سلیم احمد، غزل اور اینٹی غزل کی بحث

ایک روزن لکھاری
طارق ہاشمی، صاحب مضمون

سلیم احمد، غزل اور اینٹی غزل کی بحث

از، طارق ہاشمی

برصغیر پاک و ہند میں جدید ذہنی ساخت کا تشکیلی عمل ۱۹۶۰ء کے بعد شروع ہوا، چنانچہ جہاں سماجی سطح پر ردّ و قبول کے نئے معیارات مقر ر ہونے لگے وہاں ادب کی تخلیقی اصناف کی نئی شناخت کے لیے اہل قلم نے ہمہ جہت تجربات کا آغاز کیا۔ خیال کے لحاظ سے جدید فکری تحریکیں شروع ہوئیں تو لفظ اور اسلوب کی سطح پر نئی وضعیں سامنے آئیں۔ جن کا مقصد نئی نسل کے نزدیک پیش رو ادبی مقتدرہ ESTABLISHMENTکی گمراہیوں کو نشانہ بنانا اور انھیں رفع کرنا ہی نہ تھا بلکہ علمی اور جمالیاتی بنیادوں پر ادب و فن کی اُن نئی آگاہیوں سے بھی متعارف کرانا تھا جو عالمی تناظر میں تازہ کار و تازہ دم تھیں۔ اگرچہ اس گروہ کی شناخت میں انحراف، اختلاف اور ان کار کا پہلو سب سے زیادہ روشن ہے۔ ‘‘ (۱)

بعض لوگ تو انحراف کی اس حد تک گئے کہ بڑے واضح طور پر یہ اعلان کیا کہ ’’نئے فنکار کے نزدیک …کوئی خاص روایت، کوئی جغرافیہ، کوئی آسمان، کوئی زمین اپنے اندر اتنا تقدس نہیں رکھتی کہ اُسے کھیل تماشے پر فوقیت دی جائے … اُسے کسی مابعدالطبیعات سے ایسا لگاؤ نہیں کہ اُس کے لیے اپنی ہستی ختم کر دے …جس کی کوئی مابعدالطبیعات نہیں ہو سکتی۔ جس کا کوئی مذہب و ملت نہیں ہو سکتا، اخلاقیات، مذہبیات، ترقی پسندی یا تعمیر کسی بھی تصور میں آفاقی افادیت نہیں …وہ کسی ضابطے یا فارمولے کا محکوم نہیں وہ تو خود سب سے بڑا نظم و ضبط ہے۔ ‘‘(۲)

جدید شعرا کے ہاں انحراف کی اس شدید رو کے باعث یہ خیال ظاہر کیا گیا کہ ’’جدید غزل کلچر کے بجائے بے کلچری پر عقیدہ رکھتی ہے۔ ‘‘(۳)

جدید شاعر تہذیب و ثقافت پر کتنا اعتقاد رکھتا ہے اور وہ اس سے کس حد تک وابستہ رہنا چاہتا ہے یا نہیں رہنا چاہتا یہ ایک الگ بحث ہے لیکن ۶۰ء کے بعد اردو غزل میں تجربات کا جائزہ لیں تو وہ زبان و بیان میں کی گئی تبدیلیوں کی اُن کوششوں سے بہت مختلف ہیں جو ماضی میں کی گئیں بلکہ بعض صورتوں میں یہ تجربے بہت اجنبی بھی ہیں۔

یہ تجربے اپنی نوعیت میں اتنے انقلابی ہیں کہ ۱۹۶۰ء کی دہائی اردو غزل کے لیے ایک جدلیاتی عرصہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس پیکار کے عمل میں اردو غزل کے اسلوب اور لفظ کے مقبول نظریات کے خلاف ایک زبردست ردِّ عمل سامنے آیا۔ جس سے نہ صرف نئی بحثوں کا آغاز ہوا بلکہ غزل کی ماہیّت و مستقبل کے بارے میں بعض تنقیدی حلقوں کی طرف سے خدشات کا اظہار بھی کیا گیا۔

