دیار غیر میں بسنے والوں کی کشمیریوں سے اظہار یکجہتی

MH Chauhan
پروفیسر محمد حسین چوہان

دیار غیر میں بسنے والوں کی کشمیریوں سے اظہار یکجہتی

از، پروفیسر محمد حسین چوہان

اکتوبر کا آخری عشرہ برطانوی کشمیریوں کے لیے عام طور پر مصروفیت کا عرصہ ہوتا ہے، اس لیے کہ یوم تاسیس کے موقع پر کشمیری بھائیوں سے اظہار یکجہتی کا اظہار کیا جاتا ہے، احتجاج و مظاہرے کئے جاتے ہیں۔ اقوام متحدہ کی قرار دادوں پر عملدرآمد کرنے پر زور دیا جاتا ہے۔ حق خود ارادیت جو کسی بھی قوم و فرد کا بنیادی و پیدائشی حق ہے کے حصول پر روشنی ڈالی جاتی ہے۔ برطانیہ کے تمام شہروں میں سیمنار اور جلسے منعقد کئے جاتے ہیں۔ بھارتی مظالم کا چہرہ بے نقاب کیا جاتا ہے۔ اخلاقی و سفارتی کو ششوں کے ذریعے سے مسئلہ کشمیر کے حل کرنے پر زور دیا جاتا ہے، کہ برصغیر کے ایک مخصوص خطے کے لوگ اپنی الگ شناخت اور تشخص کو قائم رکھنے کے لیے اپنی الگ آزاد ریاست کا مطالبہ کرتے ہیں جو ان کا پیدائشی و فطری حق ہے مگر بھارت نے ان کو اس حق سے کئی صدیوں سے محروم کر رکھا ہے۔

کشمیر تقسیم ہند کا نامکمل ایجنڈا ہے جس کی تکمیل کے بغیر خطے میں امن و ترقی کا عمل خوش اسلوبی سے طے نہیں ہو سکتا۔ یہ وہ فکری و سیاسی مسائل ہیں جن پر آزادی پسند کشمیری اور ان کے سیاسی رہنما اپنے خیال کا اظہار کرتے ہیں۔ اس دفعہ سابق وزیر اعظم آزاد کشمیر بیرسٹر سلطان محمود چودھری نے کشمیر کاز کو اجاگر کرنے کے سلسلے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا اور کوئی دن ایسا نہیں تھا کہ یورپ میں انہوں نے کشمیری بھائیوں کے پیدائشی حق خود ارادیت کے لیے آواز بلند نہ کی ہو اور مقامی کشمیری و پاکستانی کمیونٹی کو متحرک نہ کیا ہو، کیوں کہ بر طانیہ میں مصروفیت کے باعث لوگوں کا تقاریب اور جلسوں میں شریک ہونا مشکل ہوتا ہے، مگر بیرسٹر صاحب کی کشمیر کاز سے پکی کمٹمنٹ کے باعث لوگ اپنا قیمتی وقت نکال کر ان کیساتھ شامل ہو جاتے ہیں اور دوسری بڑی وجہ مظلوم کشمیریوں کی آواز کو بین الاقوامی سطح پر جس موثر انداز میں بیرسٹر سلطان محمود نے پیش کیا ہے وہ آزاد کشمیر کے کسی بھی سیاستدان کے حصے میں نہیں آسکا، اگر چِہ کشمیر کی قضیہ میں ہر کشمیری لیڈر کا کچھ نہ کچھ کردار ضرور ہے۔


مزید دیکھیے:   کشمیر کیا سوچ رہا ہے؟  از، حسین جاوید افروز


پہلی بات یہ کہ بیرسٹر سلطان محمود مسئلہ کشمیر کو بنیادی انسانی حقوق کا مسئلہ قرار دیتے ہیں، دوسرا انہوں نے کشمیر کاز کو اقتدار کے حصول کے لیے استعمال نہیں کیا، کشمیریوں کی آزادی کو سیاسی یا مشروط آزادی کے تصور سے منسلک نہیں کیا۔ وہ کشمیریوں کی کامل آزادی کی نمائندگی کرتے ہیں۔ حق خود ارادیت کا حصول دنیا کے ہر شہری کا پیدائشی اور فطری حق ہے۔ نسل قومیت مذہب وجغرافیہ کی حدود و قیود کو بالائے طاق رکھ کر یہ آزادی کا حق ہر شہری کو ملنا چائیے اور یہ آزادی انسانی شعور و وجود کی آزادی کا تصور ہے جو سیاسی و سماجی بندھنوں سے بھی آزاد ہو کر روح و فطرت کی باہمی ہم آہنگی سے پرورش پاتا ہے، کسی قوم کا یہ نظریہ آزادی کسی بھی لحاظ سے مشروط نہیں ہو سکتا، جس طرح ہر انسان خود آزاد رہنا چاہتا ہے اسی طرح آزادی کا یہ حق دوسروں کے لیے بھی ہے اور اس حق سے قانونی و اخلاقی لحاط سے کوئی طاقتور قوت بھی کسی دوسری قوم کو محروم نہیں کر سکتی۔ انسانی آزادی کے لیے لڑی جانے والی جنگوں میں ہر باضمیر طبقے نے آزادی پسندوں کا ساتھ دیا ہے، اس بنا پر برطانیہ اور یورپ کے دیگر ممالک میں ہر سال کشمیری کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے لیے پروگرام منعقد کرتے ہیں اور بھارت کے سفارت خانہ کے باہر مظاہرے بھی کرتے ہیں۔

