فیمنزم یا عورتوں کی تحریک کیا ہے؟
(فہمیدہ ریاض)
فیمنزم ایک ایسی اصطلاح ہے جس کامطلب لوگ اپنی اپنی طرح سمجھتے رہتے ہیں۔مگر میں نے جب بھی اسے استعمال کیا ہے،یا کہا ہے کہ میں ’’ فیمنسٹ ‘‘ ہوں تو ہر بار میرے ذہن میں اس کا یہی مطلب رہا ہے کہ عورت کے مکمل انسانی وجود کو تسلیم کیا جائے اور اس کے کسی بھی پہلو کو کچل کر نابود کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔
’’مکمل انسانی وجود ‘‘ سے ہماری کیا مراد ہے ؟
ایک سطح پر اس میں عورت کے وجود کی ’’لامحدودیت ‘‘ کا پہلو پنہاں ہے۔ انسان کے امکانات کسی خط فاصل کی قید میں نہیں آتے۔عورت ’’انسان ‘‘ کا نسوانی روپ ہے۔اس کے امکانات بھی لامحدود ہیں۔
مگر دوسری سطح پر اس کے مضمرات ان تمام حقوق سے آملتے ہیں جو کسی بھی معاشرے میں،کوئی بھی مرد اپنے لیے روا گردانتا ہے۔اس طرح ادبی اصطلاح میں ظاہر کیے ہوئے اس خیال کہ ’’عور ت کے انسانی وجود کو تسلیم کیا جائے‘‘ کا ناطہ براہ راست اس بات سے آملتا ہے کہ معاشرہ اس سے کیا توقعات وابستہ کرتا ہے اور کیا نہیں کرتا۔کیا معاشرہ :
۱۔ اسے ملکیت کا حق دیتا ہے ؟
۲۔ کیا اسے اپنی روزی کمانے کے قابل سمجھتا ہے ؟
۳۔ کیا اس کی محنت کی قدر کرتا ہے اور اسے اجرت کے قابل سمجھتا ہے ؟
۴۔ کیا اسے ذہانت،تدبر،دور اندیشی اور دوسری انسانی صلاحیتوں سے بہرہ ور تسلیم کرتا ہے ؟
جب معاشرہ عورت کی عقل و دانش کی نفی کرتا ہے تو اسے فیصلہ سازی میں شامل نہیں کرتا،اسے اختیارات نہیں دیتا۔ایسے معاشرے میں عورت کی حیثیت بھیڑ بکریوں اور گایوں کی ہوتی ہے جن کو انسان کچھ فائدے اٹھانے کے لیے پالتا ضرور ہے لیکن انہیں وہ اپنا جیسا نہ سمجھ سکتا ہے اور نہ ان سے برابری کا سلوک کر سکتا ہے۔
آج جب میں دنیا بھر کے مسلمان معاشروں میں عورت کی نہایت پست حیثیت کا ذکر دن رات سنتی ہوں تو ذہن بار بار سوال کرتا ہے کہ آخر پھر ہم اپنے علم و شعور اور اختیارات کے ساتھ کیوں کر وجود میں آگئیں ؟
نہیں نہیں۔یہ تصویر ہرگز اتنی تاریک نہیں ہے کہ جتنی آج بتا ئی جارہی ہے۔ہم تاریخ کے تسلسل کا ایک حصہ ہیں۔برصغیر میں مسلمان معاشرے کی تاریخ ہمیں ہرگز یہ نہیں بتاتی کہ ہمارے اجداد عورت کے مکمل انسانی وجود کو تسلیم نہیں کرتے تھے۔صدیوں پہلے بھی وہ عورت کے شعور اس کی فہم و ذکاوت اور اس کی صلاحیت پر یقین کرتے تھے اور اعلیٰ سے اعلیٰ اختیارات مکمل اعتماد کے ساتھ اس کے سپرد کر سکتے تھے۔
ہم کون ہیں اور کیسے ہیں ؟اس سوال کا جواب بیتی صدیوں میں پوشیدہ ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق برصغیر ہندو پاک کے مسلمانوں کی بھاری اکثریت ہندی نژاد ہے جس نے اسلام قبول کیا۔(پنجاب جہاں باہر سے آنے والوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے وہاں بھی وہ آبادی کے ۱۶ فی صد سے زیادہ نہیں ) ہندوستان کی روایت اور صدیوں پرانے طور طریقے ہندوستانی مسلمانوں میں رچے بسے ہیں۔ہندوستان کے قدیم ترین تمدن اور تہذیب سے لے کر آج تک اس خطے میں یوں توعورت دیویوں کے روپ میں کثرت سے نظر آتی ہے لیکن اس کی سماجی حیثیت مرد کے زیر نگیں ہے۔بیٹی کی حیثیت باپ کی ملکیت کی ہے جس کو وہ شوہر کو دان کرتا ہے (کنیا دان )، پھر وہ شوہر کی ملکیت ہے جسے وہ جوئے میں ہار بھی سکتا ہے (جیسے درو پدی کو جوئے میں ہارا گیا تھا )۔ اس کی زندگی کی سب سے بڑی معراج ماں بننا ہے۔اگر بیٹا پیدا نہ ہو تو عورت منحوس ہے۔ایام حیض کے دوران وہ اس قدر منحوس ہے کہ اس کا سایہ بھی کسی پاک شے پر نہیں پڑنا چاہیے۔بیوہ کے لیے بہتر تو یہ ہی ہے کہ وہ شوہر کے ساتھ جل مرے لیکن اگر وہ زندہ بچ جائے تو دوسری شادی کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔اس تہذیب میں باپ کی موت کے بعد بیٹیوں کو اس کی املاک کا کوئی حصہ نہیں ملتا تھا۔
