بولڈر شہر اور تُم: آخر کہاں ہو تُم؟
از، ڈاکٹر شیراز خان دستی
تُمہاری تلاش میں میں نے کلفٹن میں ڈاچیوں کے پلان دیکھے۔ کوئٹہ کے جبل النُور پر کوہ پیمائی کی۔ مارگلہ میں ڈُھونڈا جہاں ننھے ننھے پُھولوں کی مُسکُراہٹ مصر تھی کہ تُم اُن کی اوٹ میں ہو۔ مگر وہاں خُوشبُو کے سِوا تُمہارا اور کوئی سراغ نہ ملا۔پیسیفِک کے پانیوں میں اُترا۔ اُن کی شفافیت لہرا لہرا کر کہتی رہی کہ تُم وہیں کسی کشتی کے بادبانوں کے پیچھے ہو۔ مگر اُن کے پیچھے تُمہارے اُجلے پن کے علاوہ اور کُچھ بھی نہ تھا۔
تھائی لینڈ کے جزیروں میں جا کر دیکھا۔ جنگل کی مست مورنیوں نے اپنے بدن کے خُوش رنگ کینوَس پر تُمہاری صورت کا عکس کھینچ کے بتایا کہ تُم بُدھا کے پہلُو میں ہو۔ جا کے دیکھا تو بُدھا بھی تنِ تنہا بیٹھا تھا۔ اُس کے پہلُو میں تمہارے چہرے کے سکُون کے سِوا کُچھ بھی نہ تھا۔
اٹلانٹک کے مغربی کِنارے پر صدیاں پہلے کِسی مقامی سَسی نے یورپ کے اُوباشوں سے بچنے کے لیے نِگاہِ اِلتجا آسمانِ الٰہی کی طرف اُٹھائی تو حرمتِ حوا کی خاطر زمین کو چاک کر دیا گیا۔ اُس کے کُچھ عرصہ بعد وہاں ایک خوب صُورت جھیل اُگ آئی جِس کی جڑیں اٹلانٹک کے پانیوں تک پھیل گئیں۔ سُنا ہے اُس جھیل میں پریاں پرِندوں سے پیار کے گیت سیکھنے آتی ہیں۔ تُمہارے تن بدن کا بھی تو روم روم اِکتارہ سا تھا۔
سو ایک بار تُمہیں وہاں دیکھ لینے میں کیا حرج تھا؟ وہاں پہنچا تو درختوں کے پتوں پر بیٹھی شبنم نے جِھلمِلا جِھلمِلا کر تُمہاری آنکھوں کی چمک کی قسمیں کھائیں کہ تُم درختوں کی شاخوں کے بِیچ لگے گُداز جُھولوں میں ہو۔ مگر اُن جُھولوں کے اندر مُجھے تُمہارے اِنتظار کے سِوا تُمہارا اور کُچھ بھی نظر نہ آیا۔ پھرتا پھراتا میں بولڈر شہر میں آ گیا۔شاداب پہاڑوں کے ایک وسیع سلسلے نے بولڈر کی وادی کو یوں پیار سے اپنی آغوش میں لے رکھا ہے جیسے میرے دِل نے تُمہاری یاد کو۔
ستمبر کی جس دوپہر میں یہاں پہنچا اُس میں دُھوپ تو تیز تھی مگر گرمی نام کو بھی نہ تھی۔ پہاڑ اپنے درختوں کے ساتھ مل کر اِس وادی کو ہوا جھل رہے تھے۔ کاریز بھاگ بھاگ کر اپنی آبشاروں کے لیے پانی لا رہے تھے۔ جھیلیں دُھوپ کے ماتھے پر بُخارات کی پٹیاں رکھتی جا رہی تھیں۔ ٹھنڈے سائے دیواروں سے اُتر اُتر کر راہ گیروں کے پاؤں چُوم رہے تھے۔ تاکہ دھوپ کی شدت سے نکل کر کسی کی آہ تُمہارے خواب کے ترنم کو ماند نہ کر دے۔ جوں جوں میں آگے بڑھتا گیا تُمہاری یہاں موجُودگی کا احساس اپنے وجود کے ہجے تیقن سے بدلتا گیا۔ اسی تیقن کی سیڑھیاں چڑھ کر ایک روز میں راکی پہاڑوں کی ایک چوٹی پر جا بیٹھا۔
