غم آدھا بڑھاپا ہے، حضرت علی
از، نصیر احمد
قاضی ایک خستہ حال بوڑھا تھا۔ ساری زندگی محنت مشقت میں گذری۔ کبھی کھیتوں میں فصلیں بونے، اگانے اور کاٹنے کی مشقت اور کبھی اونٹوں پر بھٹے سے اینٹیں لادنے کی مشقت۔ صلہ اس کا روکھی سوکھی کھا کر ٹھنڈا پانی پی لیا اور خوشی اس کی یہ تھی کی بچوں کی تابعداری اور خدمت گزاری جس کے نتیجے میں بچے جوان ہوتے گئے، پڑھ لکھ بھی گئے، نوکر چاکر بھی ہو گئے۔ قاضی کے بال سفید ہوتے رہے،دانت گرتے رہے، چہرے پر لکیروں کا جال بنتا گیا۔پھر جیسے ہوتا ہے، بیماریوں نے آن گھیرا۔ پہلے تو دوا دارو ہوتا رہا۔ پھر علاج مہنگا ہو تا گیا۔ اتنا مہنگا کہ اولاد سے علاج کا بوجھ نہیں اٹھا یا گیا۔
کچھ مجبوری اور خود غرضی کا ایسا امتزاج بنا کہ والدین کی خدمت کے سارے درس فراموش ہو گئے۔ پھر بات علاقے کے مخیر حضرات تک پہنچی۔ان سے جتنا بن پڑا انھوں نے مدد کی مگر خیرات حق نہیں ہوتی، اس لیے اس کا دامن بہت محدود ہوتا ہے۔ رشتے ناتے، دوست احباب، سب اپنی مجبوریوں میں گرفتار، آہوں، کراہوں پر کبھی تلملاتے رہے، کبھی افسوس کااظہار کرتے رہے مگر علاج کا کچھ بندوبست نہیں کر سکے۔ اور ایک دن بوڑھا مر گیا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ جنازے پر جو اخراجات آئے وہ اگر علاج پر صرف ہوتے تو شاید کچھ سہارا، آسرامل جاتا۔ کچھ زمین بیچ دی جاتی یا اونٹ فروخت کر دیے جاتے تو درماں ہو جاتا مگر زندگی ظالم بھی بن جاتی ہے اگر آپ کی افادیت متاثر ہو جائے۔
ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ حکومت جس کا وہ شہری ہے، جس کے قیام کا مقصد اس کی فلاح و بہبود ہے، وہ جان سے گذر گیا مگر وہ حکومت کہیں نظر نہیں آئی۔ عمر رسیدہ ہو جائیں تو ماں بھی نہیں ہوتی اور نہ ماں جیسی ریاست جس کے لیے بہت راڑ کیا جاتا ہے اور شور مچایا جاتا ہے۔ایک ایسا وعدہ جو پورا نہیں ہونے میں آتا اور جانیں زیاں ہوتی رہتی ہیں۔
یہ کہانی اور اس کہانی کی بد تر شکلیں پاکستان میں کثرت سے موجود ہیں جس کا حل ہر دوسری زیادتی کی طرح پاکستانی حکومت اور پاکستانی معاشرے نے انکار وتردید کی شکل میں ڈھونڈا ہؤا ہے۔ عمر رسیدہ افراد کی سہولت اور آسانی کا دارومداران کے خاندان کے افراد کی مہربانی اور سعادت مندی پر ہوتا ہے۔مگر غربت ہم دردی، مہربانی، سعادت مندی جیسے لطیف جذبات کا قتل کر دیتی ہے۔ اور اقوام متحدہ کی مختلف جہتی غربت کی درجہ بندی پاکستان کا ۱۵۵ واں نمبر آتا ہے۔ اور جہاں غربت زیادہ ہوتی ہے وہاں زیادتی بھی زیادہ ہوتی ہے خصوصی طور پر ان افراد اور طبقات کے ساتھ جو اپنا معاشی، سماجی اور جسمانی دفاع نہیں کر سکتے۔مگر بات افراد کی اچھائی کی نہیں بلکہ ان کے حق کی ہے اور سہولت اور آسانی صحت سے لیکر معمری کی پنشن تک ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے عمر رسیدہ افراد کا حق ہے۔ اور ان حقوق کا فروغ اور تحفظ حکومتی اور معاشرتی ذمہ داری ہے۔