یہ ہیں وہ بنیادی پتھر جو برصغیر کے باشندوں کے شعور اور تحت الشعور کی بنیاد میں نصب ہیں۔
لیکن اس بنیاد پر وسط ایشائی اور عرب رسوم اور رواج اور اسلام کی عمارت بھی کھڑی ہے۔ یہ دونوں ہی عورت کے حق میں بہتر ہیں۔( اس فرق سے کارل مارکس کے اس نظریہ کے درست ہونے کے اشارے ملتے ہیں کہ عورت کی کمتر حیثیت کا گہر اتعلق زرعی دور کے آغاز اور باغ،کھیت وغیرہ کے ذاتی ملکیت ہونے سے ہے۔ ہندوستان کی نہایت زرخیز زمین پر یہ زرعی دور ہزاروں برس پرانا ہے )۔
گو یہ سچ ہے کہ صدیوں سے ملک کی اکثریتی آبادی،جودور دراز کے گاؤں،کوہستانوں اور صحراؤں میں آباد ہے،ہنوز از کار رفتہ رسم و رواج پر ہی کار بند ہے جسے وہ کبھی ’’دھرم ‘‘ کا نام دیتی تھی اور قبول اسلام کے بعد لا علمی میں اسے اسلام کے مطابق بھی سمجھنے لگی ہے۔لیکن اس صحرائے بے کنار میں وقت کے ہاتھ نے ایسے شجر بھی لگادئیے ہیں جن کے سائے اور جن کے ثمر سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔
حقیقت یہ ہے کہ ایک ہزار برس سے برصغیر میں قابل ذکر شہری آبادیاں موجود ہیں۔ مسلمانوں کے دور میں ان آبادیوں میں مسلمان حاکم (گورنر وغیرہ ) ان کے وزراء اور مشیر اور ان سے منسلک خوشحال طبقات شامل تھے۔اس کے بعد وہ طبقہ آتا تھا جسے ہم تعلیم یافتہ ایک حدتک کھاتا پیتا اور خود مختار طبقہ اشرافیہ کہہ سکتے ہیں۔
یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ ہمار امقصد برصغیر کے مسلمان معاشرے میں عورت کی کمتر حیثیت کی مکمل نفی نہیں ہے۔ عورت پر کمتر حیثیت پوری دنیا میں تھوپی گئی اور برصغیر کے مسلم معاشرہ کو بھی اس میں استثنیٰ نہیں ہے۔ جس طرح دوسرے سماجوں میں اس ناانصافی کے خلاف ردعمل ہوا ہے اسی طرح برصغیر کے مسلم معاشرے میں عورت کے مکمل انسانی وجود کو تسلیم کرنے کے روشن شواہد پائے جاتے ہیں۔یہ نشانیاں ہمارے اجداد کا ورثہ ہیں اور ہمارے شعور میں اس طرح گہری پیوست ہیں کہ مثال کے طور پر آج برصغیر میں کوئی تعلیم یافتہ مسلمان مرد یا عورت نہ ہوں گے جو ’’رضیہ سلطانہ ‘‘ کا نام نہ جانتے ہوں۔
برصغیر میں مسلمانوں کی آمد کے ساتھ اس دور کا آغاز ہو جاتا ہے جو اگر حقیقی نہیں تومعنوی لحاظ سے ہمارے اجداد اعلیٰ کا دور تھا۔ان کے مثبت عمل اور فکر کے ہم وراث ہیں اور اس پر نازاں بھی ہیں۔ان کے اقوال و کردار ہماری نفسیات کا اہم حصہ ہیں۔
یہ ۱۲۱۳ء کی بات ہے جب دہلی کے سلطان التمش نے تین بیٹوں کے موجود ہوتے ہوئے اپنی غیر شادی شدہ جواں سال بیٹی رضیہ کو سلطنت دہلی کا سلطان نامزد کر دیا تھا۔ا س کی وجہ اس نے یہ بتائی تھی کہ اس کے بیٹے نالائق ہیں اور امور سلطنت سنبھالنے کے اہل نہیں ہیں جب کہ رضیہ اعلیٰ تعلیم سے بہرہ ور ہے۔سلطنت کے امور اورفن حرب میں طاق ہے اور منصف مزاج ہے۔
رضیہ کا عورت ہونا اس اہم فیصلے میں حائل نہ ہو ا تھا۔ہندوستان کے نامور ہم عصر مؤرخ جناب پی۔این۔ترپاٹھی نے اپنی کتاب’’ہندوستان میں مسلم خواتین کا رتبہ ‘‘ (انگریزی )میں لکھا :
’’ دہلی کے سلطان کی حیثیت سے ایک جواں سال عورت رضیہ کی نامزدگی سے تیرھویں صدی عیسوی میں ترکوں کی فکر کی تازگی او رقوت کی نشاندہی ہوتی ہے۔‘‘
یہ بات قابل غور ہے کہ رضیہ کی وراثت پر التمش کے وزراء نے اتفاق کیا تھا اور اس کے دربارسے منسلک علمائے دین اور قاضیوں نے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیاتھا۔
