صدر فرینکلن روز ویلٹ کی امریکی سپریم کورٹ سے آئینی جنگ
از، نصیر احمد
عظیم معیشتی زوال 1930 کے بعد صدر فرینکلن روز ویلٹ سے امریکہ کی سپریم کورٹ کی جنگ آئینی تاریخ کا ایک اہم حصہ ہے ۔ صدر روز ویلٹ ڈیموکریٹک پارٹی سے متعلق تھے۔ اور 1932 میں امریکہ کے صدر منتحب ہوئے۔ روزویلٹ ایک امیر کبیر اور رئیس خانوادے سے تعلق رکھتے تھے جن کا رابطہ عوام سے تبھی ہوتا ہے جب وہ سیاست میں حصہ لینا شروع کرتے ہیں۔صدر بننے سے پہلے فالج سے ایک لمبی جنگ جیت چکے تھے۔ ہماری نظر میں اس جیتی ہوئی ذاتی جنگ نے ان کی سیاست پر کافی اچھےاثرات ڈالے تھے۔ وہی درمندی، دلداری، غم گساری جیسی صفات جو مصیبتوں کا عطیہ ہوتی ہیں اور داناوں کا خاصہ۔
بہرحال عوام سے ان کا مختلف وجوہات سے ایک پسندیدگی کا رشتہ بن گیا تھا۔ عوام انھیں پسند کرتے تھے اور وہ عوام کو۔ اور یہ عوامی پسندیدگی اتنی بڑھ گئی کہ عوام روز ویلٹ کو ان کی ( روزویلٹ کی) مو ت تک پسند کرتے رہے اور انھیں منتخب کرتے رہے۔ فرنکلن روز ویلٹ وہ واحد امریکی صدر ہیں جن کو امریکہ میں چار دفعہ منتخب کیا گیا۔ویسے تو رسم تھی کہ دو دفعہ سے زیادہ کوئی بھی امریکہ صدر نہ رہتا تھا لیکن روزویلٹ ترک رسوم کے کچھ زیادہ ہی عادی تھے، اس لیے انھوں نے کچھ پرواہ نہ کی۔ بعد میں امریکیوں نے اس رسم کا ترک کچھ پسند نہ کیا اور دو دفعہ کی باری کو آئین کا حصہ بنا دیا۔
بہرحال روزویلٹ جمہوری دنیا کے ایک بہت ہی اہم رہنما تھے۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ نے انھی کی صدارت کے دوران اس عظیم معیشتی زوال سے نجات حاصل کی اور انھی کی صدارت میں امریکہ نے دنیا کو ہٹلر اور مسولینی اور جاپانی جنتا جیسے عفریتوں سے نجات دلائی۔
1930 کا عظیم معیشتی زوال ہمارے دور کے عظیم معیشتی زوال ہی کی مانند تھا اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ دنیا اس کی شدتیں سہہ رہی تھے۔ صنعتی پیداوار پچاس فیصد کم ہو گئی تھی اور بیروزگاری کی شرح پچیس فیصد پہنچ گئی تھی۔
ادھر یورپ میں شجرظلمت کے سائے گہرے ہونے لگے تھے، ہٹلر کی آمد آمد تھی اور مسولینی سپھلتا کی کتھا بنے پوری دنیا سے اپنی حکمت کی داد وصول کر رہے تھے۔ اور روس میں کامریڈ سٹالن نے اپنے پنج سالے پروگرام شروع کر دیے تھے۔ جن کے نتیجے میں روس میں ایک ہلاکت خیز قحط اپنی تباہیاں پھیلا رہا تھا لیکن خبریں صرف صنعتی ترقی کی آرہی تھیں۔ سویت نظام ایک بند گلی سی تھی اورجسے بھی وہاں جانےکی اجازت ملتی تھی وہ رنگ روپ ہی دیکھ کر فدا ہو جاتا تھا اور ڈائن کے حسن کے پیچھے لہو کی ندیاں دیکھنے سے انکار کر دیتا تھا۔
