جرنیل شاہی کا منھ زور گھوڑا اور پی ڈی ایم
از، وارث رضا
پاکستان کے موجودہ سرد موسم میں سیاسی حرارت میں تیزی کے اشارے دن بہ دن بڑھنے کے ساتھ ساتھ اپنے ہدف کی تکمیل میں آگے بڑھتے ہوئے نظر آ رہے ہیں؛ جب کہ دوسری جانب بہ ظاہر اسٹیبلشمنٹ کے طاقت ور مُنھ زور گھوڑے کی سَمّت اب تک امکانات اور تجزیوں تک محدود لگتی ہے۔
اس ساری صورت حال میں اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے قائم کی گئی سیاسی جماعتیں اپنے تجربوں اور استعمال سے اس نتیجے پر پہنچ چکی ہیں کہ وہ اب بہت زیادہ عرصے تک اسٹیبلشمنٹ کی ضرورت نہیں رہیں گی، یا مزید ان کے کارکنان ان کی اسٹیبلشمنٹ وفا داری کو برداشت نہیں کریں گے۔ جب کہ ملکی کساد بازاری اور عوام کی خرید سے دور ہوتی مہنگائی میں عوام کا مطالبہ یا توقع سیاسی جماعتوں اور بہ طورِ خاص پی ڈی ایم میں شامل ان جماعتوں، یعنی پی پی اور مسلم لیگ ن سے بنتا جا رہا ہے، جنھوں نے اپنے دورِ اقتدار میں عوام کے حقوق سے زیادہ اسٹیبلشمنٹ کی باتوں کو مانا اور ملکی آئین و جمہوری اصولوں کو مل کر پامال کیا۔
لہٰذا نہ چاہتے ہوئے دورِ جدید کی ٹیکنالوجی اور با خبر سوشل میڈیا سیاسی جماعتوں کو اس بات پر مجبور کر رہا ہے کہ وہ مضبوط کی گئی اسٹیبلشمنٹ کی مزید چاپلوسی یا فرماں برداری سے باز رہیں، وگرنہ سیاسی تربیت سے نا آشنا عوام کا بِپھرا ہجوم کسی بھی لمحے سب کو بہا کر لے جا سکتا ہے اور ملک میں غدر و انارکی کی صورتِ حال کو بعید از قیاس قرار نہیں دیا جا سکتا۔
اس مرحلے پر یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ کسی حد تک کل کی مکمل اسٹیبلشمنٹ نواز سیاسی قوتوں نے عوام کے تیور کی روشنی میں حالات کا بر وقت تجزیہ کیا اور اسٹیبلشمنٹ سے رشتوں کو آئینی دائرۂِ کار میں لانے کا فیصلہ کیا۔
اب ماضی کی جملہ پارٹیاں یہ ہدف حاصل نہ بھی کریں تو کم از کم مسلم لیگ ن نے بہت جرأت سے اسٹیبلشمنٹ کے عوام دشمن کردار کو واضح کیا ہے جس کا کم سے کم فائدہ عوام میں اسٹیبلشمنٹ کے غیر آئینی کردار اور موجودہ سلیکٹیڈ حکومت کو سمجھنے میں ملی ہے اور نتیجے کے طور پر عوام مستقبل میں اسٹیبلشمنٹ کی مُنھ زوری کو قبول کرنے کے کسی بھی موڈ میں دکھائی نہیں دیتے۔
اس پوری دل چسپ صورت حال میں پی ڈی ایم کی موجودہ حرکی سیاست نے بہت دانائی سے پی پی کی موروثی اسٹبلشمنٹ دوستی اور قربت کو بے نقاب کرتے ہوئے اپنی صفوں میں باندھ کر رکھا ہے جو خود پیپلز پارٹی کے لیے ایک کڑا اور مشکل امتحان ہے۔