برصغیر میں مسلمانوں کی تہذیب مغلیہ دور میں اپنے عروج تک پہنچی تھی۔اس سلطنت کے بانی بابر کی تاج پوشی ان کے آبائی وطن فرغانہ میں اس وقت ہوئی تھی جب کہ بابر صرف گیارہ برس کا تھا۔اس کے تمام امور کا انتظام بابر کی نانی احسان دولت بیگم کرتی تھیں۔بابر کی تاج پوشی کے چند ماہ بعد امراء میں بغاوت پھوٹ نکلی تھی۔اس ناز ک وقت میں احسان بیگم آخری وقت تک اپنے نواسے کی مشیر رہیں۔بابر نے ان کے لیے لکھا۔
’’ میری نانی بے مثال شخصیت تھیں۔وہ اتنی دانش مند اور دور اندیش تھیں کہ خاندان بھر میں ان کا ثانی نہ تھا۔میرے زیادہ تر معاملات ان کے مشورے سے ہی طے ہوتے ہیں۔(تزک بابری )
احسا ن دولت بیگم کی وفات کے بعد مشاورت اور رہنمائی کا یہ کردار مغل بادشاہ ہمایوں کی بڑی بہن خانزادہ بیگم کو ملا جنہوں نے اس خانوادے میں اختلاف طے کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
تاریخ کے اوراق پر سرسری نظر ڈالنے سے بھی بعض بہت دلچسپ اور فکر انگیز حقائق کا علم ہوتا ہے۔مثلاً ہمیں معلوم ہوتا کہ شہنشاہ اکبر نے ۱۵۸۱ء میں اپنے خاندان کی ایک خاتون بدر النساء بیگم کو کابل کا گورنر (والی و حاکم ) مقررکیا تھا۔یہ ذکر بھی ملتا ہے کہ اس دور میں کابل سے جاری ہونے والے تمام فرامین پر بخت النساء کی مہر اور دستخط ہوتے تھے۔
اکبر ہی کے دور میں ایک خاتون جان بیگم کو تفسیر قرآن لکھنے پر پانچ ہزار دینار شہنشاہ ہندوستان کی جانب سے انعام میں دئیے گئے۔( منہاج السراج،طبقات ناصری )
زیادہ تر معاشروں میں یہ رواج نہ جانے کب سے چلا آرہا ہے کہ عورتوں کو مذہبی معاملات سے دوررکھا جاتا ہے۔ مذہبی کتابوں،توریت،انجیل وغیرہ پر بتصرہ کرنے کی یا تفسیر لکھنے کی اجازت عورتوں کو نہیں ہوتی۔اس پس منظر میں یہ حقیقت کہ شہنشاہ اکبر نے ایک خاتون کو تفسیر قرآن لکھنے پر انعام و اکرام سے نوازا،بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ غیر مسلم معاشروں کے برعکس مغلیہ دور میں دینی صحیفوں کی تفسیر کو خواتین کی دسترس سے ماوراء تصور نہیں کیا جاتا تھا۔
شہنشاہ اکبر کی ملکہ نور جہاں کا نام برصغیر کے باسیوں کے لیے اجنبی نہیں۔وہ اپنی پر وقار اور دلکش شخصیت کے باعث شاعروں کا موضوع سخن بھی رہی ہیں۔تاریخی شواہد بتاتے ہیں کہ وہ جہانگیر کے ساتھ باضابطہ فرمانروائی میں شریک تھیں۔شاہی فرامین پرجہانگیر کے ساتھ نور جہاں کی مہر او ردستخط بھی ثبت ہوتے تھے۔جہانگیر کے زمانے کے چاندی اور سونے کے سکوں پر نورجہاں کانام بھی کندہ کیاجاتا تھا۔اس دور کے ایک بڑے سکے پر یہ شعر کندہ ہے۔
بحکم شاہ جہانگیر یافت صد زیور
بنام نور جہاں بادشاہ بیگم ، زر
مغل شہنشاہوں کے کوائف کا مطالعہ کرنے سے ایسی کئی خواتین کے نام سامنے آتے ہیں جن کو باغات،زمینیں،سرائیں اور جاگیریں،خود ان کے نام سے دی گئیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مغل دور میں عورت کی ذاتی ملکیت کا تصور راسخ تھا۔
بابر کی دختر اور ہمایوں کی بہن گلبدن بیگم کا تحریر کردہ ہمایوں نامہ اس دور میں مغل خواتین کی علوم و فنون پردسترس کا ثبوت ہے۔ شاہ جہاں اور ملکہ ممتاز بیگم کی دختر جہاں آرا ء کا علم و فضل ایک عالم میں شہرت رکھتا ہے۔ان کی تحریر کردہ چشتی سلسلے کے بزرگوں کا تذکرہ ’’مونس الاروح ‘‘ آج بھی محققین کے لیے ایک نہایت کار آمد کتاب ہے۔
مغل شہزادیوں میں زیب النساء مخفی ایک نامور اور صاحب دیوان شاعرہ گزری ہیں۔ ان کی فارسی غزلیات اعلیٰ پائے کی تھیں۔آج مغرب کی درس گاہوں میں ان کے کلام کا انگریزی ترجمہ کیاجا رہا ہے۔
اس طرح دکن کی چاند بی بی ہمارے شعور کا حصہ ہیں جو بیجا پورکی سلطان تھیں اور جنہوں نے مغلوں کی یلغار کے خلاف بے مثال شجاعت سے اپنی سلطنت کادفاع کیا تھا۔