غزل میں اس حد تک باغیانہ تجربے کرنے والوں میں دو اہم نام سلیم احمد اور ظفر اقبال ہیں جن کی کوششیں ہمہ جہت اور تفصیلی مطالعے کی متقاضی ہیں۔

سلیم احمد کی ’’بیاض ‘‘ شائع ہوئی تو اس کی ابتداء میں اپنے عہد کی غزل کے مروّجہ اسالیب اور لفظیات کے خلاف دو اعلانات کیے گئے۔ ایک نثری دیباچے کی صورت میں دوسرا شعری پیرائے میں۔ دیباچے میں اپنے عہد کے شعری اسلوب سے انحراف کا اظہار کرتے ہوئے سلیم احمد نے کہا:

’’چاند، بادل اور دریا کے الفاظ کا استعمال شاعری نہیں۔ بعض لوگ جنھیں صرف اس قسم کے الفاظ پر وجد آتا ہے، شاعرانہ اور غیر شاعرانہ الفاظ اور مضامین کی قید و تخصیص کے قائل ہوتے ہیں۔ ان کا نظریہ صحیح ہو یا غلط، میں اس نظریے کو تسلیم نہیں کرتا۔ خود رحمی اور رقّت کے جذبات بھی مجھے زیادہ پسند نہیں ہیں۔ یہ عناصر کسی حد تک مجھے اپنے پیش روؤں سے وراثت کے طور پر ملے ہیں مگر میں نے ان سے شعوری جنگ کی ہے۔ ‘‘(۴)

گریز پائی کا یہ اعلان بین السّطور اُس تمثالی اسلوب شعر کے خلاف ہے جو ناصرؔ کاظمی اور منیرؔ نیازی نے اختیار کیا اور اُسے رواج دیا۔ اس کے ساتھ ساتھ شاعروں کی اُس کھیپ پر بھی بہت گہرا طنز کیا گیا ہے جو دورِ حاضر میں پھیلے ہوئے انسانی مسائل سے بے خبر ممیاتی ہوئی غزل لکھ کر روایت کو پیٹ رہے ہیں۔ سلیم احمد اگرچہ خود مذہبی مزاج کے باعث روایت پرست اور فکری لحاظ سے عینیت پسند بلکہ بقول سجاد باقر رضوی ’’وضعاً کلاسیکی ‘‘ تھے۔ (۵) تاہم شاعری میں انھوں نے روایت سے زیادہ اجتہاد سے کام لیتے ہوئے بغاوت کی راہ اختیار کی:

عشق میں کھو کے عزّتِ سادات

میرؔ کی طرح کیوں پھریں ہم خوار

گو نہ غالب کو ہو، ہمیں تو ہے

ذوقِ آرائشِ سر و دستار

ہم نہ درویش ہیں، نہ صوفی و رند

رنگِ آتش ہمیں نہیں درکار

طرزِ حسرتؔ پہ ہم نہیں لہلوٹ

ہم کو چکّی کے کام سے ہے عار

ہم روش پر فراقؔ کی کیوں جائیں

منزلِ غم نہیں ہمارا دیار

ربط رکھتے ہیں گو یگانہؔ سے

اُن کا مسلک مگر ہے تیغ کی دھار

ان اشعار میں میرؔ سے فراقؔ تک اردو غزل کی تمام روایت سے گریز پائی ظاہر کی گئی ہے۔ البتہ یگانہؔ سے ربط کا ان کار ممکن نہیں ہو سکا اور حقیقت بھی یہی ہے کہ سلیم احمد کی غزل کے وہ تجربات جنھیں ’’ہماری ادبی رائے عامہ نے اینٹی غزل کا نام دیا ہے۔ ‘‘(۶) یگانہ کی بغاوتوں ہی کی توسیع ہیں۔ اس توسیع کی مختلف جہات، آئندہ اثرات اور ان سے پیدا ہونے والے تنازعات اردو غزل کی تاریخ میں بڑے ہنگامہ خیز ہیں، جن کے شور و غوغا میں سلیم احمد کے تجربات پر گفتگو کے بعض پہلو نظرانداز ہو گئے۔

