گھر کی صفائی اور سیاسی دُھند
معصوم رضوی
گھر کی صفائی نے گھر کی لڑائی میں تبدیل ہو چکی ہے۔ خواجہ آصف اور چوہدری نثار پھر آمنے سامنے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ خواجہ آصف باعہدہ اور چوہدری نثار بے عہدہ۔ لہذا خواجہ صاحب کو وزیر اعظم سمیت دیگر جید سیاسی رہنماؤں کی مکمل آشیر باد حاصل ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ ہر معاملے پر سیاست ہوتی ہے اور سیاسی لپاڈگی میں اصل معاملہ کہیں خرد برد ہو جاتا ہے۔ یہی کچھ گھر کی صفائی کیساتھ ہو رہا ہے۔ کوئی نہیں سوچ رہا کہ صفائی ضروری ہے یا نہیں۔ بحث اس بات پر جاری ہے کہ بیان درست ہے یا غلط۔ یہ معاملہ بھی سیاست کے قبرستان کی ایک گمنام قبر بن جائے گا۔ خیر ماشااللہ ہم سیاست میں نہ صرف خودکفیل ہیں، کالا باغ ڈیم ہو یا لاہور کی میٹرو، فوجی آپریشن ہوں یا غیر ملکیوں کی رجسٹریشن، مدرسوں کا معاملہ ہو یا جدید تعلیمی اداروں کا، دوا کی بوتل ہو یا دارو کی، ہر چیز پر سیاست ہوتی ہے۔ نتیجہ بہرحال وہی نکلتا ہے جو کالا باغ ڈیم کا نکلا۔
میری رائے میں اگر آپ گھر کی صفائی نہیں کریں گے تو ایک وقت آئے گا کہ دوسرے نشاندہی کریں گے۔ اگر آپ اپنے شریر بچوں کو نہیں روکیں گے تو کوئی اور روکے گا اور یہی ہو رہا ہے۔ چوہدری نثار بلاشبہ دبنگ سیاستدان ہیں مگر معاملے کو صرف اس بنا پر نہیں ٹالا جا سکتا کہ دنیا کیا کہے گی، گو کہ حقائق سے آنکھیں چرانا ہماری دیرینہ روایت ہے مگر یہ تجربہ بھی ہے کہ اس طرح مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ سنگین چیلنج بن جاتے ہیں۔ بہرحال اس بات سے تو چوہدری نثار کو بھی انکار نہیں کہ گھر کی صفائی ضروری ہے۔ اگر اس کا اقرار بھی کر لیا جائے تو حرج ہی کیا ہے۔ شاید مسائل حل کرنے کے لیے زیادہ بہتر ہو گا۔
بطور صحافی میرا تجریہ یہ ہے کہ سیلف سنسر سے زیادہ خطرناک کوئی چیز نہیں۔ ہم بہت سی باتوں کو بخوبی جانتے ہیں مگر اقرار کرنے سے ڈرتے ہیں۔ حقائق سے آبکھیں چرانا تو دور کی بات بسا اوقات تو حقائق ہی تبدیل کر دیے جاتے ہیں۔ چوہدری نثار کے مطابق گھر کی صفائی کا برملا اظہار کرنا قومی سلامتی کے منافی ہے تو حضور یہ آپریشن ضربِ عضب، ردالفساد کیا ہے، نیشنل ایکشن پلان کس لیے بنایا گیا تھا، اس کے نتائج کو بارہا دھرایا کیوں جا رہا ہے۔ کیا یہ سب گھر کی صفائی کا حصہ نہیں ہے؟ اس مسئلے پر بہرحال سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے کہ حقائق چھپانا قومی سلامتی ہے یا حقائق کا مقابلہ کرنا۔ میرے خیال میں شاید گھر کی صفائی سے زیادہ اہم ذھنوں کی صفائی ہے جہاں اب بھی شکوک و شبہات کی دھند موجود ہے۔
ابھی این اے 120 میں انتخابات کے بعد سیاست کی گرد اڑ رہی ہے۔ مریم نواز کو بچہ اورغیر سیاسی کہنے کے بعد چوہدری نثار کی مسلم لیگ ن میں کوئی جگہ نہیں بنتی بیشک وہ کتنے ہی تجربہ کار، برے وقتوں میں آزمودہ اور بہترین سیاسی سوجھ بوجھ کے مالک کیوں نہ ہوں۔ ہمارے ایجاد کردہ شاہانہ طرز جمہوریت میں یہ ممکن نہیں کہ کوئی رہنما ولی عہد کو تسلیم کرنے سے انکار کی جرات کر سکے، خواہ وہ مریم ہوں یا بلاول۔
چوہدری نثار کے راستے الگ ہو چکے ہیں دیکھیے رسمی اعلان کب ہوتا ہے۔ بہرحال اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ن لیگ بڑا معرکہ طے کرنے میں کامیاب رہی ہے۔ اگرچہ کلثوم نواز کی جیت کا ہر کسی کو پتہ تھا مگر پھر بھی مریم نواز نے انتخابی مہم کو نہایت خوش اسلوبی سے چلائی۔ جس حلقے سے نواز شریف سات مرتبہ انتخابات جیت چکے ہوں، تحریک انصاف کا ووٹ بینک بڑھنا قابل غور ہے۔ گو کہ اس حلقے سے ن لیگ کی کامیابی میں کوئی شے مانع نہیں تھی مگر نواز شریف کی برطرفی اور پاناما لیکس کے بعد یہ چناؤ پورے ملک کی توجہ کا مرکز بنا رہا۔ لاہور کے ضمنی انتخابات میں سب سے بڑا دھچکا پیپلز پارٹی کو پہنچا، جس کے امیدوار فیصل میر محض 1414 ووٹ لے کر ضمانت ضبط کروا بیٹھے. زرداری صاحب کی مفاہمانہ سیاست پنجاب میں پیپلز پارٹی کا تشخص کھو بیٹھی ہے۔ آئندہ عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کو پنجاب کی سیاست میں سفر کا آغاز ڈیڑھ ہزار ووٹوں سے کرنا ہے۔
