فروٹ بائیکاٹ مہم اور سوشل میڈیا
(مجاہد حسین)
بہت بار ایسے مواقع آئے جب ایک خبر سوشل میڈیا پر نمودار ہوئی اور اس قدر پھیلی کہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو اس کا نوٹس لینا پڑا۔ پاکستانی صحافت کی تاریخ میں یہ ایک انوکھی تبدیلی تھی جو وقتاً فوقتاً اپنا جلوہ دکھاتی رہی۔ اس سے پہلے ہمیشہ روایتی میڈیا رائے عامہ کی تشکیل کرتا تھا مگر اب دھیرے دھیرے عوام خود میڈیا کی رہنمائی کرنے لگے۔ جن طاقتور طبقوں نے روایتی میڈیا کو لالچ یا دھونس کے زور پر اپنا یرغمال بنایا ہوا تھا، ان کے لئے سوشل میڈیا خطرے کی گھنٹی ثابت ہوا۔
اسے اپنے قابو میں لانے کی تدابیر سوچی جانے لگیں، ایک قانون بھی منظور ہوا، کچھ بلاگرز بھی اٹھائے گئے، مذہبی جذبات ابھار کر اپنا مقصد حاصل کرنے کی کوشش بھی کی گئی اور عدالتوں کو بھی استعمال کرنے کی سعی ہوئی۔ تاہم ابھی تک انہیں کوئی بڑی کامیابی نہیں مل سکی۔
پرنٹ اورالیکٹرانک میڈیا میں تو چند ٹی وی چینل مالکان اور کچھ بڑے نام خرید لینے سے کام بن جاتا تھا لیکن سوشل میڈیا پر ہزاروں لوگ اپنی آواز بلند کر رہے ہیں۔ یہاں اتنے بڑے پیمانے پر خرید و فروخت ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حکومتیں، طاقتور ادارے اور اشرافیہ، سب اس سے نالاں اور خوفزدہ ہیں۔
آج کل پھلوں کے بائیکاٹ کی مہم چل رہی ہے۔ ایک طبقہ اس کی مخالفت بھی کر رہا ہے لیکن مجموعی طور پر سوشل میڈیا پر اسے بہت مقبولیت حاصل ہوئی ہے اور زمین پر اس کے واضح اثرات بھی نظر آ رہے ہیں۔ روایتی میڈیا بھی اس مہم کی تائید کر رہا ہے۔ اس بات کا کافی امکان ہے کہ یہ واقعہ سوشل میڈیا کے لئے بہت اہم ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہو۔
پچھلے چند سال سوشل میڈیا اپنی سمت متعین کرتا رہا۔ یہ خودشعوری کی ایک طویل جستجو تھی جس دوران اسے چھوٹی چھوٹی کامیابیاں ملتی رہیں اور اس کے اعتماد میں اضافہ ہوتا گیا۔ مختلف تجربات بھی ہوئے، کچھ ناکام ہوئے اور کچھ میں کامیابی نصیب ہوئی۔ یہ تمام سفر ایک طرح سے درست فریکوئنسی کی تلاش تھی جس میں کبھی کسی سٹیشن سے ہلکی پھلکی آوازیں آنا شروع ہو جاتی تھیں جبکہ اکثر اوقات صرف بے معنی شوروغوغا سنائی دیتا تھا۔
فروٹ بائیکاٹ مہم کے مثبت اور منفی پہلوؤں سے قطع نظر پہلی بار اس تلاش نے ایک واضح فریکوئنسی پکڑی ہے۔ اگرچہ یہ سٹیشن چھوٹا سا ہے لیکن آواز بالکل صاف ہے۔ خود شناسی کے سفر کا یہ بہت اہم موڑ ہے۔ لوگوں کو پہلی بار اپنی طاقت کا احساس ہوا ہے کہ گھر بیٹھے ایک مہم چلا کر وہ معاشرے کے طاقتور گروہوں کو چیلنج کر سکتے ہیں۔
کل کو اگر سوشل میڈیا کی تاریخ لکھی گئی تو اس واقعے کا ذکر لازمی ہو گا اور اسے عوامی بیداری کی جانب ایک اہم قدم قرار دیا جائے گا۔ اس لئے اس مہم کی کامیابی کے لئے ہر کسی کو بھرپور کوشش کرنی چاہئے۔