زمین، گندم اور مزدوروں کی ماحولیات
از، اشرف جاوید ملک
ہر سال جب گندم کی کٹائی اور اسے تھریشر سے نکلوانے کا وقت آتا ہے تو میری زندگی کے وہ سبھی روز و شب میرے حافظے کی چاندنی میں نہا جاتے ہیں جب بابا جان ہمیں گندم کے دور تک پھیلے ہوئے کھیتوں میں لے کر جاتے تھے۔ اماں کے ہاتھ میں تندور میں پکائی اور سینکی ہوئی ُپھلے دار روٹیوں سے بھرا ہوا رومال ہے۔ بڑے بھائی کے ہاتھوں اور کندھے پر سوتر سے بٹی ہوئی رسیاں دھری ہیں۔ ایک اور بھائی کے ہاتھوں میں کپڑے میں لپٹی ہوئی دس درانتیاں ہیں۔
اگر کسی درانتی کا دستہ ٹوٹ جائے تو دوسری درانتی بدل لیں گے۔ ایک اور بہن کے ہاتھ میں موٹے کپڑے کی چادریں ہیں تا کہ ڈاٹھے (سینہوں) بنا کر سر پر باندھے جائیں لُو اور گرمی سے سر محفوظ رہے گا اور پسینہ کم آئے گا۔
ایک بہن نے ڈھاک پر پانی کا گھڑا اٹھایا ہوا ہے۔ جب کہ لسی کی ایک چاٹی بابا کے سر پر ہے اور میں فصل کی کٹائی کے وقفے میں کیکر یا شرِینھ کے درخت تلے بیٹھ کر پڑھنے کی خواہش میں بستہ بھی ساتھ لے کر جا رہا ہوں۔ ا
یک آدمی گھر پر ہے یا پھر گھر کو تالا۔ ہم سب چلے جا رہے ہیں۔ صبح کا پہلا تارہ روشن ہو ہو کر ہمیں دیکھ رہا ہے۔ سات لوگوں کی اس قطار میں سب سے آگے والد ان کے پیچھے والدہ ان کے پیچھےبہنیں اور ان کے پیچھے ہم تین بھائی۔ کچھ وقفے پر جھجکتا ڈرتا ہوا ایک کتا بھی ہے جو اس منزل میں ہمارے ساتھ ساتھ ہے۔ پیچھے مڑ کر گاؤں کی طرف بھی دیکھتا ہے ذرا رکتا ہے اور ہمارے منع کرنے کے با وُجود اس کی محبت اسے ایک قدم اور ہماری طرف کھینچ لاتی ہے۔
ابا حضور کے پاس دو بینڈ کا وہ ریڈیو سیٹ بھی ہے کہ جس کی نبضیں کبھی کبھی جواب دے جاتی ہیں۔ ریڈیو گندم کے پہلے کیارے یا کھیت کے بَنّے پر رکھا ہے۔ کیکر کی چھاؤں میں روٹیاں، پیاز، لسی کی چاٹی، پانی کا چھونڑیں والا گھڑا کچھ کپڑے اور رسیاں پڑی ہیں۔
اس سامان کے پاس ہی ہماری ایک چھوٹی بہن موجود ہے۔ جو اس سامان کی نگران ہے۔ سایے کے کچھ مکوڑے کیکر کے منڈھ میں خود ساختہ سوراخوں سے نکل نکل کر گندم کی فصل میں سے گندم کے دانے اٹھاتے اور اپنے بِلّوں میں لے جاتے ہوئے دیکھے جا سکتے۔ بہن ان مکوڑوں کو دیکھ کر کچھ ڈری سہمی ہوئی ہے۔ ساتھ کے ایک شرِینھ کے پیڑ کے نیچے ایک اونچی جگہ پر کتا نشست سنبھالے تھوتھنی نکالے ہوئے مُنھ سے پسینہ ٹپکا رہا ہے۔
