گیبریل گارشیا مارکیز کی نظر میں آج کی صحافت
ترجمہ: (یاسر چٹھہ)
آج سے پچاس برس قبل صحافت کالج اور یونیورسٹیوں میں باقاعدہ نہیں پڑھائی جاتی تھی۔ لوگ یہ کام نیوز روموں، طباعت خانوں، مقامی چائے کے ڈھابوں پر اور ہفتہ وار تعطیل کی محافل میں ہی سیکھ جاتے تھے۔ پورے کا پورا اخبار ایک ایسے کارخانے کی مثل تھا جو صحافی تراشتا اور تیار کرتا جاتا تھا؛ خبریں لگائی بجھائی کے بغیر چھپتی تھیں۔ ہم صحافی آپس میں اکٹھے بیٹھتے تھے، ہماری زندگیاں باہمی جڑی ہوئی تھیں، اور ہماری اپنے پیشے سے اس قدر لگن تھی کہ آپسی ملاقاتوں میں ہم کوئی اور بات نا چھیڑتے تھے اور نا کرتے تھے۔
ہمارا کام آپس میں مضبوط اور گہری دوستیوں کو ترویج دیتا تھا۔ ان حالات میں ہماری کسی کی تنہا ذاتی زندگی کا کوئی خاص تصور نہیں تھا۔ باقاعدہ طے شدہ ادارتی میٹنگوں کا رواج ہرگز نا تھا۔ بلکہ ہر روز شام پانچ بجے پورے کے پورے اخبار کا عملہ ایک غیر رسمی سے کافی کے وقفے پر نیوز روم میں ہی کہیں جمع ہو جاتا تھا؛ اس وقفے کے دوران روزمرہ کی زندگی کے تناؤ اور دباؤ کو ہلکا کرلیتا۔ یہ ایک کھلی بحث ہوتی تھی جس دوران ہم اخبار کے مختلف سیکشنوں کے دن بھر کے اہم موضوعات پر بات کرتے اور اگلے دن کے شمارے کو آخری ہاتھ لگاتے۔
ان دنوں اخبار تین بڑے حصوں میں تقسیم کیا جاتا تھا: خبروں کا سیکشن، فیچروں کا سیکشن، اور ادارتی سیکشن۔ سب سے زیادہ قابل تکریم و استحقاق اور حساس ادارتی سیکشن گردانا جاتا تھا۔ رپورٹر کو اخباری ادارے کے ڈھیر میں سب سے نیچے کہیں سمجھا جاتا تھا۔ ۔۔۔ وقت اور صحافتی پیشے نے وقت کے ساتھ ثابت کیا ہے کہ صحافت کا اعصابی مرکز دوسرے رخ سے کام کرتا ہے۔ انیس برس کی عمر سے میں نے اداریہ نویس کے طور پر اپنے پیشہ ورانہ کام کی ابتداء کی، آہستہ آہستہ محنت کرتے کرتے میں cub reporter کی ارفع پوزیشن پر پہنچا۔
پھر صحافت کے تعلیمی ادارے منظرعام پر آئے اور ٹیکنالوجی بھی میدان میں کود پڑی۔ صحافتی تعلیمی اداروں کے فارغ التحصیل طلباء قواعد زبان سے تقریبا تہی دامن تھے، انہیں تھوڑے سے مشکل خیالات کی تفہیم میں بہت دشواری ہوتی تھی؛ مزید یہ کہ ان کی صحافت کے پیشے کی سمجھ بوجھ اس قدر خطرناک تھی کہ ان کے مطابق سکوپ (scoop) کی اتنی اہمیت تھی کہ اس کے کسی نا کسی طرح حصول کی خاطر کسی بھی قسم کی اخلاقی حدود و قیود اور رکھ رکھاؤ ہیچ تصور کئے جاتے تھے۔
