چار جہاتی بائیولوجیکل جنگ
از، نعیم بیگ
دنیا بائیولوجیکل جنگ میں ایسے موڑ پر پہنچ چکی ہے جہاں سے واپسی اب ممکن نہیں۔ انسانی جانوں کے نقصان پر ممکن ہے عالمی قوتیں قابو پا لیں لیکن خوف ناک معاشی نتائج جو دنیا نے دوسری جنگِ عظیم کے بعد دیکھےتھے، وہ اس بائیولوجیکل جنگ کے سامنے ہیچ ہیں۔
انسانی جانوں کی حفاظت بَہ ظاہر اس جنگ میں پہلی ترجیح ہے، تاہم معاشی سُپرَیمیسی در حقیقت پہلی ترجیح ہے۔ انسانی جانیں دوسری ترجیح پر نظر آتی ہیں۔
اس جنگ کی تیسری جِہت دنیا بھر کے معاشی نظام ہائے فکر کو نئی متوازی سطح پر دو بارہ استوار کرنا ہے۔ اس سے پہلے سرمایہ دارانہ نظام عموی سطح پر قائم تھا۔
یہ جنگ پہلی اور دوسری دنیا کے درمیان ہے اور تیسری دنیا کے باسی اس جنگ میں پراکسی وار کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ اتفاق سے اب تک پلڑا دوسری دنیا کا بھاری ہے۔ امریکی تاریخ میں پہلی بار 2 ٹریلین ڈالر (نیویارک ٹائمز 25 مارچ 2020) کا بیل آؤٹ پیکج دیا گیا ہے۔ جس کا 60 فی صد انسان کی بَہ حالی اور 40 فیصد سرمایہ کی حفاظت پر خرچ ہو گا۔
دوسری طرف چائنہ صرف اِسی ایک برس میں ٹیرف فری نیشنل ریونیو میں کئی ٹریلین ڈالر کی متوقع بڑھوتری کا اہل ہو چکا ہے۔ یورپ/ امریکا/ اور ایشیاء کے کئی ممالک سے میڈیکل ایکوپمنٹ، روزمرہ اشیائے ضروریات اور کرونا وائرس ویکسین کے آڈرز بک ہو چکے ہیں۔ جب کہ جرمنی اور امریکا اس وقت ویکسین حقوق کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
چوتھی جِہت عالمی سماج کا نیا چہرہ (جو پہلے گلوبلائزیشن کی کسوٹی سے ناپا جاتا تھا) اب نئی سَمت کا تعین کرے گا۔ اس نیو گلوبلائزیشن کے عہد کو لیڈ کون کرے گا؟ یہ ایک بڑا سوال ہے اور جنگ کا خاتمہ طے کرے گا۔
تاہم جاری صورتِ حال پر یہ کہا جا سکتا ہے ممکنہ طور پر سوشلسٹ ممالک اس جنگ میں جیتتے نظر آتے ہیں۔ ایسی جنگ جس کی ابتداء استعمار نے شروع کی، سوشلسٹوں کے ہاتھوں انجام کو پہنچے گی۔ ممکنہ طور پر یہ جنگ اس برس کے آخری حصے میں ختم ہو جائے لیکن اس کے اثرات و نتائج اگلی کئی دھائیوں پر محیط ہو سکتے ہیں۔