(شیخ محمد ہاشم)
عرصہ دراز سے مداح سرائی کرتی، بنیادی ثمرات سے محروم، پاکستانی قوم کے لئے 2017ء کا سورج ثاقب بن کر طلوع ہوا۔ قوم نثار ہو، اُس ثاقب کے جس نے نئے سال کے اوائل میں ہی قوم کے مٹکے میں ثمرِمرُاد کے کنکر ڈالنا شروع کر دیئے۔
ہم نے جاں سوزی کا وہ عہد بھی دیکھا جب جاہ و منزلت کے سوار سابق چیف جسٹس چودھری افتخار احمد نے از خود نوٹس لینے کا جمعہ بازار لگا دیا تھا۔ جس نے عوام میں مقبولیت تو حاصل کی، لیکن آب زندگانی کی لمس، پیاس سے بلکتی عوام کے چونچ کی پہنچ سے دور رہی۔ جس سے قوم کی اُمیدیں ٹوٹتی چلی گئیں، اور یہ بد نصیب قوم ایکدفعہ پھر تپتے صحرامیں بھٹکنے پر مجبور ہو گئی۔
مایوسیوں کے عالم میں بہادر شاہ ظفر کی غزل کا یہ شعر “لگتا نہیں ہے دل میرا اُجڑے دیار میں۔۔ کس کی بنی ہے عالمِ نا پائیدار میں” بہت ہی تنگ کررہا تھا، کہ اچانک ایک خوشی نے ہماری خالی آنکھوں میں سِتارے سجا دیئے خوشبو بھرا جھونکا سینوں میں اُتر کر روح کو شاداب کر گیا۔ جب نئے چیف جسٹس محترم ثاقب نثار نے ایڈیشنل سیشن جج اسلام آباد کے گھر میں نابالغہ بچی طیبہ کے تشدد کیس میں نئے قمری سال کی آمد پر اپنا پہلا ازخود نوٹس لیا۔ انھوں نے بلند آہنگ انداز میں طبقاتی جنگ کا طبل بجاتے ہوئے کہا “انسانی بنیادی حقوق کی خلاف ورزی پر کوئی سمجھوتہ قابل قبول نہیں ہو گا”۔ آئینی سبز کتاب میں درج آرٹیکل1 /25 کے تحت تمام افراد قانون کے سامنے مساویانہ حیثیت کے مالک ہیں ۔خواہ وہ ایڈیشنل جج اور اُن کی زوجہ ہوں یا پھر اس طبقات الارض پر طبقاتی چکی میں پسی معصوم طیبہ ہو۔
طیبہ کی روداد کسی ایک طیبہ کی دُکھوں سے بھری داستان نہیں ہے۔ بلکہ ہمارے معاشرے میں غلامی کی زنجیروں میں جکڑی یہ داستان سینکڑوں طیبہ سنانے کے لئے بے تاب ہیں۔ یہ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے اور ان کے بطن سے جنم لینے والوں کی بھیانک داستانیں ہیں، جنھیں ہوش سنبھالتے ہی درس دیاجاتا ہے کہ پیدا کرنے والے مائی باپ کے علاوہ غلامی کے عوض پالنے والے مائی باپ وہ لوگ ہیں، جنھیں ریاست اور آنکھوں میں بندھی سیاہ پٹیوں والا قانون ،طاقت بخشش میں عطا کرتا ہے۔اسی زعم میں یہ بے رحم چنیدہ عناصر مظلوم طبقے کو اپنے گھر کا غلام تصور کر لیتے ہیں، قانون تو پہلے ہی اُس کے گھر کی باندی ہوتی ہے۔ ان کے ظلم کی کوئی انتہا نہیں ہوتی۔ یہ ظالم اپنے گھر میں اللہ کی اس جیتی جاگتی انسانی مخلوق کو رینگنے والے کیڑے مکوڑوں سے زیادہ حیثیت نہیں بخشتے۔
میل کچیل سے لدے پھندے بدبودار جسم اورانتہائی غلیظ کپڑوں میں ملبوس سینکڑوں بچوں کی کھیپ ہمیں شاہراوں، بازاروں، گلیوں کوچوں،سگنلوں پر بھیک مانگتے نظر آتے ہیں وہ بھی غربت کی اندھیری کوٹھری میں جنم لینے کے بعدلاڑھیوں کے ہتھے چڑھ جانے کی المناک کہانیاں سُنا رہے ہوتے ہیں۔
