فلم آل از لاسٹ All is Lost کا ایک علامتی جائزہ
از، فرحت اللہ
اگر عَلَامَت سَماج کو بدلنے، سَماجی اَقدار پر سوال اُٹھانے اور حدود کے پار جانے کی شُعوری اور لا شُعوری اقسام پر مشتمل ہو سکتی ہے تو کیا عَلَامَت ایک آفاقیت یا ہَمہ گیریت کی حامل ہو سکتی ہے؟ کیوں کہ سَماجی اَقدار پر سوال اُٹھانے، سَماج کو بدلنے کی کوشش در اصل ایک اِدعا dogma پر ہی حملہ ہے۔ جب کہ ہَمہ گیریت یا آفاقیت بذاتِ خود ایک ڈاگما کی حیثیت رکھتی ہے۔
آج ہم فلم آل اِز لاسٹ All is Lost سے مُتعلق اُن عَلَامات کی بازیافت کریں گے جنھیں ہم اس سے پہلے فلم ‘لائف آف پائی’ کے ضِمَن میں جان چکے ہیں۔ اِن علامات کا تَسلسُل اس بات کی علامت ہے کہ آرٹسٹ (بطورِ لکھاری، فرد، باغی…) کے ہاں زندگی کرنے کا ایک مُتَوازی اِدعا dogma کا وجود رکھتا ہے۔ جو سَماج کے اِدعا کو عَلَامَت کے بھیس میں مُتاثِر کرتا جاتا ہے۔
اس فلم کی کہانی کیسے شروع ہوتی ہے؟ اس کےلیے پہلے ایک رائے دیکھتے ہیں۔ فلسفۂ وجودیت کے بارے میں کولن ولسن کے الفاظ نَقل کرتے ہوئے شہزاد احمد صاحب لکھتے ہیں: ”یہ ایک ایسا رَویّہ تھا جس میں مَتلی، بےمعنویت، جہاز ڈُوبنے کی کَیفیت اور یقین کی جانب جَست شامل تھے…“
سو، کہانی کچھ یوں ہے کہ ہمارا آدمی our man اچانک لگنے والے جھٹکے سے جاگ اُٹھتا ہے تو اُسے معلوم ہو جاتا ہے کہ کُھلے سَمُندر میں اُس کے بادبانی کشتی کو ایک آوارہ تیرتے کنٹینر نے ٹکر ماری۔ یہ ٹکر ایک چھوٹا سا سوراخ اس کی کشتی میں چھوڑ جاتا ہے۔ ہمارا آدمی اِس سوراخ کی مُرَمّت کرنے کے اسباب تلاشتا ہے۔
کسی حد تک وہ اس ‘گھاؤ’ کو بَھرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ رات کو طوفان آ جاتا ہے، جو ہمارے آدمی کو اس سوراخ کے متعلق تشویش میں مبتلا کر دیتا ہے۔ وہ ریڈیو کے ذریعے مدد مانگنے کی کوشش کرتا ہے لیکن ریڈیو کام نہیں کرتا۔ وَقت گُزرنے کے ساتھ ساتھ ہمارا آدمی، ضروری سامان لے کر اپنی باد بانی کشتی کو چھوڑ کر لائف بوٹ میں آ جاتا ہے اور کشتی کو ڈُوبنے دیتا ہے۔
لائف بوٹ پر وہ دن نکالے جاتا ہے اور باد بانی کشتی سے اُٹھا لائے گئے ‘ایمرجنسی ٹول کِٹ’ سے سَمُندر میں راستہ تلاشنے کی کوشش کرتا ہے۔ ایک دو دفعہ قریب سے بڑے بڑے کارگو بحری جہاز بھی گزر جاتے ہیں مگر وہ ہمارے آدمی کو نہیں دیکھ پاتے۔ اور وہ بے سُود روشنی کے امدادی کارتُوس چَلائے جاتا ہے۔
