پائیدار حل سوچیے
از، نصیر احمد
اگر کوئی بھلا انسان ٹکر جائے اور بھلائی کی وجہ جاننے کی کوشش کریں تو وجوہات کے سلسلے تعلیم و تربیت اور ارد گرد موجود لوگوں کے اخلاقی دباؤ سے ملتے ہیں۔ اچھے ملکوں میں اس تعلیم و تربیت اور اخلاقی دباؤ کے پیچھے معاشرتی اداروں کا بھی ایک انتہائی اہم کردار ہوتا ہے۔ اس طرح کی بھلائی دیرپا ہوتی ہے اور اس کی دیرپائی معاشرے کے لیے مفید ہوتی ہے کہ معاشرے میں امن اور انسانیت کا معیار بہتر ہو جاتا ہے۔
ہمارے ہاں کے خوفناک جرائم کے حل بھی تعلیم و تربیت، اداروں کی بہتر کارکردگی اور بھلائی کے حق میں معاشرتی دباؤ کے ذریعے ہی آئیں گے۔ اسی سمت میں بہت زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔
اور انسانی بھلائی کا سب سے بہترین ذریعہ جمہوریت اور جمہوری ادارے ہیں۔ اس کے لیے کسی جمہوری اور ترقی یافتہ ملک کا دورہ کرلیں۔ جرائم کم کرنے کے متعلق ان کی پالیسیاں دیکھ لیں۔ جرائم کی روک تھام کے لیے، انصاف کے حصول کے لیے اور مجرموں کو سزا دینے کے متعلق ایک مثبت بحث ان جمہوری نظاموں میں موجود ہوتی ہے۔ اب بہت سی خرابیاں ان نظاموں میں بھی شامل ہو گئی ہیں لیکن ان کی وجوہات کے سلسلے طاقت، پیسے اور شہرت کے حصول کے لیے جمہوریت کو کمزور کرنے سے جڑے ہوئے ہیں۔
لیکن ہمارے ہاں کی گفتگو، جذباتیت، جہالت اور بلوے سے ہٹتی ہی نہیں۔ جس کے نتیجے میں جرائم کے خاتمے کے لیے ہم تشدد میں اضافے کے سوا کسی اور حل کی طرف نہیں دیکھتے۔ اب کچھ تعلیم و تربیت اور اخلاقی دباؤ پر کچھ بات چلی ہے لیکن اصرار پھر بھی تشدد میں اضافے پر ہے کہ پہلے الٹا لٹکاتے ہیں پھر پڑھانے کا سوچتے ہیں۔
لیکن اس طرح بات گھوم پھر کے پھر بلوے کی طرف لوٹ آتی ہے۔ اور یہ چکرا چلتا ہی رہتا ہے۔ لیکن تعلیم و تربیت، معاشرے کا بھلائی پر اصرار اور اداروں کی مضبوطی جیسے حلوں پر کام نہیں ہوتا۔
پورے علاقے کا یہی حال ہے۔ اب ہندو مسلمان ساتھ نہیں رہ سکتے۔ اس کے لیے بلوہ برپا کیا جاتا ہے۔ بہت سارے جرائم ہوتے ہیں۔ اور بلوے کے دوران سارا، جمہوری، عدالتی، اخلاقی اور اداراتی نظام مفلوج ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد بڑی دکھیا شاعری ہوتی ہے، رلا دینے والے افسانے لکھے جاتے ہیں اور دل توڑنے والے ناول تحریر ہوتے ہیں لیکن جمہوری عدالتی، اخلاقی اور اداراتی نظام نہیں بحال ہوتے اور نہ ہی شہریوں کی تعلیم و تربیت پر زیادہ کام کیا جاتا ہے۔ جس کے نتیجے میں کچھ عرصے بعد ایک اور بلوہ ہو جاتا ہے کہ اب ہندو اور سکھ ایک شہر میں ساتھ ساتھ رہ نہیں سکتے۔
