فکشن، کلامیہ اور ثقافتی مکانیت از، فرخ ندیم
تعارف و تبصرہ کتاب از، نعیم بیگ
پچھلے دنوں جب میں فرخ ندیم کی درج بالا کتاب کے مطالعے میں مصروف تھا، تو اِنھی دنوں اِس کتاب کے سلسلے میں ادبی حلقوں کے ایک حصہ میں یہ اختلافی رائے سامنے آئی کہ مصنف نے اردو ادب کے تناظر میں عنوانِ بالا پر مبنی کتاب میں جو تنقیدی گفتگو کی ہے، وہ اپنی لسانی و تشکیلاتی و فکری سطح پر بے حد مشکل تدریسی زبان کے استعمال کی وجہ سے اپنے ابلاغ اور تفہیم میں گنجلک ہے۔
یہ کہہ کر اختلافی رائے دہندگان نے اس کتاب کی اُن بنیادی عملیاتی اور حرکیاتی علمی و ثقافتی پہلوؤں کو نظر انداز کر دیا، جو ادب میں تنقیدی و محاکماتی، ثقافتی و فکری سپیس رکھتے ہیں۔ زبان و بیاں کی مکانی وسعت اور تاریخی مادیت کے گہرے شعور پر اس اس طرح کی تنقیصی یلغار در حقیقت اُس دور کی نقشہ جاتی ادبی سیاست و نظریاتی مباحث کو مہمیز دیتی نظر آتی ہے جو حقیقی طور پر یک سر رد ہو چکی ہے۔
نو آبادیاتی نظام اور بعد ازاں اس کے تسلسل میں لکھا جانے والا ادب اور اسی نظام کی نا انصافیوں کے خلاف مزاحمت کاری تخلیق سے اٹھ کر اگر تنقید کے میدان میں براجمان ہو، تو نظریاتی مخالف یہی سٹانس لیتے ہیں کہ یہ گنجلک اور نا قابلِ فہم زبان و بیاں ہے۔
فرخ ندیم نے تھیوری کے حوالوں سے ایک نئی گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے فکشن اور کلامیہ کا مقامی اور عالمی ثقافتیت کے باہمی ربط کو آشکار کیا ہے۔ اپنی کتاب کے ابتدائیہ، عصری تنقید اورادبی ثقافت کے عنوان سے پہلے باب میں مصنف نے عالمی ادبی پس منظر کو زیر بحث لاتے ہوئے فکشن اور کلامیہ پر یوں مکالمہ کیا ہے:
’’انگریزی زبان میں لکھے گئے فکشنل متون میں البتہ بیانوی بے باکی کا تناسب قدرے زیادہ ہے۔ فکشن انگریزی زبان میں لکھا جائے، یا اردو میں، اس میں عام طور پر فکشن کے متون فکشن سے زیادہ سیاحتی تجربات محسوس ہوتے ہیں۔ تاریخی مادیت کا گہرا شعور اور احساس نہ ہو تو فکشنل متون میں سیاحتی کلچر ہی فروغ پائے گا۔‘‘ (ص ۴۵)
’’ماضی میں فکشن میں تصورِ وقت فکشن کی مکانی دنیا کو نظر انداز کر کے متنایا گیا، اور ایسے وقت کو ترجیح دی گئی جو انفرادی اور وجودی زندگی سے تعلق رکھتا تھا، جس میں انفرادی خواہش و خواب، نا آسودگی اور شکستِ آرزو، یہاں تک کہ افسانوں، پاپولر ادب کے قصے کہانیوں اور ٹی وی ڈراموں میں بھی فردِ واحد کی کام یابی، دکھ اور تکلیف کا بیانیہ اہم ہوتا ہے۔ وقت اور انسانی سفر کے مادی اہداف سے ان کے بیانیوں کی مکانی حالت کا اندازہ ہو جاتا ہے۔‘‘ (ص۴۶)
