’’ایک سنچری کافی نہیں‘‘ سارو گنگولی کی کرکٹ یاد داشتیں
از، حسین جاوید افروز
جب بھی کلکتہ شہر کا تذکرہ کسی محفل میں ہورہا ہو تو چند چیز یں ضرور دماغ میں آتی ہیں جیسے’’ ہاوڑہ برج ، کلکتہ کی مشہور سوغات سواندیش اور رس گلے، رابندر ناتھ ٹیگور اور پرنس آف کلکتہ جی ہاں یعنی سارو گنگولی‘‘ ۔ سارو گنگولی کی حال میں رہلیز ہونے والی ان کی آب بیتی one century is not enough ایک سنچری کافی نہیں، کرکٹ کے شائقین کے لیے بلاشبہ کسی سوغات سے کم نہیں ہے۔’’دادا‘‘ کے پرستار بہت عرصے سے جاننا چاہ رہے تھے کہ گنگولی کب اپنے دل کے راز ان کے سامنے کھولیں گے؟ کب گریگ چیپل کے ساتھ ان کی بدترین دور کی سچائیوں پرسے پردہ اٹھے گا ؟بلاشبہ انڈین کرکٹ کو یکسر بدل دینے والے کپتان نے کرکٹ پر اپنے گہرے اثرات مرتب کئے ۔وہی بھارتی ٹیم جو نوے کی دہائی تک فائٹنگ سپرٹ کے عنصر سے عاری دکھائی دیتی تھی۔ گنگولی نے بطور کپتان کیسے اس سست سائیڈ کو ایک فتح گر سکواڈ میں بدل ڈالا؟یہ کتاب ان تمام امور کا بخوبی احاطہ کرتی ہے ۔گنگولی بھارتی ٹیم میں چھ سال کی کڑی محنت اور پرفارمنس دینے کے بعد شامل ہوئے۔
ان کو بی سی سی آئی کے سربراہ جگموہن ڈالمیاکی حمایت کے نتیجے میں 1996 میں انگلینڈ کا دورہ کرنے والی ٹیم میں شامل کیا گیا ۔یاد رہے ان کو نامور بھارتی بلے باز ونود کامبلی کی جگہ دی گئی ۔جو اپنی ناقص فارم کی بدولت ٹیم سے باہر بٹھا دئیے گئے تھے ۔عوام کامبلی کے حق میں تھی لیکن ڈالمیا نے رسک لے کر نوجوان بنگالی بلے باز کو چانس دے دیا ۔بعد ازاں اپنے پہلے ہی برطانی دورے پر دو بے مثال سنچریوں نے گنگولی کے تابناک مستقبل کی طرف نشان دہی کردی ۔اس کے بعد تو جیسے ان کی کارکردگی میں تیزی سے نکھار آتا گیا۔
یوں جہاں کامبلی کے کیریئر کا سورج غروب ہوتا گیا وہاں گنگولی کے نام کا ستارہ پوری آب و تاب سے چمکنے لگا۔ جہاں ایک جانب گنگولی نے بطور اوپنر ایک دھواں دھار بلے باز کی حیثیت سے خود کو منوایا۔ وہاں اس کی دل فریب باؤلنگ نے بھی بھارت کو پاکستان کے خلاف1997 کا صحارا کپ جیتنے میں مدد دی جس میں گنگولی نے 16/5 کی بہترین پرفارمنس دکھائی ۔اب گنگولی ’’پرنس آف کلکتہ‘‘ کے نام سے اپنی دھاک جما چکا تھا۔
1999 کے عالمی کپ کے بعد ٹیم کی قیادت گنگولی کو سونپ دی گئی جس نے دھیرے دھیرے بھارتی ٹیم کے روایتی بیزار دکھائی دینے وا لے ڈریسنگ روم کا نقشہ ہی بدل دیا ۔گنگولی نے جہاں سچن کے مشوروں کو ہمیشہ اہمیت دی وہاں اس نے یوراج سنگھ ، وریندر سہواگ اور ہربھجن جیسے نئے کھلاڑیوں کی صلاحیتوں سے بھی بہترین کام لینا شروع کیا ۔یہی وجہ تھی کہ ان اقدامات کے مثبت نتائج 2001 کی آسٹریلیا کے خلاف ہوم سیریز میں آنے شروع ہوگئے جہاں پہلا ٹیسٹ ہارنے کے باوجود گنگنولی الیون نے لکشمن اور ہربھجن کی یادگار کارکردگی کے سبب گلے دونوں میچ جیت کر تاریخ رقم کردی۔ یاد رہے اسٹیواگ کی قیادت میں یہ آسٹریلین ٹیم اپنے وقت کی مضبوط ترین ٹیم تھی۔ کامیابیوں کا سلسلہ 2002 کے دورہ انگلینڈ میں بھی جاری رہا جب بھارتی ٹیم نے ایک طویل عرصے بعد ٹیسٹ سیریز برابری پر ختم کی۔