سلیم احمد کے درج بالا اعلان بغاوت کے باوجود یہ حقیقت نظرانداز نہیں کی جا سکتی کہ اُن کا شعری سفر ایک خاص اخلاقی شعور اور مذہبی طرزِ احساس سے شروع ہوا اور ایک مخصوص اندازِ فکر کے باعث اُن کے لب و لہجے پر غزل کے روایتی اسلوب کی اثر انگیزی کی جھلک بھی نمایاں ہے۔ اس سلسلے میں ساقیؔ فاروقی نے الفاظ و تراکیب کی ایک فہرست فراہم کرتے ہوئے یہ اعتراض کیا ہے کہ سلیم احمد ’’ گلے گلے دوسروں کے لہجے اور کلاسیکی آہنگ میں دھنسے ہوئے ہیں اور کلاسیکی غزل گوؤں کی آوازوں کے کنٹھے اور بالے اُن کے کان میں پڑے ہوئے ہیں۔ ‘‘(۷)

ہر شاعر اپنے ابتدائی شعری سفر میں اپنے ما قبل شعرا سے اثر قبول کرتا ہے لیکن بعد میں شعری تجربات سے اپنے لیے ایک نیا راستہ تلاشتا اور تراشتا ہے۔ سلیم احمد کی غزل کو بھی اپنے ابتدائی اثرات سے کچھ آگے دیکھیں تو اُن کے ہاں لفظیات کا ایک ایسا نظام ہے جو جدید شہری زندگی کے کاروباری ذہن اور ماحول کی عکاسی کرتا ہے۔ زندگی کے متنوع تجربوں اور معاملات حسن و عشق کے لیے کاروباری اور تجارتی الفاظ کا نبھاؤ اردو غزل کا ایک انوکھا اسلوبیاتی ذائقہ ہے۔

الفاظ کا یہ ذخیرہ اُس سماجی طرزِ احساس کا ترجمان ہے جس میں تجارت، دھن دولت اور لین دین ایک بنیادی معاشرتی قدر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان سے نئے ذہن کی سوچ کے زاویے بھی معلوم ہوتے ہیں جو زندگی کے ہر پہلو کو کاروباری نقطۂ نظر سے سوچتا ہے۔

سلیم احمد کی غزل میں مول، بھاؤ، قرض، ادھار، بیگار، گاہک، دکان، اجرت، ٹھیکا، دھندا، نقد، دام، دان، نفع، مزدوری اور سود وزیاں ایسے نئے الفاظ ہیں جن سے بڑی ’’قطعیت اور شدت کے ساتھ نئی کاروباری دنیا اپنی بے نقاب تاجرانہ ذہنیت کے ساتھ ابھر تی ہے۔ ‘‘(۸)

سلیم نفع نہ کچھ تم کو نقد جاں سے اُٹھا

کہ مال کام کا جتنا تھا سب دکاں سے اُٹھا

ہم بھی ٹوٹا ہوا دل اُن کو دکھائیں گے سلیم

کوئی پوچھ آئے وہ کیا لیتے ہیں بنوائی کا

دستور یہ اچھا ہے مزدوری الفت کا

اجرت بھی نہ مانگیں ہم بیگار کیے جائیں

تیرا پڑتا نہیں کھاتا تو نہ لے جنسِ وفا

گھوم پھر کر اسی اک مال پہ ٹکتا کیوں ہے

دل حسن کو دان دے رہا ہوں

گاہک کو دکان دے رہا ہوں

چڑھتے سورج کا مول کیا آنکھیں

شام تک ہے یہ گرمیِ بازار

ہو رہی ہے متاعِ دل نیلام

بول چھوٹے گی جانے کس کے نام

تجھ کو چاہا تو شاعری بھی کی

آم کے آم گٹھلیوں کے دام

تجارتی اور کاروباری الفاظ کے سلسلے میں مذکورہ بالا اشعار بھی اہم ہیں لیکن اس حوالے سے سلیم احمد کی ایک غزل توجہ چاہتی ہے، جس کی ردیف ’’دکان‘‘ ہے :