کلامیہ یعنی ڈسکورس اسی تثلیثی رشتے میں دوسرے عمل کی نشان دہی کرتا ہے۔ جو اپنے تعیں عصری تنقید یعنی ادبی تھیوری کے عالمی منظر نامے میں اور ہمارے ہاں اردو ادب میں کافی سپیس بنا چکا ہے۔ اس کی پہلی وجہ تو زبان و ثقافت میں سماجی و دیگر رشتوں کی تفہیم میں کلیشے اور روایتی تنقیدی محاورہ سے بد ترین بے زاری ہے۔ دوسرے لفظوں میں کلامیہ ایک اصطلاح سے کہیں زیادہ دریافت کے معنی میں متصور ہوتی ہے۔ بعض لوگ اسے مخاطبہ بھی کہتے ہیں۔
اس ضمن میں فرخ ندیم کہتے ہیں۔ ’’کارل مارکس کے مضمون ’جرمن آئیڈیالوجی‘ میں مارکسی تصورِ آئیڈیالوجی اور شعور میں’ سماجی و ثقافتی زبان‘ یعنی ڈسکورس بھی شامل ہے۔ اس بحث کو نو مارکسی، پسِ ساختیات، پوسٹ کالونیل اور ما بعد جدید نقادوں نے اپنے مباحث میں جاری رکھنے کی ضرورت محسوس کی ہے۔ اٹلی میں انٹونیو گرامچی، برطانیہ میں ریمنڈ ولیمز اور روس میں باختین اور ولوشینوف نے بھی سماج و ثقافت اور لسانی تشکیلات کے تعلق کی پر تیں کھولی ہیں۔ انیس سو ساٹھ کے بعد اس لفظ کے لغوی اور اصطلاحی معنوں میں فرق محسوس کیا گیا اور یورپ میں ساختیات اور پسِ ساختیات کے دانش وروں کے درمیان، بشریات، انسانیات، نفسیات، فلسفہ، لسانیات اور ادبیات سمیت اہم علوم و فنون میں اس لفظ کی اہمیت پر بحث شروع ہوئی۔ فرانسیسی نقاد مِشل فوکو نے اس بحث کو سمیٹتے ہوئے آئیڈیالوجی، ڈسکورس اور طاقت کی تثلیث سے ایک نیا نقطہ نظر متعارف کرایا۔‘‘ (ص ۴۹)
بہ ہر حال تنقید میں ایک عمومی رائے یہ ہے کہ ڈسکورس بظاہر ایک بولی ہے لیکن اسے کسی پیرائے میں تشکیل دیتے ہوئے ثقافتی مقاصد کو مد نظر رکھا جاتا ہے۔ اس طرح انفرادی نوعیت کے بیانیوں اور جملوں کے مرکب سے جس میں سیاق و سباق کے عناصر بھی شامل ہوتے ہیں، کلامیہ کا حصہ ہوتے ہیں، لہٰذا اسے ہم مخاطبہ سے کہیں بہتر کلامیہ کی اصطلاح میں استعمال کرتے ہوئے تھیوریز کی تفہیم کو سہل کر دیتے ہیں۔
مزید و متعلقہ: اردو میں تنقید کی ایک بہترین کتاب تبصرۂِ کتاب از، محمد شیراز دستی
بھیانک خوابوں اور سانحات کی کتھائیں: نعیم بیگ کا ناول، ڈئیوس، علی اور دیا تبصرۂِ کتاب از، احمد سہیل
کتاب ہذٰا کو اپنے والدین کے نام منسوب کرتے ہوئے ابتدا ہی میں مصنف نے ٹونی موریسن کا مقولہ درج کیا ہے، جو اس کتاب کی تہہ در تہہ کو کھولنے میں مدد دیتا ہے۔ میرا ارادہ تھا، اور ہے کہ احقر اس کتاب کے مندرجات پر سیر حاصل گفتگو کرے، لیکن وقت کی کمی بے حد آڑے آ رہی ہے، جس کی بنیاد پر پہلی قسط کے طور پر لوگوں کے ذہن سے کتاب محو ہونے سے پہلے یہ تعارف نامہ پیش کر نے کی جسارت کر رہا ہوں۔
