فارن فنڈنگ کیس اور عمران خان سے دس سوالات
از، آصف محمود
فارن فنڈنگ کیس نے تحریک انصاف کو قانونی ہی نہیں اخلاقی بحران سے بھی دو چار کر دیا ہے۔ قانونی اعتبار سے جیسا بھی ہے، تحریک انصاف اپنا دفاع کر رہی ہے سوال یہ ہے کیا اسے کچھ خبر ہے اس کا اخلاقی وجود کتنے بڑے بحران سے دوچار ہو چکا ہے؟ میں ایک خیر خواہ کے طور پر جناب عمران خان کی خدمت میں چند سوال رکھ دیتا ہوں، تحریک انصاف کے پاس اگر ان سوالات کا کوئی جواب ہے تو اس کا مطلب یہ ہو گا اس کا اخلاقی وجود محفوظ ہے۔ بہ صورت دیگر سب مایا ہے۔
پہلا سوال یہ ہے کہ جس روز اکبر ایس بابر نے عمران خان سے ان تحفظات کا ذکر کیا، کیا عمران خان کی یہ ذمے داری نہ تھی وہ غیر معمولی توجہ سے اس معاملے کو دیکھتے اور اپنے کارکن کو مطمئن کرتے؟ اکبر ایس بابر نے شروع کے دنوں میں جب کہا کہ جسٹس وجیہ الدّین احمد کی سربراہی میں کمیٹی بنا لی جائے اور اس سے فیصلہ کرا لیا جائے کہ حقیقت کیا ہے تو اس تجویز کو کیوں رد کیا گیا؟ جسٹس وجیہ الدین جیسے آدمی سے فیصلہ کرا لینے میں کیا خوف مانِع تھا؟
دوسرا سوال یہ ہے کہ تحریک انصاف کا دامن صاف تھا تو سکروٹنی کے عمل سے اسے کیوں ڈر لگتا رہا؟ اپنے اکاؤنٹس کی سکروٹنی سے بچنے کے لیے تحریک انصاف نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک یا دو یا تین نہیں، پوری گیارہ پیٹیشنز دائر کیں؟ کیا ہم جان سکتے ہیں کیوں؟
عمران خان اپنے سیاسی حریفوں کو الیکشن کمیشن سے رجوع کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ لیکن جب فارن فنڈنگ کیس الیکشن کمیشن کے پاس آیا تو انھوں نے درجنوں مرتبہ الیکشن کمیشن کے حقِّ سماعت ہی کو چیلنج کر دیا۔ یہ حربے اور ہتھکنڈے اتنے طویل ہو گئے کہ الیکشن کمیشن کو کہنا پڑا کہ تحریک انصاف نے قانونی طریقۂِ کار کے غلط استعمال کی تاریخی بد ترین مثال قائم کر دی۔
تیسرا سوال، کیا الیکشن کمیشن کی جانب سے اس ’’تمغۂِ حسنِ کارکردگی‘‘ سے کسی نے از رہِ مروّت ہی بد مزہ ہونے کی کوشش کی؟
الیکشن کمیشن میں عمران خان نے جواب دیا کہ میں اپنی پارٹی کے اکاؤنٹس کے بارے میں کسی ’’عام شہری‘‘ کو جواب دہ نہیں ہوں۔
ریاستِ مدینہ کے داعی سے چوتھا سوال یہ ہے کہ سیدنا عمر ؓ جیسی جلیل القدر ہستی سے اگر ایک عام شہری اٹھ کر ایک کرتے کے بارے سوال کر سکتا ہے تو عمران خان کو یہ غلط فہمی کیسے ہو گئی وہ عام شہری کو جواب دہ نہیں؟ اکبر ایس بابر کو عدالت میں جا کر ثابت کرنا پڑا کہ میں تو تحریک انصاف کا حصہ ہوں یعنی ’’عام شہری ‘‘ نہیں ہوں اور ہر پارٹی کا رکن اپنی پارٹی کے اکاؤنٹس کی تفصیل طلب کر سکتا ہے۔
الیکشن کمیشن نے ایک، دو، تین یا چار مرتبہ نہیں، پورے 24 مرتبہ تحریک انصاف کو تحریری طور پر حکم دیا کہ وہ ملک میں اور بیرونِ ملک اپنے تمام بنک اکاؤنٹس کی تفصیل جمع کرائے لیکن تحریک انصاف نے ان دو درجن حکم ناموں پر ایک مرتبہ بھی عمل نہیں کیا۔
