بوخن والڈ کیمپ : فاشسٹ نظریے کا چشم دید گواہ

Abdur Rauf aik Rozan writer
عبدالرؤف، صاحبِ مضمون

بوخن والڈ کیمپ : فاشسٹ نظریے کا چشم دید گواہ

(عبدالرؤف)

میرے سامنے بوخن والڈ کیمپ کا گیٹ ہے، گیٹ کے اوپر ایک جملہ لکھا ہے ” اس کے لیے جس کا وہ حقدار ہے۔”

(Jedem Das Seine)

لیکن یہ جملہ گیٹ کی اندرونی جانب لکھا گیا ہے اس  تحریر کے مخا طب وہ لوگ تھے جو کیمپ کی اندرونی جانب قید تھے۔

گیٹ کے دونوں جانب دو بڑے بڑے کمرے ہیں، دائیں جانب کمرے میں موجودہ میموریل کی انتظامیہ کا دفتر ہے جبکہ نازیوں کے دور میں اسی کمرے میں ایس ایس گارڈز اور کیمپ انتظامیہ کے دفاتر تھے، جبکہ بائیں جانب بڑے ہال نما کمرے کے اندر چھبیس چھوٹے بنکر ہیں جن کے شروع میں ایک نگران یا انچارج افسر کا کمرہ ہے جس کے اندر ابھی تک اس کی میز، کرسی اور تشدد کرنے کے آلات پڑے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی بنکر نمبر چھبیس ہے جس میں تین لوگوں کی تصاویر دیوار پہ لٹکی ہیں، تصاویر کے نیچے  بنکر کے فرش پر کچھ بجھی ہوئی موم بتیاں پڑی ہیں۔

بوخن والڈ کیمپ : فاشسٹ نظریے کا چشم دید گواہ
بوخن والڈ کیمپ کا مرکزی دروازہ

یہ تصاویر ان افراد کی ہیں جو اس بنکر میں قید رہے اور بالآخر ہلاک ہوئے۔ اسی طرح باقی بنکرز میں بھی مختلف افراد کے نام اور ان کا  مختصر  پس منظر بھی درج ہے۔ کچھ بنکرز کے اندر لکڑی کے بنے دو  فٹ چوڑے اور پانچ سے چھ فٹ لمبے لکڑی کے بنے تخت جو پلنگ کے طور پر استعمال ہوتے تھے اپنی اصلی حالت میں پڑے ہیں۔

ان پلنگوں کی ایک جانب لوہے کے دو کڑے لگے ہوئے ہیں جو دیوار میں لگی دو کیلوں کے ساتھ پلنگ کو دیوار کی جانب فرش سے کچھ ایک فٹ اونچائی پر فولڈ کیے ہوئے ہیں۔ ان بنکرز کی چوڑائی دو سے تین فٹ ہے۔ موجودہ کیمپ انتظامیہ کے مطابق ان بنکرز کی اندرونی حالت، دروازے، کنڈیاں، پلنگ، لیٹرین کے کموڈ، ٹوٹیاں تقریباً اسی فیصد تک اپنی اصلی حالت میں محفوظ کر لی گئی ہیں۔ اور اپنی اصلی جگہ پر ہی موجود ہیں۔

(اس مضمون کے **دوسرے حصے کا لنک**)

بنکرز سے باہر نکل کر کیمپ کی اندرونی جانب ، میرے سامنے ایک کھلا میدان ہے،اپنی لمبائی اور چوڑائی میں یہ  فٹ بال گراؤنڈ سے بھی بڑا ہے۔ گراؤنڈ کی حد جہاں ختم ہوتی ہے وہیں سے گھنے جنگلات کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ یہ گراؤنڈ میرے سامنے ایک کمان کی سی شکل بناتا ہے، اور اسی طرح کمان کی حد سے پرے ساتھ ساتھ جنگلات کا سلسلہ ہے۔ جنگلات اور کیمپ کو جدا کرنے والی حد ایک اونچی خاردار تار کے ساتھ متعین کی گئی تھی جس پر ایک خاص فاصلے پر واچ ٹاورز بنائے گئے تھے، جن میں سے اب صرف دو ہی بچے ہیں۔