ایسے دکھائی دیتا ہے کہ صحافتی پیشے کی ارتقاء اس رفتار سے نہیں ہوئی جس رفتار سے اس کی بجا آوری میں استعمال ہونے والے آلات کی ترقی و ارتقاء ہوئی ہے۔ صحافی ٹیکنالوجی کے استعمال کی بھول بھلیوں میں ایسے گم ہوگئے کہ ان کے پیشے کا مستقبل بغیر کسی شعوری و ادراکی نگرانی کے آگے بڑھا۔ دوسرے الفاظ میں صحافت کے کاروبار نے مادی جدت کے حصول میں خود کو ایک خطرناک مقابلے میں ڈال دیا۔ اس منھ زور دوڑ میں اس کاروبار نے اپنے پیادے کارکن یعنی رپورٹر کی تربیت کے کام کو پس پشت ڈال دیا؛ ساتھ ہی ان پرانے شمولیت کے طور طریقوں کو ترک کردیا جو پیشہ ورانہ روح کی مضبوطی کا ایک توانا حوالہ تھے۔
نیوز روم تن تنہا کام کرنے والے ایک شکی مزاج کی تجربہ گاہ کی مانند بن گئے ہیں، جہاں کسی غیرارضی مظہر سے ابلاغ کرنا انسانی قلوب و اذہان سے رسم و راہ نکالنے سے زیادہ آسان معلوم ہوتا ہے۔ انسانی بے دخلی کا تیز رفتار گھوڑا ہانپتا آگے بڑھتا جا رہا ہے۔
ٹیلی ٹائپ اور ٹیلیکس کی ایجادات سے پہلے کوئی سر بہ کف قسم کا سورما ہی ریڈیو مانیٹرنگ کا کام کرتا تھا؛ ریڈیو مانیٹرنگ کرنے والا ہوا کے کندھوں سے دنیا کی خبریں اتارتا تھا؛ وہ ریڈیو پر موصول شدہ آوازیں غیرارضی سیٹیوں کی آوازوں سے تھوڑی ہی مختلف ہوتی تھیں۔ ایک اچھا باخبرلکھاری اس طرح موصول شدہ خبروں کے بہت سے بے جوڑ کے ٹکڑوں کی اس خبر کے پس منظر اور دوسری متعلقہ تفصیلات سے بھرت کاری کرتا تھا۔ اس باخبر لکھاری کے اس کام کی مثال کچھ ایسے ہی تھی جیسے ایک دستیاب ریڑھ کی ہڈی سے ڈائنوسار کے پورے نظام استخوان کو ترتیب دینا۔
صرف اداریہ نویسی ممنوعہ علاقہ تھی، کہ یہ اخبار کے ناشر کا مقدس استحقاق سمجھا جاتا تھا۔ اس ناشر، کہ جس کے اداریوں کے متعلق ہر کوئی یہی سمجھتا تھا کہ وہ ناشر نے خود ہی لکھے ہوتے تھے، ہر چند کہ وہ اداریے اس نے خود نا بھی تحریر کئے ہوں۔ یہ اداریے ہمیشہ ناقابل رسائی اور بھول بھلیوں کے نقوش جیسی نثر پر مشتمل ہوتے تھے۔ ان اداریوں کی گتھیاں کھولنا، تاریخ شاہد ہے، ناشر کا ذاتی ٹائپسٹ ہی کر پاتا۔ اس ٹائپسٹ کو عین اسی مقصد کی خاطر ہی اپنے منصب پر رکھا جاتا تھا۔
آج سچ اور ذاتی رائے باہم گڈ مڈ ہوگئے ہیں۔ خبر کے اندر ہی تبصرہ گھس آیا ہے۔ جبکہ اداریہ کو حقائق سے مرصع کردیا گیا ہے۔ اس کے نتیجے میں تیار شدہ مصنوعہ ان نئی ملاوٹوں اور مداخلتوں سے کسی طور بھی پہلے سے بہتر نہیں ہو پائی، بلکہ کہنے کو تو یوں کہنا چاہئے کہ صحافت کا پیشہ اس سے پہلے کبھی اس قدر خطرناک نہیں رہا تھا جس قدر آج ہو گیا ہے۔ لاشعوری یا سوچی سمجھی غلط کاریاں، زہریلے اثر والی دھاندلیاں اور دھوکے دہیاں ایک سیدھی سادی خبر کو خبرناک ہتھیار میں بدلنے پر قادر ہوچکی ہیں۔