مزید دیکھیے:
ماحولیات کے عالمی دن پر اندھی بُلھن کا کتھارسز از، ذوالفقار ذلفی
گاؤں میں جگنو اور تتلیاں کیوں مر گئیں از، ملک اشرف جاوید
دیہات اور ہماری ماحولیاتی جمالیات از، ملک اشرف جاوید
درخت پر کھوہ میں سے طوطے کے بچے سر نکال نکال کر باہر دیکھ رہے ہیں۔ ریڈیو سے صبح سات بجے کا بولیٹن مَہ پارہ صفدر کی اواز میں نشر ہو رہا ہے۔ ہم چھ لوگ، اماں بابا، دو بہنیں اور دو بھائی اپنی اپنی پات سنبھالے گندم کاٹ رہے ہیں یہ طے ہے کہ جب صبح نو بجے تک چار گھنٹے تک کی کٹائی مکمل ہو گی تو گھر سے کوئی ایک آدمی وہ مٹکی لے کر آئے گا جس میں رات کا چاولوں سے بنایا گیا پھیکا بھت موجود ہے جو کہ تب تک ٹھنڈا ٹھار ہو چکا ہو گا جب نو بجے صبح تک دو کنال گندم کی کٹائی کی جا چکی ہو گی۔
یہ مٹکا میں لایا کرتا تھا۔ اور پھر نو بجے سے بارہ بجے تک یہ جو تین گھنٹے کی گندم کی کٹائی چاولوں کے لسی والے بھت کھانے کے بعد شروع کی جاتی تھی یہ ایک بھیگا گندم کٹ جانے کا اعلان نامہ ہوا کرتی۔
جی ہاں یہ انیس صد چُوراسی کی بات کر رہا ہوں جب میں سات آٹھ سال کا تھا۔
ادھر بارہ بجے دن کا خبر نامہ ریڈیو پاکستان ملتان سے شروع ہوا ہے ادھر ایک بِیگھا گندم کاٹی جا چکی ہے؛ یعنی ایک من دس کلو گندم بَہ طور مزدوری ہمیں میسر آ چکی ہے۔ انیس صد چوراسی سے انیس صد ستاسی یہ تین سال ہم نے اپنی فصل کاشت نہیں کی تھی۔ گھر میں معاشی بحران تھا۔ ایک مزدور باپ کمانے والا تھا جو لکڑ مرچنٹ تھا۔ مگر ان تین سالوں میں بابا کا کاروبار بیٹھ گیا اور نوبت فاقوں تک آ پہنچی تو ہم آٹھ بہن بھائیوں کی کفالت کرنے والوں نے پندرہ بیگھے گندم اوسطاً ہر سال بَہ طور فصل بَہ عِوَض مزدوری نقد گندم اپنے ذمے لی؛ یعنی بیس من گندم ہر سال بَہ عوض کٹائی گندم۔
ہمت نہیں ہارنا چاہیے!
بارہ بجے ہم سب کیکر کے درخت تلے جمع ہیں میں پڑھ رہا ہوں۔ بہن بھائی گپیں لگا رہے ہیں۔ چھوٹا بھائی اور بہن کھیل رہے ہیں۔ ریڈیو سے ریفرنڈم کا اعلان نامہ بار بار نشر ہو رہا ہے۔
مرد آہن، مردِ حق ضیاءالحق، ضیاء الحق صدرِ پاکستان ضیاء الحق کو ووٹ دے کر ریفرنڈم کو کام یاب بنائیں۔
یہ ریڈیو پاکستان ہے…!
