مستقبل تو حال کی چیخ ہوتی ہے : ڈیئوس، علی اور دِیا کا ایک باب
از، یاسر چٹھہ
کل پرسوں عجیب سی پچھلے برس کی ایک بات یاد آ گئی۔ راقم کا ایک سپیشلسٹ ڈاکٹر کے پاس اپنے کسی طبی عارضے کے سلسلے میں جانا ہوا تھا۔ ڈاکٹر نے کہا بظاہر تو انہیں میری تکلیف کے متعلق کوئی خاص وجہ نظر نہیں آتی، مجھے واک کرنے، سوچنا کم کرنے اور نیند زیادہ لینے کی تجویز دی۔ لیکن ساتھ ہی کہا یہ بھی کہ آپ احتیاطا کچھ لیبارٹری ٹیسٹ کرا کے پندرہ یوم کے اندر پھر آئیے۔
اب ساتھ ہی انہوں نے چند ایک پرائیویٹ لیبز کے نام لے کر کہا کہ وہاں آپ نے بالکل نہیں جانا۔ پوچھا کہ ڈاکٹر صاحب وہ تو شہر کے معروف طبی تشخیصی ادارے ہیں، کیا ان کا معیار ٹھیک نہیں؟
ڈاکٹر صاحب نے جواب دیا، اچھے ہیں، لیکن وہ بہت کمائی کر رہے ہیں، بلکہ لوٹ کھسوٹ کر رہے ہیں؛ بجائے یہ کہ اور زیادہ رقم کسی نجی کاروباریے کے پاس جائے، آپ فلانے فلانے عسکری ادارے کی لیبز میں اپنی تشخیصی ٹیسٹوں کے لیے جائیے۔ بقول ڈاکٹر کے ادارے مضبوط ہونے چاہییں، نجی کاروبار والے نہیں۔ اس موضوع کو کچھ وقت بر طرف کیجیے۔ بات اور خیال کسی اور جانب نکل گیا۔
ڈاکٹر صاحب کی منطق ایک ہی وقت میں بہت دل چسپ اور ساتھ ہی بہت حیران کن لگی۔ سوچا انہیں اداروں کی کس قدر فکر ہے، اور یہ نجی اداروں کو یہ ادارے ہی نہیں جانتے مانتے؟
کئی سوال ذہن میں آئے، لیکن، بقول ایک دوست کے، سمت قدرے سیدھی رکھنے کے لیے زیادہ سوالوں کو معطل کرنا پڑتا ہے۔ سو زیادہ سوالوں کو معطلی کے احکامات جاری کر دیے۔
اوپر بات ہو رہی تھی کہ پچھلے برس کی کوئی یاد آ رہی تھی۔ تو یہ خیال کا وقوعہ کسی سوچنے کے تسلسل کے دوران آن ٹپکا تھا۔ سوچ اپنے ملک کے سیاسی جماعتوں کے ادارہ بننے کے امکانات اور مستقبل کے بارے میں اپنے سوچنے کے انداز کے احتساب کرنے کے عمل کے دوران آئی۔ ایسے احتسابی عمل راقم وقتا فوقتا کرتا رہتا ہے، تاکہ سوچوں کے پانیوں کو جوہڑ بننے سے کسی قدر روکا جا سکے۔
ایک عجیب سی مُثلثِ خیال ذہن میں تشکیل پا رہی تھی۔ اس مثلث کی تشکیل میں معروضی اور حالیہ سیاسی حالات و واقعات تھے۔ سوال یہ تھا کہ ملک کی سیاسی جماعتوں کی موجودہ صورت احوال کو دیکھ کر ان کی نوعیت کیا اداروں جیسی ابھرتی نظر آ سکتی ہے کہ نہیں؟ یا ایسی جماعتیں محض ہمارے متذکرہ بالا ڈاکٹر صاحب کی طرح کاروباریے فریم ورک کا حصہ ہیں؟ کیا اداروں کے درمیان دائروں اور دائرہِ کار کی کھینچا تانی میں بطور ذمے دار پاکستانی ہماری ہمدردی کسی سیاسی جماعت اور اس کی حکومت کی طرف ہونا چاہیے، یا مستقل نوعیت کے رسمی ریاستی ادارے مثلا عدلیہ اور ہمارے ریاستی نظام میں وزارت دفاع کے ذیلی ادارے کی جانب سے خود کو بنیادی ریاستی ادارہ گنوائے جانے کی عجب منطق و سینہ زوری کی بناء پر ان کے واضح سیاسی کردار کو جائز سمجھا جائے؟
آدرش ایک طرف، ملک کے معروضی حالات اور جوازوں اور جائز باتوں کو بر طرف کرتے مستقل ریاستی اداروں کا ساتھ دینے کا کم از کم ایک فائدہ یہ ہوسکتا ہے کہ ان اداروں کے لوگ کچھ وقت بعد اپنے عہدے سے ریٹائر ہو جاتے ہیں۔ سو ادارے شاید نا جائز طاقت کے ارتکاز میں بہ نسبت کسی پروپرائیٹری سیاسی جماعت کے کم نقصان دہ ہوں؟ لیکن ان خیالات کے کچھ وقت بعد ہی نعیم بیگ صاحب کے ناول ڈیئوس، علی اور دیا کا نیچے دیا گیا باب پڑھا۔