یہی نہیں بلکہ نیٹ ویسٹ ون ڈے سیریز کے فائنل میں بھارت نے یوراج اور کیف کی برق رفتار بیٹنگ کی بدولت تین سو رنز کا ہدف بھی عبور کر کے شائقین کے دل جیت لیے۔ میچ کے بعد جس طرح لارڈز کی بالکونی میں کھڑے گنگولی نے فرط جذبات میں اپنی شرٹ اتار کر فتح کا جشن منایا گویا اس نے انڈین کرکٹ کو بدل کر ہی رکھ دیا ۔اب بھارتی ٹیم بھارت سے باہر بھی جارح اپروچ کے ساتھ مثبت نتائج فراہم کرنے کے قابل ہوگئی تھی ۔اگرچہ 2003 کے عالمی کپ فائنل میں آسٹریلیا کے ہاتھوں شکست نے گنگولی الیون کو بھاری صدمے سے دوچار کیا ۔مگر اس کے بعد 2004 کا سیزن گنگولی کا بلاشبہ یادگار سیزن بن گیا جب پہلی بار بھارتی ٹیم دورہ پاکستان میں ٹیسٹ اور ون ڈے میچز میں کامیاب ٹھہری۔ اور گنگولی بطور کپتان عظمت کی بلندیوں پر پہنچ گیا۔ اس دورے کے متعلق گنگولی آج بھی اعتراف کرتے ہیں کہ کہ ’’پاکستان میں ملنے والی بے مثال مہمان نوازی اور کرکٹ کے متعلق جنون کو میں آج تک فراموش نہیں کر پایا۔
پاکستان انتہائی خوبصورت لوگوں کا حسین ملک ہے ۔خصوصاٰ اسلام آباد میں گھومنے اور قدرتی مناظر سے لطف اندوز ہونے کا نشہ ہی کچھ اور ہے ۔یہاں کے لوگ ہماری فلموں کے رسیا ہیں۔ ایک دل چسپ اقعہ لاہور میں پیش آیا جب ہم ہوٹل میں بیٹھے بیٹھے بور ہوگئے تو چھپ کر کسی کو بتائے بغیر لاہور کی فوڈ سٹریٹ نکل گئے جہاں روایتی لاہوری کھانوں کا بھرپور لطف لیا۔ اس دوران عوام نے ہمیں پہچان لیا اور ہمارے ساتھ تصاویر بھی بنائیں ۔بہرحال جب ہم ہوٹل پہنچے تو مجھے صدر پاکستان مشرف کا فون آیا جس میں انہوں ہلکے انداز میں میری سرزنش کی کہ آپ کو بغیر بتائے ہوٹل سے ہرگز نہیں جانا چاہیے تھا اگلی بار ضرور سکیورٹی کو مطلع کریں ‘‘۔
آف دی فیلڈ میرے پاکستانی کھلاڑیوں سے بہترین مراسم ہیں۔ وسیم اکرم اتنے عظیم باؤلر ہیں کہ میری خواہش تھی وہ بھارتی ٹیم کے باؤلنگ کوچ بنیں۔ جبکہ انضمام میرے گہرے دوست ہیں ان کے بارے میں میرا مشاہدہ یہ رہا ہے کہ جب یہ وزن گھٹانے کی جستجو کرتے ہیں تو کبھی ہمارے خلاف سکور نہیں کرتے تھے لیکن جہاں یہ بڑھے وزن کے ساتھ سست سست انداز میں بلے بازی کرنے آتے تو اس دن بھارتی باؤلروں کی بہت درگت بناتے۔ انضمام نے میری فرمائش پر مجھے سیالکوٹ کے معیاری بیٹ بھی تحفے کے طور پر دئیے۔ جبکہ راولپنڈی ایکپریس شعیب اختر میدان میں جتنے بھی جارح نظر آ ئیں میدان سے باہر یاروں کے یار ہیں۔
