افسانہ نگار کی کہانی
از، رفاقت حیات
میں نے اک روز والدہ سے پوچھا، ’’امی جی، یہ بتائیں کہ میں رات کے وقت پیدا ہوا تھا، یا دن کے وقت؟‘‘
وہ اس بے تُکے سوال پر مسکرائیں، پھر تھوڑا سا شرمائیں اور سنبھل کر کہنے لگیں:
’’تم آدھی رات کو پیدا ہوئے تھے۔ مجھے خوب یاد ہے کہ وہ جاڑوں کا مہینہ تھا اور کمرے سے باہر پالا گر رہا تھا۔ میں کھاٹ پر تڑپتی، دردِ زِہ میں مبتلا تھی۔
“دائی بخت بانو اور محلّے کی دوسری عورتیں میرے چو گرد منڈلارہی تھیں اور یہ، تمھارے ابو، انگیٹھی کو گرم رکھنے کی کوشش میں بار بار صحن میں پڑی ہوئی سوکھی لکڑیاں لا رہے تھے۔
تمھارے پیدا ہونے کے بعد میں بہت دیر تک صبح کی روشنی پھیلنے کا انتظار کرتی رہی تھی۔‘‘
بولتے بولتے ان کے گال تمتمانے لگے تھے اور انھوں نے دوپٹے کا پلُّو دانتوں میں دبا لیا تھا۔ وہ مجھ سے نگاہیں چراتے ہوئے خاموش ہو گئیں کیوں کہ انھیں زیادہ بولنے کا احساس ہو گیا تھا۔
گارے مٹّی سے بنے ہوئے بوسیدہ کمرے، دن بھر جس کی چھت کی کڑیوں پر چمگادڑ آرام کرتے تھے۔ کمرے سے باہر پھیلے طویل اور کچے صحن۔ شام کے بعد جس پر سانپ اور بچھو رینگتے پھرتے تھے اور اس صحن کے کونے پر اُگی ہوئی بیری، جس کی ٹہنیوں پر جنّات کا بسیرا تھا۔
اور اس بیری کے پاس لگے ہینڈ پمپ، جس کے نیچے بیٹھ کر بھوت غسل کرتے تھے، میرا ذہن تھوڑی دیر کے لیے اس مکان کے تصوّر میں کھو گیا، جہاں میرے سِوا میرے دو بھائیوں نے بھی جنم لیا تھا۔
کیا کسی آدمی کی پیدائش کی کوئی وقعت ہے بھی سہی؟ جب کہ ہر دن ہماری دنیا میں بے شمار انسان جنم لیتے ہیں۔
ہر پیدائش ایک افسانہ ہوتی ہے۔ پر اسرار،حیران کن اور دل چسپ افسانہ۔
ہمارے ذہن میں ایسے کئی افسانوں کے اوراق آج بھی محفوظ ہیں۔
جیسے کائنات کی پیدائش کا فسانہ، آدم اور حوا کی پیدائش کا فسانہ اور دوسرے اَن گنت افسانے، لیکن آج کی دنیا افسانے کا رومان غارت کرنے کے درپے ہے۔ اس کی کشش برباد کرنے پر تلی بیٹھی ہے۔
اسی لیے اس نے پیدائش کو افسانہ بننے سے روکنے کے لیے مَیٹَرنٹی ہوم کھول لیے ہیں۔
تقسیم سے پہلے، جب سندھ کا خیرپور ضلع ریاست ہوا کرتا تھا اور مِیروں کا خاندان یہاں حکومت کرتا تھا، تو انھوں نے ریاست کے بنجر علاقے کو آباد کرنے کی خاطر پنجاب کے قصبوں اور دیہاتوں میں اپنے وفود بھیجے تھے تا کِہ پہلی اور دوسری عالَمی جنگ میں حصّہ لینے والے فوجیوں کو زمین کی آباد کاری پر اکسایا جائے۔
