مستقبل کے SLUMDOGS
عومر درویش
صدیوں کی آوارگردی کے بعد انسان نے مستقل سکونت اختیار کرنے کے گر سیکھ لیے اور گروہ کے شکل میں رہائش کرنے لگے، معلوم تاریخ سے ہمیں یہ علم ملتا ہے کہ انسان نے اپنی بستیاں دریاؤں کے کنارے بسا لیں اور یہیں سے قدیم تہذیبوں، تمدنوں اور عظیم سلطنتوں نے جنم لیا، اور آج بھی انسانوں کی بڑی آبادیاں دریاؤں کے کنارے آباد ہیں۔
ایسے ہی ہم اگر کراچی پر ایک نظر کرلیں یہاں بھی ق م کے تاریخی شواہد ملتے ہیں کہ قدیم زمانے سے انسان یہاں آباد ہے۔ (قارئین کے لیے میں ایک بات کا اضافہ کرنا چاہتا ہوں کہ کراچی صرف موجودہ کراچی شہر نہیں ہے اس میں ملیر بھی آتا جس کی اپنی الگ تاریخ ہے اور آج بھی اپنی ایک الگ شناخت رکھتا ہے ۔ جو کراچی، کُلاچی نہیں تھا ملیر اس سے کئی صدیاں پہلے ایک سرسبز و شاداب علاقہ تھا ) اور کراچی کی قدیم بستیاں جو آج بھی موجود ہیں وہ ساری آبادیاں ندیوں (برساتی ندیاں جو 1960 تک ان میں سالہ سال شفاف پانی بہتا تھا) کے کنارے آباد ہیں جیسے لیاری ،سھراب گبول گوٹھ اور ایسی کئی بستیاں لیاری ندی کے کنارے کئی صدیوں سے آباد ہیں ایسے ہی کراچی کے پانچ بڑے ندیوں (حب، تھدو ،ملیر ،لیاری اور سُکن نالہ )کے کنارے کئی قدیم بستیاں آباد ہیں ملیر ندی جو کراچی کا دوسرا بڑا ندی ہے جو ملیر کے ایک بڑے علاقے کو سیراب کرتا تھا مگر آج ایک چھوٹے سے علاقے کو سیراب کرتا ہے یہاں زراعت اب تقریبا نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔
ملیرکے حدیں ایک طرف ضلع جام شورو دوسرے طرف صوبہ بلوچستان کے ضلع لسبیلہ سے ملتے ہیں جہاں حب ندی بلوچستان اور سندھ کے حدود تعین کرتا ہے ۔ ملیر کا بیشتر علاقہ کھیر تھر نشینل پارک کا Wildlife Protection Area ہے۔ حب ڈیم( کار سینٹر، موئیدان، کنڈجنگ یہ کھیر تھر نیشنل پارک میں شامل ہیں) اور ملیر کے بیشتر علاقے چراہاگاہیں اور جنگلات ہیں جو کھیر تھر سلسلہ ہائے کوہ کا علاقہ ہے جہاں بے شمار جنگلی حیات موجود ہیں اسی لیے اس علاقے میں شکار پر پابندی ہے جو محکمہ جنگلات سندھ کے زیر کنٹرول آتا ہے۔
مگر پچھلے تین چہار سالوں میں یہاں کچھ اور ہی ہونے لگا سب سے پہلے ڈی ۔ایچ ۔ اے نے یہاں تیس ہزار ایکڑ اراضی لیا اور بھی لینا چاہتا ہے اس کے بعد بحریہ ٹاؤن آگیا ہے جو عین کیرتھر نیشنل پارک کے Wildlife Protection Area میں قبضہ کرلیا جو ابھی تک 50 ہزار ایکڑ آصف علی زرداری کے توست سے قبضہ کر چکا ہے اور ابھی بھی بحریہ کو وسعت دے رہا ہے جہاں پر کہی آثارے قدیمہ کے قبرستانوں کو تباہ کر چکا ہے یہ قبرستانیں تیرویں اور پندرہویں صدی کے ہیں اور کئی قانونی گاؤں مسمار کر چکا ہے جو پولیس کی مد د سے ہو ہا ہے اور جنگلات کی کٹائی سے جنگلی حیات یہاں سے کوچ کرنے لگے اور سیر و تفریحی مقامات تباہ کردیے گئے، چراہ گاہیں تباہ کردی جارہی ہیں۔ مقامی لوگوں کی اکثریت کا معاشی تعلق زراعت اور مال مویشی پالنے سے جڑا ہوا ہے چراہ گاہوں کی تباہی کے وجہ سے معاشی بد حالی کا شکار ہو تے جا رہے ہیں، اور فضائیہ ہاؤسنگ اسکیم بھی آگئی ہے جو انہی ندی نالوں جنگلات کو تباہ و برباد کر کے بنائی جائیگی۔
کراچی کا ملیر جو سیر اور تفریحی مقامات اور خوبصورت جنگلات ندی نالوں کے وجہ سے جانا جاتا ہے جو کراچی شہر کے لوگوں کے کیے اور یہاں کے لوگوں کے لیے ایک صحت مند اور پر فضا ماحول ہے۔ یہ ہاؤسنگ اسکیمیں ہزاروں ایکڑ پر مشتمل ہیں، جو موجودہ کراچی شہر جتنا ہی ہے تو یہاں جو ماحولیاتی تباہی آئیگا اسکا اندازا ہم نہیں کرسکتے۔ دنیا ماحو لیاتی تبدیلی اور گلوبل وارمنگ کی تشویش میں ہے آے روز ماحولیاتی تبدیلی کو روکنے کے لیے کانفرنس کرتے ہیں دینا کی حکومتیں جنگلات کی تحفظات کے لیے عوامی جاگرتا پیدا کر رہے ہیں۔ جنگلی حیات کی تحفظ کے لیے دنیا میں ماحول دوست تنظیمیں ورک شاپ کروا رہے ہیں مگر ہمارے ملک میں ماشاء اللہ گنگا الٹا بہہ رہی ہے۔
ان تینوں قبضہ مافیا کے وجہ سے یہاں کے ندی نالوں اور ان کے کنارے آباد قدیم بستیوں کا کیا حال ہوگا جن کے پاس پینے کے لیے صاف پانی میسر نہیں جو ندیوں کے کنارے کنوں کا پانی کب کا خشک ہو چکا ہے جو کم بارش اور اوپر سے ندی نالوں سے ریتی بجری کی چوری نے تو ملیر کو پہلے سے تباہ کردیا ہے۔ ان ہاؤسنگ اسکیموں میں لاکھوں لوگوں کی آباد کاری ہوگی ہزاروں گاڑیاں چلیں گی جو کھیر تھر نیشنل پارک میں اس ہوائی اور شور کی آلودگی سے جنگلی حیات اور ماحول میں کیسے بیانک اثرات مرتب ہونگے ۔۔۔؟ اس کا جواب ہر عام و خاص کے پاس موجود ہے۔ ان لاکھوں لوگوں کے بدولت Greywater کی جو سیلاب ہوگی وہ انہی ندیوں میں چھوڑ دیا جائیگا اور یہ سب ندیاں گندگی کے ڈھیر بن جائینگے اور ملیر کی بستیاں اور ملیر کے لوگ مستقبل کے SLUMDOGS ہونگے۔
1 Trackback / Pingback
Comments are closed.