گاؤں سے عالمی گاؤں تک
از، قمر سبزواری
نقل مکانی یا تو انسان کو بےحس کر دیتی ہے یا ناسٹیلجیا کا شکار بنا دیتی ہے لیکن ایک حساس اور با شعور لڑکی نے جب اپنے گاؤں کے کھلے برآمدوں اونچی چھتوں اور بڑے صحن والے گھر کو چھوڑا، ہوا سے اٹھکیلیاں کرتے کھیتوں ندی نالوں، پیڑ پودوں، پھولوں اور تتلیوں کو خیر باد کہا، جب وہ گاؤں کے پُر خلاص ماحول، سچی سکھیوں سہیلیوں اور شفیق بزرگوں سے جدا ہو کر شہر میں آن بسی تو اُس نے ایک عجیب کام کیا۔
وہ نہ تو شہر کی بے حسی کے رنگ میں رنگی گئی اور نہ گاؤں کی یادوں کو روگ بنا کر ناسٹیلجیا کا شکار ہوئی بَل کہ اُس نے اپنے گاؤں کی مکانیت کو ایک عالمی بَل کہ آفاقی روپ دیا اور پھر گلی محلے سے شہر اور شہر سے پورے ملک بل کہ پوری انسانیت کو اپنے گاؤں کی مکانیت کی کسوٹی پر پرکھتی چلی گئی۔
میں بات کر رہا ہوں ڈاکٹر افشاں ملک کی جن کے کچھ افسانے تو میں نے سوشل میڈیا اور ویب پر پڑھے تھے لیکن آج اُن کا افسانوی مجموعہ اضطراب میرے ہاتھ میں ہے۔ ڈاکٹر افشاں ملک سے میرا ابتدائی تعارف فقط اتنا تھا کہ انہوں نے احمد ندیم قاسمی پر مقالہ لکھا ہوا ہے اور ادب سے لگاؤ رکھتی ہیں۔
اگر میں صاف گوئی سے کام لوں تو اُن سے بات چیت کے بعد میرا نکتہ نظر یہ تھا کہ اتنے دھیمے مزاج، نستعلیق طبیعت اور شُستہ و شائستہ لب و لہجے والی یہ خاتون فکشن جیسے تلخ اور بے رحم میدان میں شاید رومانوی یا بہت ہوا تو تجرید نگار ہوں گی، لیکن جیسے جیسے میں اُن کے افسانے پڑھتا گیا مجھ پر یہ بات کھلتی چلی گئی کہ بظاہر پر سکون نظر آنے والے سمندر کے اندر کتنا بڑا طوفان چھپا ہو سکتا ہے۔
شاعری میں جب آپ آغاز کی طبع آزمائی کرتے ہیں تو آپ چونکا دینے کے لیے، اپنا قد اونچا کرنے کے لیے اور دوسروں کو متوجہ کرنے کے لیے موٹے موٹے اور ادق الفاظ استعمال کرتے ہیں، مصرعوں میں شعریت ڈالنے کے لیے نحوی ترتیب کو جتنا توڑ سکتے ہیں توڑتے ہیں اور پھر جب آپ کا مزاج قوافی سے بھی کھیلنے کی مہارت حاصل کرنے لگتا ہے تو آپ سمجھے ہیں کہ آپ نے سب کچھ پا لیا یہ جانے بغیر کہ آپ کے ہاتھ تعقید، تخالف، غرابت اور بچگانہ قافیہ پیمائی کے علاوہ کچھ نہیں آیا۔
کم و بیش یہی حال افسانے کے متن کا ہے جب آپ افسانے کی دنیا میں نو مشق ہوتے ہیں تو آپ کا دھیان کہانی کی محراب پر ہوتا ہے، کہانی کی ابتدا دل چسپ ہو گئی نقطۂِ عروج تک پہنچا دیا اور چونکا دینے والا اختتام ہو گیا، آپ کو لگتا ہے بس سب کچھ حاصل ہو گیا۔