فکشن، کلامیہ اور ثقافتی مکانیت کے اس علمی ذخیرے کی فہرست میں اظہار تشکر از فرخ ندیم کے بعد رفاقت راضی کا تدوینِ مکان کے عنوان سے ایک تعارف ہے۔ ڈاکٹر روش ندیم نے پیش لفظ لکھتے ہوئے مضمون ہذٰا میں جہاں ادبی تھیوریز کے بارے تاریخی پس منظر بیان کیا ہے، وہیں قدیم انسانی تہذیب سے لے کر اس کے ارتقائی مدارج کی شعوری منزلوں تک قاری کو ضروری ثقافتی تشکیلات سے رُو شناس کروایا ہے۔ اس طویل مضمون کو پڑھے بغیر آپ کتاب کے بیش تر تصورات سے آگاہ نہ ہونے کی مشکلات میں گِھر سکتے ہیں۔
مصنف نے اس کتاب میں سات سلسلے وار مضامین پر مباحث کے دروازے وا کیے ہیں، ’عصری تنقید اور ادبی ثقافت‘ سے ’فکشن، کلامیہ اور ثقافتی مکانیت‘، اور ’(مابعد) جدیدیت، ثقافتی سمتار (ولاسٹی) اور وجودی مکان‘ اس کتاب کے وہ پہلے تین مضامین ہیں‘ جو قارئین کے اذہان میں ہلچل مچا دیتے ہیں۔
انسان کے قدیم دیو مالائی اظہار اور داستان سازی سے لے کر عملی طور پر سماجی کرداروں کے رویوں، ثقافتی مظاہر، لسانی ساختیوں پر زمان و مکان کے نشانات ان مضامین میں بدرجہ اتم موجود ہیں، اور وہ شعوری سوالات بھی شامل مکالمہ ہیں، جن پر اس سے پہلے گفتگو ہی نہیں کی گئی ہے۔ انسان کی مادی سر گرمیوں سے لے کر داخلی زمان و مکان، ماورائیت اور ما بعد طبعیات ایک ساتھ کہاں کہاں اور کیسے متعین ہوتے ہیں، اس کتاب میں یہ شعوری کوشش شامل ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ عورت کے زمان و مکاں میں جبریت بھی ثقافتی رنگوں میں ایک آہنگ کی طرح شامل ہے۔
ان پہلے تین مضامین کے بعد اگلے چار مضامین، جن میں ’نوآبادیات، آئیڈیالوجی اور (اردو) ناول‘، ’نائن الیون اور شناختی مکان و بحران‘، ’تقسیم ما بعد تقسیم: ثقافتی لکریں‘ اور ’مسرمایہ دارانہ آزادی اور غصب و تسلط: روحِ عنصر‘ جیسے جدید موضوعات پوری توانائی کے ساتھ اپنے ڈسکورس کو قاری کے سامنے پیش کرتے ہیں۔
مصنف نے پوری کوشش کی ہے کہ مضامین ہائے مجموعہ سے مکمل انصاف برتا جائے۔ انھوں نے جدید اردو ناول کے تناظر میں جو بحث سمیٹی ہے ان میں کئی ایک معروف ناول اپنے الگ الگ ثقافتی رنگ میں نمایاں ہیں۔ انھوں نے ایک طرف اردو ادب میں شرر، میرزا رسوا سودا، ڈپٹی نذیر احمد، منٹو، قراۃ العین، دوسری طرف انگریزی ادب سے ہیمنگوے، فرانسس ٹاور، امیل زولا، گبریل گارشیا، ای ایم فاسٹر کے ناولز کے حوالہ جات، بعد ازاں عصری عہد کے ناولز، جس میں پیغام آفاقی کا ناول ’’مکان‘‘، اقبال حسن خان کا معروف ناول ’’گلیوں کے لوگ‘‘، علی اکبر ناطق کا ناول ’’نولکھی کوٹھی‘‘ کو اپنے تنقیدی دائروں میں گفتگو کا محور قرار دیا۔