اس دفعہ بیرسٹر سلطان محمود کی قیادت میں تحریک انصاف برطانیہ نے کامیاب جلسے کئے۲۴ اکتوبر کو برمنگھم جو پاکستانیوں وکشمیریوں کا سب سے اکثریتی آبادی والا شہرہے میں یوم تاسیس کے حوالے سے کامیاب جلسہ کیا گیا، جس کے روح رواں ناظم گجر تھے اور پی ٹی آئی کی مقامی قیادت نے کشمیر کاز کو اجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ۲۶ اکتوبر کو آئرش پارلیمنٹ کو کشمیر کے حوالے سے بریفنگ دی گئی۔ ۲۸ اکتوبر کو پیرس میں احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ ۳۰ اکتوبر کوبرسلز میں کشیر لوگوں نے احتجاج کیا، ۲۵ اکتوبر کو گلاسکو کنوشن میں کشمیر کاز کو اجاگر کیا گیا۔ ۲۷ اکتوبر کو آئر لینڈ میں ملین مارچ میں وہاں کے مقامی آئرش سیاستدانوں کا تعاون حاصل کیا گیا کیوں کہ آئر لینڈ اور کشمیر کو اس لحاظ سے مماثلت حاصل ہے۔ ۲۹ اکتوبر کوہالینڈ کے شہر ہیگ میں مظلوم کشمیریوں کے حق میں آواز بلند کی گئی۔ ۳۱ اکتوبر کو برطانوی ممبران پارلیمنٹ سے خطاب کیا گیا۔ ۳۱ اکتوبر کو پریس کانفرنس سے خطاب کیا گیا۔ سلطان محمود کی قیادت میں تحریک انصاف برطانیہ نے بھر پور تعاون کا مظاہرہ کیا اور کشمیر کاز کو اجاگر کرنے میں اپنے قیمتی وقت کی قہربانی دی۔ مغربی ممالک میں کشمیر کاز کو ہر شہری ایک انسانی مسئلہ قرار دیتا ہے۔

اس ترقی یافتہ عہد میں کشمیریوں کو اپنے حق خود ارادیت سے محروم رکھنا قانون واخلاق کے منہ پر ایک سیاہ دھبہ ہے، جس کا ادراک بین الاقوامی برادری کو بھی ہے، مگر اس سلسلے میں بیرسٹر سلطان محمود کا کردار باقی آزاد کشمیر کے سیاستدانوں سے بدرجہا بہتر ہے جو صرف سیر سپاٹے کے لیے یہاں تشریف لاتے ہیں، مگر بیرسٹر صاحب نے یہاں ایک متحرک ٹیم بھی قائم کر رکھی ہے جن کی تعداد ہزاروں میں ہے، حکمداد چودھری، چودھری فاروق، چودھری دلپذیر، فاروق اعظم ایڈو کیٹ، چودھری عیسیٰ، محمد عارف چوہان، مرتضیٰ گجر، منور گجر، اکرم چیچی، شعبان چودھری ایسے قافلہ سخت جان کے ممبرز ہیں جو لندن شہر کی مصروفیات کو بالائے طاق رکھ کر، کشمیر کی آزادی، کنٹرول لائن پر بسنے والوں کے سنگین مسائل، کشمیر میں ایک بہترین شفاف نظام حکومت کے قیام، موروثی و خاندانی نظام کے خاتمہ۔ اداروں میں سیاسی مداخلت سے اجتناب، سائنسی مینجمینٹ کے قیام اور سیاسی و سماجی تبدیلی کے لیے کوشاں رہتے ہیں، تاکہ سماجی انصاف کا قیام عمل میں لایا جا سکے، جس کے مظاہر ے وہ برطانوی سوشل ڈیمو کریسی میں بھی دیکھتے ہیں۔