جب کچھ لوگ اس مقام سے آگے نکلتے ہیں تو زیادہ سے زیادہ یہ کرتے ہیں کہ سطحی تنقید نگاروں کے بھاری بھر کم مضامین سے متاثر ہو کر وہ اپنے زمان و مکان سے کوئی علاقہ نہ رکھنے والی ادبی تھیوریز میں اور اپنے متن میں شعوری مطابقت پیدا کرنے کی کوشش کرنے لگتے ہیں۔ کسی ناقد نے ساختیات کا حوالہ دیا تو افسانے کے کسی کردار سے کوئی ایسا لفظ یا جملہ ادا کروا دیا کہ قاری اور نقاد کا دھیان اس طرف مبذول ہو کہ لکھاری کو ساختیات کا علم ہے۔ کہیں اور کسی نقاد نے وجودیت کا ذکر کر دیا تو افسانہ نگار نے یا تو بیانیہ کے بیچ کچھ گنجائش نکال کر فلسفیانہ بحث کا کوئی اقتباس ڈال دیا، یا پھر بے موقع بے محل فطرت انسانی کی تردید کرنے کے لیے کوئی اشارہ دے دیا۔
لیکن جب آپ حقیقی معنوں میں ایک تخلیق نگار کی حیثیت حاصل کر لیتے ہیں تو یہ سب مہارتیں پس پردہ چلی جاتی ہیں ان کی حیثیت سے انکار نہیں لیکن ان کی اہمیت ثانوی ہو جاتی ہے اور جو شے نکھر کر سامنے آتی ہے وہ مجموعی طور پر ایک ایسا فن پارہ ہوتا ہے جس میں لطافت، سلاست، اور گہرائی و گیرائی ہوتی ہے اور یہی رنگ ہمیں ڈاکٹر افشاں کے افسانوں میں ملتا ہے۔ آپ کو بلا وجہ جنس کا تڑکا نہیں ملے گا، جذباتیت کا اِزدِحام نہیں ہوگا، فقط چونکانے کے لیے اختتام پر شاک ٹریٹمنٹ سے کام نہیں لیا گیا ہو گا اور جو بات مجھے سب سے اہم لگی وہ یہ کہ کسی دوسرے ادیب کا رنگ کسی تھیوری سے شعوری مطابقت یا کسی پراپیگنڈے کا پیوند آپ کو ڈاکٹر افشاں کے ہاں نہیں ملے گا۔
افشاں ملک قاری کے آگے نہیں چلتیں اور نہ کسی تذبذب کا شکار ہو کر پیچھے کھڑی رہ جاتی ہیں بَل کہ وہ تو ایک ایسی گائیڈ ہیں جو قاری کی انگلی پکڑ کر اُسے کہانی کی گلیوں میں گھماتی ہیں اور ایک ایک کردار ایک ایک مقام سے متعارف کرواتی جاتی ہیں وہ ہر ایک گوشے سے پردہ اٹھاتی جاتی ہیں لیکن خود کچھ نہیں بولتیں اور یوں قاری اُن کی انگلی پکڑے لیکن اپنی اآنکھوں سے سب کچھ دیکھتا اور متحیر ہوتا جاتا ہے لیکن پھر یوں ہوتا ہے کہ اچانک یہ با مُروت میزبان ایک بے نیاز اجنبی کا روپ دھارن کر کے قاری کو کسی انجان گلی میں چھوڑ کر کہتی ہیں بس میرا گھر آ گیا اب آگے تم اکیلے جاؤ اور یہی وہ مقام ہے جہاں پر قاری حیرت سے چاروں طرف دیکھتا ہے اور کہانی کے حظ کو چھوڑ کر آگہی کے درد کو پکڑ لیتا ہے۔
