غریب کا مذہب ، بھوک
از، اصغر بشیر
یہ تو ہر کوئی جانتا ہے کہ اس وقت دنیا میں جتنی خوراک پیدا ہو رہی ہے، خوراک کی اتنی پیداوار تاریخِ انسانی میں نہیں ملتی۔ لیکن شائد یہ سب کو نہ پتہ ہو کہ آج کے ترقی یافتہ دور میں ہر آٹھواں آدمی رات کو بھوکا سوتا ہے؛ ہر تیسرا بچہ غذائیت کی کمی کی وجہ سے وزن کی کمی کا شکا ر ہے۔یہ تخمینے پوری نسل انسانی پر اوسطاً فٹ نہیں ہوتے بلکہ بعض پورے کے پورے معاشرے بھوک کا شکار ہیں تو بعض معاشرے اتنی خوراک ضائع کرتے ہیں کہ پوری نسل انسانی کی بھوک کو مٹایا جا سکتا ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے ایف ائے او کی رپورٹ کے مطابق اس وقت دنیا میں پکائی جانے والی خوراک کا چالیس فیصد ضائع کیا جا رہاہے۔یہی صورت حال پاکستان پر بھی فٹ آتی ہے ایک طرف بڑے بڑے شہروں کی فوڈ سٹریٹس ہیں تو دوسری طرف چاغی اور تھر پارکر کے معصوم بچے ہیں۔
ایک طرف منرل پانی مخصوصیات نمکیات کے ساتھ حفظان صحت کے اصولوں کو مد نظر رکھتے ہوئے پیش کیا جاتا ہے تو دوسری طرف عورتوں کو پانی کی ایک بوند کے لیے میلوں کا سفر طے کرکے کنویں پر جانا پڑتا ہے ۔ یہ اور بات ہے کہ اس کنویں کا پانی اتنا گدا اور صحت کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے کہ ماؤں کے پیٹ میں بچے پیدا ہونے سے پہلے ہی مر جاتے ہیں یا پھر اگر پیدا بھی ہوتے ہیں تو اتنی نازک حالت میں کہ بچنے کی کوئی امید نہیں ہوتی۔اس صور تحال میں سوال یہ ہے کہ تھرپارکر اور چاغی کے لوگ آخر کیوں اس قابلِ رحم حالت میں ہیں؟ اور حکومت اس سلسلہ میں کیا کر رہی ہے؟
پوری دنیا میں قحط زدہ علاقوں کے بارے میں ایک بات درست ہے کہ عام طور پر قحط ان علاقوں میں آتا ہے جو یا تو زراعت سے متعلقہ ہوتے ہیں یا پھر جدید زندگی کی گہماگہمی سے دور دراز علاقوں میں واقع ہوتے ہیں۔ ان علاقوں کو اپنی حالت پر قائم رکھنے میں سب سے اہم کردار غربت کا چکر ادا کرتا ہے۔ غربت سے چکر سے مراد یہ ہے کہ غربت کے چکر میں موجود عوام کبھی بھی اس قابل نہیں ہوتی کہ وہ ایسی صلاحیت حاصل کرسکے جو اسے ایک دن اس چکر کو توڑنے میں مدد دے۔ اس لیے ان علاقوں کے غریب عوام ایک طرف تو ساری زندگی اچھی خوراک نہیں حاصل کرسکتے تو دوسری طرف کبھی اتنے تعلیم یافتہ نہیں ہو پاتے کہ وہ اپنے گھروں پر منڈلاتی غربت کے سایوں کو ختم کرسکیں۔ یہی غربت جب اجتماعی صورت میں ڈیرا جماتی ہے تو قحط نمودار ہوتا ہے۔
دوسرا اہم پہلو زراعت سے وابستہ ہونا ہے۔ چونکہ ان علاقوں میں کسانوں کے پاس جدید مشینری خریدنے کی سکت نہیں ہوتی اس لیے ایک طرف تو ان کی کھیتی پھل کم لاتی ہے دوسری طرف دوسرے سماجی مسائل ان کے پاس اتنے پیسے نہیں چھوڑتے کہ وہ کاشت کاری کو جاری رکھ سکیں یوں زمینیں ویران ہونے لگتی ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان علاقوں میں زندگی کا دارومدار بنیادی طور پر بارشوں پر ہوتا ہے۔ اس لیے وہاں پر قحط سالی کا خدشہ موجود رہتا ہے۔ اہم سوال یہ ہے کہ حکومت اس سلسلہ میں کیا کر رہی ہے؟ اس وقت اربابِ حکومت کی عمومی روش یہ ہے کہ حکومتی مشینری اس وقت تک خاموش رہتی ہے جب تک مصیبت دروازے پر دستک نہیں دیتی لیکن جب جان کے لالے پڑتے ہیں تو پھر اس کی پلاننگ شروع کی جاتی ہے۔ حالانکہ ترقی یا فتہ قوموں کا وطیرہ یہ رہا ہے کہ کسی ممکنہ مسئلے کا حل مسئلہ کی پیدائش سے بہت پہلے کیا جاتا ہے تا کہ انسانی زندگیوں کے ضیاع کو بچایا جا سکے۔
