چاہے سب چلتا ہے بغل گیر ہو یا دارو گیر کرے سب چلتا ہے سے منکر ہو جائیں کہ یہ مختصر سی زندگی فاشزم کی نذر کرنا زندگی سے سب سے بڑی زیادتی ہے۔ اور پھر بچوں کے مستقبل کا سوال بھی ہے۔