آزادی کی مجبوریاں
(شاداب مرتضٰی)
آزادی ایسی سماجی حالت کا نام ہے جس میں معاشرے کے تمام افراد عملی اور ذہنی سرگرمیوں کو اپنے ذوق اور شوق کے مطابق انجام دے سکیں۔ سماج جس حد تک آزاد ہو گا فرد کی آزادی بھی اسی قدر پروان چڑھے گی۔ آزادی لامحدود ہے لیکن انسان آزادی کو درجہ بہ درجہ حاصل کرتا ہے۔ انسان کی ضرورتیں جس قدر پوری ہوتی جاتی ہیں اسی قدر انسان آزاد ہوتا جاتا ہے۔
آزادی کے اس ارتقاء میں پہلا مرحلہ فکرِ معاش سے آزادی کا ہے۔ بدقسمتی سے انسانی معاشرہ اب تک اپنے ارتقاء کی اس سطح تک نہیں پہنچ سکا ہے جہاں تمام انسان معاشی مجبوری کی قید سے آزاد ہو چکے ہوں۔ یہ تو دور کی بات ہے الٹا ہم جس دور سے گزر رہے ہیں اس میں انسانی آبادی کی کثیر اکثریت معاشی مسائل سے نبرد آزما ہے۔
جب تک سماج امیر و غریب، حاکم اور محکوم، ظالم اور مظلوم انسانی طبقوں میں بٹا رہے گا تب تک اسے آزادی کا حقیقی حسن دیکھنا نصیب نہیں ہو گا۔ طبقوں میں تقسیم سماج میں آزادی بھی طبقاتی نوعیت اختیار کرلیتی ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ سماج میں ایک جانب لوگوں کی ایک معمولی تعداد ہر قسم کی ممکنہ آزادیوں سے لطف اندوز ہوتی ہے۔ جب کہ دوسری جانب ہم نفس انسانوں کا ایک کثیر جمِ غفیر معاشی مجبوریوں کی وجہ سے بنیادی آزادیوں کے لیے ترس رہا ہے۔
اگر آپ کے پاس سب کچھ ہو لیکن بولنے کی آزادی نہ ہو تو سب کچھ بیکار ہے۔ یہ بڑی من موہنی فلسفیانہ بات ہے۔ لیکن الجھن یہ ہے کہ ایسا کہاں ہے کہ انسان کے پاس سب کچھ ہو مگر بولنے کی آزادی نہ ہو؟ کیا دولت مند طبقے کے پاس، سرمایہ دار حکمرانوں کے پاس بولنے کی آزادی نہیں؟
انسان کو بولنے کی آزادی کیوں چاہیے؟ کیا بولنے کی آزادی صرف اس لیے درکار ہے کہ بولنے کی آزادی ملے؟ انسان بولنے کی آزادی اس لیے مانگتا ہے کہ وہ اپنے اور دوسروں کے حقوق کے لیے آواز اٹھا سکے، ناانصافی کے خلاف بات کر سکے، حقائق لوگوں کے سامنے لا سکے۔ جہاں لوگوں کو ان کے حقوق ملتے ہوِں، لوگوں کو معاشی، سیاسی اور سماجی حقوق میسر ہوں وہاں انسان کس حق کی خاطر بولنے کے لیے اظہار کی آزادی مانگے گا؟ اور وہاں کوئی کیوں لوگوں کے بولنے کی آزادی سے خوفزدہ ہو گا؟
اگر انسان کے پاس کچھ بھی نہ ہو مگر بولنے کی آزادی ہو تو اس کے لیے یہی کافی ہے۔ یہ بھی ایک دلکش فلسفیانہ بات ہے۔ مگر الجھن یہ ہے کہ اگر لوگوں کو ان کے حقوق نہ مل رہے ہوں، اگر وہ بیروزگار یا مفلس، بے گھر، تعلیم سے عاری، بیماری میں مبتلا، بے سہارا، نادار اور بے کفیل ہوں لیکن ان کے پاس بولنے کی آزادی ہو تو وہ اس کا کیا کریں گے؟ کیا وہ ادب پڑھنے کی، مصوری یا رقص سیکھنے کی، اپنی محبوبہ کو پانے کی خواہش کا اظہار کریں گے یا حکمرانوں کی بے حسی اور ظلم پر تنقید کریں گے؟ اگر وہ حکمرانوں پر تنقید کریں گے تو اس کے ذریعے وہ پیٹ بھر روٹی، رہنے کو چھت، تن پر ستھرا لباس، بیماری کا علاج اور بچوں کے لیے تعلیم کا تقاضا ہی تو کریں گے۔ لیکن حکمران اگر ان کی آواز پر کان ہی نہ دھریں تو بولنے کی آزادی ان کے کس کام آئے گی؟