اس کے لیے مِیروں کا ایک وفد ڈھکے والی پہاڑی (یعنی سلسلۂِ سون سکیسر کی آخری پہاڑیوں میں سے ایک) سے پندرہ میل دور واقع، ڈھرنال ڈیم کے علاقے میں بھی گیا۔
ڈھرنال ڈیم سے ڈیڑھ کوس کی دوری پر میرے دادوں، پڑدادوں اور نانوں، پڑنانوں کا آباد کیا ہوا گاؤں سُکاّ واقِع ہے۔
کچھ اور متعلقہ تحریریں:
کرفیو افسانہ از، رفاقت حیات
میرواہ کی راتیں __ ناول، جسے ادھورا چھوڑنا گناہ ہے تبصرۂِ کتاب از، اظہر حسین
آصف فرخی صاحب کچھ یادیں، کچھ ملاقاتیں از،رفاقت حیات
میرے دادا پہلی عالمی جنگ میں شریک ہو چکے تھے، اس لیے وہ شوق سے میروں کا اعلان سننے کے لیے گئے تھے۔
انھوں نے خیرپور میں زمین حاصل کرنے اور گوٹھ بنانے کا فیصلہ کرنے میں دیر بالکل نہیں لگائی، مگر پُرکھوں کا بسایا ہوا علاقہ چھوڑنا آسان کام نہیں۔ شاید میرے دادا کو خشک سالی کے عِفریت سے چھٹکارا پانے کی اور کوئی ترکیب سجھائی نہیں دی تھی۔
میرے دادا کو اپنے کنبے، گھر کے سامان اور ڈھور ڈنگر کے ساتھ نقلِ مکانی کرنی تھی۔ میری دادی نے مجھے بتایا تھا کہ تقریباً ایک مہینے تک چیزوں سے لدا پھندا دادا کا خچر نیم کے درخت سے بندھا رہا تھا۔
وہ روز فجر ویلے اٹھتے، غسل کر کے نئے کپڑے پہنتے، میری دادی کو تیّاری کا حکم دیتے، لیکن جب وہ نیم کے پاس آ کر خچر کی رَسی کھولتے تو ان کی آنکھیں ڈبڈبانے لگتیں۔
وہ خچر کی رَسی دوبارہ باندھ دیتے اور وطن چھوڑنے کا ارادہ، آنے والے دن تک ٹال دیتے۔ انھیں معلوم تھا کہ وطن چھوڑنے کا مطلب ہے، اپنی جڑوں سے ہمیشہ کے لیے کٹ جانا۔
مجھے یاد ہے کہ خیرپور ضلعے کی تحصیل کوٹ ڈیجی کے مختصر ریگستانی علاقے میں واقع اپنی جاگیر پر زندگی کے آخری دن گزارتے ہوئے میرے دادا ماہیے گُن گُناتے ہوئے اپنے وطن کو یاد کرتے رہتے تھے۔
شاید ہجرت ان کا مقدر تھی، لیکن ایک ہجرت کے بعد ان کے خاندان کو پے در پے کئی ہجرتوں سے گزرنا پڑا اور یہ سلسلہ ایک مختلف صورت میں آج بھی جاری ہے۔
میرے دادا نے میرے والد کو سُکّا میں چھوڑ دیا تھا، کیوں کہ وہ چکڑالہ ہائی اسکول میں تعلیم حاصل کر رہے تھے، جو سُکّا سے بارہ میل دور واقع ہے۔
میرے والد ہر ہفتے چھٹی گزارنے گاؤں آتے تھے __ کبھی پیدل، اور کبھی اپنے پھوپھی زاد کی گھوڑی پر سوار ہو کر۔ ان کا پھوپھی زاد انھیں گھوڑی کے پچھلے حصّے پر بٹھاتا تھا، وہ جہاں سے پھسل کر اکثر نیچے گر جاتے تھے۔
میٹرک کے بعد دادا نے اپنے بیٹے کو سندھ بلوا لیا تھا، جب کہ وہ مزید پڑھنے کا خواہش مند تھا۔ میرے والد کو سندھ میں زراعت کے محکمے میں نوکری مل گئی۔
