انسانی ارادے کی آزاد ی؟
از، سعید احمد رفیق
مابعد الطبیعیاتی، مذہبی اور اخلاقی مسائل میں سے ایک اہم مسئلہ آزادئ ارادہ کا ہے۔ آزادی اہم ترین اقدار میں سے ایک ہے لیکن اس پر بحث کا مناسب مقام سیاسیات، معاشیات اور قانون ہے۔جہاں تک آزادئ ارادہ کا تعلق ہے، وہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر مختلف مفکرین نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے او راپنے نظریات پیش کیے ہیں۔ یہ مسئلہ اور اس سلسلہ میں مختلف نظریات حقیقتاً نظامِ اقدار اور خاص طور پر اخلاقی او رمذہبی اقدار سے متعلق ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا انسان اپنے ارادہ میں آزاد ہے؟ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ وہ اپنے اعمال و افعال میں آزاد نہیں، بلکہ ماحول اور وراثت کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے لیکن جہاں تک ارادہ کا تعلق ہے تو کیا انسان اس میں بھی آزاد ہے یا نہیں؟اس کے متعلق تین نظریات ہیں:۔ جبریت، اختیاریت اور خود ارادیت اور اب ہمیں ان ہی نظریات کی تشریح مقصود ہے۔
جبریت کیاہم ارادہ کرنے میں آزاد ہیں؟ کیا ہم جو کچھ ارادہ کرنا چاہیں جس طرح کرنا چاہیں ویسا ہی کرسکتے ہیں؟ بادی النظر میں اس کا جواب اثبات میں ہے لیکن اگر بنظرِ غائر اس مسئلہ کو دیکھا جائے تو اس کا جواب اس قدر آسان نہیں ۔ مفکرین نے اس مسئلہ پربہت غور و خوض کیا ہے اور متضاد نظریات پیش کیے ہیں۔ جبریت کے لحاظ سے انسان اپنے ارادہ میں آزاد نہیں ہے بلکہ بعض دوسرے خارجی محرکات ہیں، جو اس کے ارادہ کو متعین کرتے ہیں۔ جبریت پسند اپنے نظریہ کی تائید میں علمی، نفسیاتی اور مذہبی ثبوت پیش کرتے ہیں۔
علمی ثبوت: طبیعیاتی علوم کی بنیاد قوانینِ علت و معلول اور یکسانیتِ فطرت پر استوار ہے۔ نظامِ عالم ان دو اصولوں پر چلتا ہے ۔ قانون علت و معلول کی رو سے ہر واقعہ کسی نہ کسی علت کا مرہونِ منت ہوتا ہے۔ یہ نا ممکن ہے کہ کوئی واقعہ بغیر کسی علت کے وقوع پذیر ہوسکے۔ یہ تو ممکن ہے کہ ہمیں کسی واقعہ کی علت معلوم نہ ہو لیکن یہ نا ممکن ہے کہ اس کی کوئی علت ہی نہ ہو۔ قانون یکسانیتِ فطرت کی رو سے فطرت ہمیشہ یکساں طریقے سے عمل پیرا ہوتی ہے۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ کبھی کوئی واقعہ کسی علت کی بنا پر ظہور پذیر ہواور کبھی کسی اور علت کی بنا پر۔ یہ دونوں قوانین انسانی دنیا میں بھی اسی طرح عمل پیرا ہیں جس طرح طبعی دنیا میں۔ ہمارا ارادہ کسی نہ کسی علت سے متعین ہوتا ہے۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ ایک ارادہ بغیر کسی علت کے ظہور پذیر ہوجائے اور یہ بھی نہیں ہوسکتا کہ یہ ارادہ کبھی کسی علت کا معلول ہو اور کبھی کسی اور علت کا۔ نظریہ جبریت ان دو قوانین کے عین مطابق ہے۔