یہاں تو لگا کہ مستقل اداروں کے چلن تو آئے روز پروپرائیٹری سیاسی جماعتوں سے بھی دگر گوں ہوتے جا رہے ہیں۔ ناول کے اس باب کو آپ پڑھیے، شاید ایسا لگے کہ ہماری سیاسی تاریخ بہت چھوٹے چھوٹے دائروں میں گھومتے گھومتے شاید چکر کھا کر یہ گِری کہ وہ گِری۔
حال، ماضی سے بد تر، ماضی حال سے شرمندہ، مستقبل تو ہوتا ہی نہیں۔ مستقبل تو محض ایک بیتتے حال کی چیخ ہوتی ہے۔ زیادہ نہیں کہیں گے۔ آپ نعیم بیگ صاحب کے ناول ڈیئوس، علی اور دیا کے باب نمبر 12 بعنوان ذات کا سحر ایک نظر دیکھیے اور خود اپنے سوال و جواب استوار کیجیے۔
ذات کا سحر
از، نعیم بیگ
یہ کوئی1977ء کے اوائل کا زمانہ تھا۔ فروری کے آخر میں ہم یونیورسٹی سے فارغ ہو گئے تھے۔ مئی کے وسط میں کہیں امتحان تھے۔ ملاقاتیں خودبخود کم ہوتی گئیں۔ باہر الیکشن کا زمانہ تھا۔ سات مارچ تک الیکشن کا سارا زور یک طرفہ ہی تھا۔ بائیں بازو کی سرگرمیاں عروج پر تھیں، جب کہ دائیں بازو کی طرف ہلہ گلہ تو تھا، لیکن فضا میں کچھ سازشی سی بدبو رچ بس رہی تھی۔ سن رہے تھے کہ اس بار الیکشن میں خوب دھاندلی ہوگی ۔۔۔ جب کہ ہمارے سنجیدہ دوستوں اور اساتذہ کا خیال تھا کہ جس طرح بھٹو نے اچھی کارکردگی دکھائی ہے، اسے کسی قسم کی الیکشن میں مداخلت ہی نہیں کرنی چاہیے۔ وہ بِنا دھاندلی اچھے مارجن سے جیت سکتا ہے۔
بھٹو کی حکومتی سرگرمیوں میں منقسم پاکستان کا انتظام و انصرام کرنا، فوج کے گرے ہوئے مورال کو سنبھالنا۔ یحییٰ خان کو نوجوان فوجی افسروں سے ڈیفنس کالج میں پڑنے والی جوتیوں کے بعد فوج کے اندر بدل جانے والے حالات، جنگی قیدیوں کو بھارت سے واپس لانا، مغربی محاذ پر جنگ کے دوران بھارت سے اپنے مقبوضہ علاقے واپس لینا، نیو کلیر ری پروسیسنگ پلانٹ کا فرانس سے معاہدہ، تہتر کے متفقہ آئین کی جمہوری کامیابی اور اس کا نفاذ، بنگلہ دیش کے قیام کو قانونی طور پر تسلیم کرنا، سماجی سطح پر عوامی رائے کا احترام، آرٹ اور کلچر کی بحالی، علم و ادب کے کئی ایک اداروں کا قیام، یونیورسٹیوں میں طلبہ تنظیموں کے جمہوری عمل کا اجراء، معاشی سطح پر بینکوں اور انڈسٹریوں کا قومیایا جانا، ملکی سطح پر بڑے کارنامے سمجھے جا رہے تھے ۔ لیکن عالمی سطح پر اس تیزی سے اسلامی سوشلزم کا نفاذ ایک کنفیوژن ہی سمجھا جا رہا تھا۔
ایسے میں ہمارے اساتذہ کا خیال تھا، کہ بھٹو غیر ملکی بالخصوص امریکی مداخلت کے باوجود الیکشن نہیں ہار پائیں گے۔ امریکی مداخلت کے آثار ہنری کسنجر کے بیانات سے ظاہر ہو چکے تھے، جس میں عبرت ناک مثال بنانے کی دھمکی دی جا چکی تھی۔ ہم دوستوں میں خوب بحث ہوتی کہ الیکشن ہارنے کے اسباب کیا ہو سکتے ہیں؟ فاخرہ اور میڈم جہاں آرا کا خیال تھا، امریکی مداخلت سب سے بڑا سبب ہوگا۔ جب کہ حمزہ کا خیال تھا کہ امریکی مداخلت ناگزیر ہے، ورنہ پاکستان مزید ٹکڑے ٹکڑے بھی ہو سکتا ہے۔ وہ پاکستان کے فرانس سے ری پروسیسنگ پلانٹ معاہدے کے بھی خلاف تھا۔ اس کا بنیادی نقطہ نظر یہ تھا کہ ہمیں اپنے قومی کردار میں امریکی مفادات کو لے کر چلنا چاہیے۔
’’بھلا امریکہ کیوں مداخلت کرے گا۔ اسے کیا پڑی ہے؟ وہ ہمارا دوست ہے۔ اس نے مغربی پاکستان ہندوستان کو دھمکی دے کر بچایا ہے۔‘‘ میں انھیں بتاتا، تو میڈم مسکرا اٹھتیں۔
اس وقت اڑتی اڑتی عالمی اخباروں میں یہ خبر آئی تھی کہ فوجوں کے ڈھاکہ میں سرنڈر کرنے کے بعد امریکا نے بھارت سے مغربی پاکستان پر حملوں کا جواز پوچھا تھا، جس پر خاموشی کے ساتھ مغربی محاذ پر جنگ کا ماحول بدل گیا اور جنگ بندی ہوگئی۔