انگلش فیکٹری ریکارڈ (۲۳۔۱۶۱۸) میں شاہی کنبے کی ان خواتین کا تذکرہ درج ہے جن کے ذاتی بحری بیڑے سورت اور بحیرہ احمر کی بندرگاہوں کے درمیان تجارت میں استعمال ہوتے تھے۔یہ تجارت خواتین خود کرتی تھیں (انڈیا آفس لائبریری)
وہ تمام نام جن کا ذکر کیا گیا ہے برصغیر کے مسلمانوں کی اجتماعی یادداشت میں موجود ہیں۔یہاں صرف اس یاد کو ایک نئے سیاق و سباق میں اجاگر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
یہاں یہ سوال اٹھایا جا سکتا ہے کہ آیا ہم شاہی خاندانوں کی خواتین کا ذکرکرکے ہندوستانی مسلم معاشرے میں عورت کی حیثیت کا تعین کر سکتے ہیں ؟
ہمارا خیال ہے کہ یہ شخصیات،ان کے کارنامے اور ان کی حیثیت چند باتوں کے تعین میںیقیناًمدد گار ہو سکتی ہیں۔
شاہی خاندان اور حاکم جن رسوم و رواج پر کاربند ہوتے ہیں، مندرجہ بالا زیریں طبقے اپنی حیثیت کے مطابق انھیں بخوشی اپناتے ہیں۔ہم اس بات پر اعتماد کے ساتھ یقین کر سکتے ہیں کہ ایک ہزار برس سے برصغیر کے مسلمانوں کے ان زیریں طبقات میں عورت کی حیثیت اس رتبے اور قبولیت کا عکس رہی ہے جو شاہی اور حاکم طبقات میں مروج تھی۔اس کی ایک مثال خواتین کی تعلیم ہے جس کے زیادہ مستند تاریخی شواہد ملتے ہیں کہ شہری آبادی میں شرفاء اپنی بیٹی کو خانگی مدرسوں کے ذریعے تعلیم دلواتے تھے۔ہمیں یہ بھی اشارے ملتے ہیں کہ ۱۸۵۷ء میں جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد یہ ادارے ادبار زمانہ کا شکار ہو کر منتشر ہوتے چلے گئے۔
اس دور میں ہمیں عوام الناس میں بھی ایسی خواتین نظر آتی ہیں جنہوں نے شاعری میں نام پیدا کیا۔ سترھویں صدی کی تاریخ میں ایک خاتون ’’تاج ‘‘ کا نام ملتا ہے جو قرولی کے گاؤں میں رہتی تھیں اور برج بھاشا میں گیت لکھتی تھیں۔ جواردو اور ہندی دونوں زبانوں کا منبع ہے۔اس د ور میں مقبول صنف سخن کے مطابق وہ ’’کرشنا‘‘ کی محبت کے گیت کہتی تھیں۔مغلیہ دور کی ایک اور شاعرہ شیخ رنگریز ن کا تذکرہ بھی موجود ہے جو اس دور کے آخری زمانوں کے مغل حکمراں شاہ معظم کے دربار سے منسلک بتائی گئی ہیں۔شیخ رنگریزن شادی شدہ تھیں اور ان کے شوہر کا نام ’’عالم ‘‘ تھا۔ شیخ رنگریزن شرنگاررس(عشقیہ شاعری) لکھتی تھیں۔ انہوں نے اپنے شوہر کو’’کرشن ‘‘ تصور کیا تھا۔ان کے جو گیت لکھ لئے گئے وہ آج بھی ’’عالم کیلی ‘‘ کے نام سے گیتوں کے مجموعے کی صورت میں موجود ہیں۔تاج اور شیخ رنگریزن دونوں کاکلام ہندی ادب کے پس منظر کے طور پر ہندوستان کی درسگاہوں کے نصاب میں شامل ہے۔
یہ تاریخی عمل کا ایک روشن پہلو ہے کہ صدیاں گزرنے کے ساتھ ساتھ،خلق خدا کے ساتھ انصاف کرنے کا تصور زیادہ اجاگر ہوتا گیا اور اسلامی انصاف پسندی نے اور پھر برطانوی’’قانون کی حکمرانی ‘‘ کے تصور نے برصغیر کے مسلمانوں کے شعور میں گہری جڑیں پکڑ لیں۔( ان میں سے ہر دو نے برصغیر کی غیر مسلم آبادی کو بھی بہت متاثر کیا ہے ۔۹
آج پاکستانی عورت اس وسیع و عمیق پس منظر کے سامنے کھڑی اپنے حال اور مستقبل کے بارے میں غور و فکر کر رہی ہے۔
مغل دور کے اختتام کے ساتھ برطانوی حکومت نے ہندوستان پرمکمل تسلط قائم کر لیا۔ ۱۸۵۷ء کی ناکام جنگ آزادی کے بعد مسلم معاشرہ خصوصاً بڑی شکست و ریخت کا شکار ہو گیا۔ پھانسیاں،توپ دم ہونا،تہ تیغ کیا جانا ہزاروں مسلمانوں کا مقدر بنا۔مسلم معاشرہ اپنے اندر دم پخت ساہونے لگا۔
لیکن تابہ کے؟ کیا ترک زادے ؟ کیا نومسلمان او رکیا مخلوط النسل۔ہندوستانی مسلمان بڑی جاندار اور متحرک اکائی رہے ہیں۔ وہ پھر پر پرزے نکالنے لگے۔اردو ادب کی اولین کتابوں میں مسلمان عورتوں کے لیے مسلمان دانشوروں کے خیالات کی بہت معنی خیز جھلکیاں نظر آتی ہیں،مثلاً یہ کہ مسلمان غدر سے بہ مشکل جانبر ہوئے ہو ں گے کہ ’’برقعے ‘‘ پر بحث شروع ہو گئی۔