کیمپ کی اندرونی جانب، میں، گیٹ کے بالکل پاس ہی کھڑا ہوں، کہ یہاں ہر ایک قدم پر، ہر پتھر ہر ایک کنکر جرمن نیشنل ازم، نازی ازم، نیشنل سوشسلٹ، دوسری عالمی جنگ، سرمایہ داری، کمیونزم،  یہودی دشمنی اور نسل پرستی کے متعلق مجھ سے یا تقریبا ہر آنے والے سے گویا  شدید ترین مزاحمتی مکالمہ کر رہا ہے۔ بظاہر سکوت میں ایک چیخ و پکار ہے، جو شاید کانوں میں نہیں دماغ میں براہِ راست سرایت کر رہی ہے۔

مین گیٹ سے اندرونی دائیں جانب قریبا سو میڑ کے فاصلے پر ایک عمارت ہے جو کیمپ کے اندر ایک چھوٹااحاطہ ہے، جس کے اندر تین مختلف طرح کے کام سرانجام دیے جاتے تھے، پہلے کمرے میں لاشوں کا پوسٹ مارٹم کیا جاتا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ  نہ صرف بوخن والڈ کیمپ میں بلکہ جرمنی اور پولینڈ میں قائم دیگر کنسسنٹریشن کیمپوں میں بھی پوسٹ مارٹم کرنے کے ضروری انتظامات کئے گئے تھے، تاکہ موت کی ایسی وجہ ریکارڈ میں ڈالی جائے جو بعد میں سوالات کو جنم نہ دے۔

بوخن والڈ کیمپ : فاشسٹ نظریے کا چشم دید گواہ
انسینیریشن پلانٹ

اس کمرے کے عین وسط میں سیمنٹ، اینٹوں اور پتھر کی سفید ٹائلوں سے ایک سٹریچر نما کا چبوترہ بنا ہے، جہاں لاش بچھا کر پوسٹ مارٹم، اور کیمپ کے محفوظ ریکارڈ کے مطابق، لاش کے مختلف اعضاء میڈیکل ریسرچ کے لیے نکالے جاتے تھے، اسی پروسیس کے دوران یہاں کام کرنے والوں کو  کبھی کبھار سونے کے دانت بھی اضافی اجرت کے طور پر مل جاتے تھے۔

اسی کمرے کے ساتھ ایک بڑا ہال ہے جس میں تین بڑے بڑے تندور نما پلانٹس لگے ہوئے ہیں، جن میں لاشوں کو ڈال کر راکھ میں تبدیل کر دیاجاتا تھا۔ 1937 میں بنے اس کیمپ میں  1945 تک دو لاکھ پچاس ہزار سے زائد افراد قید رہے، چھپن ہزار سے زائد افراد اس کیمپ میں مختلف طریقوں سے ہلاک کیے گئے۔

جرمن کلاسیک، تاریخ اور کلچر کے علم بردار اس علاقے میں وائمار شہر، جہاں مشہور فلسفی فریڈرک شِلر مقیم رہا جبکہ اسی کے ہم عٖصرمشہور نثرنگار، ڈرامہ رائٹر اور فلسفی والفگانگ گوئٹے کا  تعلق بھی  اسی شہر سے تھا اور مشہور فلسفی نٹشے بھی اسی شہر میں قیام پذیر رہ چکے ہیں۔ مشرقی جرمنی میں پہلی عالمی جنگ کے بعد وائمار شہر، جرمن نیشنل سوشلسٹوں کا ایک مضبوط گڑھ بن کر ابھرا تھا،  اس شہر سے محض پانچ میل کے فاصلے پر گھنے جنگل کے بیچ 1937میں یہ کیمپ بنایا گیا۔