میڈم جہاں آرا کا خیال تھا کہ امریکا پاکستان کو اپنی کالونی سمجھتا ہے، وہ چاہتا ہے کہ اب بچا کھچا پاکستان امریکی عالمی ایجینڈوں کے لیے بچا کر رکھا جائے ۔۔۔ بعد میں افغانستان میں روسی فوجوں کے اترنے اور پاکستان کی پالیسیوں نے یہ بات کنفرم کردی کہ میڈم درست کہتی تھیں۔ ’’تم دیکھو گے علی۔۔۔ امریکا کو کسی قیمت پر پاکستان کا نیوکلیر طاقت بننا منظور نہیں۔ فرانس سے ایٹمی ریپروسسنگ پلانٹ کا معاہدہ بھٹو کی موت کا سبب ہوگا۔‘‘ یہ بات انہوں نے کئی ایک بار ہمیں کہی لیکن اُس وقت مجھے سمجھ نہیں آئی۔
میں سمجھتا تھا کہ بھٹو کی موت سے مراد اِس کی حکومت کا ختم ہونا ہی میڈم کے نزدیک علامتی موت ہے ۔۔۔ ہمارے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ میڈم جہاں آرا کے منھ سے نکلے الفاظ ایک دن سچ مچ بھٹو کی ہولناک موت کا پیغام لائیں گے۔
خیر ہم نے اخباری خبروں سے ہی اندازہ لگایا کہ پشین کی سیٹ سے یحییٰ بختیار بلا مقابلہ منتخب ہو گئے ہیں۔ اسی طرح کچھ اور لوگوں کی بلا مقابلہ منتخب ہونے کی اطلاعات آ رہی تھیں۔ بھٹو کے خود اپنے حلقے لاڑکانہ میں ان کے خلاف جماعت اسلامی کے مولانا عباسی کی گرفتاری کی خبریں اور بھٹو کا بلا مقابلہ انتخاب پیپلز پارٹی کا فخر بن رہا تھا اور ہمارے جیسوں کے لیے باعث شرم بن رہا تھا۔ الیکشن کے دنوں میں تو ہم اکثر یونیورسٹی میں بیٹھے رہتے۔ اکثر رات کو دیر ہو جانے کے باعث میَں نے اماں سے کہہ رکھا تھا کہ اگر دیر ہوجائے تو سمجھ لینا کہ میں ہوسٹل میں ہی ہوں۔
ستر کے الیکشن میں اگرچہ ووٹ جماعتی بنیادوں پر ہی ڈالا گیا تھا لیکن بھٹو کی شخصیت ووٹ کاسٹ کرنے کا محور تھا، جس میں کئی ایک انجان اور غیر معروف لوگ بھی منتخب ہو گئے تھے اور اس کی وجہ یقینی طور پر یہ تھی کہ بھٹوجماعتی سیاسی فیصلے خود کرتے تھے اور نچلے درجے تک کی سیاست میں بھی اپنا کردار شامل رکھتے تھے، اسی طرح مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمان اپنی شخصیت کی بنیاد پر الیکشن جیتے تھے۔
تاہم اس کے برعکس ستتر کے انتخاب میں بھٹو کی مصروفیت اور توجہ چونکہ حکومتی کاموں کی طرف زیادہ تھی۔ وزیراعظم ہاؤس میں الیکشن سیل کے انچارج رفیع رضا اپنی ابتدائی رپورٹ میں ہی انھیں ایک بڑی اکثریت سے جیت کی نوید دے چکے تھے، سو رفیع نے اپنے تھیسیز کو سچ ثابت کرنے کے لیے اپنا حکومتی اور سول سٹرکچر استعمال کیا۔ میڈم کا خیال تھا کہ ایسا بھٹو کی ہدایات پر نہیں ہوا ہوگا، بلکہ’ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفاداروں‘ کی پالیسی کی بِنا پر ایسا ہوا ہوگا۔ میڈم کا یہ بھی خیال تھا رفیع رضا (جس نے بعد میں بھٹو کے دور حکومت پر ایک کتاب ’ ذولفقار علی بھٹو اینڈ پاکستان ۱۹۶۷۔۱۹۷۷.ء‘ بھی لکھی تھی ) نے امریکیوں کی ہدایت پر ایسا کیا ہو، جس کی بازگشت بعد میں میڈیا میں سنی گئی۔
پی این اے کے پلیٹ فارم سے بھٹو کے خلاف مہم میں اس کے سیاسی اور حکومتی فیصلوں سے کہیں زیادہ تنقید ان کے ذاتی مذہبی عقائد، ان کی سوشلسٹ سوچ، ان کے قومیائے گئے اداروں میں بیوروکریسی کا ناجائز عمل دخل اور ان کے ذاتی اوصاف، جس میں ان کی شراب نوشی سے رغبت کو سرعت سے پھیلایا گیا۔ اِس الزام پر بھٹو نے یہ تاریخی جملہ کہا تھا کہ ’ ہاں میں شراب پیتا ہوں، غریبوں کا خون نہیں پیتا ‘۔
