کیا فیمنزم سوتیلے پن کا شکار ہے ؟

ایک روزن لکھاری
اصغر بشیر، صاحب تحریر

کیا فیمنزم سوتیلے پن کا شکار ہے ؟

(اصغر بشیر)

ہماری فیمنائی انتہا ئیں غور کرنے کے لائق ہیں۔ ایک عورت اپنے لیے تو ہر طرح کی آزادی چاہے گی مگر دوسری متعلقہ عورتوں کے لیے وہی روایتی کردار چنے گی جوتہذیبی طاقتیں اس کے لیے چنتی ہیں۔ ۔ وہ چاہے گی کہ دوسری عورتیں  روایت کی پابند  رہیں اور یہ کہ اپنی معاشرتی اقدار کو زندہ رکھیں چاہے وہ درست ہوں یا غلط۔ مردوں کا فیمنائی رویہ بھی کچھ اسی طرح کی سوچ کا حامل رہتا ہے۔  ہم لوگ اپنی عورتوں کو جینز تو پہنوا سکتے ہیں لیکن ساتھ یہ پابندی بھی لگاتے ہیں کہ جب باہر جانا ہے تو برقع پہن کر جانا ہے۔ بطور مجموعی معاشرہ ہم لوگ سوچتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ اپنی روایتی  اقدار کو تندرست و توانا رکھے اور معاشرے کی اجتماعی راحت کا سامان دوسرے معاشروں سے مسلسل حاصل کرتا  رہے۔ ایسا ہونا بظاہر تو سب ٹھیک لگتا ہے۔ لیکن معاشرتی زندگی اور اجتماعی شعور میں اٹھنے والی پیچیدگیوں کا حل ڈھونڈنے چلیں تو پتہ چلتا ہے کہ اس کی بنیاد ان اقدار میں ہوتی ہیں جن کو ہم سوتیلے پن کے ساتھ اپناتے ہیں۔ ایک قدر دو معیارات پر سوتیلی ہو سکتی ہے۔ انفرادی معیار پر انسان کا دماغ اور اس کا عمل اس کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ جب کہ اجتماعی معیار پر ہمارا تہذیبی شعور اس کا مآخذ ہوتا ہے۔

انفرادی معیار پر اقدار کے سوتیلے پن کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہمیں اپنے دماغ کے کام کرنے کے انداز کا علم ہو۔ ہمارے دماغ میں موجود کھربوں نیورانز معلومات کو نہ صرف ذخیرہ کرتے ہیں بلکہ استقراع اور استخراج کے ذریعہ ہمیں فیصلہ کرنے کی قوت بھی فراہم کرتے ہیں۔ یہ عمل یوں ہوتا ہے کہ  نیورانز کے درمیان الیکٹرک کرنٹ کی صورت میں رابطے بنتے ہیں۔ جب ہم کچھ نیا سیکھتے ہیں تو ایک نیا رابطہ بن جاتا ہے۔ پہلی دفعہ بننے والا رابطہ کمزور ہوتا ہے جب ٹرائل اور ایرر کے ذریعہ ایک رابطہ مضبوط ہوتا رہتا ہے۔ پھر ایک وقت آتا ہے کہ دماغ مخصوص حالات کے لیے مخصوص پاتھ وئے قائم کر لیتا ہے کیونکہ یہ مختلف حالات میں سچ ثابت ہوتا ہے۔ پھر مخصوص حالات کے تحت اس کے جتنے بھی اعمال سر انجام دیے جائیں سب درست ثابت ہوتے ہیں۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ جب مختلف عوامل بدلتے ہیں تومخصوص پاتھ وے کے نتائج پہلے جیسے موثر نہیں رہتے ۔

ضروری ہوتا ہے کہ نیورانز کے درمیان نئے روابط قائم کیے جائیں تا کہ بدلتے عوامل کے لحاظ سے  ایسے فیصلے کیے جائیں جو بدلتے حالات میں درست ہوں اور بہترین نتائج فراہم کریں۔ چونکہ ہم لوگ کمفرٹ زون میں رہنا پسند کرتے ہیں اس لیے ہر نئی چیز کو ہر دفعہ خوش آمدید نہیں کہتے بلکہ اس کے بجائے روایتی طریقوں پر چلتے  رہتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہم حالات کے ساتھ بدلنے کے بجائے روایتی طریقوں پر انحصار کرتے رہتے ہیں۔ ایسے حالات میں ہم کوئی نیا تصور یا نظریہ قبول نہیں کرتے ، اگر کرتے بھی ہیں تو اس کو سوتیلے پن کا معیار دیتے ہیں جس سے  اس شخص کے معاملات میں پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں۔

جب ایک نظریے کو اجتماعی سوتیلے پن کا شکار کیا جاتا ہے تو  ایک تخلیقی ذہن رکھنے والا فرد بھی ایک نظریے کو غیر جانبدارانہ انداز میں قبول کیوں نہیں کر سکتا۔  اس کی وجوہات کی تشریح یوں کی جا سکتی ہے کہ کائنات کی ہر چیز اپنے محدود انداز میں بقا کی کوشش کرتی ہے۔ حتی کہ بے جان اشیاء اور نظریات تک ایسی تجسیم پر مشتمل ہوتے ہیں جن کے ذریعہ ان کی بقا کی ضمانت مہیا ہوتی ہے۔ نظریات اور تصورات نہ صرف اپنے اپنے آپ کو باقی رکھنے کے لیے جنگیں لڑتے ہیں بلکہ یہ اپنی بقا کے لیے ضروری تبدیلیوں کو قبول بھی کر لیتے ہیں۔ آج بھی قدیم نظریات کسی نہ کسی صور ت میں موجود نظر آتے ہیں۔نظریات کی آپسی جنگوں کی وجہ سے بعض نظریات کے حامل افراد طاقت کے ڈومین میں آجاتے ہیں اور طاقت ور ٹھہرتے ہیں تو محکوم نظریات کے حامل افراد حاشیہ بردار گروہ بن جاتے ہیں۔  اس لیے حاشیہ پر موجود افراد اپنے حق کی جدوجہد کے لیے اسی وقت لڑ سکتے ہیں، جن ان کو پتہ ہو کہ پرانے نظریات کس طرح بھیس بدل کر ان کے درمیان نقب لگاتے ہیں۔

آج فیمنائی جدوجہد کرنے والے مٹھی بھر افراد اپنے طور پر درست عمل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، مگر کہیں نہ کہیں ان کی جدوجہد میں ہمارے معاشرتی افکار نقب زنی کرتے ہیں۔ ہم ایک عمل کو دوسروں کے لیے درست سمجھ لیتے ہیں لیکن اپنے لیے درست تسلیم نہیں کرتے۔ اس کی سادہ سی وجہ یہ ہے کہ ہم اس نظریے کو عملی طور پر قبول نہیں کرتے ۔ اگر ہم عملی طور پر قبول کرتے تو نہ صرف اپنی زندگی کا حصہ بناتے بلکہ اس کی عملی صورت حال پیش کرتے۔ حاشیہ بردار گروہ اسی وقت لڑ سکتے ہیں جب انہیں پتہ ہو کہ وہ لڑ کس سے رہے ہیں۔ ان کے اپنے کون ہیں اور سوتیلے کون۔۔۔۔