قانون بقائے توانائی بھی نظریہ جبریت ہی کی تائید کرتا ہے۔ اس قانون کی رو سے اس عالم میں توانائی کی مقدار مقرر ہے۔ توانائی ظہور پذیر نہیں ہوسکتی ہے۔ اسی طرح انسانی ارادہ بغیر کسی علت کے وقوع پذیر نہیں ہوسکتا۔ انسانی ارادہ کسی نہ کسی قوت کا معلول ہوتا ہے، وہ کسی موجود قوت کا پیدا کردہ ہوتا ہے۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ یہ نئی قوت (ارادہ) آپ ہی آپ پیدا ہوجائے۔ یہ کسی قوت سے متعین ہوتاہے۔ یہ آزاد نہیں ہوسکتا۔ غرض اس قانون کی رو سے بھی صرف جبریت کا نظریہ قابلِ قبول ہے۔
نفسیاتی ثبوت: نفسیات نے گذشتہ ایک صدی میں بہت زیادہ ترقی کی ہے۔ معاشرتی علوم میں اس نے صفِ اول میں جگہ حاصل کرلی ہے۔ اس علم کے مختلف مکاتیبِ فکر شاہراہ ترقی پر گامزن ہیں۔ ان مکاتیب فکر میں کرداریت اور تحلیلِ نفسی خاص طور پر مشہور ہیں۔ تحلیل نفسی کے لحاظ سے شعور کا دائرہ عمل بہت ہی محدود ہے۔ اس کے بر خلاف لاشعور کا دائرہ عمل بہت ہی وسیع ہے۔ انسان شعور کی بنیاد پر اپنے ارادہ کو آزاد سمجھتا ہے لیکن اس کا ارادہ عموماً لاشعور سے متعین ہوتا ہے اوریہ آزاد نہیں ہوتا۔ کرداریت کے نقطۂ نگاہ سے بھی انسان اپنے ارادے اور افعال میں آزاد نہیں ہے۔ مہیج اور حس کے تعلق پر نفسیاتی زندگی کا دارومدار ہے۔ نفسیات کی رو سے انسان ماحول و وراثت کا ماحصل ہے۔ وہ ماحول ووراثت سے کسی صورت سے بھی آزاد نہیں ہوسکتا۔ صرف جسمانی ساخت ہی ان دونوں کی مرہونِ منت نہیں ہوتی بلکہ اس کے احساسات و جذبات اور عقل و فراست بھی ان ہی کے عطیات ہیں۔ غرض ہم دیکھتے ہیں کہ نفسیات انسان کو آزاد قرار نہیں دیتی بلکہ اسے مجبور سمجھتی ہے۔ وہ آزادئ ارادہ کا مالک نہیں ہے بلکہ اپنے ارادے اور افکار میں مختلف عناصر سے متاثر ہوتا ہے۔
مذہبی ثبوت: مختلف الہامی مذاہب کی رو سے صرف جبریت ہی قابلِ قبول نظریہ ہے۔ خدا قادرِ مطلق ہے۔ ہر شۂ اس کے حکم کے ماتحت ہے۔ اس کا حکم جمادات، نباتات او رحیوانات سب پر چلتا ہے۔ وہ جو کچھ چاہے اور جس طرح چاہے، وہی ہوتا ہے اور اسی طرح ہوتاہے۔ خدا کا علم لا محدود ہے۔ اسے صرف فطرت میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات کا ہی علم نہیں ہوتا بلکہ اسے ہر ہر شخص کے اعمال، افعال اور ارادوں کا بھی پہلے ہی سے علم ہوتا ہے۔ فطرت کا کوئی واقعہ نہ اس کے علم سے باہر ہے او رنہ انسان کا کوئی ارادہ۔ اس کا یہ علم ہر ہر واقعہ اور ہر ہر ارادے کو پہلے ہی سے متعین کردیتا ہے۔ ان حالات میں انسانی اختیار کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
