غیر حقیقی تھیوری
ڈاکٹر عائشہ صدیقہ
جب کوئی پاکستانی شہری عمرانی اورسماجی علوم پر ہونے والی کانفرنسوں میں شرکت کرتا ہے تو اُسے یہ سبق ضرور حاصل ہوتا ہے کہ ہمارے ملک میں تھیوریٹیکل لٹریچر پر کوئی کام نہیں ہو رہا۔ در اصل ٹھوس شہادت، موازنے اور جانچ پرکھ کر حاصل کردہ سنجیدہ تصورات کو ٹیکسال کرکے تھیوری تخلیق کی جاتی ہے۔ لیکن اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کیونکہ پالیسی ساز اکثر علمی فکر اور تھیوری کی تخلیق کو غیر اہم سمجھتے ہوئے نظر انداز کر دیتے ہیں۔
درحقیقت ”بابولوگ‘‘ یا اس طرح کی ذہنیت رکھنے والے دیگر افراد آپ کو یاد دلائیں گے کہ ایک پروفیسر ہونا کوئی قابل ِ فخر کامیابی نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آپ بہت کچھ نہیں جانتے۔ ایسا نہیں کہ ہم تھیوریاں تخلیق نہیں کرتے، ہم ضرور کرتے ہیں، لیکن ہم اُنہیں دستاویزی شکل نہیں دے پاتے۔ اس کی بہترین مثال سیاسی حقیقت پسندی کی مثبت تھیوری میں کی جانے والی تبدیلیاں ہیں۔ یہ فریم ورک ریاست کی طاقت کے گرد گھومتا ہے۔ بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ریاست خود مختار ہے اور اس کے حقیقی ایکٹرز، جن کی میں بات کر رہی ہوں، فوجی طاقت کے ذریعے زیادہ سے زیادہ اختیار حاصل کرتے ہیں، لہٰذا اس کے نتیجے میں ریاستوں کے درمیان عسکری مسابقت پیدا ہوتی ہے۔
کئی صدیوں سے ریاستوں نے یہ سیکھ لیا ہے کہ وہ نہ صرف آزادانہ طور پر اپنی طاقت میں اضافہ کریں بلکہ ایک دوسرے کا سہارا لے کر خود کو مزید طاقت ور بنائیں۔ حقیقت پسندانہ نمونہ جو کہ سیاست اور عالمی تعلقات کی قدیم ترین تھیوریز میں سے ایک ہے، کئی ایک تاریخی فارمولوں کا احاطہ کرتا ہے۔ ان میں مغربی فلاحی ریاست کا فارمولہ اور یہ ادراک بھی شامل ہے کہ عالمی سیاسی نظام مساوات کی بنیا پر قائم نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ حقیقت پسند عناصرنہ صرف تشدد اور محاذآرائی، بلکہ ایک دوسرے کا سہارا بن کر بھی اپنے قومی مفادات کو تحفظ دیتے ہیں۔ یہ تفہیم نئی حقیقت پسندی کا ایک حصہ ہے۔
پاکستان اجتماعیت کو نظر انداز کرتے ہوئے ایسی پالیسیوں پر گامزن ہے جو مثبت یا تعمیری طرز عمل کے دائرے میں نہیں آتیں۔ یہ مثبت طرزِعمل اُن تھیوریز کی بنیاد پر ہے جن کا فوکس ریاست کی طاقت کے سماجی ڈھانچے اوررویے پر ہوتا ہے۔ چنانچہ ریاست کی شناخت، خطرے کا ادراک اور تاریخی تجربات اپنی جگہ پر اہمیت رکھتے ہیں؛ تاہم اس کے لیے ہم جو بھی طریقِ کار اپنالیں، ریاستوں کو ہی ایک حقیقت تسلیم کیا جاتا ہے اور وہ اپنے اہداف حاصل کرنے کے ذرائع رکھتی ہیں۔
اکثر دہرائی گئی اس لائن کا اور کیا مطلب ہے: ”ریاستوں کے مفادات مستقل ہوتے ہیں، دوست یا دشمن نہیں‘‘ اس لیے کہ مفادات کے حصول کے لیے کسی بھی وقت ایسے آپشنز استعمال کیے جاسکتے ہیں جنہیں کسی اور وقت مسترد کیا جاسکتا ہے۔ گویا مقصد کا حصول اصل ہدف ہے، آپشنز اور ذرائع ضمنی حیثیت رکھتے ہیں۔ چنانچہ وضع کی گئی پالیسیوں میں مستقل طور پر ردوبدل ہوتا رہتا ہے۔ مزید یہ کہ پالیسیوں، نہ کہ تعلقات کو عملی ہونا چاہیے۔
جہاں تک پا کستان کا تعلق ہے، ہمیں ایک خطرے کا احساس دلا کر شکار کیا جا رہا ہے۔ اس خطرے اور درپیش چیلنج کا شدید احساس ہمیں شناخت کے مسئلے کو ابھار کر دلایا جاتا ہے۔ اس کے باوجود یہ احساس ہماری خودمختاری کے احساس کا جواز پیش نہیں کرتا کہ ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا ہے۔ ہم یہ فرض کرتے ہیں کہ خود مختاری طاقت اور باہمی تعلقات کی بجائے ایک مستقل عامل کے طور پر کارفرما ہے۔ اس کا یہ بھی مطلب ہے کہ ریاست کے مفادات کو مد ِنظر رکھتے ہوئے صورت ِحال میں کوئی ترمیم یا تبدیلی نہیں ہوگی۔ چنانچہ جب ڈرون ہماری فضائی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہیں تو ہمیں سخت صدمہ پہنچتا ہے۔ یہ بات بھی ناقابل ِفہم لگتی ہے کہ فوجی طاقت، خاص طورپر ایٹمی ہتھیاروں کے باوجود کوئی ہماری خود مختاری کو کیسے پامال کرسکتا ہے۔ بات یہ ہے کہ ایسی خود مختاری کا تصور ذہن میں لاتے ہوئے ہم غالباً بھول جاتے ہیں کہ فوجی طاقت کا استعمال اور وہ بھی اتنے بڑے پیمانے پر جو دوسروںکے مفادات کو خطرے میں ڈال دے کا فیصلہ یک طرفہ طور پر نہیں کیا جاسکتا۔ چنانچہ دیگر ریاستیں جو زیادہ طاقت رکھتی ہیں، وہ کسی اور ریاست کی خود مختاری یا فوجی طاقت کو چیلنج کرسکتی ہیں۔