“ با خبر ذرائع” یا ان “ سرکاری عہدیداروں” کے اقتباسات جوخبر دینے کی قیمت کے طور پر پس پردہ رہنے اور نام نا دیئے جانے کی شرط عائد کرتے ہیں، یا ایسے چشم دیدگان جو میں سب جانتا ہوں” کے دعویدار ہوں، مگر جنہیں کوئی” شاذ ہی جانتا ہو، چند ایسے آثار اور نشانیاں ہیں جو مختلف قسموں کی پیشہ ورانہ غلط کاریوں پر پردہ ڈالنے کا کام کرتے ہیں؛ اور ان غلط کاریوں پر کسی قسم کی سزا کا کوئی چلن اور رواج نہیں۔ لیکن قصور وار اپنے ذرائع کی شناخت کو ظاہر نا کرنے کے استحقاق کو جتاتا رہتا ہے۔ اس دوران وہ اپنے آپ سے اس امکان کی بابت بھی پوچھنا گوارا نہیں کرتا کہ شاید وہ اپنے ذرائع کے ہاتھوں کہیں کانوں کا کچا ثابت ہو کر استعمال تو نہیں ہورہا؛ وہ یہ بھی نہیں دیکھتا کہ ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے ذرائع کی ذاتی طور پر منتخبہ تفصیلات اور ان تفصیلات کو ایک خاص زاویے سے اپنی پیشہ ورانہ سادہ لوحی سے پیش کرنے کا سزوار تو نہیں ہورہا۔
مجھے یقین ہے کہ کم تر درجے کے صحافی اپنے ایک ایک ذریعہ (source) کو اسی طرح دل و جان سے لگا کر رکھتے ہیں جیسے اپنی زندگی، وہ اسے ایک اساطیری (mythical) حیثیت سونپ دیتے ہیں، اس کی حفاظت کرتے ہیں اور آخرکار اس سے اس طور پر منسلک ہو جاتے ہیں کہ اپنے لئے کسی دوسرے ذریعہ source کی ضرورت کو چنداں اہم نہیں جانتے۔
گوکہ مجھے کہا جاسکتا ہے کہ میں سرسری فکرو نظر کا حامل ہو جوکہ ایک خطرناک طعنہ ہوسکتا ہے۔ لیکن پھر بھی میں یقین کے ساتھ کہوں گا کہ اوپر کی سطروں میں بیان کردہ ڈرامائی صورتحال میں دوسرا قصوروار فریق ٹیپ ریکارڈر نامی برقی آلہ ہے۔ اس ٹیپ ریکارڈر کی ایجاد سے پہلے صحافتی کام نوٹنگ پیڈ، اعلٰی اخلاقی معیارات اور سننے والے کانوں کے ایک ایسے جوڑے جن سے ہمارے ذرائع ہماری سماعت کی گرفت میں آ جاتے تھے، جیسی تین چیزوں سے بخوبی انجام پا جاتا تھا۔ ٹیپ ریکارڈر کے لئے فی زمانہ اخلاقی اور پیشہ ورانہ اصول و ضوابط وضع نہیں ہو پائے۔
کسی نا کسی کو نوجوان صحافیوں کو بتانا پڑے گا کہ ٹیپ ریکارڈر کسی طور پر بھی یادداشت کا متبادل نہیں ہوسکتا۔ بلکہ یہ اگر کچھ ہے بھی تو ان پرانے وقتوں کے نوٹنگ پیڈ کی ارتقائی شکل ہی ہے۔ ٹیپ ریکارڈر سنتا ہے، سنے ہوئے کو (بغیر کسی تجزیے کی مداخلت کے) کسی ڈیجیٹل طوطے کی طرح دہراتا ہے، پر یہ سوچنے کا کام کسی طور بھی نہیں کرتا؛ ٹیپ ریکارڈر میکانی انداز سے تو وفادار اور سچا ہوسکتا ہے پر اس میں قلب و دل نام کی کوئی چیزنہیں ہوتی ؛ اور آخرکار وہ لفظی نمونہ جو ٹیپ ریکارڈر نے پوری صلاحیت و استعداد سے ریکارڈ کیا ہوتا ہے وہ کسی طور بھی صحافی کی عین اسی وقت میں بولنے والے کے اصل الفاظ کے سننے، اور ان لفظوں کو اپنے تجربے اور علم کی روشنی میں پرکھتے ہوئے یاد رکھنے کے متبادل نہیں ہوپاتا۔