اقوام متحدہ کی اسی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں مجموعی طور پر افرا د کی متوقع عمر اٹھاون سال ہے۔اس کا مطلب ہے کہ عمر کے حساب سے تو پاکستان میں بڑھاپا آنے سے پہلے ہی لوگ مر جاتے ہیں۔ اور اگر درد و غم، مسائل و مصائب ،خوراک و صحت کے حوالے سے بڑھاپے تو اکثر بڑھاپے کی پیمائش کی جائے تو پاکستان میں بچے بھی بوڑھے ہی ہوتے ہیں۔
مزید دیکھیے: کیا ہمارے بزرگ تنہائی کا شکار ہیں از، رضا علی عابدی
معمر شہری، گٹھڑی حلال بقچہ حرام از، نعیم بیگ
پاکستان میں عمر رسیدہ افراد کو صحت و تحفظ، معاشی صورتحال، معاشرتی زندگی میں شمولیت اور حکومتی عمل میں شرکت کے حوالے سے بہت سارے مسائل درپیش ہیں۔ان مسائل کے حل کے لیے ان کی نمائندہ حکومت متحرک اور فعال نہیں ہے اور ان کے معیار زندگی بہتر بنانے کے لیے مناسب اقدامات بھی نہیں اٹھاتی۔ذاتی خاندان تحفظ فراہم تو کرتا ہے مگر اس تحفظ کا معیار خاندان کے افراد کی مالی حالت، تعلیم و تربیت، جذباتی وابستگی، معاشرتی مقام اور خاندان کے ماضی پر منحصر ہے اور جہاں ذاتی خاندان تحفظ دینے کی بجائے استحصال اور تشدد کا راستہ مختلف وجوہ کی بنا پر اختیار کرتا ہے ،وہاں ان عمر رسیدہ افرا د کی زندگی بہت ہی کٹھن ہو جاتی ہے کیونکہ تلافی کے لیے حکومت بطور ایک ذریعے کے لیے موجود ہی نہیں ہے۔
اور جن عمر رسیدہ افراد کو اپنے خاندان سے تحفظ حاصل نہیں ہے ان کو ان کی بستی کے لوگ بھی تحفظ نہیں فراہم کرتے ہیں بلکہ جو گھر کے افراد ان سے سلوک کرتے ہیں، وہی معاشرے کے دیگر افراد ان کے ساتھ کرتے ہیں۔بوڑھوں کو مذہبی اور ثقافتی اعتبار سے بڑی قدر و منزلت سے دیکھا جاتا ہے مگر قدر و منزلت جب غربت اور نفرت کا سامنا کرتی ہے تو عمر رسیدہ افراد کی مجبوریوں کے دامن میں کہیں گم ہو جاتی ہے اور بے چاروں کے لیے تکلیفیں بڑھتی جاتی ہیں۔
عمر رسیدہ افراد کی صحت کا خیال رکھنا بھی گھر کے افراد کی ذمہ داری سمجھی جاتی ہے اور اس ذمہ داری کی ادائی انحصارمذہبی احکامات اور معاشرتی اقدار سے افراد کی وابستگی پرہے۔اور اگر یہ صورتحال ہو جائے
غنی، روز سیاہ پیر کنعاں را تماشا کن
کہ نور دیدہ اش روشن کند چشم زلیخا را
تو عمر رسیدہ افراد کو صحت کی خرابی کے ساتھ نفسیاتی اذیت سہنا پڑتی ہے۔چونکہ کئی عمر رسیدہ افراد نے بھی اپنی اولاد کے ساتھ یا اور متعلقین کے ساتھ اپنی طاقت کے ایام میں بد سلوکی کی ہوتی ہے،جس کا ان سے ان کی ضعیفی میں انتقام لیا جاتاہے۔غرض اچھا کیا ہو یا برا کیا ہو، پاکستان میں رشتوں میں طاقت حاصل کرنے کے لیے، طاقت استعمال کرنے کے لیے اور طاقت کا اظہار کرنے کے لیے تشدد اور تذلیل کرنا ایک ثقافتی مثالیہ بن گیا ہے اور جہاں تشدد اور تذلیل کی پوجا کی جاتی ہو وہاں جو کمزور پڑ جائے اس کو بہت کچھ سہنا پڑتا ہے۔