پہلی کتاب ہونے کے ناتے سے ان کے اندر جو وسیع و عریض تھیوریٹیکل اور سوالیہ جوار بھاٹے اپنے مد و جزر میں بے پناہ طاقتِ اظہار رکھتے تھے، وہ قلم کے رستے یوں بپھری ہوئی لہروں کی طرح ابھرے کہ اکثر دوستوں کا یہ گمان ہوا کہ کتاب میں موضوعاتی تنقید بے حد گنجلک ہے، اور بیانیہ اس قدر لسانی تشکیلات میں الجھا ہوا ہے کہ قاری تک بات مبہم پہنچتی ہے۔
راقم کا خیال ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہوا، یہ کتاب قطعی طور پر کسی ابہام اور گنجلک بیانیے کی شکار نہیں، در حقیقت یہ کتاب کئی ایک کتب پر مشتمل ہے۔ یہ ایک ایسی نثر ہے جو پروگریسو مائنڈ کے ساتھ جڑت رکھتے ہوئے اپنے مقاصد کو لیے فی الفور (اگر قرات میں تسلسل ہو تو) مکمل ترسیل و ابلاغ کے ساتھ قاری کے اندر اتر جاتی ہے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ فرخ نے بہ یک وقت زمان و مکاں کی مباحث میں شعوری طور پر مکانیت کا سپیس قدرے سمبالک بھی رکھا، جس میں کوشش کی وہ تمام تر ’سگنیفائیڈز‘ کو اجاگر کرے، جو اس سے پہلے مباحث میں اجمالاً متذکر ہوئے ہوں۔ یوں بات سے بات نکلتی ہوئی گفتگو سست روی لیکن تفصیل سے آگے بڑھتی ہے جس میں سہل پسند قاری بھاگ نکلتا ہے۔
گمانِ اغلب ہے کہ فرخ ندیم کے سامنے اِس کتاب کے عام قاری نہیں تھے۔ یہ فکشن یا کہانیوں کا مجموعہ نہیں، جس میں جواز کے ساتھ کلامیہ کو ایک منطقی انجام تک پہنچایا جائے، بَل کہ یہ ایک سنجیدہ تھیوری کی کتاب ہے، جس میں علمی و فکری ڈسکورس ہے، نئے امکانات روشن ہوئے ہیں، تنقید کی نئی بستیوں میں طالب علموں کے لیے کماحقہ جدید موضوعات کا تنوع اور اور اس کا بیانیہ ہے۔ کسی بھی تھیوری یا مضمون میں جب ملٹی پل تحقیقی و تاریخی، ادبی و تنقیدی اثرات کا جائزہ لیا جاتا ہے، تو شعوری تحریک و میلان کے ابلاغ و ترسیل میں لا شعوری طور پر ’ڈائی گریسو‘ بیانیہ اگر در آئے، تب وہ تحریر اپنے ڈسکورس میں نئے امکانات اور جہات کے آسمان پیدا کر سکتی ہے، اگر اس کا قاری ذہین ہے۔
مجھے اس کتاب میں یہ پہلو بھی قابلِ تعریف اورتحسین محسوس ہوتا ہے۔ جب مصنف زندگی کی افادی علامتوں کو، جدید عہد کے لاینحل اورمتلون فکر کے تناظر میں کائنات میں پھیلے ہوئے بہ یک وقت ظلم و جبر اور آفاقی مسحور کن طرزِ احساس کو اپنی تنقیدی فکر سے ثابت کرتا ہے، اور کہیں بھی یہ متصور تشکیل معنویت سے ہٹ کر پر فریب خواب نہیں رہتی، جہاں کوئی الہامی، مادی، معاشرتی اور تہذیبی حوالے پاٹنے یا پر کرنے میں انسان نا کام ہو گیا ہو۔