میری طالب عِلمانہ رائے ہے کہ کوئی ادب پارہ مقامی ہوئے بغیر آفاقی نہیں ہو سکتا یہی پس جدیدیت خُوب صورتی ہے اور اسی طرح کوئی فکشن ذاتی ہوئے بغیر اجتماعی نہیں ہو سکتا یہی empathy یا ہم دلی ہے۔ افشاں ملک کا اسلوب اُن کا اپنا مخصوص اسلوب ہےاور اسی طرح معاشرے کی بد صورتی دیکھ کر اُس کو وہ خوب صورتی کے جس معیارپر پرکھتی ہیں وہ بھی اُن کا اپنا مقامی اپنے گاؤں کی سادہ مگر پر خلوص زندگی کا معیار ہے
جس کی مقامیت کو انہوں نے اپنے اندر بسا کر آفاقیت تک پہنچایا۔ آئیے دیکھتے ہیں کیسے۔
سب سے پہلے میں جس کہانی کا حوالہ دینے جا رہا ہوں وہ ہے “افتادہ اراضی۔” اِس کہانی میں علامت کا دہُرا استعمال ہے ایک تو تشبیہات و استعارات کا استعمال کر کے ظاہری علامتوں کا ایک نظام ہے اور دوسرے بین السطور ایک گہرا علامتی اظہار ہے۔ “نفیسہ بی اپنے وسیع و عریض لیکن کھنڈر ہوتے جا رہے مکان کی چھت سے مجھے اُفتادہ اراضی کا وہ قطعہ دکھایا جو اس کے مرحوم والد نے نفیسہ بی کے نام لکھ دیا تھا۔”
مزید دیکھیے: تبصرہ و تجزیہ کتاب افسانوی مجموعہ اضطراب از افشاں ملک
بظاہر یہ ایک ایسی عورت کی کہانی ہے جس کا باپ اُس کے لیے گھر اور جائداد تو چھوڑ جاتا ہے لیکن اُس کا رشتہ اپنی انا اور جھوٹی شان و شوکت کی وجہ سے نہیں کر پاتا اور وہ بے آسرا کھڑی اپنی ویران اور کھنڈر ہوتی حویلی اور اُس کے سامنے پھیلی اپنی بنجر و اُفتادہ اراضی کو دیکھتی ہے۔ لیکن بین السطور دیکھیں تو یہ گنگا جمنی تہذیب، یہ اُس مسلم قوم کی کہانی ہے جس کے کرتا دھرتاؤں نے اُس کو دوسری قوم سے میل جول نہ کرنے دیا سو اب وہ اپنے ماضی کی کھنڈر ہوتی حویلی میں بیٹھی اپنے بنجر مستبقل کی افتادہ اراضی کو دیکھ رہی ہے جس کو سر سبز کرنا اُس کے بس میں ہی نہیں اور جب اُس کو وقت کچوکے لگاتے آتا ہے تو وہ مذہب کی سطحی تاویلوں کا سہارہ لے کر کہہ دیتی ہے کہ “یہ بشارت تو بہت پہلے ہی دے دی گئی تھی کہ جو ادبار اگلی اُمتوں پر آئے ہیں وہ ذرا ذرا اور جزو جزو ہم پر بھی آئیں گے۔”
پھر وہی وقت اُس پر ہنستا اور افسوس کرتا ہے کہ “میں نے حسرت ناک نظروں سے نفیسہ بی کی طرف دیکھا۔ ذہن اس اذیت سے بھر گیا کہ نفیسہ بی ایک ایسے پُر قناعت صبر کی حالت سے گزر رہی ہے کہ جس میں ادبار سے باہر نکلنے کی معمولی سی امنگ بھی نہیں بچی تھی۔”
