فکشن، مقامی فلم، معاشرہ اور تصور وقت
از، فرخ ندیم
ماضی میں، فکشن میں تصور وقت فکشن کی مکانی دنیا کو نظر انداز کر کے متنایا گیا۔ اور ایسے وقت کو ترجیح دی گئی جو انفرادی اور وجودی زندگی سے تعلق رکھتا تھا، جس میں انفرادی خواب و خواہش، نا آسودگی اور شکستِ آرزو یہاں تک کہ افسانوں، پاپولر ادب کے قصے کہانیوں اور ٹی وی ڈراموں میں بھی فردِ واحد کی کامیابی، دکھ اور تکلیف کا بیانیہ اہم ہوتا ہے۔
وقت اور انسانی سفر کے مادی اہداف سے ان کے بیانیوں کی مکانی حالتوں کا بھی اندازہ ہو جاتا ہے۔ اس کے بر عکس لوک ادب جو وسیع سماجی و ثقافتی لینڈ سکیپ کا عکس ہوتا ہے، مکانی ماحول کو ترجیح دیتا ہے۔ لوک داستانیں بیانیہ کے تحرک کے ساتھ مکالماتی فضا کو متن کا حصہ بناتی ہیں۔ داستانوی ادب کے کرونوٹوپ (باختین کی اصطلاح میں وقت اور مکان کی جُڑت) میں وقت کا تحرک جدید دنیا کے فلسفۂ تحرک سے مختلف ہوتا ہے۔
چُوں کہ یہ وقت مکانی صورت حال پر محیط ہوتا ہے جس میں دھوپ، چھاؤں، بادل، بارش، گرمی، سردی سب پر مساوی تقسیم ہوتے ہیں۔ یعنی زمان مکانی حالتوں سے فرار کی کوشش نہیں ہوتا نہ ہی کسی ایک حالت کا دوسری سے مسابقت کی دوڑ ہوتی ہے۔ اس لیے یہ وقت مطابقتی ہے جب کہ جدید دنیا کا وقت مسابقتی ہوتا ہے۔ جوں جوں طبقاتی کشمکش میں رگڑ پھیلتی جاتی ہے وقت کی رفتار تیز تر ہوتی جاتی ہے اور اسی ولاسٹی سے مکانات تخریب و تعمیر کا شکار ہوتے نظر آتے ہیں۔
وقت کے ساتھ ایک لفظ پیراڈائم کو منسلک کیا جاتا ہے۔ پیراڈائم شفٹ سرمایہ دارانہ نظام کی ایک مقبول ترکیب ہے جو وقت کی ارتقائی حالت بھی ہے۔ اس قسم کی تراکیب کا زرعی معاشروں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ اس لیے کہ زرعی معاشروں میں زندگی کا سفر افقی نہیں عمودی اور انسلاکی یا ارتباطی ہوتا ہے۔ اس انسلاک و ارتباط کی نفی کا نام ہی وجودی فلسفہ ہے جو سرمایہ دارانہ معاشرت کی ریٹ ریس، سبقت، افرا تفری، عدم تحفظ، بے چینی، فرد مرکزی اور لالچی محرکات کا ڈِس آرڈر ہے۔
پاکستانی ادب کے حوالے سے یہ کلچرل لاجک آف ارلی کیپیٹل ازم (امریکی فلسفی فریڈرک جیمز سن کی ترکیب کلچرل لاجک آف لیٹ کیپیٹل ازم) بنتا ہے۔ اس ثنویت کی وضاحت یوں دی جا سکتی ہے کہ ایک ہی عہد میں بننے والی فلمیں دو مختلف دنیاؤں کا عکس ہوتی ہیں۔ سلطان راہی اور مصطفیٰ قریشی، افضال احمد، لالہ سدھیر، ادیب، آسیہ، انجمن، ملکۂ جذبات بہار، منور ظریف، رنگیلا، البیلا، کا نام ذہن میں آتے ہیں تو ذہن ایک خاص ثقافتی ماحول کی طرف چلا جاتا ہے۔
گاؤں کے میلوں میں کھیل تماشے کسی مالی مفاد یا عہدوں میں ترقی کا سبب نہیں تھے نہ ہی کرسی کی جنگ، دفتری سیاست ان میں شامل تھی۔ یہ دیہی سپیس کی حالتوں کا نامیاتی کُل تھا جس کا شہری تہذیب سے تقابلی موازنہ کیا جائے تو ایک ہی ریاست میں دو مختلف دنیاؤں کے درمیان ایک وسیع خلیج نظر آئے گی۔
مزید دیکھیے: مشرق و مغرب میں ناول کی ابتدا کی سیاست و ثقافت از، فرخ ندیم
انگریز اپنا ذہن تو لے گیا پر ذہن سازی کے کار خانے چھوڑ گیا از، فرخ ندیم