انسانی حقوق اور آزادئ اظہارکے جدید تصورات از، ارشد معراج
مندرجہ بالا وجوہ کی بنا پر کچھ مفکرین اور اکثر سائنس دان جبریت کے قائل ہیں۔ یونانی مفکرین میں اکثریت کا دائرہ مطالعہ طبیعیات تک محدود تھا یا کم از کم وہ بنیادی طورپر طبیعی مفکرین تھے، اس لیے ان میں سے زیادہ ترجبریت کو صحیح مکتبۂ، فکر قرار دیتے ہیں۔ فیثا غورث، ہر قلیطس، دیماقریطس، زینو اور رواقئین انسان کو مجبور خیال کرتے ہیں۔ ہر قلیطس کے مطابق ’’نظامِ عالم کو کسی دیوتا نے بنایا ہے اور نہ کسی انسان نے۔ یہ ہمیشہ سے ہے او رہمیشہ تک رہے گا۔ ہمیشہ موجود رہنے والی آگ متعین اصول کے مطابق روشن ہے اور متعین اصول کے مطابق ہی ٹھنڈی ہوتی ہے‘‘۔
یہ متعین اصول اس کائنات کا عالمگیر اصول ہے۔ انسان بھی اس اصول کا ماتحت ہے اور اس سے آزاد ہونا ناممکن ہے۔ دیماقریطس اس تمام کائنات کو سالمہ کا مرہونِ منت قرار دیتا ہے۔ یہ کائنات اور انسان مختلف سالمات کے آپس میں ملنے سے پیدا ہوتے ہیں او ران میں انتشار کے بعد افراد اور کائنات کی دوسری چیزیں ختم ہوجاتی ہیں۔ انسان کے وجود اور ارادہ، افعال، اعمال کا انحصار ان سالمات کے ملاپ او رحرکت پر ہے او رانسان ان کے آگے مجبور محض ہے۔ زینو اور رواقئین اس تمام کائنات کو متعین، مستحکم اور غیر متغیر قوانین کے تحت قرار دیتے ہیں۔ اس عالم کی کوئی شئ اس قانون کی زد سے باہر نہیں۔ انسان کا ارادہ بھی اس قانون ہی سے متعین ہوتاہے۔ اس کا دارومدار، اس کے خیالات اور اس کے اعمال و افعال سب اس قانون کے ماتحت ہیں۔ اسباب و علل کی ایک لا متناہی زنجیر ہے جس سے اس عالم کا نظام چل رہاہے اور حادثات و اتفاقات کا اس عالم میں کوئی دخل نہیں۔
جہاں تک اخلاقی زندگی کا تعلق ہے، رواقئین اس میدان میں انسان کو آزاد قرار دیتے ہیں۔ ان کے خیال سے انسان اس ضمن میں آزاد ہے کہ وہ قانون اخلاق کی پیروی کرتا ہے یا نہیں، وہ عقل کی رہنمائی قبول کرتا ہے یا نہیں، وہ خیر اعلیٰ کے حصول کے لیے جدو جہد کرتاہے یا نہیں۔ ہیجانات اور جذبات پر قابو پانے میں اس کی آزادی مضمر ہے۔ جس حد تک وہ ان پر قابو پاتا ہے، اسی حد تک وہ آزاد ہے۔ اس کی آزادی پیروئی عقل میں مضمر ہے۔
