غالب کے ایک شعر کی معنیاتی تشکیل
معراج رعنا
پال دی مان (۱۹۸۳۔۱۹۱۹)نے لکھا ہے:
“Literary theory may now well have become a legitimate concern of philosophy but it cannot be assimilated to it, either factually or theoretically.”
(The Resistance to Theory, p.8, University of Minnesota Press. 2002)
مان کے مطابق ادبی تھیوری اپنی تمام تر فلسفیانہ استناد سازی کے با وجود (نہ تو حقیقی اور نہ ہی نظری اعتبار سے) فلسفے کو خود میں مدغم نہیں کر سکتی ہے۔ اُس کی اس بات سے اتفاق کرنے کے بعد یہ مشکل آسان ہو جاتی ہے کہ شعر و ادب اور اُس کی معنوی قد و قیمت متعین کرنے میں کوئی ایک فلسفیانہ نظریہ مستند قرار نہیں دیا جا سکتا۔
یعنی یہ کہ کسی شعر یا کسی ادبی متن کی معنوی تشکیل کی دریافت ہر اُس حوالہ جات کی متقاضی بن جاتی ہے جو لفظ اور اُ س کے تناظر سے متعلق ہوتی یاہو سکتی ہے۔ غالب کی شاعری کی تمام خوبیاں اپنی جگہ لیکن اُن کی شاعری کی کثیر المعنویت کا ایک بڑا ذریعہ وہ تناظرہے جس میں لفظ کو جدلیاتی نوعیت بخشی گئی ہے۔ یوں تو غالب کے یہاں ایسے متعدد اشعار موجود ہیں جن کی معنیاتی تشکیل میں تناظرکا تنوع نمایاں ہے لیکن فی الوقت اُن کے مندرجہ ذیل شعر پر کفتگو مقصود ہے:
ثابت ہوا ہے گردنِ مینا پہ خونِ خلق
لرزے ہے موجِ مئے تری رفتار دیکھ کر
شعر کی تین خوبیاں حسبِ ذیل ہیں یا ہو سکتی ہیں:
۱۔ معشوق کے اندازِ قاتلانہ کا بیان
۲۔ ہنگامہ آرائیِ عشاق کی غیر واضح صورتِ حال
۳۔ محاورے اور مناسباتِ الفاظ کا غیر معمولی استعمال
شعر کے پہلے مصرعے میں ایک بیان ہے جو بہ ظاہر سیدھا سادہ معلوم ہوتا ہے۔ سیدھا سادہ اس لیے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں گردنِ مینا پہ خون ثابت ہونے کا محاورہ موجود ہے۔ اور اسی محاورے کے تعلق سے موجِ مئے اور رفتار جیسے متحرک الفاظ دوسرے مصرعے میں رکھے گئے ہیں۔ یہاں متحرک الفاظ سے مراد جامد کی ضد نہیں بلکہ معنوی صفات سے ہے۔شعر کی تشریح دو طرح سے ہو سکتی ہے۔پہلی تشریح یوں ہوگی کہ مئے خانے میں معشوق نے شراب پی، شراب پینے کے بعد نشہ طاری ہوا جس کا نمایاں اثر اُس کی چال پر مرتب ہوا۔
جب مئے خانے سے وہ نکلا تو اُس کی لڑکھڑاتی ہوئی مستانہ چال کو دیکھ کر بہت سے لوگ اُس پر مر مٹے۔ عام قاعدہ ہے کہ قاتل کا مواخذہ ہوتا ہے،جس کے بعد اُسے مناسب سزا دی جاتی ہے۔ لیکن یہاں اس قاعدے کے خلاف یہ بات بیان کی گئی ہے کہ خون تو معشوق کر رہا ہے مگر اُس کا خوف مینا پر طاری ہے کہ مواخذہ اُسی کا ہوگا کیوں کہ اُسی کے سبب معشوق کی چال میں دل فریبی پیدا ہوئی ہے۔
مطلب یہ کہ معشوق شراب پیتا نہ اُس پر نشہ طاری ہوتا اور نہ ہی اُس کی چال میں لڑکھڑاہٹ پیدا ہوتی اور نہ ہی اُس کی مستانہ چال پر لوگ فدا ہوتے۔یہی سوچ سوچ کر موجِ مئے لرز رہی ہے۔بیش تر شارحینِ غالب جن میں بیخود دہلوی اور یوسف سلیم چشتی بھی شامل ہیں،اسی تشریح پر اکتفا کیا ہے جو اس لحاظ سے بالکل درست ہے کہ شعر کے پیش منظر پر یہی معنی واضح ہیں۔لیکن یہ کہنا کہ شعر کی عظمت پیش منظر پر موجود معنی میں مضمر ہے،کسی طور پر مناسب نہیں۔
