گم ہونا
امر جلیل
ہم سب کبھی نہ کبھی گم ہوجاتے ہیں۔آپ اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے۔ سوچیے۔ غور کیجیے۔ کیا آپ کبھی بھی گم نہیں ہوجاتے؟ یہ ممکن نہیں ہے۔ آپ بھی میری طرح اکثر گم ہوجاتے ہونگے۔ بلکہ میری طرح آپ بھی گم ہوتے رہتے ہونگے۔ یہ انسان کی فطرت میں شامل ہے۔ میں کچھ گڈمڈ کرنا نہیں چاہتا۔ آپ کو ذہنی الجھن میں ڈالنا نہیں چاہتا۔ لفظ گم سن کر لوگ گھبراجاتے ہیں۔ حالات نے اس لفظ کی صورت بگاڑ کر رکھ دی ہے۔ گم ہو جانے یا گم کردیے جانے سے میری مراد وہ گم ہوجانا نہیں ہے جو آج کل مروج ہے۔
آپ گھر سے دفتر جاتے ہوئے گم ہوجاتے ہیں۔ دفتر سے گھر آتے ہوئے گم ہو جاتے ہیں۔ آپ اسپتال میں اپنے زخموں کی مرہم پٹی کرواتے ہوئے غائب ہوجاتے ہیں۔ ایک صاحب نہانے کے لیے باتھ روم گئے۔ وہ پھر کبھی باتھ روم سے باہر نہیں آئے۔ وہ باتھ روم سے گم ہوگئے تھے۔ ان کی بیوی مرتے دم تک باتھ روم میں مرے ہوئے کاکروچ کو اپنا شوہر سمجھتی تھی۔ گم ہوجانے کی ایسی وارداتوں میں ایک عدد غیبی ہاتھ کارفرما ہوتاہے۔
عبدالجبار جپانی کو آپ نہیں جانتے۔ عبدالجبار جپانی کو میں جانتا ہوں۔ وہ ایک رات گم ہوگیا۔ اس رات عبدالجبار جپانی نے اپنے آفس کی کولیگ افشاں فرضی کے ساتھ ایک چائنیز ریسٹورنٹ میں کھانا کھایا تھا اور ہندی میں ڈب کی ہوئی مدراسی فلم محبت مت کرنا کا آخری شو دیکھا تھا۔ اس کے بعد وہ گم ہو گیا تھا۔ میرے سراغ رسانوں نے مجھے بتایا تھا کہ عبدالجبار جپانی کے گم ہونے کے پیچھے عبدالجبار جپانی کی دوسری بیوی کا ہاتھ تھا۔ پہلی بیوی کا ہاتھ اس لیے نہیں تھا کہ دوسری بیوی نے عبدالجبار جپانی کی پہلی بیوی کے دونوں ہاتھ مفلوج کردیے تھے۔
آج کی کتھا میں مروجہ گم ہونے کی وارداتوں کاذکر کرنانہیں ہے۔آج ہم دوسری طرح کے گم ہونے کی باتیں کریں گے۔تاریخ میں ایک نہیں انیک مثالیں موجود ہیں۔شہر کے شہر گم ہوجاتے ہیں۔ملک غائب ہوجاتے ہیں۔پہاڑ غائب ہوجاتے ہیں۔ ندیاں نالے غائب ہوجاتے ہیں۔ جنگل غائب ہوجاتے ہیں۔جانور اور پرندے غائب ہوجاتے ہیں۔آج ہم کراچی کے حوالے سے گم ہونے کے ماجرے کو سمجھنے کی کوشش کریں گے۔یہ سنی سنائی باتیں نہیں ہیں۔
میں اسی 80 برس سے کراچی میں رہتاہوں۔ یہ ماجرے دیکھے بھالے ہیں۔ کراچی کی خوبصورت اور دیدہ زیب عمارتوں کی خستہ حالی اور بدحالی کاذکر نہیں کریں گے۔عمارتوں کی شکل ہم آدمی بگاڑتے ہیں۔خوبصورت عمارتیں شہر کی شناخت ہوتی ہیں۔ آدمیوں نے کراچی سے اس کی شناخت چھین لی ہےبلکہ کراچی کو اپنی شناخت سے محروم کردیا ہے۔کراچی میں کئی عمارتیں ایسی تھیں جن میں Clock گھڑی لگی ہوئی ہوتی تھی۔ کیاہوا ان گھڑیوں کا؟کیا حال ہے ان عمارتوں کا؟ کراچی فلیٹوں کا شہر ہوتاتھا۔ صدر، بندر روڈ، فریئر روڈ، برنس روڈ اور پریڈی اسٹریٹ پر عالیشان فلیٹوں والی عمارتیں ہوتی تھیں۔بالکونیاں پھولوں سے سجائی ہوئی ہوتی تھیں۔بالکونیوں سے برمنگھم کی بنی ہوئی لوہے کی گرلیں نکال کر بیچ دی گئیں۔
رنج اپنی جگہ، ان مخدوش عمارتوں اور ٹوٹی پھوٹی بالکونیوں کو دیکھ کر شرمندگی محسوس ہوتی ہے۔کیاہم ایسے خوبصورت فلیٹوں میں رہنے کے قابل نہیں تھے؟ کراچی کی ایک بے انتہا خوبصورت عمارت ڈی جے سائنس کالج کی حالت زار آپ نے دیکھی ہے؟ یہ ہماری اپنی کارستانیاں ہیں۔ٹرام کراچی کی شناخت تھی۔پورے شہر میں ٹرام کی پٹریاں بچھی ہوئی ہوتی تھیں۔آپ ٹرام میں بیٹھ کر شہر کے کسی بھی حصے میں جاسکتے تھے۔ہم نے کراچی کو اپنی ایک شناخت ٹرام سے محروم کردیا۔ ہم اس شہر کے لائق نہیں تھے۔ ہم نے ہنستے بستے،بنے ٹھنے شہر کو اجاڑ کررکھ دیا!