اور کامریڈ سٹالن کمیونسٹ پارٹی میں اپنے مخالفین کو وہ جیسے کہتے ہیں طاقت کی راہداری سے باہر کا رستہ دکھا چکے تھے۔لینن کے ساتھی انقلاب کا جوش فراموش کر چکے تھے ، ٹراٹسکی کی جلا وطنی ہو چکی تھی اور باقی انقلابی معذرت ناموں، معافی ناموں اور سٹالن کے خلاف ہلکی پھلکی سازشوں میں مصروف تھے۔
امریکہ میں لیکن لنگر کھل چکے تھے جن پر آنے والوں کی تعداد بڑھتی جا رہی تھی۔اس طرح کے لنگر 2008 کے بعد بھی امریکہ اور یورپ میں کھلے تھے۔ اب ان لنگروں کا کھلنا معیشتی زوال کا بین ثبوت سمجھا جاتا ہے کہ اس کا تعلق انسانی عظمت سے منسلک ہے اور فرد کو یوں لنگر میں لائن میں کھڑا دیکھ کر جمہوریت
اپنے وجود پر شرمندہ ہونا شروع جاتی ہے۔اور لنگر پر کسی بھی فرد کی موجودی ایک کڑا دکھ ہوتا ہے اور جمہوری حساسیت سے بھرپور لنگر پر موجود آدمی تو گہرے دکھوں کی داستان بن جاتا ہے۔
ان حالات میں صدر روزویلٹ امریکہ کے صدر منتخب ہوئے۔عوام انھیں اس وقت اتنا جانتے نہیں تھے مگر ایک احساس موجود تھا کہ اپنا آدمی ہے، دکھ درد سمجھتا ہے اور کچھ مسئلے کی نوعیت بھی جانتا ہے، کوئی حل بھی جگا لے گا۔
پھر اک تبدیلی کا ماحول بھی بن چکا تھا، شجر ظلمت کی کامیابیوں کی نوعیت ابھی تک واضح نہ ہوئی تھی لیکن شجر ظلمت کی کامیابیوں کے چرچے نگر نگر تھے اور جمہوریت آجکل کی طرح ناکامیوں سے نبرد آزما تھی۔اور جیسے کامیابی کا ہوتا ہے،کامیابی منبر پر کھڑی مائکرو فون سے سر ٹکراتی اول فول بکتی رہتی ہے لیکن لوگ ٹھیکوں کی امید میں سب روشن خیالی ، سب جز رسی، سب نکتہ دانی بھول کر دیوی جی کی پوجا کرنے لگتے ہیں اور پیٹ پھاڑنے، پھانسی پر لٹکانے ، اور گلیوں میں گھسیٹنے کی سب دھمکیاں نظر انداز کر دیتے ہیں۔
لیکن اس وقت کے امریکی کچھ سیانے ثابت ہوئے اور جہاں سے مسئلوں کا حل ممکن ہو سکتا تھا، اسی طرف رخ کیا۔ اور ان کے نو منتخب صدر اور ان کی ٹیم نے امریکیوں کو مایوس نہیں کیا اور نئے سودے کے نام سے اصلاحات کا ایک سلسلہ شروع کر دیا حالانکہ والٹر لپمین تک نے کہہ دیا تھا کہ کہ یہ تو ایک خوش طبع سا آدمی ہے جسے آتا واتا کچھ نہیں۔ لپمین کو تو صحافی لوگ تو جانتے ہی ہوں گے لیکن شاید اکثر صحافیوں کی طرح لپمین میں بھی انسان شناسی اور دوربینی کی کمی تھی ،کم از کم روزویلٹ کے حوالے سے تو انھوں نے یہی ثابت کیا۔
صحافیوں سے کیا گلہ، اکثر صحافی مرزے جوان کی طرح ہوتے ہیں، خطرہ بھانپ نہیں پاتے اور نیند میں گم ہو جاتے ہیں ۔بہر حال اس وقت امریکی عوام پر صحافیوں کا موجودہ دور جیسا تسلط نہیں قائم ہوا تھا، امریکیوں نے روزویلٹ کو منتخب کر لیا۔
یوں نیا سودا رونما ہوا، نہ کوئی گروہ عمایاں نہ کوئی ہلہلہ ولا، بس جس طرح آئینی اور جمہوری کام ہوتے ہیں، دھڑا دھڑ ادارے بننے لگے اور کام شروع ہو گیا۔ اور خوف سے امریکیوں کی دھینگا مشتی شروع ہو گئی۔