عمر رسیدہ افراد کے بھی جب قوی مضمحل ہو جاتے ہیں اور عناصر بے اعتدال ہو جاتے ہیں تو ضعیفی جرم بن جاتا ہے۔اور اس صورتحال کا تدارک کرنے کے لیے حکومت کہیں نہیں مو جود ہے۔بوڑھے لوگوں کے گھر جو یونین کونسل کی سطح پر ہو نے چاہئیں وہ ڈھونڈے نہیں ملتے اور اگر یہ بزرگ امیر بھی ہیں اور اپنا خیال رکھنے کے لیے رقم بھی ادا کرنا چاہتے ہیں مگر ان کو سہولت دستیاب نہیں ہے اور جو غریب ہیں ان کے لیے وہی آموختہ دہرا دیا جاتا ہے کہ مولا بھلی کرے گا۔ ڈاکٹر مریم سرفراز کے مطابق آبادی کی ۷۷فی صد شرح نجی ہسپتالوں سے علاج کے لیے رجوع کرتی ہے اور جو نفرت کا اظہار کھانا نہ پکا کر کے کر تے ہیں وہ کب نجی ہسپتالوں میں علاج کے لیے لے جائیں گے۔عالمی ادارہ صحت کے مطابق عمر رسیدہ افرا د کی پاکستان میں تعدا د آبادی کی ساڑھے ۵ فیصد ہے پاکستانی بجٹ ریویو کے کتابچے میں ان کے نام سے کوئی عنوان بھی نہیں ہے۔
یہاں پاکستان میں حضرت عمر بن خطاب کا بڑا ذکر کیا جاتا ہے۔انھوں نے اپنی مسلم اور غیر مسلم رعایا کے عمر رسیدہ افراد کے لیے ایک وظیفہ مقرر کیا تھا اور اس طرح کے وظائف ترقی یافتہ دنیا میں رائج ہیں جن سے عمر رسیدہ افراد کی زندگی کا معیار کافی بلند ہو گیا ہے۔لیکن جیسے سیٹی بجانے سے بجلی نہیں آتی،ویسے ان کا ذکر کرنے سے عمر رسیدہ افراد کی زندگی بہتر نہیں ہو گی۔پاکستان ویسے بھی شہریوں کی صحت پر کم خرچ کرتا ہے اور ایک اندازے کے مطابق پاکستان اپنے بجٹ کا ۲ فیصد صحت پر خرچ کرتا ہے۔اور اس میں سے اگر عمر رسیدہ افراد کا حصہ اخذ کریں تو زیادتی کی وجوہ سمجھنے میں اتنی دشواری نہیں ہو تی۔معیشت، معاشرت اور سیاست اس وقت تک بہتر نہیں ہوتی جب تک شہری ریاست کی ترجیح نہیں بن جاتا اور پاکستان میں شہری ریاست کی اولین ترجیح نہیں ہے۔
جن عمر رسیدہ شہریوں نے تمام عمر حکومتی ملازموں حکومت کی خدمت کی ہے انھیں بھی پنشن اتنی کم ملتی ہے کہ اس پنشن سے خوراک اور صحت خریدنا نا ممکن سا ہو جاتا ہے۔ ریٹائرڈ فوجی ملازموں کے لیے چیزیں پھر بھی آسان ہیں کہ انھیں مفت علاج کی سہولت حاصل ہے مگر ریٹائرڈ اساتذہ اور دیگر سرکاری ملازموں کو یہ سہولت بھی میسر نہیں ہے۔یعنی جب علاج کی ضرورت زیادہ آن پڑتی ہے، تب ریاست خیال رکھنے کی ذمہ داری سے آزاد ہو کر اپنے ملازموں کو تنہا کر دیتی ہے۔سرکاری ہسپتال مو جود ہیں مگر ڈان
نیوز کی ایک رپورٹ کے مطابق سرجیکل آپریشن کی قیمت ۰۰۰،۱۰ روپے ہے اور اگر پنشن ۷۰۰۰ ماہانہ ہے تو علاج کو تو خیرباد ہی کہنا پڑتا ہے۔ عمر رسیدہ شہریوں کو خوراک یا علاج میں سے ایک چننے پر مجبور کرنے والی حکومت اور معاشرہ فصاحت و بلاغت کے مرغزاروں سے تو لطف اندوز ہو سکتے ہیں مگر اپنے شہریوں کو غربت وفلاکت ،تکلیف و اذیت کے ریگ زاروں سے نجات دلانے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔پھر سرکاری ہسپتالوں میں علاج کی سہولت کے ساتھ جو کھلواڑ کیا جاتا ہے اس کی حالت یہ ہے کہ
خود پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن سے متعلق ڈ اکٹروں سے لیے گئے ایک سروے کے مطابق مریض کی غربت اور ناخواندگی اس کے لیے علاج کی سہولیات بہت کم تر درجے کی بنا دیتی ہیں۔