یہ سماج آسیب زدہ ہوچکا ہے اس پر بُرے جنوں، بھوتوں کا قبضہ ہے جو روپ بدل بدل کر عوام کو اپنے فریبی حصار میں جکڑ لیتے ہیں۔ اس سلسلے کی ایک جھلک دسمبر 2016 کے آخر ی ہفتے میں دیکھنے کو ملی جو عوام کے رونگٹے کھڑے کر دینے کے لئے کافی ہے، جب صواب اندیش بیرسٹرجناب ظفر اللہ کی درخواست پر موجودہ چیف جسٹس جناب ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے تھے کہ “ناقص دودھ فروخت کرنے والی کمپنیاں اور گوالے بچوں کو زہر پلا رہے ہیں۔” بچوں کو دودھ جیسی نعمت سے دور رکھنا اور اُنھیں زہر کی شکل دینا کسی ایسے انسان کا کام نہیں ہو سکتا جس میں ذرہ برابر بھی انسانیت باقی ہے ۔ یہ بھوت ،پریت روپ بدل کر اپنے آقاوں کی سر پرستی میں انسانوں کے دہن تک لقمہ اجل پہنچانے میں مصروف ہیں۔
ماہرین کے مطابق دودھ چاہے کسی بھی قسم کاہو، جب ہمارے ہونٹوں تک پہنچتا ہے تو اس میں بیس اقسام کے کیمیکل مل چکے ہوتے ہیں جو ہماری صحت اور بچوں کی نشو نما کے لئے انتہائی خطرناک ہیں۔ یہ سن کر ہماری روح کانپ گئی کہ دودھ کو خراب ہونے سے بچانے کے لئے حس سے عاری معاشرے کے بدکردار ویلن دودھ میں مُردوں کو محفوظ رکھنے کا کیمیکل بھی استعمال کرتے ہیں۔
یہیں تک بس نہیں کیا گیا، بلکہ کوکنگ آئل اور بناسپتی گھی میں ملاوٹ کر کے راتوں رات کروڑپتی اورکروڑپتی سے ارب پتیوں کے دھارے میں بہتے چلے جا رہے ہیں۔ جناب ظفراللہ صاحب نے ملاوٹ کی جن تفصیلات سے عدالت کو آگاہ کیا وہ صُور اسرافیل سے کم نہیں۔ لیکن اس سے قبل ریاست اور اندھا قانون کا کردار خاموش فلموں میں کام کرنے والے اداکاروں جیسا ہی رہا، جو لحمہ فکریہ ہے۔ اس اہم معاملے پر بھی جناب ثاقب نثار نے اعلان جہاد کرتے ہوئے فرمایا “بچوں کو دودھ کے نام پر زہر پلانے والوں کو نہیں بخشا جائے گا۔ اس اہم معاملے کو منطقی انجام تک پہنچائیں گے۔”
جناب ثاقب نثار ا گر ملک کے معماروں کو تحفظ اور خالص دودھ فراہم کروانے پر کامیاب ہو جاتے ہیں اور اس آسیب زدہ معاشرے کو بھوتوں پریتوں سے نجات دلا دیتے ہیں۔ تو ہم سمجھیں گے، کہ پاکستان اور اس کے بدقسمت عوام کے لئے نئے سال سے نئے دور کا آغاز ہو گیا ہے۔ جو معزز حضرات ثاقب نثار صاحب سے واقف ہیں وہ کہتے ہیں کہ چیف صاحب خدا ترس، تمامترصلاحیتیوں اور پختہ ارادوں سے لیس ہیں ۔ استادجگر مُرادآبادی کا مشورہ بھی گرہ میں باندھتے جائیے جناب۔
یہ عشق نہیں آساں بس اتنا سمجھ لیجیے
اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مصنف پاکستان اسٹیل میں بحیثیت اسسٹینٹ مینجرملازمت کرتے ہیں۔ موجودہ واقعات اورمعاشرے کےحالات کی نبض پر ہاتھ رکھ کر لکھنے کے عادی ہیں۔ ذائقہ بدلنے کے لئےکبھی کبھارافسانے اور مختصر کہانیاں لکھنے پر بھی طبع آزمائی کرلیتے ہیں۔
Juda gana andaz e biyan …..bhut umdah
THANKS