انھیں روز گار ملتے ہی میری دادی نے اپنے بھائی کی بیٹی سے ان کی شادی کر دی۔ خیر پور کی دو تحصیلوں، ٹھری میرواہ اور کوٹ ڈیجی کے مختلف گوٹھوں میں کچھ سال گزارنے کے بعد میرے والد نے اپنے خاندان سے الگ ہو کر محراب پور میں سکونت اختیار کر لی، جو اس وقت ضلع نواب شاہ میں شامل تھا۔
میں نے لکھنے سے پہلے سننا سیکھا تھا اور اس کے بعد پڑھنا۔ میری امی کی طرح میری دادی بھی سیدھی سادی گاؤں کی عورت تھیں۔ انھوں نے نہ تو الف لیلہ پڑھی ہوئی تھی اور نہ ہی وہ کَتھا سرت ساگر سے واقف تھیں۔ ان کے لیے ان کی اپنی زندگی الف لیلہ سے کم نہیں تھی۔ میری دادی دودھ کی بجی کھچی ملائی سے مکھن بناتی تھیں، اور مکھن میں آٹا ڈال کر اس سے دیسی گھی نکالتی تھیں۔ دیسی گھی فروخت کر کے انھوں نے بہت سی زمین خریدی تھی، جو میرے دادا نے دوست دار دشمنوں میں تقسیم کر دی تھی۔
جب کبھی ہم بہن بھائیوں نے دادی سے کہانی سننے کی فرمائش کی، تو انھوں نے سادگی سے اپنی زندگی کا کوئی تجربہ، یا واقعہ سنا دیا، جو ہمارے لیے کہانی جیسی لذت رکھتا تھا۔
محراب پور والے گھر میں محلّے کی عورتوں کی آمد و رفت رہتی تھی۔ کبھی وہ تندور کے گرد جَم گَھٹا لگاتی تھیں اور کبھی چُولھے کے گرد چوکیوں پر بیٹھی رہتی تھیں۔ جب روز مرہ زندگی کی پٹاری کھلتی، تو مزے دار کہانیوں کا سلسلہ چل نکلتا تھا۔
میں چپکے چپکے ان رچی بسی عورتوں کے جَم گَھٹ میں گھسا رہتا تھا، لیکن اکثر اوقات مجھے ڈپٹ کر بھگا دیا جاتا تھا۔
میرے گھر میں صرف میری باجی کو کہانیاں پڑھنے کا شوق تھا۔ وہ امی ابو سے چھپ کر اور سہیلیوں سے مانگ تانگ کر رومانی افسانے پڑھتی تھیں۔
میں نے چُوں کہ اسکول جانے سے پیش تر باجی کے ساتھ ان کے اسکول جانا شروع کر دیا تھا، اس لیے وہ کہانیاں صرف مجھی کو سناتی تھیں۔ کیوں کہ میں فرماں بردار چھوٹا بھائی تھا۔
کچھ برسوں کے بعد انھیں مطالعے کی اجازت تو مل گئی لیکن وہ عشقیہ داستانوں کی فضا سے باہر نہیں نکل سکیں۔
میں نے دو آنے چار آنے والی کہانیوں سے پڑھنا شروع کیا تھا، جو طلسمِ ہوش رُبا کے گھٹیا چربے کے سِوا کچھ نہیں تھیں مگر ان کے مطالعے سے تخیّل کو تو فائدہ پہنچا۔
تھوڑے ہی برسوں کے بعدجادو بھری کہانیوں کی فضا سے نکل کر جاسوسی کہانیوں کی گپھا میں داخل ہو گیا۔ مجھے یاد ہے کہ اس زمانے میں، اپنے چند دوستوں کے ساتھ مل کر مَیں نے ایک سیکرٹ سروس بنائی تھی اور ہم لوگ غیر حقیقی مجرموں کا تعاقب کرتے پھرتے تھے۔