قرونِ وسطیٰ کے کچھ مفکرین بھی جبریت کے قائل ہیں۔ سیگر آف برابان، ابن رشد کی تعلیمات سے بہت زیادہ متاثر تھا لیکن اس کے نظریہ کے برخلاف وہ کائناتی اور نفسیاتی جبریت کا قائل تھا۔ اس کے خیال میں اس عالم کی ہر شۂ اورانسانی تقدیر واقعات کی زنجیر سے متعین ہوتی ہے۔ انسان اپنے ارادے میں آزاد نہیں کیونکہ روحِ انسانی، انسانی ارادے اور افعال کو متعین کرتی ہے اور وہ اس سے آزادی حاصل نہیں کرسکتا۔ برونونظریۂ وحدتِ وجو دکا قائل تھا۔ وہ خدا اور فطرت کو ایک حقیقت کے فعالی اور انفعالی پہلو تصور کرتا تھا۔ خدا لا محدود ہے۔ خدا وجودِ کُل ہے۔ یہ کائنات اس کا مظہر ہے۔ خدا روحِ کائنات ہے۔ انسان خدا کا ظہور ہے اور وہ واپس خدا ہی میں لوٹ جائے گا۔ انسانی ارادہ عظیم ارادے کا ایک حصہ ہے اور بنا بریں وہ آزاد نہیں ہے۔
فلسفہ جد ید کے علمبرداروں میں ہابس تمام کائنات کو علت و معلول کے میکانکی اصول کے تحت قرار دیتا ہے۔ انسان کے ارادے اور اس کے افعال کی تشریح میکانکی اصولوں کی بنیاد پر کی جاسکتی ہے۔ ارادہ او رخیال دماغ میں حرکت کا مرہونِ منت ہے، اس لیے انسان کو آزادی ارادہ کا حامل قرار دینا بالکل غلط ہے۔ ہر خواہش کسی نہ کسی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ ایک خواہش کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے یا نہ پہنچانے میں تو، ہم آزاد ہوتے ہیں لیکن اس خواہش کے پیدا ہونے اور موجود ہونے میں ہم آزاد نہیں ہوتے۔ غرض انسان آزادئ ارادہ کا حامل قرار نہیں دیا جاسکتا۔
ڈیکارٹ نے اپنے دور کے میکانکی نظریات اور آزادئ ارادہ کے نظریہ میں تطابق پیدا کرنے کی کوشش کی۔ اس نے جسم اور ذہن میں تفریق پیدا کرکے جسم کو میکانکی اصول کے تحت قرار دیا۔ جسمانی افعال علت و معلول کے قانون سے متعین ہوتے ہیں۔ ہر فعل اور عمل اپنے سے گذشتہ فعل و عمل کا نتیجہ ہوتاہے۔ نہ صرف جسمانی افعال کی ا س میکانکی اصول کی بنا پر تشریح کی جاسکتی ہے بلکہ اس کائنات کا ہر واقعہ اس اصول کے ذریعہ سمجھا جاسکتا ہے۔
اسپینوزا کہتاہے کہ انسان یہ سمجھتا ہے کہ وہ اپنے ارادہ کا مالک ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ان علل پر غور نہیں کرتا جن کا معلول اس کا ارادہ ہوتاہے۔ اگر وہ اپنے ارادے کا تجزیہ کرے تو ثابت ہوجائے گا کہ اس کا ارادہ آزاد نہیں بلکہ ان علل کا پابند ہے۔
والٹئیر اپنی ابتدائی تحریروں میں آزادی کاعلمبردار تھا لیکن آہستہ آہستہ وہ اس مکتبہ فکر سے دور ہوتا گیا او راپنی بعد کی تحریروں میں وہ جبریت کا قائل ہوگیا، یہاں تک کہ اس کے خیال میں ’’جب میں وہ کچھ کرسکتا ہوں جو میں ارادہ کرتا ہوں تو میں آزاد ہوں لیکن میں لازماً صرف وہی ارادہ کرسکتا ہوں جو میں ارادہ کرتا ہوں‘‘۔