ایک رات ہمارا آدمی دور سَمُندر میں کِسی کَشتی پر سَرچ لائٹس دیکھ لیتا ہے۔ ہمارا آدمی اُن سَرچ لائٹس کو مُتَوجہ کرنے کرنے کے لیے اپنے لائف بوٹ میں آگ جلانے کی کوشش کرتا ہے۔ آگ جل اُٹھتی ہے اور ساتھ میں پلاسٹک کے لائف بوٹ کو بھی جلا دیتا ہے۔ ہمارا آدمی عظیم سَمُندر میں چھلانگ لگا لیتا ہے اور امدادی سَرچ لائٹس سے مایوس ہو کر جِد و جہد چھوڑ کر خود کو ڈُوبنے دیتا ہے۔ وہ بےحرکت ڈُوبتا چلا جاتا، نمکین سَمُندری پانیوں میں دُھندلاتے، جِھلمِلاتے چاند کو دیکھتا ڈُوبتا چلا جاتا ہے۔
پانیوں کے اندر تاریکی بڑھنے لگتی ہے کہ اوپر پانیوں پہ سَرچ لائٹ جِھلمِلاتی دکھائی دیتی ہے۔ ہمارا آدمی توقف کر کے یقین کی منزل پہ پہنچ کر اوپر سَطح کی طرف تَیرنا شروع کر دیتا ہے اور سَطح کے عین قریب ظاہر ہونے والے ایک ہاتھ کو اپنا ہاتھ تَھامنے دیتا ہے۔
یہ رہا کہانی کا اختصار، اب اس کہانی کی عَلَامَتی تَفہیم کی طرف آتے ہیں۔
۱۔ سمُندر: زندگی کا اِستِعارہ بن کے سامنے آتا ہے۔ خوابوں کی تعبیر کے مطابق (اس طرح لاشُعوری مَنطِق کے مطابق) سَمنُدر ’باز پیدائش‘ rebirth کی عَلَامَت ہے۔ فلم ’لائف آف پائی‘ پر تبصرہ کے ضِمَن میں ہم یہ بات جان چکے ہیں کہ ادب میں سمُندر زندگی کی سب سے ٹھوس علامت کے طور پر پایا جاتا ہے۔
‘ادبی عَلَامَتی حقائق’ کو سامنے رکھتے ہوئے ہم سَمُندر کی ’مَعدوم تَناظُر کی حامل زندگی‘ perspective-less life کی حیثیت سے تعبیر کریں گے۔ زندگی، جو حادثاتی یا اِختِیاری حوالے سے کسی بھی قسم کے تَناظُر سے تَہی ہو۔ یاد رہے کہ بعض جگہوں پہ اس کو ہم ‘خالص ذات کی دنیا‘ pure soul’s world بھی کہہ سکتے ہیں۔
۲۔ بوڑھا آدمی: یہ قدیم سوچ کے مظہر کے طور پر سامنے آتا ہے۔ یہ ’دانِش مند بوڑھے‘ کا آرکی ٹائپ بھی ہو سکتا ہے۔ جس پر ہم فلم ’دَا گیوَر‘ کے تبصرے میں بات کر چکے ہیں۔ یہ ذات/self کا اِستِعارہ بھی ہو سکتا ہے۔ ایک پُرتَعیُّش باد بانی کَشتی میں ایک بوڑھا آدمی! کیا یہ ایک شان دار شخصیت کے لبادے میں چُھپے دانِش مند بوڑھے کا آرکی ٹائپ نہیں؟ کیا یہ شخصیت کے مَلبوس میں کوئی حقیقی ذات نہیں؟ کیا یہ سَطحیت کے نیچے گہرائیوں کی علامت نہیں؟ شاید اب ہم اس پہ مُتَّفِق ہوچکے ہیں۔
مزید ملاحظہ کیجیے: 1۔ “اور جب وہ مسکرائی” انگریزی ناول از ڈاکٹر صولت ناگی
2۔ Babar’s Autobiography– وقائع نامہ
