بوسیدہ اذہان اور فکر کے چشمے
جمیل خان
مذہبی دانشور ہم سے کہتے ہیں کہ زندگی میں جو بھی مشکلات آتی ہیں، وہ اللہ کی طرف سے ہوتی ہیں، چنانچہ اس کی شکایت نہیں کرنی چاہیے، زمانہ اچھا ہو یا بُرا اس کی برائی نہ کی جائے…!
حقیقت یہ ہے کہ اس سوچ کی گرد سے بوسیدہ اذہان میں فکر کے چشمے خشک ہوجاتے ہیں۔ ایسے لوگوں میں سے کچھ تیز و طرار ہوں تو کم از کم اپنی ذاتی زندگی میں ضرور سدھار پیدا کرلیتے ہیں، لیکن اجتماعی معاملات میں اس لیے سدھار نہیں ہوتا کہ اس کو سدھارنے کا عزم جو ذہنوں میں پیدا نہیں ہوتا۔ ظالم کے ظلم پر مظلوم کو خاموش رہنے اور یہ کہہ کر خوشی خوشی اس ظلم کو سہنے کا جذبہ پیدا کردیا جاتا ہے کہ یہ ظالم اُخروی زندگی میں ہمیشہ ہمیشہ عذاب جہنم میں جلتے رہیں گے۔
معاشرتی سدھار اور تبدیلی کا آغاز ہی اس وقت ہوتا ہے جب کہ افرادِ معاشرہ ظالم کے ظلم کو ظلم تصور کرنے لگیں، جب وہ اس کو خدا کا قہر سمجھتے رہیں گے تو کیا خاک ظالم کے سامنے سینہ سپر ہوسکیں گے۔ یوں ظالم کے ظلم میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ اور ہمارے نابینا مؤرخین اسے تاریخ کا دوہرانا قرار دے کر پوری قوم کو گھوڑے کی لید میں تبدیل کردیتے ہیں، جو پڑے پڑے بدبو تو پھیلا سکتی ہے، لیکن اس میں حرکت کا تصور بھی محال ہے۔
آج اکیسویں صدی میں ہم زندہ ہیں، اور اس صدی میں ٹیکنالوجی کا پھیلاؤ اور جبر اس قدر شدید ہے کہ ہم جیسے پسماندہ معاشرے بھی اس صدی کی بیشتر نعمتوں سے بہرہ ور ہورہے ہیں، لیکن ٹیکنالوجی کے جبر کی شدت میں وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوتا جائے گا، پھر ماضی کی ان بے ہودہ روایتوں سے چمٹی ہوئی چمگادڑ نما قومیں اپنا وجود کھو بیٹھیں گی۔
ماضی میں بھی ایسا ہوتا رہا ہے، لیکن ماضی میں تبدیلی کی رفتار اس قدر سست ہوتی تھی کہ کئی نسلوں میں کہیں جاکر کچھ بدلاؤ دیکھنے میں آتا تھا۔ لیکن اب ایسا نہیں رہا، آج تین سے چار برس کا بچہ اسمارٹ فون کو بغیر کسی سے سیکھے اپنے بڑوں سے کہیں زیادہ سمجھداری سے استعمال کررہا ہے۔ کچھ وقت گزرے گا، درس و تدریس کا موجودہ طریقہ یکسر تبدیل ہوجائے گا، جس میں کاپی کتاب اور قلم کا استعمال نہیں ہوگا۔ اس کے علاوہ اور بہت سی ایسی تبدیلیاں بھی رونما ہوں گی کہ پھر ہمارے کھانے پینے، پہنے اوڑھنے اور رہن سہن کے تمام طریقے وہ نہیں رہیں گے، جو کہ آج ہیں، اس لیے کہ ابھی نصف صدی پہلے یہ طریقے ایسے نہیں تھے، جیسے کہ آج ہیں۔
اس دور میں وہی قومیں، برادریاں اور افراد کی بقا ممکن ہوگی، جو نوع انسانی کی فلاح و ترقی کے کاموں میں کچھ نہ کچھ حصہ ڈالیں گے، ورنہ غیروں کے دسترخوانوں پر پلنے والی قوموں اور افراد کی حیثیت کچھ عقل رکھنے والے مویشیوں کی مانند ہوگی، جو ترقی یافتہ قوموں کی ان کے غلاموں یا روپوٹس کی طرز پر خدمت کریں گے۔ یا پھر معدوم ہوجائیں گے۔