بارہ بجے سے تین بجے تک آرام کا وقفہ ہے۔ جس کو جہاں جگہ ملی وہیں درختوں کے نیچے سو گیا ہے۔ تھکن کے بعد کی نیند کا مزہ ہی اپنا ہے۔ بس ایک کتا جاگ رہا ہے اور ریڈیو چل رہا ہے۔ اگر ریڈیو چلتے چلتے کبھی بند ہو جاتا ہے تو ابا جان ایک چھوٹا سا ڈھیلا یا وٹہ اٹھاتے ہیں اور تاک کر ریڈیو کا نشانہ لگاتے ہیں تو شُوں شرر کی آوازوں کے بعد خود ہی یہ ڈبہ اواز دینے لگ جاتا ہے۔ اور حسین بخش ڈاہڈی، ثریا ملتانیکر یا پھر عطاء اللہ خان عیسیٰ خیلوی کی آواز سننے کو ملتی ہے۔
بالو بتیاں وے ماہی ساکُوں مارو سنگلاں نال
پیتل بنایو وے سونا بنڑساں عملاں نال
تین سے چار بجے صبح کی تندور والی روٹیوں آم کے اچار اور لسی یا پھر گڑ سے سب دو دو تین روٹیاں کھاتے ہیں اور کام میں جُٹ جاتے ہیں۔
سب گندم کاٹ رہے ہیں۔ میں اور چھوٹی بہن کچھ خالی برتن اور کچھ درانتیاں ساتھ لیے گھر واپس چل پڑتے ہیں۔ کتا بھی ہمارے ساتھ ہے ہمارے ساتھ چلتے ہوئے کتا ایک خالی کھیت میں مٹی کے چھوٹے چھوٹے تھانولوں میں پڑے ہوئے ٹَٹِیہریوں کے نیلے نیلے گدرائے ہوئے انڈوں پر مُنھ مارنے لگتا ہے تو ٹَٹِیہریاں ٹِیں ٹِی ٹِیں ٹی ٹ… ٹی کی آوازوں کے ساتھ اس پر ٹھونگوں سے حملہ آور ہو جاتی ہیں۔ اور وہ اپنی طاقت کا رعب ڈالنے کے لیے ان پر جھپٹ پڑتا ہے تو ٹٹیہریاں شور مچاتی ہوئی ہوا میں بلند ہوتی چلی جاتی ہیں۔
دور ایک جانور مرا پڑا ہے جس پر دو گِدھ اپنے پنجے جمائے ہوئے بیٹھے ہیں؛ جب کہ آٹھ دس گِدھ درخت کے اوپر اپنی باری کے منتظر ہیں۔ گھر قریب آتا ہے تو میں بھینسوں کو زنجیر سے دستی ڈولی لگا کر گھاس چرانے کے لیے لاٹھی کی مدد سے گھر سے باہر کی طرف ہانکتا ہوں اور چھوٹی بہن اماں کی ہدایت پر آٹا گوندھنا شروع کرتی ہے۔ گھڑے میں پانی بھر کر رکھتی ہے چُولھے اور تندور کےصحن نما حصے میں جھاڑو پھیرتی ہے۔
میں بھینسیں چراتے ہوئے درخت کے نیچے بیٹھ کر کتاب پڑھ رہا ہوں اور سوچ رہا ہوں کہ یہ جو ریڈیو سے آوازیں آتی ہیں لوگ بولتے ہیں ایک دن اس جادو نما ڈبے میں سے میری آواز بھی آئے گی اور لوگ سنیں گے۔ جیسا کہ بی بی سی لندن سے رات آٹھ بجے رضا علی عابدی کی آواز آیا کرتی ہے۔
“یہ بی بی سی لندن ہے اور میں ہوں رضا علی عابدی”
پھر اس خیال سے میں اور محنت کرتا ہوں کہ ساتویں جماعت میں بہت اچھے نمبروں کے ساتھ پاس ہو جاؤں۔
شام ہو رہی ہے میں اب گھر جا کر بھینسوں کی بندروں میں کھلی اور بھوسہ ملا کر ڈالوں گا۔ بھینسوں کو گھر سے باہر موجود پانی کے صاف شدہ ذخیرے میں سے پانی پلاؤں گا۔ جسے کوئی بھی میلا یا زہر آلود نہیں کرتا کیوں کہ سب لوگ اسی ذخیرے سے ہی سے جانوروں کو پانی پلاتے ہیں۔
