پاکستان کے تزویراتی ماحول کا بگاڑ اور فکری قلاش پن
از، نعیم بیگ
فلسطین میں امن قائم کرنے کی دنیا بھر کی مشترکہ کوششوں کو اس وقت خوفناک جھٹکا لگا جب ٹرمپ نے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالخلافہ تسلیم کرتے ہوئے اپنے سفارت کیاروں کو وہاں منتقل ہونے کا حکم دے دیا۔ امریکا کے اس فیصلے پر دنیا کی دیگر عالمی طاقتوں نے بھرپور احتجاج کیا۔ تاہم یہ سب ممالک ایسے ہی ہیں، جیسے نائن الیون کے بعد عراق پر حملہ کرنے سے پہلے انہی ممالک کے شہریوں نے ملین مارچ کے ذریعے عالمی احتجاج ریکارڈ کروایا تھا۔
یہ سب آئی واش ہے۔ مغرب کے یہی ممالک اپنے عالمی مالی اور ثقافتی مفادات کو امریکا سے بندھا ہوا دیکھتے ہیں۔ وہ احتجاج ضرور کرتے ہیں لیکن اس فیصلے کی مخالفت میں کوئی کنکریٹ لائحہ عمل بروئے کار نہیں لا پائیں گے۔
امریکا اس وقت ایک ایسے ٹروما میں مبتلا ہے، جس سے اس کی عالمی شناخت اور حرکیاتی طاقت دن بدن کمپرومائز ہوتی جا رہی ہے، جس کی واحد وجہ اس کے سامنے مستقبل کی مالی مشکلات کا نظر آنا ہے۔ گو سائنس کی ایجادات میں وہ اب بھی عالمی سطح پر لیڈ کر رہا ہے تاہم دیگر معاملات میں اسے جس تیزی سے اپنی معاشی ضروریات کو پورا کرنا ہوتا ہے، وہ خواب پورا ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی ہمہ جہت صیہونیت پسند تزویراتی فکری سوچ کو مہمیز دے رہا ہے۔ اسے ایک طرف اپنی معاشیات کو بہتر کرنا ہے جس میں اس کے تین بڑے صنعتی اثاثوں کو مضبوط ترین کرنا ہے۔ پہلا اسلحہ سازی، دوئم فارماسوٹیکل اور تیسری اِنڈیجینس متفرق صنعت کاری۔ جس کے لیے ٹرمپ نے سب سے پہلے امریکا کا نعرہ بلند کیاتھا۔
اس عالمی منظر میں ہمارے ہاں گذشتہ کئی مہینوں سے ہونے والے پے در پے اندرونی واقعات اور ان کے نتائج بیت المقدس سے کہیں زیادہ اہم ہیں۔ اس میں ٹرمپ انتظامیہ بلکہ خود ٹرمپ کے دیے جانے والی دھمکی آمیز بیانات اب دوٹوک ہو چکے ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ کو کنٹرول کرنے والے امریکی جرنیلوں کے جارحانہ پیغامات ٹرمپ کی اسرائیل میں ہونے والی تزویراتی پالیسیوں کا تسلسل ہیں۔
امریکا اس وقت کئی ایک محاذوں پر بیک وقت کھیل رہا ہے جس سے اس کے مخصوص حلقے (عوامی سطح نہیں) عالمی امن کو تہ و بالا کردینے کا دیرینہ خواب ،جو نائن الیون کے بعد کسی نہ کسی صورت وہ نتائج نہ لا سکا تھا، جن کی عالمی طاقت کے خفیہ مراکز کو توقع تھی، پورا ہونے کا یقین ہے، جس میں اس کی فلاح و بقا ہے۔
مشرق وسطیٰ میں امریکا ایک طرف اپنی سرپرستی میں سعودی عرب میں چونتیس مسلم ممالک کے اتحاد کو جنم دیتا ہے۔ ایک سو ارب ڈالر کے اسلحے کی فوری خریداری کے لیے سعودیہ سے ڈیل کرتا ہے۔ اس جدید اسلحہ کو استعمال کرنے کے لیے پاکستان کے عسکری ٹیلنٹ کو شاملِ اتحاد کرواتا ہے۔ دوسری طرف اس کی توجہ ایک بار پھر ایران، افغانستان اور پاکستان کی طرف ہو جاتی ہے جہاں وہ انڈیا کے ساتھ مل کر ایسے بے یقینی حالات کو جنم دیتا ہے، جہاں جنگ کی آگ کو شعلوں میں بدلا جا سکے، اور اپنے تزویراتی مقاصد کے حصول کو یقینی بنایا جا سکے جس میں پاکستان کے نیوکس سرِ فہرست ہیں۔