امراؤ جان ادا والے مرزا رسوا کو ہی لیجئے۔ انہوں نے اپنے ناول ’’شریف زادہ ‘‘ میں برقعے پرزور دار بحث کی ہے۔ناول میں اس بحث کو انہوں نے دو دوستوں کی خط و کتابت کے ذریعے پیش کیا ہے۔اس سے یہ اندازہ تو لگ ہی جاتا ہے کہ اٹھارویں صدی کے اختتام اور انیسویں صدی کے آغاز ہی سے ہندوستانی مسلم معاشرے میں پردے کے فوائد و نقصانات پربحث شروع ہو گئی تھی۔ناول کا ہیرو بہر حال پردے کے حق میں رائے دیتا ہے۔لیکن اس کے لئے وہ کوئی مذہبی یا اخلاقی وجوہات نہیں بتاتا۔ اس کی دی ہوئی وجوہات سماجی ہیں جو وقت کے ساتھ تبدیل ہو سکتی ہیں بلکہ اس کے لب و لہجہ سے آشکار ہے کہ ان حالات کو بدلنا چاہیے۔ہیرو خط میں لکھتا ہے۔
’’………… جہاں کا میں بھی رہنے والا ہوں یعنی ہندوستان جنت نشان کا،تو عورتوں کا پردہ تو ایک طرف،میری رائے تو یہ ہے کہ اگر اخلاق کی درستی منظور ہے تو مرد بھی پردے میں بیٹھیں۔ پہلے اپنے ملک کے اخلاق کو اس درجے پرلائیے کہ لوگ عفت کے مفہوم کی قدر کریں۔ انگریز کی مثال سامنے نہ لائیے گا۔وہ صاحب حکومت ہیں۔سب ان کا رعب مانتے ہیں۔ان کی نسواں جب بازار میں بلا نقاب نکلتی ہیں تو کوئی مزاحم نہیں ہوتا۔ہماری عورتیں اگر نقاب پوش بھی نکلیں تو قیامت ہو جائے۔مجھے شہر کے گلی کوچوں میں خدا سے ڈرنے والے لوگ کہیں نظر نہیںآتے۔‘‘ (شریف زادہ : اشاعت ۱۸۹۰ء )
اس پیرا گراف سے انیسویں صدی کے اختتام پر مسلمان مہذب طبقے کے مردوں کے خیالات اور کش مکش کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔وہ بے پردہ انگریز عورتوں کو قابل مذمت ہرگز نہیں سمجھتے تھے لیکن وہ محسوس کرتے تھے کہ فی الوقت وہ صاحب حکومت نہیں ہیں،وہ محکوم ہیں اور ان کی عورتیں بھی محکوم ہیں۔گلی کوچوں میں ان کا تحفظ یقینی نہیں ہو گا۔( ممکن ہے مسلمانوں کی موجودہ تنگ نظری کا باعث بھی یہ ہو کہ فی الوقت مسلمان دنیا کی ایک غریب اور پس ماندہ اکائی ہیں۔وہ نہ صحیح معنوں میں صاحب حکومت ہیں اور نہ خود مختار ہیں۔ہو سکتاہے اسی سبب وہ اپنی عورتوں کو اور بھی کچلنا اور دبانا چاہتے ہوں !)۔
اردو ادب کی اولین تحریروں میں ’’ فسانہ آزاد ‘‘ کا مقام نہایت مضبوط اور مؤقر مانا گیا ہے جس کا یہ ناول ہر طرح سے مستحق بھی ہے۔فسانہ آزاد نہایت دلچسپ واقعات کا مجموعہ ہے جس میں بے شماور کردار اپنے رنگ جماتے ہیں۔ان میں عورتوں کے بھی کردار شامل ہیں۔اس فسانے میں عورتیں کیا سوچتی ہیں اور کیا کہتی ہیں،بڑی حد تک اس وقت کے مسلم معاشرے کی نمائندگی کرتا ہے۔ہو سکتا ہے کہ بعض لوگ اعتراض کریں کہ فسانہ آزاد کے مصنف،پنڈت رتن ناتھ سرشار ہندو تھے۔ان کے لکھے کو ہم کیوں کر مسلمان معاشرے کی درست عکاسی سمجھ سکتے ہیں۔لیکن یہ بات قابل غور ہے کہ فسانہ آزاد جو بعد میں کتابی صورت میں شائع ہوا ۱۸۷۸ء سے ۱۸۷۹ء تک اردو کے ایک اخبار ’’اودھ پنچ‘‘ میں قسط وار شائع ہوتا رہا تھا۔اگر ناول میں مسلم معاشرے کی غلط عکاسی ہوتی تو اس زمانے کے مسلمان قارئین اس پر یقیناًاعتراض یا احتجاج کرتے لیکن ایسی کوئی بات ریکارڈ پر نہیں ہے۔اس کے برعکس فسانہ آزاد کو اپنے وقت کے مسلم معاشرے،خصوصاً لکھنوئی بودوباش کا بہترین مرقع تسلیم کیا گیا ہے۔
فسانہ آزاد کے کرداروں میں ہمیں جو مسلمان عورتیں نظر آتی ہیں وہ اس وقت کے مسلمان معاشرے اور اس میں رواں خیالات کی ترجمانی کرتی ہیں۔
سو دیکھئے کہ اس قصے میں میاںآزاد جن پہلی خاتون کے عشق میں مبتلا ہوتے ہیں وہ ہی فیمنسٹ ہیں بلکہ ان کی والدہ بھی فیمنسٹ ہیں۔