اب بات ہوجائے کتاب کے اس تلخ لیکن اہم باب کی جس میں گنگولی اور سابق انڈین کوچ گریگ چیپل کے درمیان شدید اختلافات کا تذکرہ کیا گیا ہے ۔گنگولی کے مطابق ہم نے 2003.04 کے دورہ آسٹریلیا میں لاجواب پرفارمنس دی اور آسٹریلوی ٹیم بمشکل اس سیریز کو برابری پر ختم کرپائی ۔اس دورے میں گریگ چیپل نے مجھے بہت اچھے مشورے دئیے ۔یہی وجہ تھی کہ جان رائٹ کے بطور کوچ روانگی کے وقت میں نے گریگ چیپل کو کوچ بنانے کی پرزور حمایت کی۔
یوں میری کوششیں کامیاب رہیں اور چیپل کوچ کے عہدے پر براجمان ہوگئے۔ لیکن کچھ ہی عرصے میں ان کے اور میرے درمیان تال میل کی کمی واضح طور پر محسوس کی جانے لگی۔ انہوں نے مجھے مشورہ دیا کہ اپنی بیٹنگ کو بہترین بنانے کے لیے مجھے قیادت چھوڑ دینی چاہیے۔ بعد ازاں وہ دورہ زمبابوے کے دوران اپنے مینڈیٹ سے تجاوز کرتے ہوئے کھلاڑیوں پر ایک رنگ ماسٹر کی طرح مسلط ہوگئے ۔یوں بیٹنگ لائن میں مشکلات پیدا ہونا شروع ہوگئیں۔
انہوں نے میرے خلاف ٹیم میں گروپنگ شروع کی اور مجھے پہلے قیادت اور پھر ٹیم سے ہی ڈراپ کرنے میں اہم کردار نبھایا۔مجھے افسوس ہوا جب راہول ڈرواڈ نے بھی بطور کپتان چیپل کی تقلید کی لیکن میں جانتا تھا کہ پیچھے سے ڈوریاں کون ہلا رہا ہے ؟میرے ٹیم سے اخراج پر کلکتہ میں میرے حق میں مظاہرے بھی ہوئے اور اس شور کی آواز لوک سبھا کے ایوانوں تک بھی گئی۔ یہ بہت ہی مشکل دور تھا بہرحال ٹیم میں واپسی کے بعد میں نے دورہ جنوبی افریقہ میں اچھی کارکردگی دکھائی۔ اس پر سچن نے مجھے کہا کہ اس وقت دباؤ میں تم نے اپنے کیریئر کی بہترین باریاں کھیلی ہیں۔
تاہم 2007 کے عالمی کپ میں ہم ایک بہترین ٹیم ہونے کے باوجود بری طرح ہار کر ایونٹ سے باہر ہوگئے ۔یہ میرے لکشمن ،ڈراوڈ کے لیے دردناک لمحات تھے۔ اس عبرت ناک شکست کے بعد چیپل کا بطور کوچ عرصہ بھی تمام ہوگیا لیکن اس کی بیوقوفانہ تبدیلیوں سے ٹیم کے کمبی نیشن کو ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑا ۔مجھے آج تک پتہ نہیں چلا کہ کس وجہ سے گریگ چیپل میرے خلاف پیٹھ پیچھے وار کرتا رہا ؟اس کے اصل عزائم کیا تھے؟ ہم کبھی دونوں کسی جگہ بیٹھ کر ایک دوسرے سے معاملات طے بھی نہیں کر پائے ۔بہرحال اب میں نہیں سمجھتا کہ اگر ہم کبھی ملیں تو اس سے بات بھی کرنا پسند کروں گا۔کوچ کو اپنی حدود میں رہ کر فرائض انجام دینا چاہیے۔
اصل میں یہ کپتان ہی ہوتا ہے جس کو میدان میں صورتحال کے مطابق جلدی جلدی فیصلے کرنا پڑتے ہیں۔ڈریسنگ روم اور میدان میں بہت فرق ہے جس کو ہر کوچ کو سمجھنا چاہیے۔جنوبی افریقہ میں بطور کپتان گریم اسمتھ ،آسٹریلیا میں اسٹیواگ اور انگلینڈ میں سٹراس اور بھارت میں دھونی کو ہی دیکھ لیں ان سب کی بطور کپتان چھاپ آج بھی گہری ہے کیونکہ کرکٹ کپتان کا ہی گیم ہوتا ہے۔ میں نے بھی بطور کپتان پوری کوشش کی کہ کھلاڑیوں کو اعتماد دوں اور ان کا پرنسپل بننے سے گریز کروں۔میچ کے بعد میرے کھلاڑیوں کو مکمل اختیار ہوتا تھا کہ وہ پارٹی کریں یا آرام کریں۔