ٹھپ ہو چکی ہے حسنِ خیالات کی دکان

ایسے میں کیا چلے گی غزلیات کی دکان

گاہک کا کال دیکھ کے دھندا بدل دیا

کھولی تھی پہلے ہم نے بھی جذبات کی دکان

سودے میں حرفِ حق کے دوالہ نکل گیا

کھولیں گے ہم بھی کذب و خرافات کی دکان

سلیم احمد نے بعض پیشوں کو بھی غزل کا حصہ بنایا ہے :

گانٹھتے ہیں پھٹے ہوئے جذبات

ہوکے سیّد بنے سلیمؔ چمار

سرمنڈاتے ہیں ہم سے آ کے خیال

اپنا پیشہ ہوا ہے حجامی

شام ہی سے سنور کے بیٹھی ہیں

حسرتیں ہیں زنانِ بازاری

مجتبیٰ حسین نے سلیم احمد کی شاعری میں تین بنیادی علامتوں کو سرگرم عمل بتایا ہے۔ بازار، کچہری، اور شہدوں کی ٹولی۔ (۹)

بازار اور اُس سے وابستہ لین دین کی لفظیات جہاں سماج کی کاروباری سوچ کی عکاس ہیں وہاں عدالت اور اس کے متعلقات معاشرے کے عام جرم پرور معاملات کی تصویر بندی کرتے ہیں۔ اگرچہ عدالت کے حوالہ سے لفظیات کے استعمال کا تخلیقی امکان کلاسیکی غزل کے عہد میں غالبؔ نے اجاگر کیا، جس کی بنیادی وجہ اُن کی زندگی کا طویل مقدمہ برائے پنشن تھا، تاہم سلیم نے ان لفظیات کے تجربے کو نئے دور کے وسیع تر مسائل کی عکاسی کے لیے استعمال کر کے اس کے امکانات کو اور وسعت دی :

اب ہماری صفائی کون کرے

دل بنا ہے گواہِ سلطانی

رکھوں جو لحاظ مصلحت کا

کیا کوئی بیان دے رہا ہوں

ہم ہیں منشی عدالتِ دل کے

روز لیتے ہیں عشق کا اظہار

لفظیات کے مذکورہ تجربات کے بعد سلیم احمد کی ’’بیاض ‘‘ میں شامل وہ غزلیں قابلِ توجہ ہیں جنھوں نے غزل کی روایت کی پیالیوں میں طوفان کھڑا کر دیا۔ ان غزلوں میں نہ صرف لہجہ شدید، تندی و تیزی کا حامل ہے بلکہ لفظ و ترکیب کا نظام بھی بہت کھارا ہے۔ جس نوع کے الفاظ کو شاعر نے غزل میں استعمال کرنے کا تجربہ کیا ہے، اُن کا استعمال غزل و نظم تو کجا، عام گفتگو میں بھی تہذیب کے دائرے سے خارج سمجھا جاتا ہے۔ ایسے کھارے الفاظ اور کسیلالہجہ اس سے پہلے یگانہؔ اور شاد عارفی کے یہاں بھی ایک حد تک موجود ہے لیکن ’’سلیم احمد نے اسے برت کر نئی معنویتوں کے اظہار کا کام لیا ہے۔ ‘‘(۱۰)