میاں آزاد ناول کی ہیروئن (یا قصہ اول کی ہیروئن) حسن آراء سے جب ملتے ہیں تو وہ اخبار پڑھ رہی ہوتی ہیں۔ اپنی والدہ کے بارے میں وہ آزاد سے کہتی ہے۔
’’اماں کہتی ہیں،جو شریف زادہ تم کو پسند ہو اسی کے ساتھ نکاح کر دوں گی۔مگر پڑھا لکھا ہو،اعلیٰ خاندان ہو …………. گو اس بات پر لوگ ہم پر ہنسیں گے مگر تم کسی سے ذکر نہ کرنا۔‘‘
اس کے بعد وہ آزاد کو شام کو بجرے کی سیر کی دعوت دیتی ہے۔
حسن آراء مدرسہ نسواں قائم کرنا چاہتی ہے۔ اس کے الفاظ میں :
’’ذکور ہمیں کس قدر برا سمجھتے ہیں اور کس قدر حقارت سے دیکھتے ہیں۔لیکن یہ قصور مردوں کا ہے جو ہمیں تعلیم نہیں دینا چاہتے ………(عورتیں ) اگر پڑھی لکھی ہوں تو مکالمہ کر کے ثابت کر دیں کہ عورتیں زیادہ خوش وضع اور دانش مند ہیں۔‘‘
حسن آرا کی بہن سپہر آراء اور ان کی والدہ ’’بیگم ‘‘ اس قصہ اول میں مستقل اسی طرح کی باتیں کرتی رہتی ہیں،بلکہ ایک جگہ تو ڈائریکٹر مدارس بنگال کی رپورٹ کا حوالہ بھی دیتی ہیں اور کہتی ہیں۔
’’اوائل عمر میں جب لڑکے اور لڑکیاں ساتھ کھیلتے ہیں تو ان کی ذکاوت اور ذہانت میں فرق نہیں معلوم ہوتا اور اگر محسوس بھی ہوتا ہے تو مفید بہ حق نسواں۔‘‘
یہ کردار اس امر کی عکاسی ہیں کہ اس دور میں مسلمانوں کے طبقہ اشرافیہ میں یہ خیالات عام تھے اور ان پر گفتگو کی جاتی تھی۔
میرے خیال میں فسانہ آزاد کا ذکر ’’اللہ رکھی ‘‘ کے بغیر ہمیشہ نامکمل رہے گا جن کو آزاد اپنے دام عشق میں گرفتار کرتے ہیں اورکچھ دنوں بعد بھول بھال جاتے ہیں۔لہٰذا وہ ایسی عورت ہے جن کے ساتھ ’’بے وفائی ‘‘ کی گئی۔
جس زمانے میںیہ ناول لکھی گئی، یعنی انیسویں صدی کے اختتام کے قریب، اس دور میں انگریزی ادب میں بھی بے وفائی کا شکار عورتیں عام مل جاتی تھیں۔وہ انگریزی ناولیں (جن کو ’’رومانس ‘‘ کہا جاتا تھا ) ایسے کئی نسوانی کردار پیش کرتی تھیں جن کو بے وفا مردوں نے عشق کا فریب دیا، ان کا گوہر عصمت بھی غالباً لوٹ لیا اور پھر انہیں چھوڑ کر غائب ہو گئے، یا انہیں اپنی بیوی بنانے سے انکار کر دیا۔ ان ناولوں میں یہ دکھیاری مصیبت زدہ عورتیں خاموشی سے آنسو بہاتی تھیں اور محنت مزدوری کر کے گزارہ کرنے لگتی تھیں۔ ( اکثر کے لیے لکھا جاتا تھا کہ وہ دھوبن بن گئیں۔ یہ رویہ اتنا عام تھا کہ ان رومانسوں میں کسی دوشیزہ کا کپڑے دھونے کے پیشے سے منسلک ہونا اور بے وفائی کا شکار ہونا سمجھئے کہ ایک ہی بات تھی )۔
لیکن ہماری ہندوستانی مسلمان بھٹیارن اللہ رکھی کو دیکھئے۔جب میاں آزاد نے ان سے شادی کرنے میں ہچر مچر کی تو وہ کیا کہہ رہی ہیں۔ وہ بولیں۔
’’کل ہی نالش داغ دوں گی۔تم نے کتنوں کے سامنے اقرار کیا ہے۔‘‘
اللہ رکھی آنسو بہانے میں ذرا بھی وقت ضائع نہیں کرتیں۔ وہ کسی نہ کسی طرح، ایک پُرصعوبت سفر طے کر کے لکھنو پہنچتی ہیں او ر وکیلوں سے مشورہ شروع کر دیتی ہیں۔یہاں سر شار نے شہری وکیلوں کے رویے کی حقیقت پسندانہ عکاسی کی ہے، جو ایک تنہا دیہاتی عورت کا مذاق بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔لیکن ڈھونڈنے والے کو تو خدا بھی مل جاتا ہے۔ اللہ رکھی کو بھی ایک ایسا وکیل مل جاتا ہے جو میاں آزاد پرنالش ٹھونک دیتا ہے۔ اللہ رکھی ان سے دعوے میں لکھواتی ہیں۔
’’ اس رئیس نے مجھے شادی کا پیغام دیااورجب میں نے اقرار کیاتو وہ مکر گیا۔‘‘
وکیل دعوے میں لکھتا ہے۔
’’اس انکار سے میری مدعیہ کا دو ہزار سات سو اکتیس روپیہ بارہ آنہ پانچ پائی کانقصان ہوا۔‘‘
’’ مدعیہ دعویٰ خواہ ہے کہ مدعا علیہ قرق کر لیا جاوے او رمدعیہ کے ساتھ بیاہ دیا جائے۔‘‘
( شاباش اللہ رکھی ! یہ ہوئی ناں بات )