آج کل کے زمانے میں انٹرویو کو حاصل خاص، مگر کسی طور پر بھی نامناسب، اہمیت کے پیچھے ٹیپ ریکارڈر ہے۔ ریڈیو اور ٹیلی ویژن کی خصوصیات کو مدنظر رکھتے ہوئے دیکھا جائے تو یہی توقع باندھی جاسکتی ہے کہ ٹیپ ریکارڈر ہی ان کے لئے ریڑھ کی ہڈی بن جائے گا۔ اب تو حالات اس نہج پر آ گئے ہیں کہ پرنٹ میڈیا بھی اس پیشہ ورانہ بدعت کا شکار ہوگیا ہے کہ سچ صحافی کی آواز میں نہیں، بلکہ انٹرویو کئے جانے والے کی آواز میں واقع کردیا گیا ہے۔
یہ صورتحال اس بات کی متقاضی ہے کہ اسی بے چارے نوٹنگ پیڈ کی طرف پھر سے رجوع کیا جائے کہ صحافی سنتے ہوئے دھیان سے تدوین کرلے؛ اور اس سارے کام کے دوران ٹیپ ریکارڈر کو اس کی اصلی اہمیت یعنی صرف ایک انمول گواہ کے طور پر ہی سمجھے۔
اس بات کے کہنے سننے میں البتہ قدرے سکھ کی سانس لی جا سکتی ہے کہ اخلاقی و ضوابطی انحراف اور دیگر مسائل جو آج کی صحافت کو بھدے پن اور شرمساری کا شکار کرتے ہیں، ہمیشہ سے محض کج اخلاقی و بددیانتی کی بناء پر ہی نہیں ہوتے، بلکہ یہ پیشہ ورانہ مہارت میں کمی اور سقم کی وجہ سے بھی ہوتے ہیں۔
صحافت کے تعلیمی و تربیتی اداروں کے ساتھ کچھ بدقسمتی سے عبارت معاملہ ہے؛ گوکہ یہ ادارے صحافتی کام کے کچھ مفید عملی طریقے تو بتا دیتے ہیں، لیکن یہ صحافتی پیشے کے متعلق گہرائی اور گیرائی سے کم ہی بتا پاتے ہیں۔ صحافت کے تعلیمی و تربیتی اداروں میں کسی طرح کی تعلیم کی بنیاد ان تیں اساسی اصولوں پر مبنی ہونی چاہئے:
- اول تو یہ کہ زیرتربیت لوگوں میں ذہنی رجحان اور صلاحیت موجود ہو
- پھر یہ بات بتائی جائے کہ تحقیقاتی صحافت الگ تھلگ سے کوئی خاص چیز نہیں ہے؛ اور یہ کہ تمام قسم کی صحافت اپنی فطرت میں تحقیقاتی صحافت ہی ہوتی ہے
- مزید یہ کہ پیشہ ورانہ اخلاقیات ایک مستقل ذہنی و اعتقادی رویہ اورعمل ہے۔ یہ کوئی محض ایک بار کا دم پڑھ لینا نہیں۔
کسی بھی صحافتی تعلیمی ادارے کا حتمی مقصد ادارے کے اندر صحافت کے کام کی تربیت کی فراہمی ہی ہے؛ اس تربیت کے ذریعے صحافت کو واپس عوامی خدمت کے منصب کی طرف موڑنا ہونا چاہئے؛ ان صحافتی تربیت کے اداروں کو ان پرانے دنوں کی شام پانچ بجے کی کافی اور چائے کی بیٹھکوں کے تصور کو نئی زندگی دینا ہوگا۔