تقسیم کے بلوے، ہندو مسلم فسادات، پنجابی بنگالی بلوے، مہاجر پختون بلوے، بہاری بنگلی بلوے، ہندو سکھ بلوے، مسجد و مندر کے بلوے، زبان و بیان کے بلوے، ذات پات کے بلوے، سنی شعیہ بلوے ، بدھ مسلم بلوے اور نجانے کتنی اقسام کے بلوے۔ ہر دفعہ یہی ہوتا ہے کہ نہ مجرم پکڑے جاتے ہیں، نہ انھیں سزا ملتی ہے اور نہ ہی معاشرتی اصلاح کے لیے تعلیم و تربیت کا آغاز کیا جاتا ہے۔ بلکہ بعض اوقات بلوہ برپا کرنے کے بعد آپ وزیر اعلٰی سے ترقی کر کے پردھان منتری بن جاتے ہیں۔
اس تعلیم و تربیت کی کمی کے نتیجے میں معاشرو ں میں جمہوریت اور اس سے متعلق بھلائی کمزور ہوتی رہتی اور شدید سزاؤں کا مطالبہ بڑھتا رہتا ہے۔ اور بلوؤں کے درمیان کے کے وقفے میں شدید سزائیں دی بھی جاتی ہیں لیکن جب جمہوری ادارے مضبوط نہیں ہوتے تو شدید سزاؤں سے انصاف کا پہلو غائب ہو جاتا ہے۔ اور انصاف کے غیاب کے بعد معاملات درست کرنے کے لیے ایک اور بلوہ برپا کر دیا جاتا ہے۔
بلوہ اصل میں شدید غم و غصہ کے نتیجے میں قانون اور اخلاق معطل کرنے کی ذہنیت کا نتیجہ ہے۔ اب معاشرے کا ایک فرد غصے میں قانون اور اخلاق معطل کردے تو معاشرے نے اس معطلی کی روک تھام کرنی ہے اور اگر معاشرہ قانون اور اخلاق کی معطلی کا جواب قانون اور اخلاق کی معطلی سے دے گا تو بلوؤں کے دائرے سے معاشرہ کبھی بھی نکل نہیں پائے گا۔
اس لیے میڈیا کو معاشرے کو بلوؤں کی طرف دھکیلنے کے بجائے جمہوری قوانین، جمہوری اخلاقیات اور تعلیم وتربیت پر اصرار کرنا چاہیے۔
اب ثقافت کے نام پر بھی جمہوری قوانین جمہوری اخلاقیات اور شہری تعلیم و تربیت سے رو گردانی بھی بنیادی طور پر بلوؤں میں اضافے کا سبب بنتی ہے۔ بھارت اس رجحان کی ایک بھیانک مثال بنتا جا رہا ہے۔ اب وہاں بلوہ اس بات پر نہیں ہوتا کہ کسی تاریخی مسلمان شخصیت کو بد تر کیوں دکھایا بلکہ اس بات پر جلاؤ گھیراؤ ہوتا ہے کہ کسی مسلمان تاریخی شخصیت کو بدترین کیوں نہیں دکھایا؟معاشرتی گفتگو کو اس جگہ پر پہنچانے میں بھارت کے میڈیا کا بہت حصہ ہے۔ اب جو اچھا میڈیا ہے، اس کی تعریف کرتے رہیں گے لیکن اجتماعی طور پر گفتگو تو خراب سے خراب تر ہوتی جا رہی ہے اور حکومتی پالیسیاں اسی خراب سے خراب تر گفتگو پر بنتی ہیں۔جس کے نتیجے میں بھارت کے معاشروں میں بھلائی کے امکانات کم ہوتے جا رہے ہیں۔
ہمارے ہاں بھی کچھ اچھے حالات نہیں ہیں۔ معاشرے میں ہر طرف پھیلی ہوئی ایک پر تشدد ذہنیت کے نتیجے میں جرائم ہوتے ہیں، جرائم کے رد عمل میں بلوے اور بلوؤں کے بعد شدید سزاؤں کے مطالبے۔
ہمارے خیال میں ہمارے خطے میں جرائم اور مسائل کی بنیادی وجہ انسانی وقار کے بارے میں تعلیم و تربیت کی کمی ہے جس کے نتیجے میں انسانی بے وقاری طاقت، دولت اور شہرت کے حصول کا ایک ذریعہ بن جاتی ہے۔اس بات پر توجہ دیے بغیر ماورائے قانون جدال و قتال کے ذریعے، پھانسی جیسی سزا کے ذریعے جرائم اور مسائل کا حل ڈھونڈنے کی کوشش کی جاتی ہے، لیکن یہ سب کچھ بے سود اور رائیگاں ہی جاتا ہے بلکہ مسائل اور جرائم میں مسلسل اضافے کی ایک مستقل وجہ بن جاتا ہے جس کے ارد گرددولت، طاقت اور شہرت کی سیاست کی جاتی ہے۔