شعر کی جب دوسری تشریح کی جاتی ہے تو اول الذکر تشریح سے برآمد ہونے والے تمام معنی پس منظر میں چلے جاتے ہیں اور پیش منظر پر معنی کی ایک نئی دُنیا آباد ہو جاتی ہے۔دوسری تشریح اس طرح ہوگی کہ کیا کبھی گردنِ مینا پہ کسی انسان کا خون ثابت ہو سکا ہے؟ لیکن جب شاعر گردنِ مینا پر خون ثابت کرنا چاہتا ہے جو ایک غیر جاندار شئے ہے،تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ وہ یہ کہنا چاہتا ہے کہ اس(جام) پر خون ثابت ہی نہیں ہوتا۔ اور اس کی دلیل یہ ہے کہ مینا کا تعلق سرخ رنگ سے ہے اور خون بھی سرخ ہوتا ہے۔
یعنی دونوں کی مشترک صفت سرخی ہے۔ لہٰذا ایسی صورت میں دونوں میں امتیاز کرنا مشکل ہے۔ دو چیزوں میں فرق و امتیاز اُسی وقت ممکن ہے جب دونوں کی صفتیں الگ الگ ہوں۔ رات اور دن میں امتیاز کرنا اس لیے آسان ہے کہ دونوں کی صفتیں الگ الگ ہیں۔ لہٰذایہاں خون کا ثابت ہونا تقریبا ناممکن ہے۔ دوسرے مصرعے میں موجِ مئے کے لرزنے کی کیفیت سے صرف اور صرف معشوق کی سر مستی کی انگیزیت مقصود ہے۔
اگر شعر کی قرات کی بنیاد موجِ مئے کو بنایا جائے تو شعر میں یہ معنی پیدا ہوتے ہیں کہ معشوق کے سراپا بلا ہونے سے موجِ مئے اس لیے لرز رہی ہے یعنی خوف زدہ ہے کہ اس (شراب) کی ایک صفت نشہ معشوق میں موجود ہے۔ مطلب یہ کہ معشوق بھی سراپا نشہ ہی ہوتا ہے۔شراب اپنی اسی صفت سے دوسروں کو بد مست کرتی ہے لیکن ہلاک نہیں۔ اس کے برعکس معشوق اپنی اس صفت سے عاشقوں کو بے طرح قتل کر رہا ہے۔
شعر میں یہ معنی بھی پوشیدہ ہیں کہ معشوق شراب پی کر اس قدر خوش گفتار ہو گیا ہے کہ اُس کی خوش گفتاری کے آگے موجِ مئے جیسی بے جان چیز میں بھی حرکت پیدا ہو گئی ہے اور وہ بھی معشوق سے ہم کلام ہونے کے لیے جام کے اندر سر پٹک رہی ہے۔ یعنی بے چین ہو رہی ہے۔ موجِ مئے کی بے چینی کی ایک وجہ یہ ہے کہ شراب کے سبب ہی معشوق اس قدر خوش گفتار ہوا مگر وہ (شراب) اس قابل نہیں کہ اُس سے ہم کلام ہو سکے ۔ یعنی اصل پر نقل کی فضیلت کا ثابت ہونااُس کی پریشانی و بے چینی کا سبب ہے۔
یہی وہ شعری عمل ہے جسے مشہور روسی ہئیت پسند شکلووسکی defamiliarization یعنی نامانوسیت کے نام سے موسوم کرتا ہے۔ شعر میں معنویت کی ایک جہت اور بھی دریافت کی جا سکتی ہے اگر شعر کو تعلیل کے حوالے سے پڑھا جائے۔ شراب جب جام میں انڈیلی جاتی ہے تو اُس میں حرکت کا پیدا ہونا فطری ہے لیکن شاعر اس کی وجہ یہ متعین کرتا ہے کہ اُس میں یہ حرکت معشوق کی خوش گفتاری سے پیدا ہونے والی آواز سے قائم ہے۔
اس مثال سے یہ ثابت ہوا کہ شعر کے پیش منظر میں جو معنی ہوتے ہیں وہ متغیر اور نئے نئے سیاق و سباق کے حامل ہوتے ہیں۔ غالب کے مذکورہ شعر کے جتنے معنی بیان کیے گئے ہیں وہ ایک طے شدہ تناظر میں بیان نہیں ہو سکتے۔ لہٰذا یہ کہنا بر حق ہے کہ معنی کی تشکیل و تقلیب میں تناظر اہم ہوتا ہے۔ نئے تناظر نئے معنی خلق کرتے ہیں جسے قرات کے تفاعل سے دریافت کیا جاتا ہے۔