اٹھارویں صدی کے روشن خیالی کے دورمیں زیادہ تر مفکرین اور اہل علم حضرات جبریت ہی کے قائل تھے۔ انیسویں صدی اور بیسویں صدی تو ہیں ہی سائنس کی صدیاں۔ ان میں اکثر سائنس دان اور مفکرین اسی مکتبۂ فکر کے پیرو تھے لیکن کچھ سائنس دان اور مفکرین ایسے بھی تھے جنہوں نے جبریت کے خلاف آواز اُٹھائی اور اختیارات کے مسلک کو علمی بنیادوں پراختیار کیا۔
تنقید۔ جبریت کی بنیادیں قانون علت و معلول پر استوار ہیں لیکن بعض مفکرین اس قانون کی صحت کے قائل نہیں۔ ولیم جیمز علت و معلول کے قانون کو’’نامعلوم خدا کے سامنے اظہارِ عبودیت‘‘ کہہ کر رد کردیتا ہے۔ اس کے نزدیک نظامِ عالم اس قدر سخت اور بے لچک نہیں کہ اس میں کوئی واقعہ بغیر علت کی وقوع پذیر نہ ہوسکے۔ اس کے لحاظ سے دنیا کے ہر واقعہ کی تشریح اسی ایک قانون کے ذریعے نہیں کی جاسکتی۔ انسانی ارادے اور افعال پر ماحول، وارثت، تعلیم و تربیت، معاشی ضروریات، سیاسی مجبوریوں اور انسان کی انفرادی خصلتوں، عادتوں، جبلتوں، کردار، نیت وغیرہ کا بھی اثر پڑتا ہے بلکہ انسانی ارادے اور افعال اکثر انہی کے معلول ہوتے ہیں لیکن اگر انسان چاہے تو وہ ان کے اثرات سے اپنا دامن بچا کر آزادانہ طور پر عمل پیرا ہوسکتا ہے۔
بیسویں صدی میں خود سائنس ہی میں علت و معلول او ریکسانیت فطرت کے قوانین کو زیر بحث لانا شروع کردیا گیا۔ ہینسبرگ (۱۹۰۱۔۱۹۷۲) نے ایک نیا اصول پیش کیا جسے وہ اصول غیر متعینیت کا نام دتیا ہے۔ اس کے نزدیک فطرت میں ہمیشہ یکسانیت نہیں ہوتی بلکہ بعض مرتبہ خودرویت بھی وقوع پذیر ہوتی ہے۔ بعض دوسرے سائنس دان مثلاً پروفیسر برجمین (۱۸۸۲۔۱۹۶۱) بھی اس اصول کو قبول کرتے ہیں اور اسے اصولِ تذبذب کا نام دیتے ہیں او راپنے دعویٰ کو ایٹم کی آزادانہ حرکت سے ثابت کرتے ہیں۔ ایڈنگٹن (۱۸۸۲۔۱۹۴۴) اس اصول پرتبصرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے ’’بنیادی طور پر یہ ایک زبردست اصول ہے جو بلحاظ اہمیت نظریۂ اضافت سے کسی طرح کم نہیں‘‘۔ برجمین کہتا ہے ’’یہ اصول ذہنی زندگی میں بہت سی تبدیلیوں کا پیش خیمہ ہے‘‘۔ ہم دیکھتے ہیں کہ فلسفہ ہی نہیں سائنس میں بھی جبریت پر وہ یقین نہیں رہا جو انیسویں صدی کے آخر تک تھا (۱۱۲)۔