میں نے راتوں کو چھپ چھپ کر اور لحاف میں گھس گھس کر ناقص روشنی کے با وُجود کئی ضخیم جاسوسی ناول چاٹ ڈالے تھے۔ اسی لیے ساتویں جماعت میں نظر کی کم زوری کا چشمہ لگ گیا تھا۔
میری امی چُوں کہ پڑھی لکھی نہیں ہیں، اس لیے میں انھیں جُل دے جایا کرتا تھا۔ میرے ابو مطالعے کو نصابی کتب تک محدود رکھنا چاہتے تھے۔ ان کے خیال میں قصّے کہانیوں کا مطالعہ تضیعِ اوقات کے سوا کچھ نہیں تھا۔
جب میں نویں جماعت میں پڑھتا تھا، تب میں نے عشق کے طلِسماتی دروازے پر پہلی دستک دی تھی۔ دروازہ کھلا، تو اندر سے بے شمار عجیب و غریب رنگ، خوش بُوئیں اور ذائقے برآمد ہوئے۔
میں تھوڑے عرصے کے لیے ان کے سِحَر میں ڈوب گیا۔ طلِسم ٹوٹا تو میرے سامنے مکمّل طور پر اجنبی اور حیران کن دنیا تھی۔ میں اپنے مقررہ وقت سے پہلے حقیقی دنیا کے رو بَہ رُو آ گیا تھا۔ مجھ میں تاب نہیں تھی کہ تضاد، منافقت، سازش، نفرت اور کدورت سے بھری دنیا کے آگے ٹھہر پاتا۔
شاعری کو میرے حال پر رحم آ گیا اور وہ میری انگلی پکڑ کر ایسی دنیا میں لے گئی جو موسیقی سے بھری ہوئی نازک لفظوں سے آراستہ، مسحور کُن اور خوب صورت تھی۔ شاعری کی پہلی کتاب، میں نے جس کا مطالعہ کیا تھا، منیر نیازی کی ساعتِ سیار تھی۔
میرے جذبات اور محسوسات کی گپھا گہری اور گمبھیر ہو گئی تھی، میرے نا تواں دل اور دماغ کے لیے جس کا بوجھ سہارنا مشکل ہوتا جا رہا تھا۔ چند بے وزن غزلوں کی تخلیق نے پرُ سکون کرنے میں مدد دی اور تھوڑے عرصے تک میرے توازن کو بَہ حال رکھا۔
سوچتا ہوں، تو اب یقین نہیں آتا کہ میرے اسکول کے اسکاؤٹ ماسٹر نے میری ایک غزل کی دُھن ہارمونیم پر بنائی تھی اور اپنے ایک شاگرد سے گوائی بھی تھی۔ میری طرح وہ استاد بھی عروض کی ا، ب نہیں جانتا تھا۔
میرے بڑے بھائی کے ایک دوست نے اس زمانے میں میری شاعری کی حوصلہ افزائی کی تھی۔ وہ آج تک وزن اور بحر کے چکر کو نہیں سمجھ سکے۔ میں کچھ عرصے تک ان کی سرپرستی میں بحرِ رمل میں غزلیں لکھتا رہا، لیکن میرے اشعار خود بَہ خود جا جا کر بحرِ رجز میں گرتے رہے۔ اس پر بھی یاروں نے واہ واہ میں کمی نہیں آنے دی۔
اس دوران میں نے میڑک پاس کرکے کالج میں داخلہ لے لیا تھا۔
ایک شام ایک چائے خانے میں چند کمیونسٹوں سے ملاقات ہو گئی۔ میں اس سے پہلے کسی اِزم وِزم کو نہیں جانتا تھا۔ وہ عروسی ملبوسات کی دُکان پر کام کرنے والے سیلز مین تھے، جنھیں کسی نے مارکس ازم کی پٹی پڑھادی تھی اور یوں انھیں ایک بَر تَر ذہنی سرگرمی میسر آ گئی تھی، وہ جس کی مدد سے روز مرہ زندگی کا غم غلط کرتے تھے۔