انسانی وقار میں اضافے کی ایک ہی صورت ہے کہ انسانوں کے جمہوری حقوق میں بہتری لانے کی سعی کی جائے اور انسانوں کو ان کے جمہوری حقوق کے بارے میں معاشرے کی ہر سطح پر ایک عمدہ تعلیم و تربیت رائج کی جائے۔
اب اس کے لیے ہم سب کو ہر طرح کی طاقت خواہ وہ مالیاتی ہو، اداراتی ہو، عہدے کی ہو یا نفسیاتی ہو اس کے ناجائز استمعال سے اجتناب کا حوصلہ کرنا ہو گا۔ خصوصی طور پر اگر معاشرے کے امیر ترین، طاقتور ترین اور مشہور ترین لوگ طاقت کے جمہوری، اخلاقی اور ذمہ دارانہ استعمال کا پیغام دیتے ہیں تو معاشرہ ان کی پیروی کرے گا۔جب یہ طبقے یہ پیغام دیتے ہیں کہ وہ اپنی سماجی کامیابی کی وجہ سے نور جمال ہیں اور انھیں سب خون معاف ہیں تو ہر کسی کے پاس کچھ نہ طاقت ہے اور خود کو نور جمال سمجھنے میں کچھ دیر نہیں لگتی اور عوام بھی خود کو نور جمال سمجھتے ہوئے جتنی طاقت ان کے پاس پے، اس کا غلط استعمال کرنے لگتے ہیں۔ اور پھر سانحوں کی گنتی بھی نہیں ہو پاتی۔
طاقت کے درست استعمال کے لیے بھی تعلیم و تربیت اور اخلاقی دباؤ، کردار سازی اور توانا جمہوری اداروں کی ضرورت ہے۔ اب جن سزاؤں کی بحالی کا کہا جا رہا ہے ، ان کو معطل کرنے کی وجوہات ہیں۔ سب سے بڑی وجہ ہمارے خیال میں یہ ہے کہ اس بات پر یقین کہ انسان قابل اصلاح ہوتے ہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اگر جرم میں انسانیت غائب ہے تو سزا میں انسانیت غائب کرنے سے جرم کی شدت میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ سزا کی شدت میں اضافے کا جرائم کی روک تھام سے کوئی حقیقی تعلق نہیں ہے۔
تیسری دنیا میں تو یہ سزائیں زیادہ زیادتی کا باعث بنتی ہیں کہ یہاں تفتیشی اور عدالتی نظاموں میں انصاف ہی موجود نہیں ہے، اور سزا و جزا کا تعلق انصاف سے زیادہ طاقت، دولت اور شہرت کی درجہ بندی سے ہے۔ اپنے معاشروں کو سمجھتے بوجھتے ہوئے ایسی سزاؤں کے فروغ کی وکالت کرتے ہوئے احتیاط کی ضرورت ہے۔ تو جرائم میں دیرپا کمی کے لیے شہریت کے حوالے سے تعلیم و تربیت، ایک جمہوری ثقافت کا فروغ، معاشی تفاوتوں میں کمی لانے کی کوششیں اور جرائم سے نبرد آزما اداروں کی صلاحیتوں میں اضافے کے حوالے سے اقدامات اٹھانا ہوں گے۔
پولیس، پارلیمنٹ، عدالت، میڈیا، سول سوسائٹی اور دیگر متعلقہ اداروں کو تو سوچنا ہو گا کہ اگر لوگ غصے میں ہیں تو لوگوں کو خوش کرنے کے لیے وہ لوگوں سے بھی زیادہ غصے کا مظاہرہ کریں گے تو معاملات اور بگڑ جائیں گے کہ اداروں کا کام ہی یہی ہوتا ہے کہ وہ معاشرے میں غصے میں کمی لائیں اور جرائم کے حل کے لیے موجودہ قانونی ضابطوں پر عمل درآمد یقینی بنائیں اور جرائم کے خاتمے کے لیے جن اصلاحات کی ضرورت ہے، ان پر محنت سے کام کریں۔