جبریت کی تائید میں قانون بقائے توانائی کو بھی پیش کیا جاتا ہے لیکن ارادہ ایک ذہنی عمل ہے اور اسے اس مفہوم میں توانائی نہیں کہا جاسکتا جس مفہوم میں سائنس میں لفظ توانائی کو استعمال کیا جاتاہے۔ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ ارادہ کسی نہ کسی وجہ سے ظہور پذیر ہوتاہے اور جس وجہ سے ظہور پذیر ہوتاہے، وہ اس کی علت ہے۔ باالفاظ دیگر وہ آزاد نہیں ہے بلکہ اس علت سے متعین ہوتاہے لیکن یہ علت مادی یا مادہ سے حاصل ہونے والی توانائی نہیں ہوتی بلکہ انسان کے نفس سے وقوع پذیر ہوتی ہے۔ نفس خارجی طو رپر مجبور نہیں ہوتا اور داخلی طور پر تو وہ با اختیار ہوتا ہے۔ جب ہمارا ارادہ اس با اختیار ادارہ سے متعین ہوتاہے تو وہ مجبور نہیں ہوتا بلکہ با اختیار یا کم از کم خود مختار ہوتا ہے۔
جہاں تک نفسیاتی نقطۂ نظر سے جبریت کی تائیدکا سوال ہے تو جیسا کہ مندرجہ بالا سطور میں عرض کیا گیا ہے کہ ارادہ کا اصل ماخذ نفس ہوتاہے جو خارجی طور پر نہیں بلکہ داخلی طور پر متعین ہوتا ہے۔ داخلی طور پر متعین ہونا انسان کو جبریت کے دائرے سے نکال کر کم از کم خودمختاریت کے دائرے میں لے آتاہے۔
اس میں تو کوئی شک نہیں کہ خدائے لایزال کو ہر چیز، واقعہ، عمل اور ارادہ کا علم ہے۔ کوئی شئ اس کے دائرہ علم سے باہر نہیں لیکن علم ہونے کا مطلب عمل کا ذمہ دار ہونا تو نہیں بلکہ یہ داخلی طور پر متعین ہوتاہے۔ داخلی طور پر متعین ہونا انسان کو جبریت کے دائرے سے نکال کر کم ازکم خود مختاریت کے دائرے میں لے آتا ہے۔ علم ہونا اور عمل کرنا دو مختلف نفسیاتی اعمال ہیں۔ علم ارادہ کرنے والے کو بھی ہوسکتا ہے اور دوسرے کو بھی۔ دوسرے کو علم ہونے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ وہ اس علم کے مطابق عمل کرنے والے کے عمل کا ذمہ دار بھی ہے۔
اختیاریت: موجودہ دور میں کانٹ پہلا عظیم مفکر ہے، جو اختیاریت کا زبردست حامی ہے، لیکن وہ اپنے نظریئے کو ثابت نہیں کرتا بلکہ اسے مفروضہ کے طور پرمانتا ہے اور اس کی بنیاد محض شہادت ضمیر پر رکھتا ہے۔ نطشے بھی اختیاریت کا مسلک اختیار کرتا ہے لیکن کانٹ کی پیروی کرتے ہوئے اس کے ثبوت میں صرف شہادت ضمیر ہی کو پیش کرتاہے۔ ہیگل بھی بہت حد تک اختیارات کا قائل ہے۔ دورِ حاضر میں ولیم جیمز، برگساں اور اقبال نے اس نظریہ کو بڑی وضاحت کے ساتھ پیش کیا ہے۔
گوجیمز کانٹ اور نشطے کی طرح اختیار اور آزادی کو ثابت نہیں کرتا ، بلکہ صرف انسانی شعور کو شہادت کے طو رپر پیش کرتاہے۔ اس کے نزدیک چونکہ ہمیں اس بات کا شعور ہے کہ ہم آزادانہ طورپر ارادہ کرسکتے ہیں، اس لیے ہم بااختیار اور آزاد ہیں۔ برگسان کے نزدیک آزادی حقیقت کا ایک لازمی اور ضروری جزو ہے اور اس عالم کی بنیادی حقیقت وہ نفسیاتی زندگی ہے جو خود کو مجاز کے پس پردہ ظاہر کررہی ہے۔ یہ زندگی زماں سے مربوط ہے۔ زماں ایک امر واقعہ ہے۔ نہ صرف امرِواقعہ بلکہ تمام حقیقتوں کی اصل حقیقت۔ برگسان دوراں اور زماں کو ہم معنی قرار دیتا ہے۔ اس کے نزدیک دوراں کا مطلب ہے ’’اختراع ایجاد اور کسی ایجاد کی تفصیلات کو اتمام تک پہنچانا‘‘ اور یہ اختیار اور آزادی کے بغیر ناممکن ہے۔