دور سے اماں بابا اور بہن بھائی آج کے پہلے دن ہی ایک ایکڑ گندم کاٹ کر ڈھو کر خوشی خوشی گھر واپس آ رہے ہیں۔ اب رات کا کھانا کھائیں گے۔ سب ایک ایک گلاس تازہ دودھ پِئیں گے۔ اور پھر لمبی تان کر سو جائیں گے۔ کچھ دن تک اس گندم کی ایک بڑی ڈھیری لگا دی جائے گی اور رات کو بابا جان ڈھیری پر سویا کریں گے تا کہ کوئی اس ڈھیر کو نقصان نہ پہنچا دے کیوں کہ جہاں رقابتیں ہوتی ہیں تو کچھ بے رحم لوگ یہی کرتے ہیں کہ محنت کشوں کی گندم کو جلا کر راکھ بنا ڈالتے ہیں۔
اس راکھ میں کسان کی محنت، خون پسینہ، مستقبل، رزق اور جیون سکھ کی ہر آس کو آگ کے خونیں شعلے ڈکار جاتے ہیں اور بد قسمت کسان گندم کی ڈھیری اور پیٹ کو لگی ہوئی آگ نہیں بجھا سکتا۔
مجھے ایک سال پہلے کا وہ واقعہ یاد آ رہا ہے جب ایک رات بابا جان کسی کام کے سلسلے میں کسی اور گاؤں چلے گئے تھے۔
میں اور بڑا بھائی ہمارے ہمارے اپنے کھیتوں ہماری ذاتی چار ایکڑ گندم کی ڈھیری کے پاس سوئے ہوئے تھے جب آدھی رات کو تیز آنچ کے ساتھ ترڑ ترڑ کی آوازوں سے آنکھ کھلی تھی تو آگے کے شعلے آسمان تک بلند ہو چکے تھے۔
ہم گھر کی طرف بھاگ رہے تھے اور گاؤں کے لوگ گھروں سے بالٹیاں بھر بھر کر گندم کی ڈھیری پر پھینک رہے تھے۔ شعلے اتنے بلند تھے کہ ان سے کئی میل تک کا علاقہ روشن ہو گیا تھا۔ ان شعلوں کی نحوست کی وجہ سے ہی شاید ہمارے گھر میں تین سال تک اندھیرا چھایا رہا تھا۔
ہاں یہی تین سال جن تین سالوں میں ہمیں پَرایے زمین داروں سے اپنے جیسی گندم کے لیے ہر ایک سال گندم کٹائی کا سوال کرنا پڑا تھا۔
ان تین سالوں میں روز گار نہیں تھا۔ گھر میں ہمیں آم اور ٹماٹر کی چٹنی۔ سبز مرچ اور لسی کی چٹنی۔ کیکر اور سوہانجنے کی پھلیوں اور گندم کے آبُھو آتے دانوں کا سالن اور لسُوڑے یا آم کے اچار سے بھوک کا سامان کرنا پڑتا تھا۔ تین سال چاول اور گندم کے رَلے مِلے آٹے کی روٹی اور بھت، یا پھر دودھ سے گزارا کیا گیا۔ اس تین سال تک کے دورانیے میں ہمیں ایک ایک کپڑوں کا سوٹ اور ایک ایک جوتا میسر رہا۔ غربت فاقہ زدگی اور تنہائی جو آج کے کرونا سے زیادہ اداسی آمیز تھی۔
آج بھی جب کبھی خربوزے، متیرے (تربوز) اور آم کا موسم آتا ہے تو یہ میرے دوست رہتے ہیں کہ فاقہ کشی کے تین سال ہم نے ان سے اور انھوں نے ہم سے خوب سنگت نبھائی تھی۔
آج بھی وہ دن یاد آتے ہیں تو سوچنے لگ جاتا ہوں کہ پیٹ بھی طبلہ ہے اور ہر صورت بھوک کے ساز پر اسے ہی بجانا پڑتا ہے۔