پہلے بینکوں کی باری آئی اور ان کو اجازت ناموں کے ایک سلسلے کا ماتحت کر دیا گیا تا کہ بینک کا کچھ پتا بھی چلے کہ بینک چل بھی سکتا ہے نہیں اور بینکوں پر حکومتی نگرانی کے اداروں کو تقویت دی گئی۔ اور فیڈرل ریزرو بورڈ کا قرضوں کے لین دین پر دائرہ اختیار میں اضافہ کیا گیا۔
پھر قرض نادہندگان کی سہولت کے لیے اقدامات اٹھائے گئے کہ ان کو قرضوں کی ادائی کے حوالے سے ایک اچھا سودا میسر ہو۔
اور سب سے زیادہ خوش کن واقعہ تو شراب پر پابندی ہٹانے کا تھا۔یہ تو سنتے ہی خواجہ تو اپنے مرقد سے چلا اٹھے ہوں گے
ساقیا برخیز در دہ جام را
خاک بر سر کن غم ایام را
وجہ وہی تھی کہ جو خواجہ نے بتائی دی تھی کی میخانے کا در پند کرو گے تو جرائم کے در کھل جائیں گے۔امریکی کہ کافی دیندار ہیں، انھوں نے ایک آئینی ترمیم کے ذریعے شراب پر پابندی لگا دی تھی۔جس کے نتیجے میں شراب کی غیر قانونی تجارت فروغ پا گئی تھی اور بدمعاشی کو جیسے بڑھاوا سا مل گیا تھا۔
اس پابندی سے حکومت کا مالی زیاں بھی بہت ہوا ۔ اور جب حساب کتاب کیا تو یہی لگا کہ کہ شراب پر پابندی اٹھا ہی دی جائے کہ آمدن میں اضافہ ہو، اخراجات کم ہوں اور پابندی سے منسلک معاشرتی مسائل کا بھی کچھ درماں ہو۔ دین اور پیسے کے معاملے میں امریکہ میں دانائی کی ایک بہت پرانی روایت موجود ہے ،جس سے امریکی گاہے گاہے فائدہ اٹھاتے رہتے ہیں۔ ہماری طرح تو نہیں کہ اجتماعی طور پر جیسے تہیہ کیے بیٹھے ہیں کہ دین اور دانائی کو آپس میں ملنے ہی نہیں دینا اور جب کبھی مل بیٹھیں تو ان کی خالہ کی طرح ایسا ماحول بنا دیتے ہیں کہ دین سر بہ زانو اور دانائی پردیس کا رستہ لیتی ہے۔
اور پھر شاید پروٹسٹنٹ اخلاقیات بھی امریکہ میں گہرا اثرو رسوخ ہے۔ کچھ معاشرہ دان بھی کہتے ہیں کہ پروٹسٹنٹ اخلاقیات میں فضل ربی جاننے کا ذریعہ ایک ہی ہےکہ آدمی کے پاس دولت کتنی ہے۔
بہرحال یہ اخلاقیات شراب پر پابندی اٹھانے کے حوالے سے تو موثر ثابت ہوئیں لیکن عوامی فلاح بہبود کے حوالے سے امریکہ میں آج تک یہ اخلاقیات بہت بڑی رکاوٹ ہیں کہ امریکی آج بھی کافی دیندار ہیں اور حکومت کی عوامی فلاح کے سلسلے میں کاروبار حیات میں مداخلت پسند نہیں کرتے۔
لیکن وہ روز ویلٹ تھے اور عوام ان کے ساتھ تھے۔ اور معاملہ بھی کافی گھمبیر تھا اس لیے انھوں نے روایات سے کچھ دور ہونے کا فیصلہ کر لیا اور غریبوں اور متوسط طبقوں کی امداد جہاں تک امریکی نظام برداشت کر سکتا تھا، کرتے رہے۔ لیکن ان کے اقدامات کا اثر حکومتی معیشت اور معاشرت اچھا ہی ثابت ہوا۔