اگر ہم اس تصورکو سمجھتے ہیں تو اس بات کا ادراک کرنا زیادہ مشکل نہ ہوگا کہ چاہے ہمیں چین کی طرف سے کتنی ہی تزویراتی حمایت کیوں نہ مل جائے، ڈرون حملے جاری رہیںگے چونکہ چین اس خطے میں اپنے معاشی اور عسکری نیٹ ورک کو توسیع دینے کی پالیسی پر گامزن ہے اور اسے یہاں استحکام کی ضرورت ہے۔ اُسے بھی اُن غیر ریاستی عناصر کے ساتھ مسائل ہوسکتے ہیں جنہیں امریکہ ہدف بنا رہا ہے، جیسا کہ بیت اﷲ محسود، حکیم اﷲ محسود، اسامہ بن لادن اور ملاّ منصور۔ ایسا لگتا ہے کہ ہمارے تخیل میں آزادی کی بجائے خود مختاری کے تصورکی زیادہ کارفرمائی ہے۔ مزید یہ کہ ہم اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ آزادی کو دوسروں کے سہارے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس لیے یہ بات حیران کن نہیں کہ ہم اصرارکرتے ہیں کہ ہمیں اپنی سر زمین سے افغانوں کو نکال دینا چاہیے کیونکہ ہم محسوس کرنا شروع ہوگئے ہیں کہ ان کی موجودگی ہماری علاقائی سالمیت کے لیے خطرہ ہے۔
افغان مہاجرین پر دباؤ ڈالنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہم کابل سے ناخوش ہیں کیونکہ وہ اپنی آزادی کا اظہار کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس پر کوئی سوال اٹھانے کی ضرورت محسوس نہیں کررہا کہ ہم خود 1980ء کی دہائی سے ان مہاجرین کے ذریعے امریکہ کے ساتھ تزویراتی تعلقات استوار رکھنے کی کوشش میں رہے ہیں۔ ایران، جس نے اپنے ہاں آنے والے افغان مہاجرین کو کیمپوں تک محدود رکھا اور آبادی کے ساتھ ملنے سے روک دیا، کے برعکس جنرل ضیا نے اُنہیں کھلی چھوٹ دے دی کہ وہ جہاں چاہیں جائیں، پاکستانی شہریت اور شناخت حاصل کریں اور ملک میں رہ کر کاروبار اور سرمایہ کاری کریں (اُ س وقت یقیناً اقوام ِمتحدہ کی طرف سے کافی رقم آرہی تھی۔) اب ہم چاہتے ہیںکہ آنے والے مہاجرین کی تیسری نسل جو یہیں پیدا ہوئی اور پروان چڑھی، یہاںسے چلی جائے۔ گویا اسلام آباد نے افغان مہاجرین کو ہمیشہ اپنے مفاد کی عینک سے دیکھا تھا اور یہ مفاد پاکستان کے دفاعی مفادات کے تابع تھا۔
یہاں دو مسائل ہیں: پہلا یہ کہ دوعشروں سے ہمارا اصرار رہا ہے کہ ہم افغان مفادات کا تعین کرتے ہیں اور ہم نے ہی فیصلہ کرنا ہے کہ اُن پر حکومت کون کرے گا۔ اس معروضے کو ہم اپنے ادارے اور قومی مفاد کے عدسے سے دیکھتے اوراس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کرتے کہ کابل پر ”درست قسم کے پشتونوں‘‘ کی حکومت ہو۔ اس قسم کا جائزہ پاکستان کے مختلف گروہوں کے لیے اطمینان بخش نہیں ہوسکتا۔ تو کیا ہم کھیل خراب کرنے، جو آخر کار خود ہمار ے حق میں بھی اچھا نہیں ہوگا، کی بجائے افغانستان کے امن میں کوئی کردار ادا کرسکتے ہیں؟
دوسری بات یہ ہے کہ اگر ہم ان افراد کو انسان تسلیم نہیں کریں گے تو ہم اپنی ہمسایہ ریاست میں اپنے مفادات کا کس طرح خیال رکھیں گے؟ یہ بہت ہی جھول دار سیاسی حقیقت پسندی ہے جو انتہائی غیر منطقی دکھائی دیتی ہے۔ شاید ہم نے حقیقت پسندی سے بھی آگے بڑھ کر ایسا فارمولہ تشکیل دے لیا ہے جس میں ریاستوں کو بنائی گئی پالیسیوں سے فائدہ نہیں پہنچتا اور وہ عالمی تنہائی کو آزادی اور خود مختاری سمجھنے لگتی ہیں۔ یہ دور اجتماعیت اور ساجھے داری کا ہے؛ چنانچہ ہمیں تنہا پرواز کرنے کی بجائے اپنے فارمولے پر غور کرنا ہوگا۔