ہم تو صنفی اندھے ہیں
از، نصیر احمد
ارے ادھر تو خواتین کے مارچ کے سلوگنز کو لے کر شور برپا ہے۔
خیر ہمیں اس سب سے کیا؟ ہم تو صنفی اندھے ہیں۔ یعنی عورتوں مردوں میں بطور انسان فرق نہیں کرتے۔ مرد بھی انسان، عورتیں بھی انسان، پھر کیسا فرق؟ جو فرق ہے، وہ سب مصنوعی ہے، انسانی برابری کی سمت سفر شروع ہو جائے تو کم ہونے لگے گا اور شاید کسی دن ختم بھی ہو جائے۔
باقی جو بطور انسان جو خوبیاں مردوں میں پائی جاتی ہیں، وہ خواتین میں بھی پائی جاتی ہیں۔ برائیوں کا بھی یہی کچھ ہے۔ ہمارے یہاں صنفی امتیازات ہیں جن کی وجہ سے مردوں کے پاس عمومی طور پر دولت اور طاقت زیادہ ہے۔ اور کاملیت پرستی کی مقبولیت کی وجہ سے طاقت اور دولت کے غیر قانونی، غیر اخلاقی اور غیر انسانی استعمال کا رجحان زیادہ ہے اور مرد خواتین کی نسبت زیادہ طاقت اور دولت کا غلط استعمال کرتے ہیں لیکن خواتین بھی طاقت اور دولت کا غلط استعمال کرتی ہیں۔ ظاہر ہے ساری خواتین طاقت اور دولت کا غلط استعمال نہیں کرتیں، اسی طرح سارے مرد بھی طاقت اور دولت کا غلط استعمال نہیں کرتے۔
آئینی اور جمہوری برابری سے طاقت اور دولت کے غلط استعمال میں کمی آ جاتی ہے اور یہ ہر قسم کے انسانوں کے لیے ہے۔ اب کسی خاتون کے پاس وہ طاقت آ جائے جس کا احتساب نہ کیا جا سکے تو اس کے بد عنوان ہونے کے اتنے ہی امکانات ہیں جتنے کسی مرد کے۔
طاقت اور دولت کے ساتھ ایک غیر ذمہ دارانہ رشتہ مرد بھی قائم کر سکتے ہیں اور خواتین بھی۔ یہی ذمہ داری کا بھی ہے۔
خواتین صلاحیتوں کے حوالے سے مردوں سے کسی طرح کم تر نہیں ہیں ۔مرد بھی خواتین سے کم تر نہیں ہیں۔
زندگی کے ہر شعبے میں خواتین بھی موجود ہیں، کھلاڑی، فلسفی، سائنس دان، سیاست دان، صحافی، ڈاکٹر۔ تعداد میں کمی بیشی کا تعلق معاشرتی عدم انصاف سے ہے۔ اگر معاشرے میں انصاف کا معیار بہتر ہوجائے تو تعداد بھی بڑھ جائے گی۔ اور خواتین کی تعداد زیادہ ہونی چاہیے اور جہاں مردوں کی تعداد کم ہے، ان شعبوں میں مردوں کی تعداد بڑھنی چاہیے۔
باقی جہاں تک سلوگنز کا تعلق ہے، جائز شکایات ہیں۔ لیکن اس قسم کی شکایات مردوں کو بھی ہو سکتی ہیں۔ یہ ساری انسانی شکایات ہیں اورمردوں کے ساتھ بد سلوکی کو اس لیے نظر انداز کرنا کہ وہ استعماری اور سامراجی ہیں انسانی مساوات کے لیے ضرر رساں ہے۔ انسانی برابری کا تدارک انسانی برابری کے خاتمے سے تو نہیں ہو سکتا۔
عورت، عورت کے مسائل زیادہ سمجھتی ہے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ ایک کھانچا تو ہے نہیں جس میں ساری عورتیں فٹ ہو جائیں۔ مسائل کی تفہیم کا صنف سے کیا تعلق؟ ایسے مرد بھی ہیں جو خواتین کے مسائل بہت ساری خواتین سے زیادہ سمجھتے ہیں اور ایسی خواتین بھی ہیں جو مردوں کے مسائل بہت سارے مردوں سے زیادہ سمجھتی ہیں۔
باقی معاشرے کی بنیاد ہی ظلم پر ہو تو انسانوں کی اکثریت ظالم بھی ہوتی ہے مظلوم بھی۔ بہت کم لوگ ہوتے ہیں، جو ظلم کا بدلہ ظلم سے نہیں دیتے۔لیکن جو جتنا زیادہ اچھا ہوتا ہے، اتنا ہی بدنام۔
اور ظلم کی ان بنیادوں کو چیلنج کرنے حوصلہ بہت کم لوگوں میں ہوتا ہے۔ ان چند لوگوں میں خواتین بھی مل جاتی ہیں، مرد بھی۔
اور ایک بھاری اکثریت اس ظلم کو نیکی سمجھنے کا کھیل کرتی ہے، اس اکثریت میں بھی مرد بھی شامل ہوتے ہیں اور خواتین بھی۔
ایسے معاشرے سب لوگوں کو ظلم کرنے کا حصہ فراہم کرتے ہیں۔ اس تقسیم کے نتیجے میں خواتین زیادہ ظلم سہتی ہیں، مگر کرتی بھی ہیں۔
بنیادی مسئلہ تو ظلم کی ان بنیادوں کو چیلنج کرنا ہے جو خواتین و حضرات نے مل کر کرنا ہے۔ اب یہ جھگڑا شروع ہو جائے کہ کائناتی اعتبا ر سے کون سی صنف بہتر ہے تو چیلنج نہیں ہو سکے گا۔
سوشل میڈیا پر یہ ناپاک یہودی اور ذلیل رومن جیسی گفتگو بس اسی بات کی عکاسی کرتی ہے کہ نظریاتی اور ثقافتی کاملیت پرستی کی وجہ سے ہمارے لوگ انسانی برابری کے ساتھ متفق نہیں ہو پا رہے۔ ہر کسی نے ہر کسی سے کسی ثبوت کے بغیر بہتر ہونا ہے یا کسی ایسی وجہ سے جس کی تصدیق نا ممکن ہے۔