عمر رسیدہ ہونے کا مطلب ہر گز نہیں ہوتا کہ آپ کی زندگی سے حظ و لطف اٹھانے کی صلاحیت میں کمی واقع ہو گئی ہے۔ دنیا میں بعض جگہوں پرلطف و مسرت کا اصل سفر تو بڑھاپے میں شروع ہوتا ہے۔اچھی صحت، دولت، معاشرے میں عزت اور ایک اہم ووٹر گروہ ہو نے کی وجہ سے بہت آسانیاں ہو جاتی ہیں۔بعض بوڑھے تو کام سے ستر اسی سال کی عمر تک لطف اندوزہوتے رہتے ہیں۔علاوہ ازیں ان جگہوں پر سہولیات کی ہر سطح پر عمر رسیدگی کا خیال رکھا جاتا ہے۔ان ممالک میں عمر کی شرح بھی ۸۰ سال کے قریب قریب ہوتی ہے۔مثال کے طور پر جاپان میں شرح عمر ۸۲ سال، برطانیہ عظیم میں ۸۱ سال اور آسٹریا میں ۸۱ سال ہے۔ اگر ریاستیں اور ان کی حکومتیں اور معاشرے شہریوں کی صحت و خوراک ، تعلیم و تربیت کا خیال رکھنا شروع کر دیں تو ان کے عمر رسیدہ شہریوں کا معیار زندگی بہتر ہو جاتا ہے۔
عمر رسیدہ ہونے کی ضروریات میں خیال رکھنا،صحت و علاج کی سہولیات مہیا ہونا،معاشی امداد، تفریح کے مراکز اور زندگی کے سمندر میں لہروں کی طرح ہمہ وقت ہمہ دم وقت شمولیت و شرکت شامل ہیں۔ در اصل تفریح سے محرومی اچھی صحت سے محرومی ہے اور بڑھا پے میں تفریح کی ضرورت اتنی ہی ضروری ہے جتنی عمر کے کسی اور حصے میں۔پاکستان میں عمر رسیدہ افراد کے لیے اس قسم کے مراکز کی تعداد ان کی آبادی کے لحاظ سے بہت کم ہے۔جہاں صحت اور خوراک کے مسائل حل نہ ہو رہے ہوں وہاں تفریح کی بات عجیب سی عیاشی لگتی ہے مگر تفریح کے بغیر ایک اچھی زندگی کا تصور نا ممکن ہے۔تمام افراد کے لیے جو تفریحی
مراکز قائم ہیں وہاں عمر رسیدہ افراد کے لیے خصوصی رعایتیں فراہم کرنے کا رواج بھی کم ہے۔
قلعہ رہتاس ایک خوبصورت جگہ پر واقع تاریخی مقام ہے۔قلعہ کافی طویل و عریض علاقہ گھیرے میں لیے ہوئے ہے لیکن وہاں گاڑیوں کا، زینوں کا، وہیل چئیروں کا کوئی ایسا نظام نہیں ہے جس سے عمر رسیدہ افراد کو قلعے کی سیر کرنے میں آسانی ہو۔بہاول پور میں لال سوہانرا پارک میں ایسا کوئی سہولیاتی نظام بھی دیکھنے میں نہیں آیا جو عمر رسیدہ افراد اور معذور افراد کو اس جگہ کی سیر سے حاصل ہونے والی خوشی کا معیار بڑھا دے۔
ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کے منصوبہ کار تفریحی مراکز کو ترتیب دیتے وقت عمر رسیدہ افراد کی ضرورتوں کو مد نظر نہیں رکھتے۔پاکستان میں حقوق کو خیرات، مہربانی اور سعادت مندی سے متعلق کر دیا گیا ہے اور ان کو شہری اور قانونی ذمہ داری سے دور کر دیا گیا ہے۔پھر منصوبہ کاروں اور منتظموں کے ذہن میں عمر رسیدہ افراد کی ضروریات ترجیحات نہیں ہیں۔شہریوں کی غربت اور فیصلہ سازوں کی غفلت جوانان سعادتمند کو مجبور کر دیتی ہے کہ وہ پیر دانا کی تذلیل، توہین اور اس پر تشدد کریں اور حکومت سمیت کہیں سے کوئی امداد نہیں آتی۔
معاشی طور پر خوشحالی بھی بڑھاپے میں آسودگی کی ایک بہت اہم وجہ ہے۔جن عمر رسیدہ افراد کے پاس زرو مال،جاگیر و جائداد اور اثر و رسوخ ہو تا ہے، وہ اپنے لیے کافی حد تک آسانیاں پیدا کر لیتے ہیں۔یہ آسودگی جائیداد کے بوڑھوں کے نام پر ہونے اور ان کی تعلیماتی اور کاروباری کاوشوں کے نتیجہ ہوتی ہے۔سید مبشر علی اور فرامرز کیانی کے مطابق ۸۰ فی صد تعلیم یافتہ عمر رسیدہ افراد ملازمتوں میں پائے گئے جن سے انھوں نے اپنی ریسرچ کے سلسلے میں رابطہ کیا اور انھی کے مطابق جوان لوگوں کے مقابلے میں عمر رسیدہ افراد تین یا چار گنا غریب ہوتے ہیں۔