کیا ہندوستانی مسلمان محنت کش طبقے میں اللہ رکھی جیسی کوئی دوسری عورت حقیقت میں وجود نہ رکھتی ہوگی ؟ ایسا ہرگز بعید از قیاس نہیں۔ یقیناًمزدور پیشہ عورتوں میں ان گنت اللہ رکھیاں کل بھی تھیں اورآج بھی ہیں۔
ناول میں جو دلچسپ واقعہ درج ہے وہ مسلمان ہندوستانی عورت کے شعور میں رچے اس علم کی نشاندہی بھی کرتا ہے کہ شادی بیاہ اور وعدے وعید صرف عشق و محبت کا نہیں بلکہ روپے پیسے کے اخراجات اور نقصان و نفع کا بھی معاملہ ہے۔یہ ایسی بات ہے کہ جس کے اگر گواہ موجود ہوں (تم نے کتنوں کے سامنے اقرار کیا تھا ) تو اسے عدالت میں لایا جاسکتا ہے اور داد رسی متوقع ہے۔
اردو کے ابتدائی ناولوں میں ڈپٹی نذیر احمد ’’مراۃ العروس‘‘ سے ایسے وابستہ سمجھے گئے کہ ان کی دوسری ناولوں کی طرف لوگوں کی توجہ کم ہی جاتی ہے۔ ( محترم بزرگ ! آپ کو عورتوں نے از سر نو دریافت کیا ہے !) ان کی ایک ناول ’’فسانہ مبتلا‘‘ کثرت ازدواج کے خلاف لکھی گئی تھی۔اس سے پتہ چلتا ہے کہ ۱۸۸۵ء تک مسلمانوں کے مہذب طبقات میں کثرت ازدواج کے خلاف ایک لہر سی چل نکلی تھی اور اس سلسلے میں بحث و دلائل عام تھے، اسی ناول میں دو کردار مبتلا اور عارف،اس موضوع پربحث کرتے ہیں تو عارف اپنے مؤقف کی حمایت میں ایسے ریڈیکل خیالات پیش کرتا ہے جو آج ممکن نہ ہو سکیں۔ وہ کہتا ہے کہ عرب معاشرہ میں نکاح ہندوستان کی طرح مرنے بھرنے کا معاہدہ تھا ہی نہیں۔
’’ذرا سی نا موافقت ہوئی اور مرد نے طلاق دے دی یا عورت نے خلع کر لیا۔تھوڑے تھوڑے مہر ہوتے تھے۔ ان کو معاہدہ نکاح کا فسخ کرنا کوئی غیر معمولی بات تھی نہ طلاق کا عیب تھا اور نہ دوسرے نکاح سے عار …….. تو ان کی آزادی حق بجانب،ہم کیا ان کی ریس کر سکتے ہیں۔‘‘
’’تعداد نکاح کی سند توقرآن کی وہی ایک مشہور آیت ہے کہ ’’اگر تم کو یہ ڈر ہو کہ یتیموں کے حق میں انصاف نہ کر سکو گے تو عورتوں میں سے دو دو اور تین تین اور چار چار،جتنی تمہاری خوشی ہو نکاح کر لو ‘‘ لیکن آگے قرآن پاک فرماتا ہے کہ ’’اگر تم کو یہ خوف ہوکہ متعدد بیبیوں میں برابری نہ کر سکو گے تو ایک ہی بی بی کرو ‘‘ اسی سورۃ اور اسی پارے میں آگے چل کر درج ہے۔’’ تم بہتیرا چاہو مگر تم سے یہ ہو ہی نہ سکے گا کہ عورتوں میں برابری کرو۔پس بالکل ایک طرف کو مت جھک جاؤ کہ اس بے چاری کو ادھر میں لٹکتا ہوا چھوڑ دو ‘‘اب ان دونوں باتوں کو ملاؤ کہ برابری نہ کر سکو تو ایک کرو اور برابری تم سے ہو ہی نہ سکے گی تو صاف صاف ایک نکاح کا فرما ن نکلتا ہے۔‘‘( فسانہ مبتلا )
فسانہ مبتلا کا ہیرو دوسری شادی تو ضرور کرتا ہے لیکن اسے خفیہ رکھتا ہے۔آخر کیوں۔ یہ ایک اشارہ ہے کہ ۱۸۸۵ء کے آس پاس ہندوستانی متوسط دربے میں مردوں کی دوسری شادی ایک مستحسن بات نہیں سمجھی جاتی تھی بلکہ تقریباً معیوب سمجھی جاتی تھی ’’ دو ہا جو مرد ‘‘ کی تمسخر آمیز ترکیب اسی لیے اختراع ہوئی۔ مبتلا دوسری شادی کو سخت راز میں رکھتا ہے اور ابتدا میں بیوی کو ماما کے بھیس میں گھر میں داخل کرتا ہے۔اس سے ظاہرہوتا ہے کہ شہری متوسط درجے کے ہندوستانی مرد کے لیے انیسویں صدی کے اختتام پر بیوی محض ’’پیر کی جوتی‘‘ نہ تھی۔اس کا لحاظ بھی تھا اور اس کی (اور اس کے ماں باپ بھائیوں وغیرہ کی ) نا خوشی کا خوف بھی تھا۔کہانی کے اتار چڑھاؤ سے بڑھ کر مبتلا کی ذہنی کیفیت ہمیں اس دور میں کثرت ازدواج کی طرف عام رویے کے بارے میں کہیں زیادہ بتاتی ہے۔مبتلا دوسری شادی کر کے گھر میں مجرم کی طرح داخل ہوتاہے۔گویا غیر شعوری طور پر محسوس کر رہا ہے کہ اس نے ایک غلط بات کی ہے جو معاشرے کی نظر میں درست نہیں۔
آزادئ نسواں کو ہم عام طور پر قیام پاکستان کے بعد چلنے والی خواتین کی تحریکوں سے منسلک کرتے ہیں لیکن نذیر احمد کے ناول ’’ایامی ‘‘ کی ہیروئین کا نام ہی ’’آزادی بیگم ‘‘ ہے۔