اب وہ صنعتی امور کی طرف متوجہ ہوئے اور اجارہ داریاں ختم کرنے اور ٹریڈ یونینز کو صنعتوں میں بہتر حقوق دینے کے اقدامات اٹھانے لگے۔ جن میں کارکنوں کی اپنے نمائندوں کے ذریعے مشترکہ سودے بازی کے حوالے سے قانون سازی سازی شامل ہے۔ اور ٹریڈ یونین میں شام ہونے اور نہ ہونے کا حق بھی اس قانون سازی کا حصہ ہے۔صنعت ، کام اور کارکنوں کے زمرے میں اور بھی کافی اصلاحات ہیں جن میں کم سے کم تنخواہ کا معیار مقرر کرنا اور بے روزگاری کم کرنے کے لیے ترقیاتی منصوبے شروع کرنے کے اقدامات ہیں۔
اس کے بعد کسانوں کی امداد شروع کر دی گئی، جن میں قرض نا دہندگی ختم کرنے کے لیے قرضے فراہم کرنے والی ایجنسیاں قائم کی گئیں۔ ان اقدامات کے بدلے میں زرعی پیداوار پر کچھ پابندیاں نافذ کی گئیں جس میں فصلوں کی اقسام کی پیداوار کی نگرانی بھی شامل تھی۔ اس میں فصلوں کی خریداری کی حکومتی ضمانتوں کے بھی کچھ اقدامات تھے ۔امریکہ میں ذاتی اور کاروباری معاملات میں حکومتی مداخلت کا رواج نہیں تھا اور آئین بھی کاروباری اور تجارتی آزادیوں کی ضمانت دیتا ہے، اس لیے امریکہ میں کاروبار اور تجارت میں حکومتی مداخلت کے خلاف ایک رویہ امیر کبیر لوگوں میں اور عوام کی بھی اچھی خاصی تعداد میں شروع سے ہی ایک رد عمل موجود تھا ۔
لیکن حالات بہت خراب تھے، اس لیے عوام نے حکومتی امداد کو بہت پسند کیا اور حکومتی پابندیوں کو بھی کافی حد تک قبول کر لیا۔ لیکن امیر کبیر لوگوں کو عوامی تحفظ کے لیے حکومتی اقدامات اچھے نہیں لگے، مجموعی طور پر تو کاروباری اور تجارتی حلقے آزادانہ تجارت کے نظریے کی آڑ میں حکومت کی عوام کے حق میں قانون سازی کےمخالف ہی ہوتے ہیں لیکن جب آزادانہ تجارت عفریت بن جائے اور عوام کو یوں شکار کرنے لگے کہ جمہوریت کا بنیادی وعدہ ہی ایک کھوکھلی سی بات بن جائے تو ایسے مسائل پیدا ہوتے ہیں اور جن کو حکومت ہی سدھار سکتی ہے۔ یہ بات روزویلٹ سمجھ گئے تھے اور انھوں نے اسی بات کے ارد گرد اپنا نیا سودا ترتیب دیا۔جس کے عوام کو فائدے ملنا شروع ہو گئے اور روزویلٹ کی مقبولیت بڑھتی گئی۔
لیکن دوسری طرف قدامت پسند حلقے جو زیادہ تر کاروباریوں کی سہولیات کے لیے متمنی ہوتے ہیں ان کی طرف سے نئے سودے کے عیوب و نقائص پر گفتگو شروع ہو گئی اور روزویلٹ کے نئے سودے کے خلاف مقدمات درج ہونا شروع ہو گئے۔
اب امریکی آئین میں بھی تشریحات کی مختلف جہتوں کی گنجائش موجود ہے۔ اور آئین کی تشریح کرنے والوں کی پسند نا پسند کی عدم موجودی ناممکن ہے کہیں نہ کہیں فیصلوں پر پسند نا پسند اثر انداز تو ہوتی ہے کہ انسان پسند نا پسند اور مفادات کے اس کے دماغ پر اثرات کم تو کر سکتا ہے لیکن بالکل ختم نہیں کر سکتا لیکن ججوں کا یہ فرض ہوتا ہے کہ فیصلوں پر اپنی پسند اور ناپسند کو اثرانداز سے روکنے کی کوشش کریں۔