 اسی کمرے کے نیچے جہاں یہ انسنریشن پلانٹ  ہے جہاں لاشوں کو راکھ بنا دیا جاتا تھا ، ایک تہہ خانہ ہے جس میں کمزور، بیمار، لاغر قیدیوں کو ایک کھلی تخت نما لفٹ کے ذریعے نیچے لایا جاتا تھا، یہ ہال بہت حد تک ساؤنڈ پروف ہے، یہاں گن شوٹنگ کے ذریعے قیدیوں کو مارا جاتا تھا اور اسی تخت کے اوپر لاشوں کا انبار لگا کر اوپر پلانٹ میں لایا جاتا تھا۔

بوخن والڈ کیمپ : فاشسٹ نظریے کا چشم دید گواہ
بوخن والڈ کیمپ کا پشت والا حصہ

 یہ عین ان دنوں کی بات ہے جب شمالی ہندوستان میں کچھ ریاستیں اپنے لیے علیحدہ ملک کا مطالبہ کررہی تھیں۔  اس عمارت کے عقبی جانب ایک بڑا سا صحن ہے،جس میں دور تک اس عمارت کی چمنی کا سایہ پڑ رہا ہے۔ عقبی جانب سے ہی راکھ کے ڈرم ٹرکوں میں رکھ کر قریبی جنگل میں دبانے کے لیے لے جائے جاتے تھے۔ اس عمارت سے باہر نکلتے  ہوئے میرا دل و دماغ وہ شکلیں اور مراحل بنا رہا تھا جن سے گزر کر نسل پرستی اور فاشسٹ نظریہ اس طرح کی عمارات کی تعمیر تک منتج ہوتا ہے۔ اور مجھے کچھ اطمینان ہوا کہ میرا جس ملک اور مٹی سے تعلق ہے وہاں ایسے فاشسٹ نظریے کی آبیاری کی گنجائش نہیں ہے۔

عالمی جنگ سے پہلے بھی اور دوران جنگ بھی  بوخن والڈ کیمپ بنیادی طور پرایک مرکزی کیمپ کا کردار ادا کرہا تھا، جس میں ہر طرح کے لوگ پورے یورپ سے لائے گئے تھے، جن میں یہودی، سیاسی مخالف، جنگی قیدی، خانہ بدوش، اپاہج غرض ہر وہ شخص جو نازی ازم کے پورے ادارے اور فلسفے کا مخالف اور ناقد تھا وہ یہاں لا یا گیا۔ اسی کیمپ سے لوگوں کو چن کر آشوٹز، پولینڈ میں قائم ایکسڑمینیشن کیمپ میں بھیجا جاتا تھا، جہاں گیس چیمبرز میں ڈال کر لوگوں کو ہلاک کیا جاتا تھا۔ کنسنٹریشن کیمپ اور ایکسٹرمینیشن کیمپ کا بنیادی فرق بوخن والڈ نے مجھے بتایا۔

اس عمارت کے ساتھ شمال کی جانب ایک بڑی عمار ت ہے، ان دونوں کے درمیان پچاس گز کا فاصلہ ہے، یہ ایک ڈبل سٹوری بلڈنگ ہے، جس کے پہلے حصے میں قیدیوں کو سب سے پہلے لایا جاتا تھا، جہاں ان کا سامان ان سے لے لیا جاتا تھا اور ان کو ایک دھاری دار پاجامہ اور قمیص دے دیاجاتا تھا، اس سے پہلے تمام نئے قیدیوں کو ایک سفوف لگا کر نہلوایا جاتا تھا تاکہ کسی قسم کی وبائی جِلدی مرض کا اگر احتمال ہوتو اسے روکا جا سکے۔

اس عمات کے باہر، جو مین گیٹ سے دیکھنے پر ایک کونے میں نظر آتی ہے، سامنے، قطار در قطار قیدیوں کی بیرکس کا ملبہ ہے، بیرکس، کچھ وقت کے ہاتھوں منہدم ہوئیں کچھ پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں منہدم کردی گئیں۔ بیرکس کی ترتیب اور اندونی سٹرکیں پوری طرح سے محفوظ کی گئی ہیں۔


  (جاری ہے)