مجھ ایسا کم علم ان کے ہاتھ کیا لگا، انھوں نے اپنا سارا علم میرے کانوں میں انڈیلنا شروع کر دیا۔ مارکس، اینگلز اور لینن کی کتابیں، مقدس سمجھ کر مجھے زبردستی پڑھوائی گئی تھیں جو دوستوں کی بقراطی گفتگو کی طرح میری سمجھ میں بالکل نہیں آئی تھیں۔
لیکن جب انھوں نے کرشن چندر اور میکسم گورکی کے ناول پڑھنے کے لیے دیے تو میں نے انھیں سمجھنے میں دیر نہیں لگائی۔
ایک سوشلسٹ دوست کے اکسانے پر گورکی کے ناول، ماں کی طرز پر ایک ناول لکھنا شروع کیا۔ جو خوش قسمتی سے پورا نہیں ہو سکا اور میں ترقی پسند ادیب بننے سے بال بال بچ گیا۔
میرے ان یاروں کے پاس کتابوں کا وافر ذخیرہ موجود تھا۔ میں نے وہ سارے کا سارا چاٹ ڈالا اور اسی لیے مجھے دوستوں کی مارکسیّت کا پتا چل گیا۔ جو کھیل وہ میرے ساتھ کھیلتے تھے، میں نے ان کے ساتھ کھیلنا شروع کر دیا۔
میں نے اتفاقاً ریڈیو کے لیے ڈراما لکھا، جو براڈ کاسٹ ہو گیا۔ اس کے بعد مجھے خود بَہ خود کہانی لکھنے کا خیال آیا اور میں نے زندگی کے ایک تجربے کو پہلی بار افسانے میں ڈھالنے کی کوشش کی۔
کئی مرتبہ دوبارہ لکھنے کے بعد میں نے وہ کہانی ادبی پرچے کو ارسال کر دی۔ وہ چھپ گئی۔
کہنے کو تو میں افسانہ نگار بن گیا، لیکن بات اتنی سادہ نہیں تھی، جتنی کہ نظر آتی تھی۔
کہانی کی اشاعت کے بعد میں نے شاعری ترک کر دی۔ کیوں کہ مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ یہ محبوبہ، غزل سے زیادہ شاطر اور مکار ہے۔ ایسے فریب میں مبتلا کرتی ہے کہ چاہنے والا وصل کی خواہش لیے رخصت ہو جاتا ہے، اور اس کا لَمس تک حاصل نہیں کر پاتا۔
مجھے نہ صرف کہانی کے لَمس اور وصال کی آرزو تھی، بل کہ میں اسے زیرِ دام لانا چاہتا تھا۔ اگر چِہ یہ بات آج بھی خواب و خیال معلوم ہوتی ہے۔ کیوں کہ بعد کے برسوں میں مجھے اتنا تو معلوم ہو گیا کہ کہانی لکھنے کے دو چار نہیں، بے شمار طریقے ہیں۔
پریم چند اور گورکی کی سماجی حقیقت نگاری ہو، یا فلوبیئر کی مخصوص حقیقت نگاری، واقعیت بَہ ظاہر سادہ نظر آتی ہے، لیکن ہزار ہا طرزوں میں جلوہ گر ہوتی ہے۔
ٹالسٹائی، ترگنیف، دوستوئیفسکی اور چیخوف منفرد حقیقت نگار تھے۔ ڈی ایچ لارنس نے واقعیت نگاری پر شدید حملے کیے، مگر وہ خود اس جال سے نکل نہیں سکے۔ اسی لیے اس نے ہَرمن مَیلوِل کے مَوبی ڈَک کی بڑھ چڑھ کر تعریفیں کیں۔ کیوں کہ وہ سادہ علامت نگاری کا اوّلین شاہ کار تھا۔