جب ہم دوسری جانب دیکھتے ہیں تو یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اسٹیبلشمنٹ بھی سیاست کو اپنے حق میں استعمال کر کے ایک قابض گروپ کی شکل اختیار کر چکی ہے، جو اپنے قبضے اور کاروبار کو قومی سلامتی کے نقاب میں رکھ کر عوام میں ملکی دفاع کا راگ دینے اور عوام سے ان کے بنیادی آئینی و جمہوری حق کو بہ زورِ بندوق چھیننے میں کسی طور پیچھے نہیں رہی ہے۔ موجودہ سلیکٹیڈ کہی جانے والی حکومت میں اسٹیبلشمنٹ اپنے قبضوں اور اپنی طاقت کو سِول اداروں تک مزید وسیع کرنے جُتی ہوئی ہے جو کہ کسی طور ایک آئینی اور جمہوری ملک و عوام کے لیے قابلِ قبول عمل نہیں کہا جا سکتا۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا مُنھ زور اسٹیبلشمنٹ اور ماضی میں اس کے زیرِ اثر رہنے والی پی ڈی ایم کی سیاسی جماعتیں واقعی اسٹیبلشمنٹ سے آئین و قانون کے تحت رابطوں میں رہیں گی؟ یا پھر دیگر ملکی تحریکوں کے انجام بعد اسٹیبلشمنٹ کا مضبوط کنٹرول سیاست و آئین کی پامالی پر پہلے کی طرح ڈھکے چھپے انداز میں صرف ہوتا رہے گا؟ یا کہ پی ڈی ایم عوام کی خواہشات سے قریب تر ن لیگ کے بیانیے پر مکمل کاربند رہ کر اسٹیبلشمنٹ کے بے قابو گھوڑے سے آئین و قانون کی عمل داری کروانے میں کام یاب ہو جائیں گی…؟ یا اسٹبلشمنٹ کا منھ زور گھوڑا عوام کے آئینی اور جمہوری حقوق پر ہِنہَناتا رہے گا اور عوام و قانون پسند افراد صرف منھ تکتے رہ جائیں گے…؟
مذکورہ سنجیدہ سوالات کے ساتھ پی ڈی ایم تحریک کے نتیجے میں سب سے بڑا مَثبت پہلو، پہلی مرتبہ عوامی سطح پر اسٹیبلشمنٹ کی بے تحاشا جائیداد کاری اور اربوں روپے کمانے کے حقائق بے نقاب ہونا اور ان پر سوشل میڈیا پر بغیر خوف عوام کے بے لاگ تبصرے اور بات کرنا ہے، جو کہ عوام سے قومی سلامتی کے نقاب میں اب تک پوشیدہ رہے تھے یا جن کا اس طرح بر ملا اظہار نہیں کیا جاتا تھا۔
عوام کی جانب سے اسٹیبلشمنٹ کے منفی کردار اور سیاست میں دخل اندازی کے خلاف رجحان جہاں پی ڈی ایم کی تحریک کے لیے نیک شگون ہے وہیں پی ڈی ایم کی عوام دوست حکمتِ عملی اپنانے کی طرف مَثبت عوامی اشارہ بھی ہے۔
اس دوران اسٹیبلشمنٹ کی کوشش ہے اور رہے گی کہ عوام اس کے خلاف اپنے غم و غصہ کا اظہار سوشل میڈیا پر کرتے رہیں اور کسی بھی طرح عوام کا یہ غصہ اسٹیبلشمنٹ یا موجودہ سلیکٹیڈ حکومت کے خلاف سڑکوں پر نہ آنے پائے۔
اس اہم نکتے کی موجودگی میں پی ڈی ایم کی قیادت کے لیے تحریک کے ساتھ عوام کو جوڑے رکھنے کا ٹھوس لائحۂِ عمل طے کرنا پڑے گا، جس میں سماج کے تمام بے چین اور متحرک طلبہ، اساتذہ، ڈاکٹرز، مزدور، وُکَلاء، خواتین، گُم شدہ افراد کے لواحقین، صحافتی افراد کو نہ صرف ملانا ہو گا، بل کہ ان کی عملی شرکت کو بھی یقینی بنانا ہو گا۔