اجڑی ہوئی اور خستہ حال عمارتوں کی بہت لمبی فہرست ہے۔ویران باغ باغیچوں کی لمبی فہرست ہے۔گم ہوجانے والے کھیل کے میدانوں کی لمبی فہرست ہے۔غائب ہوجانے والے سینماؤں کی بھی لمبی فہرست ہے۔میں آپ سے گم ہوجانے والے دوسرے قسم کے ماجروں کاذکرکرناچاہتا ہوں۔ اگر میں عمارتوں کے گم ہوجانے کاذکر لے بیٹھتا تو پھرلامحالہ مندروں کاذکر آتا، گوردواروں کاذکر آتا، کلیساؤں کاذکر آتا، بات کا بتنگڑ بن سکتا تھا۔ اس لیے میں نے اشارتاً کراچی کی خوبصورت عمارتوں کا ذکر کیا ہے۔
کراچی کے ایک منجھے ہوئے اور ذہین صحافی پیرزادہ سلمان نے Stone Age کے نام سے اور خوبصورت تصویروں سے آویزاں ایک کتاب لکھی ہے۔اس کتاب میں کراچی کی عمارتوں کی کتھائیں ہیں۔کتاب دیکھتے ہوئے اور پڑھتے ہوئے آپ کراچی کے درخشاں ماضی کی سیرکرتے ہیں۔مستند تاریخ ہے۔
بولٹن مارکیٹ سے بندر روڈ ایکسٹینشن تک،بندر روڈ کے دونوں طرف تین چار قسم کے درخت لگے ہوئے ہوتے تھے۔ بندر روڈ کا نام بدل کر ایم اے جناح روڈ رکھ دیاگیاہے۔آپ جب بھی فٹ پاتھ سے گزرتے تھے تب ان درختوں کی چھاؤں تلے گزرتے تھے۔ تھوڑے فاصلے پر بنچ رکھے ہوتے تھے۔آپ وہاں بیٹھ سکتے تھے۔سستا سکتے تھے۔حالات کے تھپیڑوں میں بہت سی شناختوں کے ساتھ کراچی کے فٹ پاتھوں سے نیم، پیپل، برگد اور بادام کے درخت غائب ہونے لگے۔
بادام کے درخت لمبے ہوتے تھے اور ان کے چوڑے پتے ہوتے تھے اور روایتی بادام کے درختوں سے مختلف ہوتے تھے۔ان میں خوبانی سے ذرا بڑے سرخ پھل لگتے تھے۔ ذائقے میں کھٹے میٹھے ہوتے تھے۔ پھل کھانے کے بعد اندر سے گٹھلی نکلتی تھی۔ توڑیں تو گٹھلی کے اندر سے بادام کی چھوٹی سی گری نکلتی تھی۔ موسم بہار میں سرخ پھل ٹہنیوں سے ٹوٹ کر فٹ پاتھ پر گرتے تھے اور فٹ پاتھ کو سرخی مائل کرتے تھے۔ اب گنتی کے چند درخت آپ کو کراچی کے چڑیاگھر میں نظرآئیں گے۔ چڑیاگھر Zoo کا اصلی نام گاندھی گارڈن تھا۔
نیم، پیپل اور برگد کے پیڑ غائب ہوگئے۔ ان کے ساتھ ساتھ گلہریاں غائب ہوگئیں۔ اٹھاکر لے جانے والے فٹ پاتھوں سے بنچ اکھاڑ کر لے گئے۔جو بنچ بچ گئے وہ توڑنے والوں نے توڑدیے۔ فٹ پاتھیں ٹوٹ پھوٹ کاشکار ہوگئیں۔محروم کرنے والوں نے کراچی کو اس کی کئی ایک شناختوں سے محروم کردیا۔
میری نسل کے چند لوگ پرانے شہر کراچی میں رہ گئے ہیں۔ ہم یادوں کے کھنڈروں میں بھٹکتے رہتے ہیں۔
بشکریہ: روزنامہ جنگ