ایک عورت جسے گھر میں ہر سہولت اور آسائش میسر ہو لیکن شوہر کی اجازت کے سوا گھر سے باہر جانے کی اجازت نہ ہو اور اسے یہ پیشکش کی جائے کہ وہ اپنی مرضی سے گھر سے باہر جانے کی آزادی اور اس آزادی کے بغیر گھریلو سہولیات اور آسائشوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرے تو وہ آزادی اور گھریلو آسائش میں سے کس کا انتخاب کرے گی؟ اسی طرح ایک گھریلو ملازمہ کو جو دوسروں کے گھروں میں کام کے لیے سارا دن اپنے گھر سے باہر رہتی ہے یہ پیش کش کی جائے کہ اگر وہ گھر سے باہر جانا چھوڑ دے تو اسے اس کے گھر میں ہر سہولت و آسائش مہیا کی جائے گی تو اس کا جواب کیا ہوگا؟
انسان کی آزادی اور حقوق کا سب سے پہلے اور بنیادی تعلق معیشت سے ہے۔ جب تک انسان معاشی قید سے آزاد نہیں ہوتا وہ دیگر آزادیوں سے، سیاسی اور سماجی آزادیوں سے، مستفید ہونے کی سماجی حالت تک نہیں پہنچ سکتا۔ فکرِ معاش سے آزادی انسان کے سماجی وجود کو ایک نئی حالت میں لے آتی ہے جہاں اس کا ذہن معاشی بندوبست کی فکر تک محدود نہیں رہتا اور اس کے لیے آزادی کا سورج طلوع ہوتا ہے۔
ہمارے ملک میں ایسے ادارے اور شخصیات پائی جاتی ہیں جن پر تنقید برداشت نہیں کی جاتی اور تنقید کرنے والوں کو انتقامی کارروائی کا نشانہ بنایا جاتا ہے، انہیں ڈر ایا دھمکایا جاتا ہے۔ یہ لوگ تنقید کی آزادی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ یہ مطالبہ بالکل جائز ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ہمارے ملک کی کثیر اکثریت کی طرح، ملک کے مزدوروں اور کسانوں کی طرح، فکرِ معاش کے قیدی نہیں۔ ان کا وجود سماجی آزادی کی اعلی تر سطح پر ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو کہہ سکتے ہیں کہ اگر انسان کے پاس سب کچھ ہو لیکن بولنے کی آزادی نہ ہو تو سب بیکار ہے۔ لیکن یہ لوگ اگر اس حالت میں آجائیں کہ ان کے پاس کچھ بھی نہ ہو مگر بولنے کی آزادی ہو تو یہ تنقید کی آزادی کا مطالبہ کرنے کے بجائے سب سے پہلے معاشی ضروریات سے آزادی حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔
ایک ہی معاشرے میں بسنے والے انسانوں کے درمیان آزادی اور جبر کی یہ متضاد حالتیں واضح کرتی ہیں کہ طبقات میں تقسیم معاشرے میں آزادی اپنا حقیقی اظہار نہیں کر سکتی۔ کوئی بھی معاشرہ تبھی حقیقی معنی میں آزاد کہلا سکتا ہے جب اس کے تمام افراد آزادی کے پھل کا ذائقہ چکھ سکیں۔ کسی بھی معاشرے میں فرد کی آزادی کے شادیانے اسی صورت میں بجائے جا سکتے ہیں جب وہاں افراد کی غالب اکثریت معاشی جبر کی قید میں نہ ہو۔ یہی وہ بنیادی حقیقت ہے جسے لبرل ازم میں فرد کی آزادی کے نقیب مسلسل نظر انداز کرتے ہیں اور سرمایہ دارانہ نظام کے دفاع میں فرد کی آزادی کو معاشرے کی ترقی اور خوشحالی کا پیمانہ قرار دیتے ہوئے بھول جاتے ہیں۔