بہرحال امریکہ کی روزویلٹ کے زمانے کی سپریم کورٹ میں دونوں قسم کے لبرل اور قدامت پسند جج موجود تھے اور ان کے سامنے قانون سازی ریویو کے لیے پیش کی گئی ۔ شروع شروع کے فیصلوں میں تو لبرل اور قدامت پسند کا فرق فیصلوں میں اتنا نمایاں نہیں تھا جیسے صنعتی بحالی کے لیے صنعتوں کی حکومتی قواعد کی پابندی کو لازمی قرار دینے کے خلاف فیصلہ 5/4 فیصلہ تھا جس میں عدالت کی قدامت پسند اور جدت پسند تقسیم اتنی واضح نہیں تھی لیکن فرینکلن روزویلٹ نےاپنی اصلاحات کے خلاف عدالتی فیصلوں کو کچھ اتنا پسند نہ کیا اور اپنی ریڈیو پر گفتگو جسے فائر سائڈ چیٹ کہا جاتا تھا عدالتو ں کو الزام دینے لگے کہ عدالتیں آئین کی کچھ ایسے تعبیر کر رہی ہیں جیسے وہ امریکہ کو بگھی گھوڑے کے زمانے میں دوبارہ دھکیلنا چاہتی ہیں۔
روزویلٹ کو کچھ اندازہ بھی تھا کہ عدالت میں موجود چار جج پئیرس بٹلر، جیمز میکرینالڈ، جارج سدرلینڈ اور ولس فان ڈیوینٹر جنھیں انتظامیہ کی حمایتی پریس قیامت کے چار گھڑ سوار کہا کرتی تھی ان کے نئے سودے کے خلاف ہی فیصلے دیں گے۔نو کی عدالت میں کاسٹنگ ووٹ روبرٹس اووین کا تھا جو صدر ہور کے متعین کردہ جج تھے اور قیامت کے گھڑ سواروں کے ساتھ تھے جس کی وجہ سے عدالت میں ایک قدامت پسند اکثریت بن گئی تھی۔
جب زرعی اصلاحات کے خلاف مقدمہ سپریم کورٹ میں پیش ہوا تو عدالت نے آئین کی تنگ تشریح کو ترجیح دی جس کے مطابق حکومت کو کوئی اختیار نہ تھا کہ وہ پیداوار کے حوالے سے زرعی زمین کے مالکان پر کوئی پابندی لگائے جس کے دلائل آئین میں موجود معاشی آزادیوں سے لیے گئے لیکن اس فیصلے کے خلاف جو اختلافی نوٹ آئے ان میں دلائل لیے گئے کہ عدالت آئینی اداروں میں سے ایک ادارہ ہے اور اس کو آئین کی تعبیر پر اس طرح اجارہ داری قائم کرنے کا کوئی حق نہیں کہ حکومت مشکل میں گھرے لوگوں کی کچھ امداد کرنے کا بنیادی فرض ہی نہ ادا کر پائے۔
اس فیصلے پر بڑی لے دے ہوئی کہ حکومت کو اس فیصلے کی وجہ سے کافی نقصان ہو گیا کہ حکومت نے جو ٹیکس جمع کیے تھے ، وہ اسے لوٹانے پڑے اور ان لوگوں کو جنھوں نے یہ ٹیکس صارفین سے اکٹھے کیے تھے لیکن ایک تکنیکی وجہ کی بنیاد پر صارفین کو ٹیکس لوٹانا ان ٹیکس وصول کرنے والوں کی ذمہ داری نہ تھی۔ ٹیکس جمع کرنے والی کاروباری کمپنیوں کے تو مزے ہو گئے لیکن حکومت اور صارفین کا نقصان ہو گیا ۔
پھر سیکیورٹی ایکسچینچ کمیشن کا معاملہ عدالت کے سامنے آیا کہ کسی جونز نامی شخص نے کمیشن کے سامنے تیل سے ملنے والی رائلٹیز کے بارے میں اپنا بیان کمیشن کے سامنے درج کروایا ۔کمیشن نے اس کے بیان کی سچائی کے بارے میں کچھ تفتیش کرنا چاہی تو جونز نے بیان واپس لینا چاہا۔ عدالت نے کمیشن کی سچائی کی جستجو کو کمیشن کی بے عقلی اور موقع پرستی قرار دیا۔ اور کمیشن کو سٹوئرٹ کے شاہی خاندان کے ایک عقوبت خانے کےمماثل قرار دیا۔ اس فیصلے کے خلاف جو اختلافی نوٹ آیا اس میں اس بات پر اصرار کیا گیا کہ جو کمیشن جو پوچھ گچھ ہی نہ کر سکتا ہو، اس کی عقوبت خانوں میں مشابہت کیسے ڈھونڈی جا سکتی ہے۔