اگرمجھے کہیں لگا تو میں نے سینئر کھلاڑی کمبلے کو بھی کسی میچ میں آرام دیا حالانکہ اتنے بڑے کھلاڑی کو میچ سے باہر کرنا آسان نہیں ہوتا۔میں نے سہیواگ کو اوپنر بنایا اور اس پر واضح کیا کہ تم میں میرے حساب سے اوپننگ کی قابلیت موجود ہے۔بعد میں دیکھ لیں اس نے ڈبل سنچری سے ٹرپل سنچری تک بنا ڈالی ۔آج بھی اسے میں مذاق سے کہتا ہوں دیکھ لو پانچ نمبر یا چھ نمبر پر تین سو رنز نہیں بنتے ۔البتہ یہ الگ بات ہے کہ میرے لاکھ سمجھانے پر بھی سہیواگ میدان میں اپنی جارح مزاجی سے باز نہیں آتا تھا ۔آج بھارتی ٹیم کا ماحول 1996 سے بدرجہا بہتر ہے۔
ٹیم میں ویرات کوہلی جیسا جارحانہ مزاج کا قائد موجود ہے جو ہر کام دل سے کرتا ہے۔ کبھی کبھی مجھے اس میں اپنا عکس دکھائی دیتا ہے۔ اب بھارتی ٹیم کا مستقبل محفوظ ہاتھوں میں ہے۔ انڈین پریمیئر لیگ کے متعلق میرا ماننا ہے کہ آج کھلاڑیوں کے پاس بے پناہ پیسہ ہے اور یہ بہت چھی بات ہے لیکن کھلاڑیوں کے لیے بھی ہوشمند رہنا بہت اہم ہوگیا ہے۔ لیکن میں کھلاڑیوں کی بولی لگانے کے عمل کو اچھا نہیں سمجھتا ۔کیونکہ اس میں کسی کھلاڑی کی پرفارمنس دیکھنے کے بجائے طلب اور رسد پر بات ہوتی ہے۔ یہ درست ہے کہ میں تین سال کولکتہ نائٹ رائیڈر کے ساتھ منسلک رہا مگر ہم مثبت نتائج نہیں دے سکے اور میں نے پونے وارئیر جوائن کرلی۔ لیکن ٹیم کے مالک شاہ رخ خان کے ساتھ میرے تعلقات آج بھی مثالی ہیں۔
میری نظر میں بہترین باؤلر گلین میگرا ،بہترین کپتان مہندر سنگھ دھونی اور اسٹیواگ ہیں۔کرکٹ میں میرا یادگار لمحہ 1996 میں لارڈز میں سنچری مکمل کرنا ہے۔ جبکہ کھیل کے حوالے سے میری بدترین یاد عالمی کپ2007 سے ٹیم کا اخراج ہے۔ لیکن میں آج مطمئن ہوں کہ میرا شمار ان تین بھارتی کھلاڑیوں میں ہوتا ہے جو کہ 300 سے زیادہ ون ڈے میچز اور 100 سے زیادہ ٹیسٹ میچز کھیل چکے ہیں۔بطور انسان میں بہت ہی سادہ مزاج کا حامل ہوں۔
میں شراب اور نائٹ لائف سے کوسوں دور بھاگتا ہوں اور جلدی سونے کا عادی ہوں۔ میں ریٹائر ہوچکا ہوں لیکن میں کرکٹ سے متعلق کسی بھی ذمہ داری کو اٹھانے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتا ہوں۔ البتہ سیاست میں آنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ میرے لیے میری بیٹی میرا جنون ہے۔ کرکٹ سے باہر میں ڈیگو میرا ڈونا اور رتن ٹا ٹا سے بہت ہی متاثر رہا ہوں۔ جبکہ میرا ہمیشہ سے یہ ماننا ہے کہ زندگی کو ہمیشہ کھلے دل سے سمجھنے کی جستجو کرو۔ یاد رکھو جب ہم ناکام ہوتے ہیں تو ہی ہمارا بہترین کام سامنے آتا ہے۔
1 Trackback / Pingback
Comments are closed.