لیکن حیرت کی بات ہے کہ پی این اے نے بعد از الیکشن کیے جانے اپنے اقدامات اور لائحہ عمل کو الیکشن کے دوران ہی افشا کر دیا تھا اور وہ تھا ’سرکاری سطح پر دھاندلی‘ کے بھرپور الزامات تاکہ بعد میں یہ کہا جا سکے، کہ ہم تو پہلے ہی کہہ رہے تھے کہ دھاندلی ہوگی۔ پی این اے نے الیکشن سے پہلے اور دوران الیکشن تواتر سے عوامی سطح پر اس بیانیہ کو دہرایا، جس سے یہ باور ہونے لگا کہ واقعی سرکاری سطح پر دھاندلی ہونے جا رہی ہے۔ اس پر غضب یہ ہوا کہ وزیراعظم ہاؤس میں الیکشن سیل کا قیام عمل میں لایا گیا، جس کی سربراہی رفیع رضا جیسے ناعاقبت اندیش سول سرونٹ کے سپرد کر دی گئی۔ دوسرے لفظوں میں بھٹو کو ’’عبرت کا نشان‘‘ بنا دینے کی امریکی وزیر خارجہ کسنجر کی دھمکی کو عملی جامہ پہنانے کا آغاز الیکشن سے پہلے ہی رفیع رضا کے الیکشن سیل چیف بنا دینے سے شروع ہو گیا تھا۔
ہم اکثر کہتے کہ سب کچھ سکرپٹ کے مطابق ہو رہا ہے۔ ’’ہاں۔۔۔واقعی ایسا ہو رہا ہے‘‘ جس دن میرے سوال پر میڈم نے یہ کہا تو مجھ سے رہا نہیں گیا۔
’’تو آپ اسے بین الاقوامی سازش سمجھتی ہیں؟‘‘
’’ جی علی ۔۔۔ ایسا ہی ہے۔ ہمیں معلوم نہیں آگے چل کر کیا ہوگا؟ لیکن اس کے لیے حالات ابھی سے سازگار کیے جا رہے ہیں۔‘‘ میڈم نے سادہ سا جواب دے کر ہمیں بظاہر مطمئن تو کردیا لیکن وہ خود بہت پریشان تھیں۔ الیکشن ہوا اور وہی ہوا جس کا اندیشہ تھا۔ بھٹو کے خلاف پی این اے نے ایسی بھرپور تحریک چلائی کہ الایمان الحفیظ ۔
بھٹو نے اپنی حکومت بچانے کی بھرپور کوشش کی۔ اس حد تک کہ پی این اے کی کئی ایک مطالبات جس میں شراب نوشی وغیرہ پر پابندی تھی، تسلیم کر لیے، لیکن ایسا کرنے کے باوجود وہ اپنی حکومت بچا نہ سکے۔ بالآخر جس دن پی این اے سے مذاکرات کی میز پر فریقین نے ایک دوسرے کے سارے مطالبات مان لیے گئے اور سب کچھ طے ہوگیا، اسی رات جنرل ضیا الحق نے مارشل لاء لگا دیا۔
امریکن ایمبیسی سے رات گئے ایک ٹیلی فیکس امریکہ جاتا ہے ’پارٹی از اوور‘ جوبظاہر ان کے ہاں چار جولائی کی یومِ امریکا کی پارٹی کے ختم ہونے کی نوید تھی، درحقیقت پیپلز پارٹی کے چلے جانے کی خوش خبری تھی، جوسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کو دی گئی تھی۔ میڈیا میں اس ٹیلی فیکس کی بازگشت دیر تک سنی گئی۔
مارشل لاء کے بعد جو کچھ ہوا، وہ حقیقت میں ایک ایسی تاریک داستان ہے جس پر بیسیوں کتابیں لکھی جا سکتی ہیں۔ فاخرہ، حمزہ اور میں تینوں اکثر میڈم کے گھر پر ملاقات کرتے۔ یونیورسٹی بند ہوجانے کے باوجود انھیں ماس کمیونیکیشن ڈیپارٹمنٹ کا سٹاف، اسٹوڈنٹس اور صحافی اطلاعات بہم پہنچاتے رہتے۔ مارشل لاء کے پہلے تین ماہ جنرل ضیاالحق کو اقتدار کی راہداریوں میں سیٹل ہونے میں لگے، جونہی انھوں نے الیکشن کرانے کے اپنے پہلے اعلان سے انحراف کیا، انھوں نے مارشل لاء میں کس کر چابی بھر دی۔ کوڑے، جیلیں، سزائیں اور سنسر شپ انتہا کو پہنچ گئیں۔ سب سے زیادہ صحافی برادری، علم و دانش سے وابستہ لوگ متاثر ہوئے۔ ماس کمیونیکیشن ڈیپارٹمنٹ میں فوجیوں نے بیٹھنا شروع کر دیا۔ سمری ملٹری کورٹس جہاں چاہتی اپنی عدالت لگاتیں اور سزائیں سنا دیتیں۔
شب و روز تیزی سے گزر رہے تھے۔ ہم امتحان دے چکے تھے، لیکن رزلٹ ابھی دور تھا، اسی دوران میَں نے ایک اخبار جائن کر لیا۔ فاخرہ اور حمزہ ایک دوسرے میں دل چسپی لیتے تھے، سو حمزہ نے اپنے پروگرام کے مطابق فاخرہ کو بھی راضی کر لیا کہ دونوں مقابلے کے امتحان میں بیٹھیں گے۔ چنانچہ دونوں نے مل کر تیاری شروع کر دی تھی۔ مسز کرسٹینا لندن میں بیٹھیں حمزہ کے کیریئر امور کی باقاعدہ نگرانی کر رہی تھیں۔