آگے چل کر پوری قوم کی ترجمانی کرتے ہوئے مرکزی کردار نفیسہ تہذیب و تمدن کی تنزلی کا ایک اور جواز ان الفاظ میں پیش کرنے کی کوشش کرتی ہے “تم جانتے ہو ساجد کہ تہذیبوں کا سورج ایک کنارے سے اُگتا ہے اور دوسرے کنارے پر ڈوب جاتا ہے،” لیکن ساجد کی زبانی وقت جو راوی بھی ہے اور افسانے کا ایک کردار بھی ہے وہ کیا جواب دیتا ہے، “نفیسہ سورج کو ڈبونے والے محرکات بھی ہوتے ہیں۔ ڈوب چکے سورج سے پہلے اندھیری رات آنے کا اندیشہ جنہیں ہوتا ہے وہ روشنی کا بند و بست پہلے سے کر لیتے ہیں۔” اس افسانے کو دو بار پڑھا جا سکتا ہے ایک بار ظاہری علامتوں کا لطف اٹھانے کے لیے اور دوسری بار بین السطور علامتوں کا حظ اٹھانے کے لیے۔
افسانہ “کاٹھ کے گھوڑے” علامتی انداز میں ہمیں تہذیبوں کے اِدغام کی کہانی کا ایک دوسرا رُخ دکھاتا ہے یہ شمال سے آنے والوں کی کہانی ہے جو اپنے گھوڑوں جن پر کہ وہ “بیٹھ” کر آئے تھے کو لوہے کی زنجیروں سے باندھ چکے تھے اور پھر رات کے اندھیرے میں اُن نئے قبیلے والوں کی الحمرا مقامی باسیوں کے وینا کرن سے ملنے لگی لیکن ہوا یوں کہ اس ملاقات کے دوران جب نئے قبیلے والوں کے گھوڑے ہنہناتے تو الحمرا وینا کرن کی ہم آغوشی میں گھوڑوں کی ہنہناہٹ پر توجہ نہ دیتی اور یوں رفتہ رفتہ گھوڑوں کی ہنہناہٹ بھلا دی جاتی ہے۔ اس خاموشی کے بعد نئے قبیلے والوں کے ابو نصر اور پرانے باسیوں کی لاوینہ وتی کو بھی آپس میں پیار ہو گیا۔
اب یوں ہوتا ہے کہ ابونصر بھی اپنے لوہے کی زنجیروں سے بندھے گھوڑوں کی ہنہناہٹ کو نظر انداز کرتا ہے جب کہ لاوینہ وتی شنکھ ناد کو نظر انداز کر دیتی ہے۔ لیکن اس بار خاموشی نہیں ہوتی بل کہ قبائلی جبلت جاگ جاتی ہے اور پرانے قبیلے کے لوگ درندوں کا روپ دھار کر ابو نصر کے قبیلے کے عورتوں کو برہنہ اور مردوں کو قتل کرنے لگے۔
اس صورت حال پر نئے قبیلے کے لوگ جب اپنے گھوڑوں کی طرف لپکتے ہیں اور اُن کو لوہے کی زنجیروں سے آزاد کر کے اُس پر سوار ہوتے ہیں تو اُن پر یہ راز کھلتا ہے کہ اُن کے گھوڑے تو کاٹھ کے گھوڑے بن چکے ہیں۔
افسانہ “ندی پہاڑ اور سیلاب” ہمیں لافانی کردار جیتو سے متعارف کرواتا ہے۔ جہاں ایک طرف زندگی کے حاشیے پر رقم یہ کردار جیتو ہمیں اپنی فکر و نظر کی وجہ سے چند ہی سطور میں متاثر کرنے لگتا ہے وہاں یہ افسانہ ہمیں افشاں ملک کے دیہی پسِ منظر سے لی گئی خوب صورتی اور مکانیت سے کھل کر متعارف کرواتا ہے۔ جیتو بھی اپنی انفرادی و ذاتی محبت کو بالکل افشاں ملک کی ہی طرح پوری انسانیت تک وسعت دے کر آفاقی رنگ دے دیتا ہے۔ جیتو کی منتی اور افشاں ملک کا گاؤں ایک ہی خوب صورتی کے دو استعارے لگتے ہیں۔
