جسٹس فائز عیسی کیس کی تواتر سے سماعت
از، فرحان خان جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف ‘حکومت’ کی جانب سے دائر ریفرنس کی تواتر سے سماعت ہو رہی ہے۔ عدالت میں حکومتی وکیل بیرسٹر فروغ نسیم کی مسلسل ”پِنجائی” ہو رہی ہے اور کافی باریک ”پِنجائی” ہو رہی ہے۔ (
پِنجائی کی جگہ دُھنائی بھی لکھ سکتا تھا لیکن لفظ پِنجائی کی معنویت دو آتشہ قسم کی ہے) بیرسٹر صاحب کے پاس وفاق میں قانون کی پَکی ٹَھکی وزارت ہے۔
سپریم کورٹ کے جج کے خلاف حکومت کا مقدمہ لڑنے کے لیے وہ ضابطے کی ضرورت کے تحت وزارت سے استعفیٰ دے آئے ہیں۔ پہلے بھی ایک حکومتی کیس لڑ کر وہ دوبارہ اپنی پکی کرسی پر جا بیٹھے تھے۔
کرسی ہر حال میں محفوظ ہے۔ ماضی میں ایک صاحب شریف الدین پیرزادہ ہوئے ہیں۔ آمروں کو قانونی ٹوٹکے بتانے میں انھوں نے عمر صرف کی اور اب تاریخ ان کے ساتھ اپنے انداز میں انصاف کرتی رہتی ہے۔ وہ بدی کی قوتوں کے اہم وکیل کے طور پر یاد کیء جاتے ہیں۔
فروغ نسیم مشکل میں تو ہیں لیکن ریفرنس کے دوران ان کی مثالیں اور دلائل سُن کر اندازہ ہوتا ہے وہ کافی سمارٹ آدمی ہیں۔ سامنے جسٹس عطا بندیال، جسٹس مقبول باقر، جسٹس فیصل عرب، جسٹس منیب اختر اور جسٹس منصور علی شاہ جیسے گھاگ قانون دان بیٹھے ہیں۔ سو اب کی بار فروغ نسیم کے پسینے تو چھوٹنے ہی ہیں۔
سنا ہے جج کے خلاف ریفرنس بنوانے والوں کے ہاتھ پاؤں بھی پھولے ہوئے ہیں۔ وہ بھی غیر یقینیت کا شکار ہیں۔ اس ریفرنس سے کیا نکلتا ہے، چند دن میں واضح ہو جائے گا۔
اُدھر پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار سیٹھ صاحب نے کچھ اہم فیصلے دیے ہیں،جو طاقتوروں کو پسند نہیں آئیں گے۔