روایتی طور پر حلقہ این اے 120 میں مذھبی جماعتوں کا کوئی خاص ووٹ بینک نہیں مگر اس بار دینی جماعتوں نے تقریبا 11 فیصد ووٹ حاصل کیے۔ ملی مسلم لیگ کے شیخ یعقوب نے 5822 ووٹ حاصل کیے انتخابی مہم کے دوران حافظ سعید اور جماعت الدعوہ کے تعلق کا برملا اظہار کیا گیا۔ دوسری جماعت مولانا خادم حسین رضوی کی تحریک لیبیک یا رسول اللہ کے شیخ اظہر نے 7130 ووٹ حاصل کیے۔ ن لیگ کا موقف یہ ہے کہ دونوں جماعتوں کو ان کے ووٹ کاٹنے کے لیے استعمال کیا گیا جبکہ انہیں کالعدم قرار دینا چاہیے تھا۔
صورتحال یہ ہے کہ الیکشن کمیشن نے دونوں جماعتوں کی کلیئرنس وزارت داخلہ سے طلب کی تھی، وزارت داخلہ نے آئی بی، آئی ایس آئی دیگر حساس اداروں سے رپورٹس طلب کیں مگر حقیقت یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کو اب تک کوئی جواب موصول نہیں ہوا ہے۔ یہی وہ شکوک و شبہات کی دھند ہے جس کا اوپر ذکر کر چکا ہوں۔
بہرحال صورتحال یہ ہے کہ پنجاب اور وفاق میں حکمرانی کرنیوالی جماعت ضمنی انتخابات میں سازشوں کی شکایت کرتی نظر آتی ہے، فتح کے اعلان کے بعد مریم نواز کے خطاب میں ایک بار پھرسازشی عناصرکا حوالہ موجود رہا، سعد رفیق کہتے ہیں گو سلو کی پالیسی اپنا کر ن لیگ کو نقصان پہنچایا گیا۔ رانا ثنااللہ کا کہنا ہے کہ مذھبی جماعتوں سمیت متعدد امیدواروں کو ن لیگ کا ووٹ کاٹنے میں استعمال کیا گیا اور ان سمیت دیگر رہنما کارکنان کی پراسرار گمشدگی کا بھی برملا ذکر کر رہے ہیں۔ مسلم لیگ ن شاید پہلی بار اسٹیبلشمنٹ کے عتاب کا شکار بنی ہے، کورٹ کچہری، مقدمات، ضمانتیں اور نجانے کیا کیا کچھ ہونے جا رہا ہے۔
اسحاق ڈار اور خواجہ آصف بھی مشکل میں ہیں، ظاہر ہے اس صورتحال میں لہجہ تلخ تو ہو گا لیکن نواز شریف ریلی کے دوران بھی کیوں نکالا کا ذمہ دار نادیدہ عناصر کو قرار دیتے رہے، مریم نواز سمیت دیگر رہنما بھی عدلیہ اور سازشی عناصر کو کھری کھری سنا رہے ہیں اگرچہ معاملہ صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں والا ہے، حضور پوچھنا یہ چاہتا ہوں کہ اگریہ سب کچھ جائز ہے تو بیچارے نہال ہاشمی کا کیا قصور تھا، کیا خوب کہا ہے چچا غالب نے
پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق
آدمی کوئی ہمارا دم تحریر بھی تھا
دیکھیے میں بھی سیاست میں بہہ گیا بات ہو رہی تھی گھر کی صفائی کی، لیکن خیر چولی دامن کا ساتھ ہے۔ حضور گھر کی صفائی اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ذھنوں کی صفائی نہ ہو جائے۔ انتہا پسند دشمن ہیں یا دوست، جو چاہے فیصلہ کریں مگر کسی ایک فیصلے پر پہنچنا ہو گا اس کے بغیر کوئی صفائی، کوئی کارروائی موثر ثابت نہیں ہو سکتی۔ انتہا پسندی کے جرم میں دہشت گردوں کو سزائیں، آپریشن اور دیگر تمام کارروائیاں مسئلے کا حل نہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ ہمارے معاشرے کا ایک بڑا حصہ ایسے عناصر سے ہمدردی رکھتا ہے یا کشمکش کا شکار ہے، سیاسی جماعتیں بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں۔ ذھنوں پر چھائی دھند کو دنیا کی کوئی فوج ، کوئی آپریشن ختم نہیں کر سکتا، یہ کام بہرحال سیاستدانوں کا ہے خواہ وہ کریں یا نہ کریں۔
1 Trackback / Pingback
Comments are closed.