آزادی بیگم شادی کے دو برس کے بعد ہی بیوہ ہو جاتی ہے۔اس کی ماں اپنے تئیں بیٹی کا غم غلط کرنے کے لیے ہر وقت اس کے ساتھ لگی رہتی ہے۔اسے رونے نہیں دیتی اور مولوی صاحب کو بلا کر آزادی کو صبر کی تلقین کے وعظ سنواتی ہے۔
آخر آزادی ان سے پنڈ چھڑا کر اپنے گھرآتی ہے۔یہاں وہ جی بھر کر روتی ہے اور نکاح ثانی کا خیال پہلی بار اس کے ذہن میں آتا ہے۔چونکہ عام مسلمان گھرانوں میں اس وقت تک بیوہ کی دوسری شادی کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا تھا (اور نذیر احمد اپنی ہیروئن کو معتوب بنانا نہیں چاہتے تھے ) اس لئے ناول کی ہیروئن دوسری شادی تو نہیں کرتی لیکن وہ اس موضوع پراچھی خاصی تحقیق کرتے ہوئے بقیہ زندگی گزارتی ہے۔
وہ بیوہ عورتوں سے ملاقاتیں اور گفتگو کر کے ایک طرح کا سروے کرتی ہے کہ آیا وہ واقعی دوسری شادی کرنا نہیں چاہتی تھیں یا صرف اس لیے دوسری شادی نہیں کی کیوں کہ یہ معاشرے کی نظر میں عیب ہے۔اس سروے کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچی۔
’’ ایک بی بی کا انکار تو سچا تھا۔باقی جس کو دیکھا ،منہ سے نہیں نہیں، اور دل میں ہو بھی کہیں! ان بے چاریوں کے شوہر فوت ہوئے ہیں، نہ کہ وہ ضرورت جس کی وجہ سے دنیا جہاں میں نکاح ہوتے ہیں! اگر کسی کو برا لگتا ہے تو اسے چاہیے کہ خدا سے جا کے لڑے کہ کیوں اس نے عورتوں کو ایسا بنایا ………..‘‘ (ایامیٰ)
’’شروع شروع میں میرا بھی ایسا ہی خیال تھا کہ فکر معاش سے خدا نے مجھے سبکدوش کر دیا ہے۔میں اگر دوسرے نکاح کا ارادہ کروں تو بڑی بے جا، بد نما اور ناروا بات ہے لیکن بہت دن نہیں گذرنے پائے تھے کہ میری رائے بالکل بدل گئی۔میں نے یہ سمجھا کہ اگر تعلق مناکحت کی غرض و غایت یہی ہے کہ مرد کمائے اور عورت پہنے اور کھائے تو اس تعلق میں کچھ بھی مزہ داری نہیں۔ایسا ہوتا تو امیر اپنی بیٹیوں کو بیاہنے کا کبھی نام بھی نہ لیتے۔نہیں بلکہ اصل غرض اس تعلق سے مرد اور عورت کا ایک دوسرے کی محبت سے مستفیض ہونا ہے۔باقی سب کچھ فروع ہے اسی راحت رساں اور مسرّت بخش تسکین اور محبت کی …………‘‘۔
اور پھر مسکرا کر کہتی ہے !
’’جب جب نکاح کا خیال آیا، تب تب ارادہ ہوا اور جب جب ارادہ ہوا،رسم و رواج نے سب منصوبے غلط کر دئیے…………. بلا شبہ ایسے وقت میں اگر کوئی ہمت بندھانے والا ہوتا، سہارا لگانے والا ہوتا تو میرے دوسرے نکاح کو اب پندرہ بیس برس ہوئے ہوتے۔مگر عزیزوں،رشتہ داروں نے، اپنے پیاروں نے اور سب طرح پر تو ہمدردی اور غم خواری کی، اس کا کسی نے جھوٹوں بھی نام نہ لیا۔‘‘
عورت کی سیکژ و الٹی دنیا بھر میں نہایت متنازعہ اور مرد حضرات کے لیے اشتعال انگیز موضوع رہا ہے۔اس پس منظر میں دیکھئے تو اردو ادب کے ان معزز اور محترم بزرگ نے سو برس پہلے عورت کی سیکژ والٹی پر جس وقار اور متانت سے اصرار کیا ہے، اس کی مثال ہمیں اس دور کے مغربی ادب میں بھی ہرگز نہ ملے گی۔
تاریخ ہمیشہ ایک سیدھے رستے پر سفر کرتی ہے۔دور حاضر کے آغاز سے مسلم ممالک اور برصغیر کا مسلم معاشرہ جس کشمکش کا شکار ہو گیا ہے اور اس میں عورت کے مکمل انسانی وجود کو تسلیم کرنے اور اس کا احترام کرنے کے خلاف جو مزاحمت نظر آرہی ہے وہ تاریخ کے کسی ایسے پیچیدہ راستے سے گزر رہی ہے جو ماضی کی بہتر اقدار کی نفی کر تا ہے۔آج یہ اہم ضرورت ہے کہ ہم اپنے مسلم تشخص کو درست سیاق و سباق میں دیکھ سکیں اور ان چراغوں کو نہ بجھنے دیں جو ہمارے اجداد اور بزرگوں نے روشن کیے تھے۔
( ۱۹۹۳ء میں لندن یونیورسٹی میں دئیے گئے ایک لیکچر سے اقتباسات )
What an article! It changed my pre-conceived notions.