3۔ لوئیس لاری Lois Lowry کے ناول پر بنی فلم The Giver کی علامتوں کا مطالعہ
۳۔ کَشتی: نقاب persona کی عَلَامَت ہے۔ یہ ادب کے دروازے سے اپنی معنی تک رسائی دیتی ہے۔ کَشتی ہماری شخصیت کی نمائندگی کرتی ہے۔ کَشتی باد بان کے ساتھ جبریت determinism کی حیثیت اِختِیار کر جاتی ہے۔ باد بان ہوا کا رَہینِ مِنّت ہے۔ ہوا کے ساتھ آپ بَھلے تدبیر کا کِھلواڑ کریں، ہوا کی عدم موجودگی آپ کی تدابیر کو ’نمکین پانیوں‘ کی نَذر کردے گی۔ ہم عَلَامَتی جمالیات کی حامل شان دار فلموں میں اس کا تَسَلسُل دیکھنے والے ہیں۔
۳۔ حَادِثہ یا ٹکراؤ: شہزاد احمد صاحب ‘کارل جسپر’ کے حوالے سے لکھتے ہیں۔
”…انسان اپنی ذات self کا سامنا اس صورتِ حال میں کرتا ہے، جسے سرحدی boundary صورتِ حال کہا جاتا ہے، جس میں موت، اذیّت، احساسِ گناہ یا کوئی اچانک حَادِثہ شامل ہے…“
ایک لگژری سیل بوٹ سَمُندر میں تَیرتے پِھرتے ایک آوارہ کنٹینر سے ٹکرا جاتا ہے یا یہ کہ ایک شان دار شخصیت کو ایک حَادِثہ کُھرچ کے رکھ دیتا ہے تو اندر سے ذات کے رنگ پُھوٹ پڑتے ہیں۔ کنٹینر یہاں ایک اِتفاق کا اِستِعارہ ہے۔
ٹکراؤ کے بعد، ہمارا آدمی کَشتی کے سوراخ کو دنیا دارانہ برتاؤ کے ساتھ مُرمّت کرنے کی حتّی الوسع اور حتّی الامکان کوشش کرتا ہے۔ ہم اس عَمل کو ایک شخصیت کی ایک چوٹ کو، کسی حادثے کو سہلانے کی یا نظرانداز کرنے کی، بُھولنے کی کوشش کے طور پر لے سکتے ہیں۔
۴۔ کَشتی اُلٹنا یا مَتلی ہونا: یہ دراصل نقاب persona میں گُھٹن، سَماجی شناخت کے اندر تَحدید اور گُھٹن کی عَلَامَت ہے۔ یہ مظہر وجودی فِکر کے مطابق nausea اِمتِلائے ذات کو پیش کرتا ہے۔ فلم لائف آف پائی اور کاسٹ آوے Cast Away کے ساتھ ساتھ اس فلم بھی متلی کی کیفیت سامنے آتی ہے۔
۵۔ ڈوبتی کشتی: نقاب یا persona کا خاتمہ ـــ ’حَادِثات‘ کے سبب کَشتی ٹوٹ جاتی ہے تو ہمیں پانیوں کو سونپ دیتی ہے۔ اسی طرح حَادِثات کے سبب شخصیت ٹوٹ پُھوٹ کا شکار ہو جاتی ہے اور یوں ہم ’کُھلے پانیوں‘ میں ڈُوبتے اُبھرتے زندگی کی بے معنویت یا عدمِ تَناظُر کے شاہد بن جاتے ہیں۔ کَشتی کا بتدریج خاتمہ اور ضروری اشیاء لینے کے بعد ڈُوبنا، در اصل شخص person کی ’فردیت‘ individuality کے لیے پرسونا اور کلچر سے ضروری بنیادوں کو مُستَعار لینا ہے۔ ایک شخص کسی سبب عدمِ تَناظُر کی طرف جا نکلتا ہے تو اس کے پاس اپنے کلچر اور پرسونا کی کچھ نہ کچھ یادگاریں ضرور باقی رہتی ہیں۔ جن کو وہ عدمِ تَناظُر کی مطلقیت سے واپسی پر مانجھے گئے حالت میں واپس لاتا ہے۔ اور یوں وہ ’شخص کے بجائے فرد‘ بن کر رہتا ہے۔ جسے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انفرادی ہستی کا سفر (فردیت کا دائرہ) کہاں کہاں سے ہو کے جاتا ہے؟ یوں فرد ایک وجودِ مُصَدّقہ بن جاتا ہے۔