جو عمر رسیدہ افراد غریب ہوتے ہیں ان کے خاندانی آمدنی میں حصے کاٹ دیے جاتے ہیں۔
جائیداد ایک حد تک تحفظ فراہم کرتی ہے مگر پاکستان میں مسئلہ یہ ہے اگر خاندان کے رکن عمر رسیدہ افراد سے بد سلوکی کا فیصلہ کر لیں،تنہا ہونے کی صورت میں اگر نوکر چاکر نفسیاتی دباؤ، تشدد، گالی گلوچ یا کسی قسم کی زیادتی کا فیصلہ کر لیں اور حکومت کے عمر رسیدہ افراد سے کسی قسم کا رابطہ نہ ہونے کی صورت میں ان افراد کو ظلم و ستم اور زیادتی سے نجات دلانے کی کوئی صورت نہیں بن پاتی۔۱۰ اگست کو دنیا نیوز کے مطابق ایک بہونے غربت اور تنگدستی کے دباؤ میں آکر اپنے سسر کو قتل کر دیا ۔اسی اخبار میں ایک بوڑھے زمیندار کی خبر چھپی ہے۔اور ایک عمر رسیدہ فرد کے ملازم کی نقدی چوری کرنے کی خبر بھی چھپی ہے۔ایک پارٹی کے ایک اعلی عہدیدار کی معمر والدہ سے ڈاکوؤں نے نقدی چھین لی۔اس طرح کے واقعات سے اخباریں بھری پڑی رہتی ہیں۔
اردو اخباروں میں خبر میں شامل افراد کی عمریں لکھنے میں غفلت بھی جرائم کی نوعیت سمجھنا دشوار کر دیتی ہے لیکن عمر کے حوالے سے اگر حکومتی سطح پر احساس نہیں ہے تو معاشرے کے دیگر طبقات بھی اس اہم جہت سے غافل ہو جاتے ہیں۔اور جن معمر افراد کے پاس جائیداد نہیں ہوتی اور جن میں خواتین کی تعدا دزیادہ ہوتی ہے جو زمین کے بارے میں پاکستانی قانون سازی اور رسوم و رواج کی ستم رسیدہ ہیں ان کا بڑھاپا ان کے خاندان کے اختیار میں چلا جاتا ہے پھر جیسا چاہیں وہ کریں اور اختیار جس پر کوئی قید نہ ہو ،اور وسائل کی کمی کا شکار ہو اور پھر نتیجہ بے رحمی اور سنگدلی ہی ہوتا ہے۔
پاکستانی قانون کے مطابق بیوہ اپنے شوہر کی جائیدا د کے صرف آٹھویں حصے کی حقدارہے اور اگر اس کے معمر مرحوم شوہر کے پاس کم جائیداد ہو یا نہ ہو تو ایسی بیوہ دوسروں کی مہربانی کی امیدوار ہے۔اور اس طرح کمزور افراد کے ساتھ جو ہوتا ہے منشی پریم چند کی ایک کہانی بن جاتی ہے جس میں لالہ جی کے مرنے کے بعد ان کی پتنی پہلے گھر کی ملکیت سے بے دخل کر دی جاتی ہے، پھر زیورات چھین لیے جاتے ہیں، پھر اسے بیٹوں اور بہووؤں کی چاکر ی کرنی پڑتی ہے اور ایک دن ندی میں باڑھ آتی ہے اور ماتا جی آتم ہتیا کر لیتی ہیں۔یہ سب کچھ ہمارے ارد گرد روزانہ ہوتا ہے مگر ہم بھاشنوں اور نعروں کی گھن گرج میں بوڑھوں کی آہیں اور سسکیاں سن نہیں پاتے۔
عمر رسیدہ ہونے کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ آپ کے پاس تجربات کا ایک جہان ہو تا ہے اور عمر رسیدہ افراد کی کاروبار حیات میں شمولیت نہ صرف ان کی ایک اہم ضرورت ہے بلکہ معاشرے کی فلاح و بہبود کے لیے بھی عمر رسیدہ افراد کی ضرورت ہوتی ہے۔جمہوریتوں کے بڑے رہنماؤں عمر رسیدہ افراد کی بہت بڑی تعداد موجود ہے۔گلیڈسٹون، ڈسرائیلی، لائیڈ جارج،روزویلٹ دوم،گاندھی، ایٹلی۔ عمر رسیدہ ، باراں دیدہ۔ان لوگوں نے اپنے ممالک کے لیے بہت شاندار خدمات ادا کیں۔پاکستان کے سب سے اچھے رہنما ابھی تک قائد اعظم ہی ہیں اور شاید ہمیشہ رہیں گے۔ایک اور معمر فرد۔جب معاشرے تجربات کے اس جہاں سے فائدے اٹھانے کی بجائے یہ جہان ا جاڑنا شروع کر دیتے ہیں تو ان کا مستقبل غربت ، تشدد اور پسماندگی ہی ہوتا ہے۔