ہمارےلیے لمحہ فکریہ یہ ہے کہ دہشت گردی کے خطرے سے نمٹنے کے ایشو پر واشنگٹن پاکستان کی قومی سلامتی کے لیے براہِ راست اور واضح خطرے سامنے رکھتا ہے۔ اب وہ اپنے ارادے چھپا نہیں رہا، بلکہ جس تیزی سے حالات کو اس نہج پر لے جا رہا ہے، جہاں عالمی سطح پر اپنے موقف کو درست اور عین عالمی موریلیٹی قرار دے پائے۔ یہ وہی پالیسی ہے جو اس نے “ماس ڈسٹریکشن ویپن” کے نام نہاد ایشو پر عراق کے لیے اپنائی تھی۔
“قومی سلامتی کولاحق خطرات یہیں تک ہی محدود نہیں، پاکستان کو ممکنہ طور پر سعودی عرب اور ایران کے درمیان ہونے والی تاریخی جنگ کا حصہ بنانے کی بھرپور تیاری کی جا رہی ہے،” ان خیالات کا انکشاف جنگ کے کالم نگار سید طلعت حسین نے اپنے کالم مورخہ 7 دسمبر2017 میں کیا۔
تاریخ کاادراک رکھنے والا کوئی بھی شخص اس خوفناک صورت حال کا تجزیہ باآسانی کر سکتا ہے،کہ اندرونی سیاست میں اٹھنے والے ابال اور مذہبی قوتوں کے دھرنے ہمیں معقولیت سے کہیں دور پھینک رہے ہیں۔ ستتر میں پی این اے کی بھٹو کے خلاف تحریک سے اسی وقت ہوا نکل جاتی اگر بھٹو اپنی حقیقی عوامی طاقت کا خود ادراک رکھتے ہوئے نئے الیکشن کا اعلان کر دیتے۔
انھوں نے اپنے بیورو کریٹ رفیع رضا پر انحصار کیا جو امریکی ایماء پر انھیں لے ڈوبا۔ اگر نواز شریف اپنے اوپر پہلے الزام کے دھرے جانے پر ساری حکومت کو اپنے گلے سے اتار کر پھینک دیتے تو مجھے یقین ہے کہ عبوری حکومت کے دورانیہ میں (وہ بھلے کتنا ہی طویل کیوں نہ ہوتا) سکون سے خود بھی رہتے اور قوم کو بھی سکون میں رہنے دیتے، تب ایسے میں عوامی سطح پر وہ اپنی حیثیت سے کہیں زیادہ مقبول ہوتے۔ خفیہ ہاتھوں اور دماغوں نے انھیں ایسا کرنے پر فضول قسم کے خطرات سے ڈرایا، جس سے یہ اپنی پرانی حکمت عملی (سیاسی و قانونی جنگ) پر اتر آئے جس سے ملک میں تفرقہ پھیلا اور رہی سہی کسر ان مذہبی حلقوں نے پوری کر دی جنھیں پاکستان میں سب سے زیادہ وسیع القلب فرقہ کہا جاتا تھا۔
اس وقت پاکستان کے فیصلہ ساز حلقوں میں اندرونی و بیرونی خوف، فکری انتشار، اور لامتناہی مسائل کو حل کرنے سے زیادہ اپنی انا پسندی اور معمولی اداراتی مفادات سر فہرست ہیں۔ گو عالمی تنہائی اور جنگ کے خوفناک بادلوں میں گھری عالمی سیاست اِن کے گوش گذار ہو چکی ہے، لیکن ابھی قومی سطح پر ہم آہنگی کا فقدان ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے سیاست دان جنھیں عقل و دانش دکھانی تھی، اب گھٹنے ٹیک کر اس کڑے وقت میں ملک کے تمام مبینہ سٹیک ہولڈروں بشمول عدلیہ، عسکری قوت، ملکی سول بیورو کریسی اور انتظامیہ کا نئے عمرانی معاہدے کا ڈھول پیٹ رہے ہیں، جو درحقیقت ریاست کے ملازمین ہیں اور تنخواہ لیکر کام کرتے ہیں۔
کیا حقیقی سٹیک ہولڈرز پارلیمان اور عوام کوباہر نکال کر ایسا کرنا ممکن ہے؟ یہ ایک بڑا سوال ہے اور اگر ایسا ہے تب عوام کی ستر سالہ قربانیوں کو تاریخ کیا لکھے گی؟
کیا ہم تقسیم ہند کے بعد سیاسی فیلئر، اکہتر میں بازو کٹانے اور افغان جنگ کی ہولناکیوں کے بعد بھی نہیں سیکھ پائے ۔۔۔ حیرت ہے ہم کہاں کی مٹی ہیں؟