دوسری طرف میڈیا کےذریعہ قحط زدہ علاقوں کے جو حالات عوام تک پہنچتے ہیں وہ صرف قحط زدہ علاقوں کے مرکزی شہروں ، قصبوں یا دیہاتوں کی صورت حال ہے جبکہ قحط کا پھیلاؤ بہت وسیع ہوتا ہے۔ دوردراز علاقوں میں حکومتی اقدامات کے اثرات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ حکومت وہاں پر کچھ کرنے کی کوشش بھی کرتی ہے تو وہاں کا سیاسی نظام اور کرپٹ حکومتی نمائندے سہولیات کے ثمرات عوام تک پہنچنے نہیں دیتے۔
کسی بھی معاملے پر اربابِ حکومت کے دلائل اس معاملہ پر حکومتی اخلاص کی قلی کھولنے کے لیے کافی ہوتے ہیں ۔قحط زدہ علاقوں کے بارے میں حکومتی دلیل یہ ہے کہ اس علاقے میں پینے کے پانی کا دارومدار بارشوں پر ہونے کی وجہ سے جن دنوں میں بارشیں ہوتی ہیں میٹھا پانی دستیاب ہوتا ہے لیکن جب بارشیں نہیں ہوتی تو وہاں کے لوگ کنویں کا کڑوا پانی پینے پر مجبور ہو جاتے ہیں جو ایک طرف بچوں کے لیے بہت نقصان دہ ہوتا ہے تو دوسری طرف وہاں کے لوگوں کے اندر مختلف بیماریوں کا سبب بنتا ہے۔اسی وجہ سے اس علاقے کے بچوں میں پیدائشی امراض کی شرح بہت زیادہ ہے۔ہو سکتا ہے کہ یہ سب حکومتی دلائل درست ہوں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر ان علاقوں میں یہ صورت حال ہے تو اس کے سدباب کے لیے مستقل بنیادوں پر کیا گیا ہے؟ یقیناًاس کا جواب شرمندگی کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔
دوسری طرف بچوں کی کثیر تعداد میں ہلاکت پر مقتدرہ افسران کے بیانات بھی حکومتی مشینری کی بے حسی پر ماتم کرنے کےلیے کافی ہیں۔ فرمایا جاتا ہے کہ کہ بچے کی پیدائش گھرو ں میں ہوتی ہے جہاں اہم طبی سہولتیں نہ ہونے کی وجہ سے بچوں کو نازک حالت میں ہسپتال لا یا جاتا ہے۔ اگر بچے جانبر نہ ہوسکیں تو اس کی تمام تر ذمہ داری حکومتی اداروں پر ڈالی جاتی ہے۔ہسپتالوں میں اگر علاج معالجہ موجود ہوگا تو ہی عوام ہسپتال میں آئیں گے ناں! ورنہ صورت حال تو یہ ہے کہ جس ڈاکٹر سے افسران بالا ناراض ہوں اس کا تبادلہ ان علاقوں میں بطور سزا کے کر دیا جاتا ہے۔پھر یہی ڈاکٹر اور دوسرا طبی عملہ یا تو لوٹ مار کا شغل اختیار کر لیتا ہے یا پھر کسی اور افسر یا سیاست دان کی سفارش سےوہاں سے کسی اور جگہ تبادلہ کروا لیتا ہے۔
حکومت کو اس وقت ایسا بنیادی ڈھانچہ ترتیب دینے کی ضرورت ہے جو ایک طرف معیار زندگی کی خلیج کو کم سے کم کرسکے اور دوسری طرف ایسا انفراسٹرکچر کھڑا کرئے جو پسماندہ علاقوں میں قحط کے ممکنہ عوامل کی شدت کو کم سے کم کر سکے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ قحط زدہ علاقوں کے بچے اٹھیں اور فوڈ سٹریٹس تہس نہس کردیں۔ یہ سب ہم نے فلموں میں تو پہلے سے ہی دیکھ رکھا ہے۔