پاکستانی حکومت اور معمر افراد۔
قانون سازی۔عمر رسیدہ شہریوں کے عنوان سے پاکستان میں کوئی ایکٹ نہیں پاس کیا گیا ہے۔مسودے اور تجاویز ہیں مگر ابھی تک اس حوالے سے کوئی قانون سازی نہیں کی گئی۔ریٹائر ملازمین کے لیے مراعات برائے معمر ملازمین ایکٹ ۱۹۷۶ کے تعداد پنشز مقرر کر دی گئی ہیں ،کم ازکم پنشن ۳۶۰۰ روپے ہے اور اتنے کم پیسوں سے خوراک اور صحت کا دھیان نا ممکن ہے جب صاف اور صحت بخش پانی کی ایک بوتل ۴۵ روپے کی ملتی ہے۔
عمر رسیدہ افراد کی ضروریات کے مطابق ان کی سہولت کے لیے پاکستان میں کوئی خاص قانون سازی نہیں موجود ہے۔پاکستان میں عمر رسیدہ افراد کی بہبود کے لیے محتلف اداروں کے تحت جو بھی اقدامات کیے جاتے ہیں وہ عمر رسیدہ افراد کی ضروریات اور سہولیات کے لیے سخت ناکافی ہیں۔
نوشین محمود اور ظفر معین کے مطابق معمر افراد کی صرف ۲۰ فیصد تعداد تنخواہ اور وظائف سکیم کا فائدہ اٹھاتی ہے۔
اور جو معمر افراد معیشت کے باقاعدہ اور درج شدہ حصوں کے دائرہ کار سے باہر ہیں وہ ان جیسی سکیموں فائدہ اٹھانے کے اہل نہیں ہیں۔
معاشرت کے حوالے سے بوڑھے لو گوں کے گھر، ان کی تعلیم کے انتظامات، ان کے لیے تفریحی مراکز کی تعداد، سہولیات کی فراہمی میں ان کی ضروریات کا خیال یہ ساری چیزیں پاکستانی معاشرے میں بہت کم یاب ہیں۔بیت المال، بے نظیر انکم سپورٹ اور دیگر کئی سکیمیں موجود ہیں مگر عمر رسیدہ افراد کی بطور ایک سماجی فائدوں کے حوالے سے مسائل کے شکار آبادی کے ایک اہم گروہ کی حیثیت سے ایک علیحدہ پہچان بہت کم ہے۔جس کی وجہ سے ریاست اور معاشرہ ان کے مسائل پر بڑی کم توجہ دیتا ہے۔اگر آبادی کے ایک اہم گروہ کی حیثیت سے ان کی اہمیت کا احساس اجاگر کیا جائے تو معمر افراد کی زندگی میں اے بہتر تبدیلی کی طرف چند اہم اقدامات اٹھائے جا سکتے ہیں۔
چند تجاویز
۱۔پاکستان میں انقلاب کا ہمہ وقت تذکرہ رہتا ہے مگر جس انقلاب کی یہاں سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ تعلیم کی بنیاد پر نفسیاتی انقلاب ہے جس کے نتیجے میں تعلیم منطق ، سائنس اور شہری ذمہ داریوں سے منسلک کی جائے جو جمہوری رویوں اور انسان دوست اعمال کو پروان چڑھائے۔اگر انا پر مبنی تشدد کے ثقافتی مثالیے کو ترک کرتے ہوئے دولت اور طاقت کو شہری ذمہ داریوں کی ادائی سے منسلک کر دیا جائے تو معاشرے کے پسماندہ طبقات کے مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے۔
۲۔معمر افراد کے لیے یونین کونسل کی سطح پر ہیلتھ ورکر مقرر کیے جا سکتے ہیں۔جو گھر گھر جا کر معمر افراد کی صحت و خوراک کا دھیان بھی رکھیں اور گھر کے افراد کو معمر افراد کا خیال رکھنے اور ان کی صحت و خوراک پر توجہ دینے کی معمر افراد اور گھر کے افراد کو تعلیم و تربیت بھی دیں۔