۶۔ لائف بوٹ: لائف بوٹ شخصیت اور فردیت کے عُبوری مرحلے کی نمائندہ ہے اور دُور بین نو گو ایریا یا ممنوعہ سر زمین کی تلاش کی عَلَامَت ہے۔ لائف بوٹ میں ہمارا آدمی کَشتی سے نکالے گئے نقشوں سے کام لینے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ ہمارے آدمی کی عدمِ تَناظُر کی سر زمین پہ اپنے کلچر کی یاد ہے۔ کلچر حادثات کا مقابلہ کرنے کے لیے جو ثقافتی آلات devices مُہیّا کرتا ہے۔ ہمارا آدمی عدمِ تَناظُر کی سر زمین پہ اُس سے کام لینے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ نقشے پامال راستوں کے رَوایتی، توہماتی اور رَسمی مَنطِق زدہ راستوں کی بھی نمائندہ ٹھہرتے ہیں۔ اس طرح دیگر آلاتِ تحقیق مزاج میں سوال کو ظاہر کرتے ہیں۔
۷۔ ریڈیو: خارج سے رابطہ کی عَلَامَت ہے۔ یہ اَحیاء کی کوشش ہے۔ سَماج سے مدد طلب کرنے کی عَلَامَت ہے۔ ریڈیو کام نہیں کرتا کیوں کہ سَماج ہمارے آدمی کے مسئلے کو سمجھ نہیں پا رہا، سَماج کے کمپیوٹر میں ہمارے آدمی کے مسئلے کا حل اِن پُٹ نہیں ہے۔ سو سَماج اس حوالے سے بے بس ہے۔ یا ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا آدمی حدود کے پَرے ہے اور اُس کو تلاشنا یا locate کرنا سَماج کے بَس کی بات نہیں۔
۸۔ کارگو بَحری جہاز: سَماجی شناخت یا سوسائٹی کا اِستَعارہ ہے۔ کَشتی جو شخصیت کی عَلَامَت ہے، کے نسبت بڑا بحری جہاز کثیرشخصیتی شناخت کا مظہر ہے یعنی ایک سَماج یا سوسائٹی۔ ہمارا آدمی ٹوٹ پُھوٹ کا شکار ہوکر عُبوری مرحلے (فردیت اور شخصیت کے بیچ) پہ آ کے شکست کے قریب کے ہیں۔ یہ وہ خاص لمحہ ہے جب فرد بننے والا شخص عدمِ تَناظُر کو برداشت نہیں کر پاتا۔ اُسے کسی تَناظُر کی، پہچان یا شناخت کی طلب ہو جاتی ہے۔ وہ کسی سَماجی شناخت کا حامل ہونا چاہتا ہے۔ مگر یہاں ہمارے آدمی کے لیے یہ بوجوہ ممکن نہیں ہو پاتا (اگر چہ یہ ممکن ہے) اور ہمارا آدمی سَماج کے قابل بننے کی ناکام جِد و جہد کرنے میں مزید مَلُول ہو کے رہ جاتا ہے۔