افشاں ملک کے فن اور فن پاروں پر بات کرتے ہوئے اُن کے افسانے “کیا وہ نمرود کی خدائی تھی” پر بات نہ کرنا یقیناً ایک زیادتی ہو گی۔ یوں تو یہ کہانی ہندوستان میں وقتاً فوقتاً ہونے والے فسادات کا منظر نامہ دکھاتی ہے لیکن اس کے جملوں، اس کے مکالموں اور اس کی علامتوں میں ایک الگ دنیا آباد ہے۔
“جب آدمی کا دل ٹوٹا ہو ذہن میں اندیشے بھرے ہوں اور احساس کسی انہونی کے ڈر سے لرز رہا ہو تو ہر چیز اداس اور غیر معتدل نظر آنے لگتی ہے۔” اس ایک جملے میں افشاں ملک کس خوب صورتی کہ انسانی نفسیات پر فسادات کے اثرات کو سمو دیا ہے۔
“میں نے نظر اُٹھا کر دیکھا، وہاں کوئی ایسی نشانی نہیں دکھائی دی جو اس سے پہلے کے سفر میں میں نے دیکھی ہو۔” یہ جملہ دیکھنے کا ہے کہ واقعی نفرت اور جہالت انسانی تہذیب و تمدن کی سب نشانیاں مٹا کر نہیں رکھ دیتی۔
ایک اور جملہ دیکھیے، “میں سوچ رہا تھا کہ نشانیاں مٹ جاتی ہیں تو سڑکیں اور راستے کس طرح اجنبی بن جاتے ہیں،” کیا یہ شدت پسندی کے سماج پر اثرات کی پوری تاریخ بیان کرنے والا جملہ نہیں۔ کتنا بلیغ اشارہ ہے واقعی انسانی تمدن کی برداشت کی نشانیاں مٹ جائیں تو زندگی اجنبی بن کر رہ جاتی ہے۔
اسی افسانے کا یہ ایک اور جملہ دیکھیے اور غور کیجیے کہ صحافت اور ادب میں کیا فرق ہے، صحافت ہمیں بتاتی ہے کہ فسادات ہوئے اور اتنے لوگ مار دِیے گئے، اتنے گھر جل گئے اتنی دُکانیں لُوٹ لی گئیں لیکن دیکھیے ادب ہمیں کیا بتاتا ہے۔ “حالات کے ساتھ اخلاقی روایتیں کیسے بدل جاتی ہیں، کہ وہاں کسی نے مجھے بیٹھنے کے لیے بھی نہیں کہا۔ کسی نے نہیں پوچھا کہ تم کہاں سے آئے ہو، کون ہو؟”
یہ جملہ دیکھیے جو افشاں ملک کے پسِ منظر کی خوب صورتی اور اُن کے اس یقین کی چغلی کھاتا ہے کہ گو ہماری گنگا جمنی تہذیب کا پیڑ جل گیا ہے لیکن اُس کی جڑیں ابھی بھی دھرتی میں پیوست ہیں۔ کسی طرح مکان اور پیڑ کی علامت سے فسادات کے نقصان کا اظہار کیا گیا ہے۔ “مکان قادر بھائی کا ہی تھا، لیکن شاید اب وہاں کوئی نہیں ہے۔ تم اس مکان کو پپیتے کے ایک پیڑ سے پہچان سکتے ہو، جو پوری طرح جل گیا ہے لیکن دھرتی نے ابھی اس کے تنے کو اپنی گود سے الگ نہیں کیا۔”
افشاں ملک کے افسانوی مجموعہ اضطراب میں کل سترہ افسانے ہیں جو بار بار پڑھنے کی ترغیب دلاتے ہیں اور میں انھیں رک رک کر بار بار ہی پڑھ رہا ہوں اب سب پر اظہار رائے کروں تو آپ کے تجسس کے لیے کچھ نہ رہے گا اس لیے ابھی فقط اتنا ہیں لکھوں گا۔ آپ بھی پڑھیے اور حظ و درد کے اَبلَق پر سواری کا مزا لیجیے۔