۳۔ یونین کونسل کی سطح پر شہریوں کی ایک ایسی کمیٹی مقرر کی جائے جس کا کام بد سلوکی، نا مناسب رویوں،
معاشی استحصال، سہولیات کی عدم فراہمی کے حوالے سے عمر رسیدہ افراد کی شکایت کا ازالہ کرنے کی سماجی اور قانونی کوششیں کرنا ہو۔
۴۔ ترقی یافتہ دنیا میں معمر افراد کی فلاح و بہبود کے حوالے سے حساس اور مہربان رویوں کی موجودی سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔وہاں کی عوام، حکومتیں، کاروباری اور فلاحی ادارے ان مسائل پر تعاون کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں اور فنڈز کی دستیابی سے لیکر آگاہی اور تعلیم و تربیت تک ایسے ممالک مدد فراہم کر سکتے ہیں۔
۵۔ سرکاری اور غیر سرکاری پنشنز کے علاوہ معمری کے علیحدہ وظائف مقرر کیے جائیں اور پنشنز میں بھی خاطر خواہ اضافہ کیا جائے۔ان اخراجات کی ادائی کے لیے ٹیکس میں اضافہ کیا جاسکتا ہے، سرکاری اخراجات میں بچت کی جا سکتی ہے، عالمی مالیاتی اداروں سے تعاون لیا جا سکتا ہے،ترقی یافتہ ممالک کی مدد لی جا سکتی ہے کیونکہ عمر رسیدہ افراد کی فلاح و بہبود کو اگر ترجیحی بنیادوں پر اگر نہیں لیا جاتا تو ان کے مسائل بھی حل نہیں کیے جا سکتے۔
۶۔ یونین کونسل کی سطح پر معمر افراد کے لیے نوکری کے مواقع پیدا کیے جائیں۔پڑھے لکھے معمر افراد تعلیم اور تربیت کے سلسلے میں آیندہ نسلوں کے لیے بہت مفید ہو سکتے ہیں۔ناخواندہ معمر افراد کے لیے مقامی سکولوں میں تعلیم کی سہولیات فراہم کی جائیں اور زندگی میں انھوں نے جو بھی سیکھا ہے اس کو مقامی اداروں فلاح و بہبود کے لیے استعمال کیا جائے مگر ان سے جو بھی کام لیا جائے اس کا انھیں مناسب معاوضہ دیا جائے۔
۷۔ کاروباری اور صنعتی اداروں کے لیے یہ لازم قرار دیا جائے کو وہ معمر افراد کو نہ صرف نوکریاں دیں بلکہ نئی نوکریاں حاصل کرنے کے لیے معمر افراد کو مناسب تعلیم و تربیت بھی دیں۔
۸۔ خاندانوں کے حوالے سے مقامی سکولوں میں معمر افراد سے سلوک سے متعلق ورکشاپس اور تعلیمی
لیکچرز کا بندوبست کیا جائے۔
۹۔ یونین کونسل کی سطح پر معمر افراد کے لیے تفریحی مراکز بھی ترتیب دے جائیں جہاں ان کو لائبریری اور کھیل کی سہولیات فراہم کی جائیں۔
۱۰۔ نجی ہسپتالوں کو پابند کیا جائے کہ وہ معمر افراد کو علاج پر اخراجات کے سلسلے میں خصوصی رعایتیں دیں۔
علاج کی جو بھی قسم ہو اس پر۱۰ فی صد رعایت دیں ۔اس سلسلے میں حکومت نجی ہسپتالوں سے مسلسل رابطے میں رہیں۔
۱۱۔ حکومت تحصیل کی سطح پر معمر خانے بھی تعمیر کرے جہاں معمر افراد کو صحت وصفائی اور زندگی کی دیگر سہولیات بھی فراہم کی جاتی ہوں جس میں لاوارث، تنہا اور جو بھی عمر رسیدہ فرد جانے کی خواہش کا اظہار کرے،وہ چین سے زندگی گزر بسر کر سکے۔اس کے لیے نجی شعبے اور عالمی انسان دوست اداروں اور ترقی یافتہ ممالک کی امداد اور تعاون لیا جا سکتا ہے۔
۱۲۔ سفر کے اخراجات جیسے کرائے،تفریح کے اخراجات، تعلیم کے اخراجات اور زندگی کی بنیادی سہولتوں سے متعلق عمر رسیدہ افراد کو خصوصی رعایتیں دی جائیں جو بڑی شدومد سے نافذ کرائی جائیں۔