فلم لائف آف پائی Life of Pie اور کاسٹ آوے Cast Away میں بھی یہی کارگو بَحری جہاز کا مظہر سامنے آتا ہے۔ اگر اس نقطۂ نظر سے دیکھیں کہ ان تینوں فلموں کا مرکزی خیال ’فردیت‘ ہے، تو اِسی طرح یہ سمجھ میں آ جاتا ہے کہ یہ ہمارے ہیروز کی فردیت کی راہ پر ایک ہی طرح کے نفسی کَیفیت کو ظاہر کرتا ہے۔
۹۔ طُوفان: خارجی دباؤ اور نفسی مدوجزر کا مظہر ہے۔
۱۰۔ ڈُوبنے کا عَمل: پشتو کے نامور شاعر حَمزہ خان شِنواری کے ایک شعر کا مفہوم یوں ہے کہ زندگی کو اپنے راستے جانے دے، اِسے سمجھنے، سمجھ کے راہ لگانے سے زندگی ڈَگمگانے لگ جاتی ہے۔ کچھ ایسے ہی احساس کا تَجرِبہ قِسمَت پَرستوں اور جِد و جہد سے تھک ہار جانے والوں کو ہو جاتا ہے۔ ہمارا آدمی بھی تھک ہار کر خود کو ڈُوبنے دیتا ہے۔ با الفاظِ دیگر قِسمَت کو اپنا کام کرنے دیتا ہے۔ یہاں ڈُوبنے کا عَمل سَطح کے زمینی معنی اُبھار لاتا ہے، یعنی ’سَطح سے گہرائیوں کی طرف‘ کی مَعنی دیتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمارا آدمی وَسیع سَمُندر کے تھپیڑے کھانے کی مَعنویت پر غور کرنے لگ جاتا ہے۔ اِس پورے عَمل کی مَعنوی گہرائی اُس پہ کُھل جاتی ہے۔ تَصوّف کی اِصطِلاح میں (کیوں کہ فردیت کا عَمل سُلوک سے مُمَاثِل یا مُتَوازی ہے) اِس عَمل کو مُکاشفہ کہتے ہیں۔
۱۱۔ حَادِثاتی یا غیر مُتَوقّع مدد: یہاں پر ہم فلم لائف آف پائی ، کاسٹ آوے اور اس فلم کے نقطۂ اِرتِکاز کو دیکھ لیتے ہیں۔ جہاں پر مدد کے لیے ‘غیر مُتَوقّع ہاتھ’ آ پہنچتا ہے۔ ’لائف آف پائی‘ میں ہیرو مغرب کی اور جا رہا جب کہ یہاں کے ہیرو کو بَحرِ ہِند میں داخل ہوتا دکھایا گیا ہے۔ دونوں جگہوں پر ہِند سے وابستہ مشرقی مزاج میں شامل ‘ماورائی ہاتھ یا پُراَسرار طاقت‘ اپنا آپ ظاہر کر دیتا ہے۔ بَحرِ ہِند شِو یا نَارائن کے حوالے سے اور تخلیقِ کائنات کے ہِندی دیو مالا کے پُراَسرار پانیوں اور ہِند کے پُراَسرار کہانیوں کا جَادُو ہزار سالوں سے ادبِ عالم پہ چھایا رہا ہے۔
’آل از لاسٹ‘ کا ہمارا آدمی مغربی مزاج کے تنہائی پسندی کی عَلَامَت ‘لگژری سیل بوٹ’ پر نَمُودار ہوتا ہے۔ جب کہ ’لائف آف پائی‘ میں ہیرو ایک بَھرے پُرے جہاز میں مغرب کی طرف مشرق کو سِینے سے لگائے جاتا نظر آتا ہے۔ اِن تینوں فلموں میں حادثاتی یا غیر مُتَوقّع مدد اِس بات کا اِشارہ بھی ہے کہ اِرادہ کے علاوہ چانس یا اِتفاق بھی زندگیوں میں کایا کَلپ یا قَلبِ ماہِیَّئت مُمکن ہے۔