مجھے حمزہ اور فاخرہ کی ذاتی دل چسپیوں یعنی عشق کی بھنک تو پڑ چکی تھی، لیکن بات اس حد تک جائے گی مجھے اندازہ نہ تھا۔ دونوں نے ایک رات میڈم کے ہاں گھر والوں سے ناراض ہو کر شادی کر لی۔مسز کرسٹینا چاہتی تھیں، کہ حمزہ مقابلے کے امتحان کے بعد شادی کرے۔
درحقیقت وہ اس شادی سے خوش نہیں تھیں ۔ انکی ذہن میں کوئی برطانوی لڑکی تھی۔ جس کا ایک بار حمزہ نے ذکر بھی کیا۔ اس لڑکی کاباپ ہاوس آف لارڈز کا ممبر تھا۔ جب کہ فاخرہ سے معلوم ہوا کہ فاخرہ کی والدہ اسکی فوری شادی کرنا چاہتی تھیں۔جس پر ان دونوں نے یہ انتہائی قدم اٹھا لیا۔
یہ اتفاق تھا کہ دونوں کے خاندان مذہبی روائتوں اور سماجی غیرتوں سے جڑے گھرانے تھے۔ بس فرق یہ تھا کہ ایک خاندان پاکستان کا جاگیردار گھرانہ تھا جب کہ دوسرا انگلستان کا ارسٹو کریٹ گھرانہ۔ دونوں کے مفادات کا ٹکراؤ کوئی اچنبھا نہیں تھا۔ یہی وجہ تھی کہ شادی خفیہ رکھی گئی ، جسے مناسب موقع پر ظاہر کرنا مقصود تھا، لیکن شومئی قسمت میڈم کے گھر سے شادی کی خبر کسی طرح باہر نکل گئی۔ نتیجہ وہی ہوا جس کا اندیشہ تھا۔ دونوں خاندانوں نے اپنے اپنے تئیں خوب شور و غل مچایا، چونکہ دونوں خاندان اشرافیہ سے تعلق رکھتے تھے ، لہذا انھوں نے آپس میں گٹھ جوڑ کر لیا اور مِل کر میڈم کو یہ سزا دی، کہ انھیں حکومتی پالیسیوں کے انحراف کے الزام میں یونیورسٹی سے فارغ کرا دیا گیا۔
میڈم کی برطرفی پر میں نے اپنے اخبار میں ایک سٹوری لگا دی ،جس میں اس ناانصافی پر یونیورسٹی حکام اور حکومتی افسروں کو خوب لتاڑا ۔
اگلے دن مجھے مارشل لاء ہیڈ کوارٹر طلب کر لیا گیا ۔ مجھ پر الزام تھا کہ میں نے نفرت انگیز مواد شائع کیا ہے جو مارشل لاء کی پریس پالیسی سے انحراف ہے۔ میں د ن بھر مارشل لاء ہیڈ کوارٹر کے برآمدے میں ایک کرنل صاحب کی نیم پلیٹ کے نیچے بنچ پر بیٹھا اندر بلاوے کا انتظار کرتا رہا۔ دوپہر کو خبر ملنے پر فاخرہ اور حمزہ مجھے ملنے آئے۔ دونوں میرے ساتھ ہی بنچ پر بیٹھ گئے۔
’’علی۔۔۔ اب کیا ہوگا؟ ‘‘ فاخرہ کا چہرہ اڑا ہوا تھا۔
’’ معلوم نہیں۔۔۔ لیکن یہ مارشل لاء ہے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ شادی کے اس سارے عمل کو ریورس کرنے کو کہہ دیں۔ ‘‘ میں نے قہقہہ لگاتے ہوئے اسے چھیڑا۔
’’ تمہیں مذاق سوجھ رہا ہے ۔ یہ لوگ بڑے ظالم ہیں کچھ بھی کر سکتے ہیں تمہیں اندازہ کیوں نہیں۔ ‘‘ فاخرہ کے لہجے میں خوف نمایاں تھا۔
’’فاخرہ ! تم فکر نہ کرو ۔ ایڈیٹر صاحب نے کور ہیڈ کوارٹر میں بات کر لی ہے ۔ وہاں سے کہا گیا ہے کہ علی کمال کے ساتھ انصاف ہوگا۔‘‘ حمزہ نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا۔
’’ فاخرہ تم فکر نہ کرو ۔ میں تو اس دن کا انتظار کر رہا تھا۔ ‘‘ میں نے مسکراتے ہوئے فاخرہ کے گال تھپتھپائے۔
ابھی ہم باتیں ہی کر رہے تھے کہ اندر سے بلاوا آگیا اور میں جھٹ سے اِن دونوں کو انتظار کرنے کا اشارہ کر کے اندر چلا گیا۔ اندر باقاعدہ ایک کورٹ کا منظر تھا۔ ایک بڑی میز کے پیچھے ایک لیفٹیننٹ کرنل صاحب وردی میں ملبوس بیٹھے تھے۔ ان کے بازو میں ایک کیپٹن کھڑے تھے ۔ برابر میں ایک صوبیدار صاحب نے میرے اندر داخل ہوتے ہی ایک فائل ان کے سامنے کر دی ۔ کرنل صاحب نے غور سے اس فائل کے صفحات پڑھے پھر ایک صفحہ پر پہنچ کر رک گئے۔