اس کے بعد سپریم کورٹ نے نیویار ک کی ریاست کے خلاف ایک ایسا فیصلہ دیا جو روز ویلٹ کی انتظامیہ کے خلاف براہ راست تو نہ جاتا تھا لیکن نئے سودے کی روح کے خلاف تھا۔ نیویار ک کی ریاست نے کم از کم اجرت کے حوالے سے قانون سازی کی تھی جس کو عدالت نے آزادی اور ملکیت کی آئینی بنیادوں پر مسترد کر دیا کہ کسی ریاست کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ افراد کے مابین معاہدوں میں مداخلت کرے۔
اس کے اختلافی نوٹ میں یہ دلیل دی گئی کہ اجرتوں کے حوالے سے شقاوت معاشرے کی اساسی بنیادوں کو متاثر کرتی ہے کہ جس تنخواہ سے زندگی نہ چلائی جا سکے اس کے نتائج معاشرے اور حکومت کے قیام کے حق میں دلائل کو مجروح کرتے ہیں اور اگر آزادیوں کا اس قدر بے جا استعمال ہونے لگے تو آزادیوں میں حکومتی مداخلتیں ضروری ہو جاتی ہیں۔ علاوہ ازیں اجرت کی کم از کم حد مقرر کرنا ایک عالمی رجحان بن چکا ہے۔ اس کے علاوہ مسائل کی نوعیت تبدیل ہو چکی ہے، جو مسائل کچھ نسلیں پہلے افراد حل کر لیتے تھے ،اب وہ قوم کی ذمہ داری بن چکے ہیں۔
اس فیصلے کے خلاف بھی شدید عوامی رد عمل آیا اور فیصلے کو عوام پر فلاح کے دروازے بند کرنے کی کوشش سمجھا گیا۔ اور سپریم کورٹ کے خلاف بھی عوام میں ایک رنجش سی پیدا ہو گئی کہ حکومت تو عوام کی خیر خواہ ہے لیکن سپریم کورٹ امرا کے مفادات کے تحفظ کے لیے حکومتی خیر خواہی کے رستے بند کرنے کی خواہاں ہے۔
صدر روز ویلٹ کی انتظامیہ نے اس مقام پر سپریم کورٹ سے براہ راست مقابلہ کرنے کی بجائے عوام کو سہولت پہچانے والی مزید قانون سازی کرنا شروع کر دی جس میں چین سٹووروں پر من مانی قیمتیں قائم کرنے کے حوالے سے کچھ پابندیاں ہیں اور اشیا سازوں پر اشیا کی ریٹیل قیمتیں طے کرنے کی ہدایات شامل تھیں۔
اس دوران 1936 کا الیکشن بھی کافی قریب آگیا اور اس وقت تک ریاست ہائے متحدہ میں پیداوار، روزگار اور آمدنی کی صورتحال کافی بہتر ہو گئی جس کا کریڈٹ بجا طور پر حکومت کو دیا گیا اور صدر روز ویلٹ انتخابات پھر جیت گئے۔ لیکن عدالتوں سے ان کی بھی کچھ مخاصمت بن گئی تھی ،اور انھوں نے بھی عدالتوں پر اثر انداز ہونے کے پروگرام ترتیب دے لیے تھے۔ عوام سے شکوے گلے تو وہ ان فیصلوں کے بعد کرتے ہی رہتے تھے کہ عدالت معاملات کو اس جہت پر لے آئی ہے جہاں کوئی بھی حکومت خواہ وہ ریاستی ہو کہ مرکزی کام نہیں کر سکتی۔ اور ان کے حمایتی بھی برملا کہا کرتے تھے کہ پانچ بوڑھے ترقی کی راہ میں کھڑے ہو گئے ہیں ہٹتے ہی نہیں۔