جیمز جوائس نے شعور کی رَو کے تمام امکانات کا احاطہ کیا۔ ورجینیا وولف نے ناول میں اسلوب اور رمزیت کی اہمیت پر بے حد اصرار کیا۔ کافکا اور سارتر نے تجرید کو فروغ دیا اور بالکل مختلف قسم کے فکشن کی طرح ڈالی۔ ایڈگر ایلن پو اور صادق ہدایت نے سریئلزم سے استفادہ کیا۔ اور نہایت پیچیدہ موضوعات پر فکشن تحریر کیا۔
مارکیز اور بورخیس نے جادوئی حقیقت نگاری کے دَر وا کیے۔ غرض تمام فن کاروں نے اَن گنت طریقوں کو اظہار کے لیے ایجاد کیا۔
اپنی کہانی اپنے انداز میں لکھنا سہل کام نہیں۔ رائج الوقت اسالیب، موضوعات اور رجحانات سے علیحدگی، بل کہ کنارہ کَشی لازم ٹھہرتی ہے۔ در حقیقت یہ دشوار ہے، مگر کوشش کا دروازہ تو کبھی بند نہیں ہوتا۔
میرے لیے کہانی کی دریافت آگ کی دریافت سے کم نہیں تھی، اور میں نے خود کو اس آگ میں جھونکنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ اس لیے نہیں کہ میں کُندن بننا چاہتا تھا، بل کہ اس لیے کہ میں جل کر راکھ ہونا چاہتا تھا۔
میرے اطراف میں بہت سی آگیں بھبھک رہی تھیں، جن میں چمک دمک تو زیادہ تھی لیکن حدَّت بالکل نہیں تھی۔ میں نے ان سے بچنے کے لیے کہانی کی آگ کا انتخاب کیا۔
اس آگ نے آہستگی سے مجھ پر اپنے بھید کھولے۔ اس نے میرے اندر کی بجھی دنیا کو روشن کیا اور میری ذات کی ٹمٹماتی لَو کو شعلے میں تبدیل کر کے رکھ دیا۔ وہ شعلہ، اضطراب اور ہیجان کی صورت ہمہ وقت میرے اندر بھڑکتا رہتا ہے۔
جو لڑکا انٹرمیڈیٹ کے بعد اس بناء پر گریجویشن کرنے سے انکار کردے کہ اسے صرف افسانہ نگار بننا ہے، اور دنیا بھر کے فکشن کا مطالعہ کرنا ہے، اور کہانی کی طرف سے عائد ذمّے داریوں کو نبھانا ہے، اور ان چیزوں کے حصول کے لیے اسے درس گاہ جانے کی ضرورت نہیں، ایسے لڑکے کو پاگل اور خبطی قرار دینے کے سوا کیا کیا جا سکتا ہے __ اور یہی کچھ میرے ساتھ پیش آیا۔
بے اطمینانی اور نا آسودگی کی مَسمُوم فضا میں اگر کہانی میسر نہ آتی تو شاید میں زندہ نہ رہ پاتا۔
ظاہر ہے، خدا سے میرا ایمان اٹھ گیا تھا، الہامی کتب کے مطالعے سے طبیعت سیر ہو گئی تھی۔ ایسی صورتِ حال میں محبت کچھ حوصلہ دے سکتی تھی، لیکن اس جذبے کی نوحہ خوانی تو مدت پہلے متروک ہو چکی۔
اس واسطے میرے لیے کہانی صرف کہانی نہیں ہے، بَل کہ اپنے وجود کا اثبات، محرومیوں کا مداوا اور مکتی کا ذریعہ ہے۔ شاید اور بھی بہت کچھ ہے۔ ایک دھرم، نہیں اس سے بھی زیادہ۔