’’مسٹر علی کمال ہمدانی! یہ کورٹ کی کارِ روائی نہیں ہے۔ ابھی ابتدائی سوال جواب ہیں ۔ مجھے اسٹیشن ہیڈ کوارٹر سے کہا گیا ہے کہ آپ سے اس آرٹیکل کے بارے میں پوچھوں؟ اگر آپ مارشل لاء حکام کو مطمئن نہ کرسکے، تو آپ کے خلاف باقاعدہ کیس رجسٹر ہوگا اور پھر مارشل لاء کورٹ اپنی کارِ روائی شروع کرے گی۔ آپ کو پوری طرح اپنی صفائی کا موقع دیا جائے گا۔ ‘‘
کرنل صاحب کی میز کے ایک کونے پر بیٹھے ایک فوجی نے فوراً سوال جواب نوٹ کرنے شروع کر دیے۔ وہ ایک لمحہ کے لیے خاموش ہوئے، پھر گویا ہوئے۔
’’ کیا آپ نے یہ آرٹیکل خود لکھا ہے یا یہ سٹوری فائل کرنے کے لیے کسی نے کہا تھا؟ ‘‘
’’جی میں نے از خود لکھا ہے۔ ‘‘
’’کیا آپ کو معلوم ہے کہ مارشل لاء کے ضوابط کی رُو سے کسی بھی حکومتی قانون کے خلاف لکھنا جرم ہے۔ ‘‘
’’ جی معلوم ہے۔ ‘‘
’’ تو آپ اقبال جرم کر رہے ہیں۔ ‘‘
’’جی نہیں ۔۔۔‘‘ میرا جواب تھا۔
’’ آپ بیک وقت دونوں باتیں کیسے کر سکتے ہیں۔ قانون جانتے ہیں اور قانون کی تشریح اور نفی بھی کر رہے ہیں۔‘‘ کرنل صاحب کے چہرے پر تناؤ آگیا۔
’’میری اس خبر میں مارشل لاءء کے ضوابط کی نفی نہیں ہے۔‘‘ میں نے پرسکون طریقے سے کہا۔
’’ تو پھر کیا ہے؟ ‘‘ کرنل صاحب نے خشمگیں آنکھوں سے مجھے دیکھا۔
’’میری یہ سٹوری سماج میں اشرافیہ کی ناجائز طاقت کے اظہار پر ایک صحافتی تحریر ہے؟ اور بطور صحافی یہی میرا کام ہے کہ میں ظلم کے خلاف قانون کی آواز بنوں۔ میری اس کہانی میں دوخاندانوں نے طاقت کا سیاسی و حکومتی سہارا لیکر ایک پروفیسر پر حکومت کے خلاف طلبا کو بھڑکانے کا الزام لگایا گیا، نہ صرف الزام لگایا ،بلکہ اسے یک طرفہ طور پر نوکری سے نکال دیا گیا۔‘‘ میں پرسکون تھا۔
’’ تو آپ کا مطلب یہ ہوا کہ مارشل لاء قانون نے ایک معصوم اور بے گناہ شخص کو سزا دی ہے۔‘‘ کرنل صاحب اب استدلال سے اکتا رہے تھے۔
’’میں کب یہ کہہ رہا ہوں؟ ‘‘ میں نے جواب دیتے ہوئے کرنل صاحب پر وار کرتے ہوئے سوال جڑ دیا۔’’ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ آپ نے میڈم جہاں آرا کو سزا دی ہے۔ ہاں اگر مارشل لاء نے سزا دی ہے، تو تب آپ کی توضیح درست ہے ،اور میں واقعی سزا وار ہوں۔ آپ کا مجرم ہوں۔‘‘
میں نے انکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر آخری حربہ استعمال کیا۔ انھیں جواب کا موقع دیے بغیر میں فوراً بول اٹھا۔
’’ سر ۔۔۔ میڈم جہاں آرا ایک ناکردہ گناہ کی اسیر ہوئی ہیں۔ یونیورسٹی سے انکی برطرفی بے انصافی پر مبنی ہے، جس پر میں نے اخبار میں لکھا ہے۔ انکی برطرفی میں اگر مارشل لاء اتھارٹی کے احکامات شامل ہیں، تو میں کیا کہہ سکتا ہوں ۔ اگر آپ میری ذاتی رائے پوچھتے ہیں تو ایسے کیس میں انصاف کے تقاضوں کے مدِنظر مارشل لاء اتھارٹیز کو تو بے گناہ سزاوار میڈیم جہاں آراء کی مدد کرنی چاہیے۔ ‘‘
کرنل صاحب لاجواب ہو کر خاموش ہو چکے تھے ۔ انھوں نے مجھے باہر انتظار کرنے کو کہا ۔
میں باہر آیا ‘تو فاخرہ اور حمزہ جا چکے تھے۔ مجھے حیرت ہوئی کہ وہ کہاں چلے گئے۔ بعد میں پتا چلا کہ انہیں وہاں سے ہٹا دیا گیا تھا۔
تھوڑی ہی دیر میں مجھے واپس اندر بلایا گیا ۔ کرنل صاحب نے مجھے کہا کہ آپ بیٹھ جائیں۔ میرے لیے ان کا یہ رویہ حیران کن تھا۔ کہاں لہجے کی وہ درشتی اور کہاں یہ مشفقانہ رویہ کہ بیٹھنے کو کہا جا رہا ہے۔میں دانستہ کھڑا رہا۔
’’ مسٹر علی کمال ہمدانی۔۔۔ کمپیٹنٹ اتھاریٹی آپ کے بارے میں ابتدائی معلومات کی بنیاد، سابقہ شفاف ریکارڈ اور معاملہ کی پوری چھان بین کے بعد اس نتیجہ پر پہنچی ہے کہ آپ کے جرم کی نوعیت کے پیشِ نظر آؤٹ سائڈ کورٹ کم سے کم سزا دی جائے، جس میں آپ کی طرف سے غیر مشروط معافی نامہ اور آئندہ ایسا نہ کرنے کی یقین دہانی شامل ہے ۔ اگر اس ابتدائی انکوائری سے آپ مطمئن نہیں، تو پھر سمری ملٹری کورٹ نمبر ۳ آپکے خلاف مکمل کیس کی شنوائی کرے گی ۔‘‘