نیچے شہر میں جشن کا سا سماں تھا۔ سارا شہر وادیِ بولڈر کی ہتھیلی پر بیٹھا تُمہارے ہونے کا جشن منا رہا تھا۔ دُور سے اپنی آنکھوں پر ہاتھ کا پیالہ رکھ کر میں تمہیں ڈھونڈنے لگا۔ شہر کے ایک طرف مجھے سر سبز چرا گاہیں نظر آئیں جن کی حد ڈینور شہر کو جانے والی ـ’’ چھتیسویں سڑک‘‘ تھی۔ اِس سڑک کے ساتھ ساتھ بائیکرز کے لیے بنی ایک چھوٹی سی سڑک پر ایک سائیکل سوار بہت تیزی سے وادی میں اُتر رہا تھا۔ جیسے تُمہارے ہونے کے اس جشن سے چُوک گیا تو اپنے ہونے کو کھو بیٹھے گا۔
میرے بائیں طرف کچھ بدلیاں لانگز پِیک نامی چوٹی سے نکلیں اور ہوا کی بیڑی پر سوار ہو گئیں۔ اٹھکیلیاں کرتی، اپنی راہ میں کھڑے پیڑوں میں میگھ موتیوں کی مالائیں بانٹتی، یہ بھی تُمہارے ہونے کے جشن میں شامل ہونے آرہی تھیں۔ لانگ مونٹ کے کبوتروں کو اِطلاع ملی تو ایک لمحہ بھی ضائع نہ کیااور جشن کی اَور اُڑ چلے۔اپنی پانت کے نیچے’’ ایک سو اُنیسویں شاہراہ‘‘ پر مخالف سمت کو جاتی ہوئی گاڑیوں پر کُفرانِ محبت کا طعنہ گُٹکتے وادی میں آ اُترے۔
اُن کی گُٹگُٹاہٹ گرینڈ لیک کے کسی جواں سال بگلے کے کان پڑی تو سوچوں میں پڑ گیا، کہ ہو نہ ہو کہیں محبت کا میلہ لگا ہے جو یہ عاشق مزاج کبوتر گٹکتے آ رہے ہیں۔ سوچوں میں زیادہ ہلکان ہوئے بنا اُس نے اپنے کچھ یاروں کو آنکھ ماری اور مچھلی کی تاک میں بیٹھے ماں باپ سے نظر بچا کر فوراً تمہارے جشن میں شامل ہونے چلا آیا۔
بولڈر امیروں کا شہر ہے اور اُمُرا محبت کے تہواروں میں بھی جیبوں میں جواہر ڈال لاتے ہیں۔ انہیں کے بہ سبب مقامی دکاندار تمہارے جشن میں اپنے کاروبار اُٹھا لائے۔ اُن کی ملازمہ دوشیزائیں سمندری شیشے سے بنے گہنوں سے لے کر چینی ریشم سے بنی گانیوں تک ہر طرح کا مال بیچنے لگیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے پرل سٹریٹ میں میلہ اپنے عروج کو پہنچ گیا۔ کسی گائیکہ نے کوئی گیت چھیڑا تو اُس کی لَے کے ساتھ بدن یوں مسکرائے کہ گلی کی ہوا ایک خوب صورت ردھم کے ساتھ لہلہلانے لگی۔ میں اب بھی اپنی آنکھوں کے اوپر ہاتھ کا پیالہ رکھ کر اُس ہجوم میں تمہیں ڈھونڈ رہا تھا۔ تا دیر میری دِید پرل سٹریٹ میں پھرتی رہی۔ آثار مجھ پر چلا رہے تھے کہ تم یہیں ہو، مگر میری آنکھیں بس تمہارے وجود کا ہیولہ سا بناتیں اور پھر بگاڑبیٹھتیں۔
بنی ہوئی بگڑ جانے پر اس کائنات کی ہر ذی روح شئے تھک ہار جاتی ہے۔ سوائے میری آنکھوں کے جو اپنے تیقن کے ہجوں کو الٹے پاوٗں لوٹتا ہوا نہیں دیکھ سکتیں۔ میرے من کے مندر میں رکھی مُورتی میں سانس پھونکنے پر مصر ہیں۔ اُنہیں یقین نہیں آتا کہ کوئی شہر تمہیں چھُوئے بغیر اس قدر خوب صورت کیسے ہو سکتا ہے۔ کبھی کبھی تو مجھے لگتا ہے کہ ان آنکھوں کے شعلے بولڈر شہر کی مٹی، راکی پربتوں کی ہوا اور گرینڈ لیک کے پانیوں کو تاپ کر تمہارا وجود تراش لیں گے۔ مگر مجھے تم تراش سے نہیں، تلاش سے چاہیے ہو!