۱۳۔جس طرح نو جوانوں کی اسمبلی ہوتی ہے اس طرح معمر افراد کی اسمبلی بھی قومی، صوبائی اور لوکل سطح پر
قائم کی جائے جو بوڑھوں کے مسائل کی بھرپور نشان دہی کر سکے اور ان کے مسائل کی بھرپور وکالت کر سکے۔
۱۳۔ پنشنز اور سرکار کی طرف سے ملنے والی امداد معمر افراد کے گھروں تک بھیجنا کا انتظام کیا جا سکتا ہے تا کہ شدید موسموں میں انھیں انتظار کی کوفت اور صعوبت نہ اٹھانی پڑے۔
۱۴۔سرکاری ہسپتالوں میں معمر افراد کو ترجیحی بنیادی پر سہولتیں مہیا کی جائیں۔ان سے کسی قسم کے اخراجات نہ وصول کیے جائیں۔ نا خواندگی، غربت اور بڑھاپے کی وجہ سے برا سلوک نہ کیا جائے اور ان کی ضعیفی کی ساری ضرورتوں کو مد نظر رکھا جائے۔ان کا کاغذات پر کرنے کے لیے خصوصی عملہ تعینات کیا جائے، ان کے لیے وہیل چئیروں کا بندوبست کیا جائے اور خیال رکھنے سے لے کر علاج تک ان کی سہولتوں کا دھیان رکھنا چاہیے۔اس سلسلے میں عملے کی تعلیم و تربیت کی جائے کہ زیادتیوں کے ا کثر سلسلے جہالت سے ملتے ہیں۔
۱۵۔ تمام سہولتوں میں عمر رسیدہ افراد کی سہولت کے لیے حکم نامے جاری کیے جائیں۔
۱۶۔ انتہائی غربت کی صورت میں حکومتی یوٹیلٹی سٹورز سے مفت خوراک کے حکم نامے جاری کیے جائیں اور خوراک کے معاملے میں عمومی طور پر قیمتوں میں رعایتیں دینی چاہیے۔
جن ملکوں میں معمر افراد کا خیال رکھا جاتا ہے وہاں کی معیشت ، سیاست ار معاشرت بھی ان ممالک سے بہتر ہے جن میں عمر رسیدہ افراد کا خیال نہیں رکھا جاتا۔آسٹریلیا کے مرکز برائے مالیاتی مطالعہ جات کے مطابق ڈنمارک، آسٹریلیاہالینڈ، سویڈن، سوئٹزرلینڈ، کینیڈا اور برطانیہ عظیم پنشنز کے بہترین نظام رکھتے ہیں۔ان میں سے چار ملک لسٹ ڈوز کے مطابق سب سے زیادہ ترقی یافتہ ملکوں میں شامل ہیں اور جو بہترین دس کی فہرست میں شامل نہیں ہیں لیکن پھر بھی ترقی یافتہ ہیں۔ صحت پر فرانس سب زیادہ صرف کرتا ہے وہاں شرح عمر ۸۲ سال ہے۔شہری کی آزادی، شہری کو اثاثہ سمجھنے اور شہری کی تعلیم اور صحت کا خیال رکھنے سے ترقی کا بڑا گہرا ناتہ ہے۔ جہاں جہاں شہری کی اہمیت بڑھتی جاتی ہے وہاں ترقی کی مقدار اور رفتار میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔
اگر ہم پاکستانی بھی اپنے تمام شہریوں اور بالخصوص شہریوں کے وہ گروہ جو محروم ہیں جیسے عمر رسیدہ افراد کی عزت کرنا شروع ہو جائیں، ان کی آزادیوں کا احترام کریں، ان کی صحت و خوراک کا دھیان کریں اور ان کو اچھی زندگی کے لیے سہولیات فراہم کریں، ان کے تجربات سے فائدہ اٹھائیں ان کے حقوق پامال ہونے سے بچائیں تو ہم بھی ترقی کی طرف تیزی سے گامزن ہو سکتے ہیں۔معاشرے کی اچھائی کا ایک معیار بھی یہ بھی ہوتا ہے کہ وہاں ناتواں، ضعیف، بچوں اور پردیسیوں کے ساتھ کیسا سلوک ہوتا ہے۔
بڈھا ہویا شیخ فرید، کنبن لگی دیہہ
جے سو ورھیاں بھی جیونا بھی تن ہوسی کھیہہ
لیکن موت سے پہلے ناتوانی، غربت، بیماری، دکھ درد، نفسیاتی و جسمانی تشدد کی ہزاروں موتیں دینا تو سفاکی و سنگدلی ہے جسے نیکی کی نمائش اور حسن اخلاق کے متعلق تقاریر کی زینت و زیبائش چھپا نہیں سکتی۔