جتنے مظاہرے یورپی ممالک میں کشمیر کاز کے حوالے سے ہوئے ہیں اتنا رد عمل ظاہر کرنے کے لیے برطانوی شہری بھی بریکزٹ کے حوالے سے باہر سڑکوں پر نہیں نکلے ہیں، اگر چِہ برطانیہ کا یورپی یونین سے باہر نکلنا سب سے بڑا تشویشناک مسئلہ بنا ہوا ہے، عوام کی اکثریت سمجھتی ہے کہ ۲۸ ممالک کے یورپی یونین سے باہر نکلنے کا فیصلہ برطانوی عوام کی سب سے بڑی سیاسی غلطی ہے، برطانیہ کی تمام بڑی کمپنیوں کے سربراہوں نے سنڈے ٹائمز کو اپنے خطوط میں کہا ہے کہ دوبارہ ریفرنڈم ہونا چائیے۔ ، بہر کیف برطانیہ میں آباد کشمیری کمیونٹی انسانی آزادی اور شخصی آزادی کا بہتر شعور رکھتی ہے۔ وہ مسلہ کشمیر کو نہ صرف کشمیریوں کا مسئلہ سمجھتی ہے بل کہ بر صغیر میں بسنے والے ڈیڑھ ا رب افراد کا مسئلہ سمجھتی ہے جو کشمیر کے قضیہ کی وجہ سے بلواسطہ اور بلا واسطہ متاثر ہو رہے ہیں، اس مسئلے کیوجہ سے دونوں ممالک اپنے دفاع پر ایک کثیر بجٹ خرچ کر رہے ہیں۔ بھارت نے اس سال اپنا بجٹ ساڑے باون ارب ڈالر تک بڑھا دیا ہے، جو اس کی سالانہ اوسط آمدنی کا اڑھائی فیصد ہے۔ اسی طرح پاکستان نے نے اپنے جی ڈی پی کا تین اعشاریہ چار فیصد بجٹ بڑھا دیا ہے جو کل ساڑے نو بلین ڈالر بنتا ہے، جبکہ بھارت میں ۴۰ فیصد آبادی غذائی قلت کا شکار ہے۔ ۳۱۱۹ شہروں میں سے صرف ۲۰۰ شہروں میں سیورج کا ادھورا نظام موجود ہے۔ ماحولیاتی آلودگی کیوجہ سے قحط، خشک سالی، سیلاب، بیماریوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

اسی طرح پاکستان میں بھی غربت کی لکیر سے نیچے رہنے والوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ ۴۰ فیصد آبادی بنیادی سہولتوں سے محروم ہے۔ دیہات کی ستر فیصد آبادی سماجی و معاشی تحرک سے ہمکنار نہیں ہو سکی۔ ناقص نظام تعلیم اور مدارس کا نصاب جدید تقاضوں سے نو جوانوں کو ہم آہنگ نہیں کر سکا۔ خواندگی کی شرح مردوں میں۴۷ فیصد اور عورتوں میں ۳۳ فیصد ہے۔ ماحولیاتی آلودگی نے مون سون کو دونوں ممالک میں ڈسٹرب کر دیا ہے۔ پانی کی قلت، بارشوں کی کمی، سیلابوں کی بہتات، بیماریوں میں اضافہ نے برصغیر کے باشندوں کا مستقبل داؤ پر لگا دیا ہے۔ دونوں ممالک جوہری بموں سے لیس ہیں۔ جو کسی بھی انسانی تباہی کا باعث بن سکتے ہیں۔ مسئلہ کشمیر دونوں ممالک کے درمیان ایک سلگتی ہوئی چنگاری ہے، جو کسی بھی وقت بھڑک کر امکانات کی دنیا میں سب کچھ خاکستر کر سکتی ہے۔

اس بنا پر اگر بھارت ہٹ دھرمی کا مظاہرہ نہ کرے اقوام متحدہ کی قرار دادوں اور بنیادی انسانی حقوق کے تحت کشمیریوں کو حق خود ارادیت دے دے تو برصغیر کے عوام امن خوشحالی اور ترقی سے ہمکنار ہو سکتے ہیں، ورنہ جنگی جنوں دونوں ممالک کے وسائل ہڑپ کر جائے گا، بھوک قحط اور ماحولیاتی آلودگی پر قابو نہیں پایا جا سکے گا اور برصغیر کا خطہ مستقبل میں قدرتی آفات کا شکار ہو جائے گا۔ امن خوشحالی کے لیے باہمی علا قائی تنازعات کا حل ضروری ہے، اور اس سلسلے میں مسئلہ کشمیر کا تصفیہ ناگزیر ہے۔ یورپی ممالک کی طرح باہمی تجارت، سیاحت اور امن و دوستی ہی برصغیر کے عوام کو غربت و خوف کے منحوس چکر سے نکال سکتی ہے۔