کرنل صاحب یہ کہہ کر خاموش ہوگئے اور میرا منہ دیکھنے لگے۔
’’دیکھیں سر ۔۔۔ میں پہلے ہی عرض کر چکا ہوں کہ میں نے سرے سے کوئی جرم ہی نہیں کیا ہے۔ اس کے باوجود اگر مارشل لاء اتھارٹی یہ سمجھتی ہے کہ میں مجرم ہوں اور انسانی ہمدردی کے تحت میرے ساتھ نرم سلوک کیا جا رہا ہے، تو میرے لیے یہ حیرت کی بات ہے۔ اگر میں مجرم ہوں تو ثابت کر دیں اور سزاوار ٹھہرا دیں۔”
یہ سن کر کرنل صاحب اور ان کے برار کھڑے کیپٹن صاحب کا منہ سرخ ہوگیا ۔ قریب کھڑے دوسرے نوجوان فوجی نے ایک قدم آگے بڑھایا ہی تھا کہ کرنل صاحب نے ہاتھ کے اشارے سے اسے منع کر دیا۔
’’تم کچھ دیر میجر حسن کے پاس بیٹھو، میں تم سے دوبارہ بات کرتا ہوں۔ ‘‘ یہ کہہ کر انہوں نے ملاقات ختم کر دی۔ ان کے لہجے میں آپ سے تم کے سفر نے مجھے بہت کچھ آشکار کر دیا تھا۔ مجھے معلوم تھا کہ یہ کرنل صاحب سے آخری ملاقات ہے۔
’’اسے میجر حسن کے پاس لے جاؤ۔۔۔ اور میری ہدایت کا انتظار کرو۔‘‘ کرنل صاحب نے قریب کھڑے نوجوان فوجی سے کہا اور میز پر پھیلے کاغذات کی طرف متوجہ ہو گئے۔
میں کچھ دیر میجر حسن کے پاس بیٹھا رہا، تاہم کسی قسم کی کوئی ہدایت نہیں آئی ۔ شام کو مجھے مقامی پولیس کے حوالے کر دیا گیا۔ جنھوں نے مجھے ایک انجان سی عمارت میں قید کیے رکھا، وہ لوگ اِسے تھانہ ہی پکارتے تھے۔ جہاں کبھی پولیس والے ، کبھی سادہ لباس میں کچھ لوگ کئی ایک روز تک مجھ سے تحریری معافی نامہ مانگتے رہے ، میرے انکار پر مجھے تشدد کی دھمکیاں بھی دی جاتیں ،لیکن یہ شکر تھا کہ کبھی تشدد ہوا نہیں۔
ہاں البتہ ایک دن کچھ مزید لڑکوں کو اس دور دراز تھانے میں لایا گیا ،جہاں انکی کمر ننگی کر کے پولیس اہلکاروں نے انھیں چمڑے سے بنی چپٹی سی بیلٹ سے کوڑے مارے۔ ان کا مقصد ممکن ہے کہ مجھے خوفزدہ کرنا بھی ہو ۔ تاہم میں نے ہمت نہیں ہاری ۔ اِسی اثنا میں پہلے کئی روز تو اخبار والے ، فاخرہ ، حمزہ ، اماں، ابّا اور دیگر دوست مجھے ڈھونڈتے رہے۔ تاہم اخبار کے دباؤ پر ایک دن حمزہ اور فاخرہ اچانک ٹپک پڑے، ان کے ہاتھ میں میری رہائی کا پروانہ تھا ۔
میری اس رہائی نے میرے خیالات اور شخصیت پر گہرا اثر ڈالا، مجھے گھر سے زیادہ اس بات سے دل چسپی ہو گئی ،کہ کسی سیاسی نظریہ کی پہلی پہچان تو اس کا ایکٹیویٹ ہونا ہے ، تاکہ اس نظریاتی سرگرمی سے جو قوت حاصل ہو،وہ بیک وقت آپ کے آدرش کی آبیاری کرے اور چھم چھم برستے بادلوں کی طرح بنجر زمینوں کو آباد بھی کرے۔ یوں میں نے اپنے آپ کو کئی ایک سوالوں کے سامنے کھڑا پایا۔
میرے آدرش کیا ہیں؟ کیا مجھے ایک عام انسان کی طرح بِنا یہ جانے کہ دنیا میں آنے کا مقصد کیا تھا؟ زندگی گزار دینی چاہیے۔کیا میں اس رہائی کو ذات کے سحر میں تحلیل ہونے دوں یا اسے اسیر کر کے اپنے قدموں کوآگے بڑھنے کی قوت بخشوں؟ کیا مجھے زندگی کی تمنا کرنی چاہیے یا تمنا ؤں کو پا لینے کے لیے زندگی گزار دینی چاہیے؟
ان سوالات کے جوابات اتنے آسان نہیں تھے ۔ مجھے بہت کچھ سوچنا تھا۔ ان چند دنوں کی اسیری نے میرے اندر جذبات کا تلاطم برپا کر دیا تھا، ایک جوار بھاٹا تھا جو ابلنے اور تباہ کر دینے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ لیکن میں زندگی کا ایسا بگولہ نہیں بننا چاہتا تھا، جو ہواؤں کے زور پر صرف تباہی مچائے اور بالآخر خود بربادی کاعبرت ناک نشان بن جائے۔ مجھے بہت کچھ کرنا تھا ۔۔۔ تاہم میری سمجھ میں اس وقت یہ نہ آ سکا کہ یہ’ بہت کچھ ‘کیا ہوتا ہے۔ میں گھنٹوں سوچوں میں غرق رہتا۔