محمد علی، شمیم آرا، زیبا، ندیم، آغا طالش، شاہد، جاوید شیخ، شبنم، بابرہ شریف کی دنیا کلچرل کرائسِیز کی تہذیب کی ترجمانی کرتی ہے۔ یہاں تعلیم، عہدے، وسائل کی کشش، ان وسائل تک رسائی اور ان پر جنگ، شہری ہیجان، سرمایے کی سنسنی، فاصلے اور قربتیں، سرمایہ دارانہ نظام کے پیراڈاکس، اور فرد کی مکانی حیثیت میں تفاوت کی کشا کش فلمائی جاتی ہے۔ ہیرو کی ہیروئین تک رسائی اور نا رسائی ہیرو کی مادی رفتار سے مشروط ہے۔ اور یہاں تک کہ ہیرو ولن کی جنگ بھی مصنوعی ہوتی ہے، اکثر ہیرو ولن کی موت کے بعد اس کی بیٹی سے شادی کر کے وسائل پر قابض ہو جاتے ہیں اور وہی سرمایہ دارانہ طبقاتی نظام چلتا رہتا ہے۔
دوسری طرف سلطان راہی، مصطفیٰ قریشی، اقبال حسن، لالہ سدھیر، آسیہ اور انجمن کی دنیا میں محبت کے لیے نہ تو بڑے عہدے کی شرط ہے نہ ہی اعلی، اشرافیہ طبقے سے تعلق کی اور نہ ہی سلطان راہی نے کبھی یہ کہا کہ ماں میں دسویں کلاس میں پاس ہو گیا ہوں۔ یعنی امتحان میں فیل پاس کا عمل ترقی، سبقت اور شہری خواب کی علامت اور شرط ٹھہرتا ہے۔
مقامی فلمی دنیا میں ’شہری تعلیم‘ نہیں بَل کہ تربیت ہوتی تھی، ثقافتی تصورِ اخلاق اور ممکنہ مساوات کی تربیت، (مولا جٹ کم تر برادری کے دوست کو برابر کی اہمیت دیتا ہے) جس کی وجہ سے کردار اپنی رہَتل یعنی مکان (سپیس) سے نجات کی کوشش نہیں کرتے۔
سرمایہ دارانہ تمدن کے آغاز کے ساتھ ہی وقت کروٹ لیتا ہے اور شہری زندگی کی طبقاتی جنگ شروع ہو جاتی ہے جس میں گھڑیال کا شعور ایک طاقت ور محرک ثابت ہوتا ہے۔
اردو فلموں میں جگہ جگہ ایسے ہیروز مل جاتے ہیں جو شہری خواب سے بندھے اپنی لوکیل سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش میں مگن ہیں۔ پنجابی فلموں میں شاید ہی کسی کردار نے گھڑی یا گھڑیالی وقت سے زندگی مشروط کی ہو لیکن اردو فلموں میں تقریباً ہر فلم میں ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے انسان کی کلائی سے گھڑی نہیں بَل کہ گھڑی کی کلائی سے انسان بندھا ہو۔ نوکری پر جانے کا وقت، ملاقات کا وقت، گاڑی کے آنے کا جانے کا اور دفتری اوقات، ہوائی اڈوں پر پہنچنے یا مہمانوں کے آنے جانے کا وقت، غرض ہر جگہ انسانی آنکھیں گھڑی پر ٹِکی رہتی ہیں۔
اسی طرح مغربی ادب کا وسیع داستانوی حصہ جدید معاشرتی متون سے بہت فاصلے پر ہے۔ درمیانی راستہ سرمایہ دارانہ انسان دوستی کے معاشی نظام اور مغربی طرز جمہوریت سے مشروط ہو کر طے ہوتا ہے۔ اٹھارویں اور انیسویں صدی کا فکشن مغربی تصورِ جمہوریت کا ہی عکس ہے جس میں مکانی حالتیں بدلتی ہوئی ملتی ہیں، ہر شخص زمانی شعور سے کسی خاص منزل کی طرف رواں دواں ہے۔ یوں سرمایہ دارانہ تصورِ رفتار سے جو بھی متن انسلاک رکھتا ہے، خواہ اس کا تعلق کسی بھی خطے سے ہو، اس مکانی حالت سے مختلف ہو گا جہاں ثقافتی ٹھہراؤ میسر ہے۔
پاپولر امریکی فکشن میں سپیس کی زیادہ تر صورتیں سرمایے اور وقت کے گٹھ جوڑ سے پیدا ہوتی ہیں اور مکانات اس تیزی سے بدلتے ہیں جیسے تیز رفتار ریل میں بیٹھے مناظر بدلتے ہیں۔ یعنی ریل کی سپیڈ سے مکانی تبدیلی کا تعین کیا جا سکتا ہے۔ لیکن راکٹ سائنس اور سائنس فکشن نے اس تصورِ زندگی اور فکشن کو بھی پسِ پشت ڈال دیا ہے۔ اس تمام ارتقاء کا حاصلِ کُل جو فکشن کا بھی سپیس بنتا جا رہا ہے ۔ اب سائبر سپیس ہے اور یہی آج کا پاپولر کلچر اور پاپولر فکشن ہے۔
1 Trackback / Pingback
Comments are closed.