عمران خان سے پانچواں سوال یہ ہے کہ معاملات شفاف تھے تو الیکشن کمیشن سے بنک اکاؤنٹ چھپانے کی کیا ضرورت تھی؟ مجبور ہو کر الیکشن کمیشن نے سٹیٹ بنک آف پاکستان کو خط لکھا کہ تحریک انصاف کے تمام اکاؤنٹس کا ریکارڈ پیش کیا جائے۔ جب یہ ریکارڈ آیا تو معلوم ہوا کہ تحریک انصاف کے بنک اکاؤنٹس کی تعداد 23 ہے۔ جب کہ تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن کو بتا یا تھا کہ اس کے اکاؤنٹس کی تعداد 8 ہے۔
عمران خان صاحب سے چھٹا سوال یہ ہے کہ ان 15 اکاؤنٹس کو الیکشن کمیشن سے خفیہ رکھنے کی کیا ضرورت تھی؟ معاملات اگر شفاف تھے تو الیکشن کمیشن سے غلط بیانی کیوں کی گئی؟
جب سٹیٹ بنک کے ذریعے سارے بنک اکاؤنٹس سامنے آ گئے تو تحریک انصاف نے نئی درخواست دائر کر دی کہ جناب مہر بانی کیجیے اب سکروٹنی کی کارِروائی کو خفیہ رکھیے۔
ساتواں سوال گویا یہ ہوا کہ سکروٹنی خفیہ رکھنے کی درخواست کیوں کرنا پڑی؟ کیا تھا جس کی پردے داری مقصود تھی؟ کیا معاملات کو خفیہ رکھنے کی درخواست بذات خود اس بات کا اعلان نہیں کہ تہِ خاک کوئی بڑا تماشا انگڑائی لے رہا تھا؟
آٹھویں سوال کا تعلق عمران خان کے اس بیان حلفی سے ہے جو وہ ہر سال الیکشن کمیشن میں جمع کراتے رہے۔ الیکشن ایکٹ 2017 کے مطابق ہر سیاسی جماعت ہر مالی سال کے ختم ہونے کے ساٹھ دنوں کے اندر اندر اپنی جماعت کے اثاثے، اس کی آمدن، اخراجات اور فنڈز کے ذرائع کی تفصیل الیکشن کمیشن کو دینے کی پابند ہے۔ اس میں جماعت کا سربراہ ایک بیانِ حلفی بھی دیتا ہے کہ اس کی جماعت نے کسی غیر ملکی شہری، ادارے یا کسی دوسرے ملک سے کوئی فنڈ نہیں لیے۔ (یہ کوئی نیا قانون نہیں ہے۔ یہی بات پالیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002 میں بھی موجود تھی)۔
عمران خان نے بھی یہ بیان حلفی دیا ہوا ہے۔ آئین کے آرٹیکل 62 کو چھوڑ دیجیے، الیکشن ایکٹ کو بھی نظر انداز کر دیجیے، جس کے تحت وہ سربراہ اور اس کی جماعت دونوں نا اہل ہو سکتے ہیں۔ لیکن اتنا تو بتا دیجیے غیر ملکی فنڈز کے ثبوت موجود ہونے کے با وجود یہ حلف دینا کہ ہم نے کسی غیر ملکی شخص سے فنڈ نہیں لیا، آپ کے اصولوں، نظریات، اخلاقیات اور اقوالِ زرّیں سے متصادم نہیں تھا؟
نواں سوال یہ ہے کہ اس کیس میں ایسی کیا پیچیدگی تھی کہ آپ کو بار بار وکیل بدلنے پڑے؟ حقیقت سے آگہی کے بعد وکیل خود معذرت کر لیتے تھے کہ یہ مقدمہ لڑنا اب ہمارے بس کی بات نہیں یا یہ معاملے کو لٹکانے کی ایک شعوری کوشش تھی۔ ہر دو صورتوں میں کیا یہ طرزِ عمل ایک ایسی جماعت کو زیبا ہے جو انصاف کے نام پر وجود میں آئی ہو اور زبانِ حال سے جس کا دعویٰ ہو کہ ہمارے علاوہ باقی مخلوق یا تو کرپٹ ہے یا مشکوک؟
عمران خان سے دسواں سوال یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کے سامنے آپ کے مقدمے میں آپ کی وکالت اسسٹنٹ اٹارنی جنرل نے کیسے کی؟ اسسٹنٹ اٹارنی جنرل کا کام ریاست کی نمائندگی کرنا ہے۔ ایک ریاستی عہدے دار ایک سیاسی جماعت کی وکالت کیسے کر سکتا ہے۔