نفسیاتی زندگی کا اصل جو ہر اختیار ہے جس کے بغیر انسانی زندگی نفسیاتی زندگی کہلانے کے مستحق ہی نہیں۔ زندگی بذاتِ خود آزادی، خودروی، ردوبدل اورتخلیق ہے، اسی بنا پر اس کا میدان عمل واقعات کی تخلیق ہے نہ کہ صرف ظہور پذیری چنانچہ علت و معلول کا قانون اس پر عائد نہیں کیا جاسکتا۔ نفسیاتی زندگی میں کوئی واقعہ پیش نہیں آتا بلکہ ہر واقعہ تخلیق کیا جاتاہے۔ نفسیاتی زندگی قانونِ علت و معلول کے حلقۂ اثر سے کلیتاً آزاد ہے۔ یہ قانون اگر کہیں اثر اندار ہوتاہے تو وہ طبعی زندگی ہے نہ کہ نفسیاتی۔ غرض اس کے نزدیک اختیار اور آزادی زندگی کا جوہر ہے اور وہ زندگی حقیقی معنی میں زندگی ہی نہیں جو با اختیار اور آزاد نہ ہو۔
اقبال کے نردیک زندگی با اختیار اور آزاد نہیں ہے۔ اسے غیر خود یعنی نا مناسب ماحول اور قدرت کے خلاف کشمکش کرکے آزادی حاصل کرنی پڑتی ہے۔ ’’زندگی کے ارتقا سے یہ بات صاف ہوجاتی ہے کہ شروع میں ذہنی زندگی، طبعی زندگی کے ماتحت تھی لیکن جوں جوں ذہنی زندگی قوت حاصل کرتی گئی، وہ طبعی زندگی پرحاوی آتی گئی اور کبھی نہ کبھی وہ مکمل اختیار اور آزادی کی منزل پرجا پہنچے گی‘‘۔ انسان میں اگرچہ اختیار اور آزادی موجود ہے لیکن بالقوہ نہ کہ بالفعل۔ وہ اپنی قوت کو جستجو، ہمت و حوصلہ، جدو جہد اور عمل کے ذریعے حقیقت میں تبدیل کرتاہے۔ ’’انا کی زندگی حقیقتاً ایک قسم کی کشاکش ہے جو انا کے ماحول پر اور ماحول کے انا پر حملے کی وجہ سے ظہور پذیر ہوتی ہے‘‘۔ ’’فرد بنیادی طور پر جذبات اور جبلت کا محکوم ہوتا ہے۔ استخراجی استدلال جو فرد کو ماحول کا مالک بناتا ہے، بعد میں حاصل کیا جاتا ہے‘‘۔
خود ارادیت جبریت اور اختیاریت یہ دونوں نظریات ایک دوسرے سے صرف مختلف ہی نہیں بلکہ متضاد ہیں۔ اخلاقی اصولوں پر عمل صرف اس صورت میں ممکن ہے، جب انسان با اختیار اور آزاد ہو۔ مجبوری کی حالت میں جو ارادہ یا عمل رونما ہوگا اس پر اخلاقی حکم صادر نہیں کیا جاسکتا۔ ایک شخص صرف اسی ارادے اور عمل ذمہ دار ہوگا جو اس نے بااختیار اور آزاد ہونے کی صورت میں کیا ہو۔ ذمہ داری کی بنیاد آزادی ہے۔ جب تک ایک شخص اپنی مرضی سے کوئی ارادہ نہیں کرتا، کوئی کام نہیں کرتا، اسے اس کا ذمہ دار قرار دینا ناممکن ہے۔ اگر وہ خارجی طورپرمجبور ہے اور ماحول، بیرونی اسباب، حالاتِ زمانہ نے اسے پابہ زنجیر کر رکھا ہے تو ذمہ داری کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا لیکن کیا داخلی طور پر متعین ہونا بھی انسان کو مجبور بنا دیتا ہے؟ مکتبہ خود مختاریت کے حامی اس بات کے حامی ہیں کہ اگر ایک شخص اپنی عادات، اپنی مرضی، اپنے کردار، اپنے مقاصد زندگی، اپنے اصولِ زندگی کی بنا پرایک ارادہ کرتا ہے اور کوئی کام کرتا ہے، اسے خارجی طورپر کوئی جبر نہیں ہے، وہ ماحول اور حالات زمانہ سے متعین نہیں ہوتاہے تو وہ آزاد ہے او راس طرح وہ اس ارادے اور فعل و عمل کا ذمہ دار ہے۔ اس مکتبہ فکر کی رو سے داخلی طور پر متعین ہونا آزادی ہے، مجبوری نہیں اور اس طرح داخلی طور پرمتعین ہونے کے باوجود وہ شخص اپنے ارادہ اور اپنے افعال و اعمال کا خود ذمہ دار ہے۔
اخلاقی آزادی اور مجبوری انسان کے اپنے نفس سے متعلق ہے۔ اگر خارجی اسباب، ماحول، بیرونی حالات اس کے کردار اور ارادے پر اثر انداز ہوں اور اس کے نفس کو متعین کریں تو وہ اخلاقی طو رپر مجبو رہے۔ اس کے بر خلاف اگر وہ اپنے مقاصد، اصول، کردار، عادات کے مطابق عمل پیرا ہو تو وہ آزاد ہے۔ اخلاقی آزادی کا مطلب آزادانہ طور پر اپنے کردار اور مقاصد سے متعین ہونا ہے۔ خارجی حالات اور بیرونی واقعات کی بجائے اپنے اعلیٰ نفس کی رہنمائی میں کسی امر کا ارادہ کرنا اور اس کے مطابق عمل پیرا ہونا اخلاقی آزادی ہے۔ عقل و خرد کو رہبر بنانا انسان کی آزادی کی ضمانت ہے۔ بغیر کسی خارجی دباؤ کے آزادانہ طور پرارادہ کرنے میں آزادی مضمر ہے۔ ایک شخص صرف اس وقت اپنے ارادے اور افعال و اعمال کا ذمہ دار ہے جب اس نے آزادانہ طورپر یہ ارادہ کام کیا ہو۔ آزادی کے بغیر ذمہ داری کا وجود ممکن نہیں۔ ’’چاہیے‘‘ کا سوال صرف اُس وقت پیدا ہوتا ہے، جب ’’سکنا‘‘ موجود ہو۔ ایک شخص کے لیے کسی کام کو کرنا چاہیے کا سوالِ صرف اُس وقت پیدا ہوتاہے، جب وہ اسے کرسکتا ہو۔ اگر وہ اس عمل کو کسی بھی وجہ سے کر ہی نہ سکے تو اس سے اس بات کی توقع کرنا کہ اسے وہ کام کرنا چاہیے، بے معنی ہوجاتا ہے۔’’ کرسکنے‘‘ کا مطلب آزادی ہے اور’’چاہیے‘‘ اس آزادی میں مضمر ہے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ خود ارادیت کا انحصار حقیقتاً اختیاریت پر استوار ہے اور اسے ایک جدا مکتبہ فکر قرار دینا مناسب نہیں۔ آزادئ ارادہ کے سلسلے میں صرف یہی دو تحریکیں، اختیاریت اور جبریت برسرِپیکار رہی ہیں اور جس مفکر یا اہلِ علم نے اس مسئلہ پر بحث کی ہے، وہ ان تحریکوں میں کسی ایک کا موافق اور دوسری کا مخالف رہا ہے۔