صدر روزویلٹ چپ چاپ تیاری کرتے رہے اور اپنی چال کے بارے میں قوم کو دھوکے میں ہی رکھا۔اور پانچ جنوری 1937 کو اپنے مطالبات کے ذریعے کانگریس کو حیران کردیا۔انھوں نے کانگریس سے مطالبہ کیا کہ انھیں بطور صدر اس بات کا اختیار دیا جائے کہ وہ سپریم کورٹ میں 70 سال(امریکہ میں سپریم کورٹ کے جج تاحیات ہوتے ہیں لیکن وہ اپنی مرضی سے ریٹائر ہو سکتے ہیں) سے زیادہ عمر کے ججوں کے مقابلے میں کم از کم چھ نئے جج متعین کر سکیں اور چھوٹی عدالتوں میں بھی انھیں تقرریوں اور تعیناتیوں کے اختیارات دے دیے جائیں کہ انصاف میں تاخیر کے مسائل حل ہو سکیں۔ اب نئے سودے کے حوالے سے ہر کسی کو صدر فرینکن روزویلٹ کے ارادوں کا علم تھا اور سب کو یہ بھی خبر تھی کہ نئے جج صدر روزویلٹ کو کیوں مطلوب ہیں۔ظاہر ہے وہ ذرا عدالت کو اپنی مرضی کے مطابق کرنا چاہتے تھے۔
عدالت کے لیے بھی صدر روزویلٹ کا یہ مطالبہ کسی جھٹکے سے کم نہ تھا۔ادھر روزویلٹ ان کو عشائیے دے رہے تھے دوسری طرف عدالت کے خلاف سازشوں میں مصروف تھے۔ اور ججوں کے سٹھیا جانے کے حوالے سے لطیف طعنہ بازی بھی کر رہے تھے۔
ججوں نے بھی مسئلے کی سنجیدگی بھانپ لی اور اپنی کارکردگی کے بارے میں کانگریس کو اعتماد میں لینا شروع کر دیا لیکن ہنگامہ کافی شدید برپا ہوا۔ صدر روزویلٹ خاصے مقبول صدر تھے اور ان کی ڈیموکریٹس کی پارٹی کو کانگریس میں بھاری اکثریت حاصل تھی ۔ کانگریس میں اکثریت اور عوامی حمایت کے باعث اس بات کے بہت امکانات کہ صدر روزویلٹ اپنی مرضی کی قانون سازی کروا لیں گے۔
دوسری طرف ججوں کی اور بزرگوں کی حمایت میں بھی گفتگو ہونے لگی۔ کوئی کہتا کانٹ نے 74 سال کی عمر میں اخلاقیات کی مابعدالطبیعات لکھی کہ عمر کا ذہانت اور فطانت سے کیا تعلق۔ گوٹا نے فاوسٹ نامی ڈراما 80 سال کی عمر میں مکمل کیا۔
پھر ججوں کے حمایتیوں نے اس وقت کی دنیا میں شجر ظلمت کے بڑھتے سایوں کی طرف توجہ دلانا شروع کر دی اور روزویلٹ کو سٹالن، ہٹلر اور مسولینی کے سنگ کھڑا کرنا شروع کر دیا۔ کچھ نے روزویلٹ کے ہاتھوں عدالتی آزادی کی موت کے خدشات جگانا شروع کر دیے۔چیف جسٹس چارلز ایون ہیوز نے ڈیموکریٹس پارٹی کے سینیٹرز کو خط لکھنا شروع کر دیے کہ ججز اپنی ذمہ داریاں بخوبی نبھا رہے ہیں اور ججوں کی تعداد میں اضافے کا مطلب کام میں رکاوٹ ہو گا کہ اس طرح سماعت اور گفت شنید کی مقدار بڑھ جائے جس کے نتیجے میں فیصلوں کی تعداد کم ہو گی۔
اس سب سے ہنگامہ بڑھا اور ججوں کی حمایت میں اضافہ بھی ہوا لیکن پھر بھی زیادہ امکانات اسی بات کے تھے کہ روزویلٹ کی مجوزہ قانون سازی کامیابی سے ہم کنار ہو گی کہ عوامی فلاح کے حق میں قانون سازی کے خلاف کھڑا ہونا کانگریس کے ڈیموکریٹس ممبرز کے لیے آسان نہ تھا۔
