کھیل جاری ہے …
کہانی از، عثمان غنی رعدؔ استاد شُعبۂِ اردو، نمل، اسلام آباد
“ا… اسلحہ، ب … بندوق“
”ا… اسلحہ، ب … بندوق“
ایک با ریش آدمی سفید لباس پہنے، سامنے بیٹھے بچوں کو سبق پڑھا رہے ہیں۔ ایک بچہ اٹھ کر ان آدمی سے پوچھتا ہے:
”یہ بندوق کیا ہوتا ہے؟“
سامنے بیٹھے با ریش آدمی نے کندھے سے لٹکتے ہوئے سخت جان، دھاتی آلے کو آگے بڑھاتے ہوئے بڑے فخر اور رعب سے کہا:
”اسے کہتے ہیں بندوق!“
”یہ کیا کرتی ہے؟“
ایک اوربچے نے اٹھ کر پوچھا تو انہی آدمی نے اٹھ کر بڑے طمطراق لہجے میں سینہ تان کر کہا:
”حفاظت“
اسی اثناء ایک گولی بَہ غیر آواز پیدا کیے اسی آدمی کو لگی اور وہ زمین پہ ڈھیر ہو گیا۔
فوراً ہی تین چار آدمی ایک ہی جیسا لباس زیبِ تن کیے بندوقیں سنبھا لے بچوں کے نزدیک آ گئے۔
بچے نہ سہمے، نہ ڈرے، بَل کہ ایک بچے نے آگے بڑھ کے بندوق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:
”یہ کیا ہے؟“
تو آنے والوں میں سے ایک شخص بولا:
”بندوق“
بچے نے پھر پوچھا:
”یہ کیا کرتی ہے؟“
”حفاظت“
آدمی نے جواب دیا۔
اس کے بعد چاروں آدمی یک لخت زمین پہ ڈھیر ہو گئے، اور پہلے ڈھیر ہونے والے شخص جیسے پانچ، چھے با ریش شخص بندوقیں اٹھائے بچوں کے پاس آ گئے۔
ایک بچہ پھر اٹھا…!
……………..
عثمان غنی رعد، استاد شُعبۂِ اردو، نمل، اسلام آباد، ہیں