دوسری جانب سماج میں اثر و رسوخ رکھنے والی وسیع ذہن اور ترقی پسند جماعتوں کو اپنی صفوں میں لا کر انھیں پی ڈی ایم کا حصہ بنانا ہو گا، وگرنہ اسٹیبلشمنٹ کا بے قابو گھوڑا اور اس کے میڈیائی فرماں بردار اینکرز منفی دلیلوں سے سماج کے عام فرد میں مایوسی پھیلانے کا سبب ہوں گے، جس کو لگام دینا بھی پی ڈی ایم کی حکمتِ عملی کا حصہ ہونا چاہیے۔
اسی طرح اسٹیبلشمنٹ کے قائم کردہ ادارے”نیب” کی کارکردگی مسلسل عدالتی اور عوامی سطح پر سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے، جب کہ پی ڈی ایم کی جملہ پروپیگنڈہ کم زوری نیب میں ریٹائرڈ فوجی افسروں کی تعیناتی کے ساتھ نوازشریف کی لندن گھروں کے کیس میں ملکی خزانے سے 4 ارب سے زائد رقم برطانوی حکومت کو بہ طورِ جرمانہ دینے کی رہی ہے، جس کو عوامی سطح پر مسلسل اجاگر کرنا بھی پی ڈی ایم جماعتوں کا فرض ہے۔
نیب اور اربوں روپے کے اسٹیبلشمنٹ پسندیدہ افراد کے غیر احتسابی عمل سے ثابت ہوتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کا سیاست میں عملی طور سے کردار موجود ہے جس سے اسٹیبلشمنٹ فی الحال الگ ہونے پر تیار نظر نہیں آتی۔
اس ساری صورتِ حال میں امکانی نتیجہ یہی نظر آ رہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ملکی خزانے پر بوجھ بننے کے حقائق سے ہٹ کر سیاست میں اپنے مضبوط کردار کو مرحلہ وار ختم کرنے کی پہلی گارنٹی کے طور پر اپنے قابض اثاثوں کے تحفظ اپنے وفا داروں کو احتساب سے بچانے اور عوامی اداروں میں اسٹیبلشمنٹ کے کارندوں کی خرد برد کو آئینی تحفظ دینے کی شرط رکھنے میں نظر آتی ہے، اور یہی “گرینڈ مذاکرات” کا اہم ایجنڈا ہے جس کو پی ڈی ایم اب تک ماننے کو تیار نہیں۔
مگر پی ڈی ایم ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی بے روزگاری اور ملکی اثاثوں کی فروخت کو بھی اپنا اہم نکتہ بنانے میں اب تک وہ عوامی پذیرائی نہیں لے سکی ہے جو کہ پی ڈی ایم کی تحریک کا بنیادی اثاثہ ثابت ہو سکتی ہے۔ ان پیچیدہ حالات میں پی ڈی ایم اگر اسٹیبلشمنٹ کو مذکورہ رعایتیں دینے پر آمادہ ہو جاتی ہے تو سوال پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں پر عوام کے اعتماد اور بھروسے کے اٹھنے کا ہو گا جس کا متحمل ملک کا سیاسی نظام نہیں ہو سکتا۔
عوامی مسائل کے مذکورہ نکات پر ہی پی ڈی ایم کی تحریک مؤثّر ہو گی، وگرنہ مستقبل میں پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کی سیاست دفن ہونے کے امکانات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
اس مشکل مرحلے پر پی ڈی ایم کے لیے اپنی عوامی ساکھ برقرار رکھنا اور اسٹیبلشمنٹ کے بے لگام گھوڑے کو آئینی رسی سے باندھنا نا ممکن نہیں، تو مشکل ضرور ہے۔