پھر عدالت کی طرف سے نئے سودے کے حق میں فیصلے آنے شروع ہو گئے، واشنگٹن کی ریاست نے کم از کم اجرت کے حوالے سے جو قوانین بنائے تھے، عدالت نے پانچ اور چار کی نسبت سے سپریم کورٹ نے برقرار رکھے۔سپریم کورٹ نے اسی نسبت سے نیشنل لیبر ایکٹ کے حق میں فیصلہ دے کر کام کاج اور محنت مزدوری کے حوالے سے حکومتی مداخلت کو جائز قرار دیا۔ اس کے علاوہ سماجی تحفظ کے حوالے سے حکومتی قانون سازی کے خلاف بھی فیصلے نہیں سنائے۔
پھر قیامت کے گھڑ سواروں میں سے ایک جج نے ریٹائر منٹ لینے کا فیصلہ بھی کر لیا لیکن نئے سودے کے حوالے سے فیصلوں میں نرمی کو جسٹس اووین روبرٹس کی ذہنی تبدیلی کا نتیجہ سمجھا جاتا ہے۔ اس تبدیلی کی وجوہات کے بارے میں قیاس ہی کیا جا تا ہے لیکن اس کا صیحیح سب کسی کو معلوم نہیں۔ ایک رائے ہے کہ چیف جسٹس ہیوز نے انھیں سمجھایا بجھایا۔ دوسری رائے یہ ہے کہ وہ روزویلٹ کی مقبولیت سے متاثر ہو گئے۔ کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ قانونی کمیونٹی میں مسلسل تنقید نے انھیں حکومت کی طرف مائل کر دیا۔
لیکن ان کے بدل جانے سے روزویلٹ کو کچھ اعتماد ہوا کہ ان کا نیا سودا محفوظ رہے گا۔اور کچھ سینیٹرز نے بھی سوچنا شروع کردیا کہ اب جب کہ عدالت نے کچھ نرمی دکھائی ہے تو عدالتی نظام کو فرد واحد کے لیے کیوں ڈسٹرب کیا جائے۔ امریکہ میں اس وقت اگر سیکس کے بعد دولوگ شادی کر لیں تو اسے شاٹ گن شادی کہتے تھے۔ اس طرح کی باتیں ہونے لگیں کہ شادی تو ہو چکی ،اب دلہا میاں کو گولی مارنے کا کیا فائدہ۔ اور روزویلٹ کی عدالتوں کی آزادی کو مجروح کرتی قانون سازی دفن کردی گئی۔
کچھ اسے روزویلٹ کی جیت کہتے ہیں کہ اگرچہ وہ عدالتوں کو اپنی مرضی کے ججوں سے پیک نہیں کر سکے مگر جس بات کے لیے انھوں نے یہ سازش سوچی یعنی ان کی اصلاحات کا پروگرام، ان کا نیا سودا وہ عدالت کے ہاتھوں قتل ہونے سے بچ گیا۔ کچھ اسے عدالت کی جیت کہتے ہیں کہ عدالت نے بالآخر بدلتے وقت کا ساتھ دے کر اپنی آزادی کا تحفظ کر لیا۔ کچھ اسے کانگریس کی بھی جیت کہتے ہیں کہ انھوں نے ایک مقبول صدر کی رضا کے لیے اداراتی نظام کو برباد نہ کیا۔ بہرحال، یہ جھگڑا جمہوریت میں عوامی فلاح کے ساتھ ساتھ اداروں کی بقا کی ایک احسن مثال ہے۔
اور اداروں کی اس آویزش میں جمہوریت کی کامیابی کے بعد صرروز ویلٹ کی قیادت میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ نے شجر ظلمت کے خلاف ایک خوفناک جنگ لڑی جس کے نتیجے میں شجرظلمت(کاملیت پرستی) کی جرمن، اٹالین اور جاپانی شکلوں اور ان شکلوں کےحمایتیوں کو شکست ہوئی۔اور دنیا میں امریکہ کی ایک عالمی طاقت کے طور پر حیثیت مستحکم ہو گئی۔
حوالہ جات
ڈیکسٹر پرکنز، دی نیو ایج آف فرینکلن روزویلٹ ، 1957
لیوشٹن بورگ،وین فرینکلن روز ویلٹ کلیشڈ ود سپریم کورٹ – اینڈ لاسٹ، سمتھسونین میگزین، مئی 2005،