رہائی کے بعد میں گھر میں مقید ہو کر رہ گیا تھا۔ ابا کی باتیں شروع میں تو بہت ہوئیں، لیکن رفتہ رفتہ وہ خاموش ہو گئے۔ اماں بس میرا خیال رکھتی تھیں، لیکن انھیں اب میری شادی کی فکر دن بہ دن دبلا کر رہی تھی۔ فاخرہ اور حمزہ گھر پر ہی چلے آتے، کچھ دیر بیٹھتے۔ کمرہ دھویں سے بھر جاتا۔ حمزہ پہلے سگریٹ نہیں پیتا تھا، لیکن ناجانے اس نے کیوں یہ بلا اپنے طویلے باندھ لی تھی۔ جب ہم دونوں مل کر کمرہ دھواں دار کر دیتے، تو فاخرہ چیختی ، لیکن اس کی کون سنتا تھا۔ حمزہ نے ایک دن فاخرہ سے اچانک کہہ دیا۔ ’ جو شخص سگریٹ چھوڑ سکتا ہے وہ دنیا کی ہر چیز چھوڑ سکتا ہے‘۔ ناجانے یہ دھمکی تھی یا اخلاص کا اظہار ۔۔۔ بہرحال وہ بے چاری سہتی رہی۔
حمزہ جب آتا مجھے کچھ کرنے کو کہتا، میں ہوں ہاں کر دیتا ،لیکن آگے خاموشی رہتی ۔ ایک دن باتوں باتوں میں ذکر ہوا کہ وہ ’سی۔ایس ۔ایس‘ کا داخلہ بھجوا رہے ہیں۔ فاخرہ نے جھٹ سے مجھے کہا۔
’’ علی۔۔۔ تم کیوں امتحان نہیں دیتے؟ ‘‘
’’ میں تو مسلسل دے رہا ہوں‘‘ میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ’’ابھی اماں ایک اور امتحان لینے والی ہیں۔‘‘
’’ وہ چھوڑو ۔۔۔ اماں کے معاملات میں ٹانگ نہیں اڑانا۔ میں سی ایس ایس کے امتحان کی بات کر رہی ہوں۔‘‘
’’اچھا تو پھر داخلہ بھجوا دو۔۔۔ ‘‘ میں نے بلا سوچے سمجھے کہہ دیا۔
’’ سچ ۔۔۔ علی کتنا اچھا ہوگا۔ ‘‘ فاخرہ کے چہرے پرخوشی دوڑ گئی۔ ’’اب ہم تینوں مل کر تیاری کریں گے۔‘‘
’’ تیاری ویاری مجھ سے نہ ہو پائے گی۔ تم لوگ کہہ رہے ہو تو امتحان دیے دیتا ہوں۔‘‘
’’ایسا کیسے ہوگا۔ پڑھو گے تو تبھی کچھ لکھ پاؤ گے۔ ‘‘ حمزہ نے ہاتھ نچاتے ہوئے کہا۔
’’ بلا تیاری تم سے زیادہ نمبر لے سکتا ہوں۔‘‘ میں نے شیخی ماری۔
’’ تو ہاتھ کنگن کو آرسی کیا؟ دیکھ لیتے ہیں۔ کل داخلہ بھجواتے ہیں، ٹھیک ساٹھ دن بعد امتحان ہے‘‘ حمزہ کے لہجے میں چیلنج تھا۔ فاخرہ خوش تھی کہ اب پڑھائی کا مزا آئے گا۔ حمزہ نے مجھ سے ضروری کاغذات لیے ، میری تصویریں لیں اور یہ کہہ کر دونوں اٹھ گئے کہ اب داخلہ بھجوانے کے بعد ہی ملاقات ہو گی۔
اس دوران رات بھر اخبار کی مصروفیت، دن چڑھے تک نیند کا خمار، سہ پہر کے بعد حمزہ اور فاخرہ کی طرف نکل جاتا ۔ حمزہ نے اپنے آبائی گھر کو تو کرایہ پر دے رکھا تھا، لیکن اسکی انیکسی شادی کے بعد اِن دونوں کے تصرف میں تھی ۔ وہیں ہم سب بیٹھتے۔ گپ شپ اور پڑھائی ایک ساتھ چلتی۔ یوں اتنی تیزی سے دن گزرے کہ معلوم ہی نہیں پڑا، کب امتحان آئے کب نبٹ گئے۔ اور پھر ایک دن اچانک اخبار کے آفس میں بیٹھا تھا کہ نیوز ریلیز ہوئی کہ فیڈرل پبلک سروس کمیشن کا رزلٹ جاری ہو گیا ہے۔ دیکھا تو ہم تینوں پاس تھے۔ یوں زندگی کو ایک سمت مل گئی۔ انٹرویو اور ابتدائی کارِ روائی کے بعد مجھے ڈی ایم جی گروپ ملا۔ حمزہ کو پولیس اور فاخرہ کو فارن سروس گروپ ، جس کی وہ ہمیشہ سے عاشق تھی۔ وہ ملک ملک گھومنے کو ترجیح دیتی تھی۔ اس کے ساتھ بعد میں یہی کچھ ہو ا ۔ وہ زیادہ تر حمزہ کے ساتھ ملک سے باہر ہی رہی۔
ہم نے ایک ساتھ سول سروس اکیڈمی میں رپورٹ کردیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1 Trackback / Pingback
Comments are closed.