نہ پوچھو عقل کی چربی چڑھی ہے اس کی بوٹی پر

کسی شے کا اثر ہوتا نہیں کم بخت موٹی پر

آ کے اب جنگل میں یہ عقدہ کھلا

بھیڑیے پڑھتے نہیں ہیں فلسفہ

سلیم احمد نے غزل میں یہ لفظیات کیوں اختیار کیں ؟ اُن کے لہجے میں اتنی تندی و تیزی کیوں ہے کہ کلام پر دشنام کا گماں ہوتا ہے ؟ انھوں نے غزل کی تہذیبی زبان کا لحاظ کیوں نہ کیا؟ یہ وہ سوالات ہیں جو نہ صرف اُن کے ناقدین نے اُٹھائے ہیں بلکہ اس کشمکش کا شکار غزل کا ہر روایت پسند قاری ہے ؟ سلیم احمد اس سلسلے میں بطور جواب حسن عسکری کے حوالہ سے لکھتے ہیں :

’’انہوں نے کہا تھا کہ روایتی شاعری کے ذریعے تم نے درد، کسک اور نشاطیہ لہجے پر قابو پا لیا ہے۔ اب غصّہ اور طنز کے اسالیب کو بھی آزماؤ۔ میں نے یہ کام شروع کیا تو میرے اندر نہ جانے کیسے کیسے بھوت جاگ اُٹھے اور میں بالکل از خود رفتہ ہونے لگا۔ …ان میں ایک بھوت اپنی ناکامی کا بھی تھا۔ شدید غم و غصہ نے مجھے اپنی گرفت میں لے لیا اور میں ایسی شاعری کرنے کے خواب دیکھنے لگا جسے سن کر لوگ رات کو سو نہ سکیں۔ ‘‘(۱۱)

سلیم احمد کا بیان اس امر کا اظہار ہے کہ غزل میں اُن کا تجربہ نہ صرف شعوری ہے بلکہ ماحول کے خلاف پیکار کی ایک پوری منصوبہ بندی کے تحت ہے۔ اُن کے اندر جذبہ انتقام اور اُن کے خون کا کھولاؤ انھیں مجبور کر رہا تھا کہ وہ غزل کی روایتی زبان، لہجے اور لفظیات سے بغاوت کا اعلان کر کے جو لفظ جس طرح مرضی آئے استعمال کریں۔ چنانچہ انھوں نے ایسا کیا، جس کے بعد نہ صرف تنقیدی سطح پر اُن کی مخالفت کی گئی بلکہ اُن کے خلاف شعری سطح پر بھی محاذ کھل گئے۔ اُن کے اندازِ غزل کو ’’خرافات گوئی‘‘ (۱۲) قرار دیا گیا۔ ڈاکٹر حنیف فوقؔ نے تو یہاں تک لکھ دیا کہ ’’ اُس نظام میں جہاں اچھے کاموں کا ذکر کم ہوتا ہے اور جرائم کو اخباری شہرت حاصل ہوتی ہے یہ تکنیک بڑی مستند بن گئی ہے۔ ‘‘(۱۳)

سلیم احمد کی غزل کے خلاف جو شعری سطح پر محاذ کی چند ایک مثالیں قابلِ لحاظ ہیں :

سلیم احمد کا ہے کچھ ذہن گندہ

بری لگ جائے سچ کَہ دے جو بندہ

(رحمت امروہوی)

مکھیاں بھنکیں گی، بھونکیں گے غزل میں کتے

یہ بھی دن آ کے رہے گا مجھے معلوم نہ تھا

( عجیب و غریب خاں )

غزل میں اختیار کیے گئے سلیم احمد کے اسلوب نے نہ صرف چونکا یا بلکہ ایک دھچکا لگایا ہے اور حادثہ یہ ہوا کہ اُن کی تندو تیز اور نشتریت سے معمور لہجے کے جواب میں تنقید بھی اُسی نوعیت کی ہونے لگی۔ چنانچہ اُن کے اسلوبِ غزل پر تہذیبی تصادم اور اُس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی نفسیاتی پیچیدگیوں کے حوالے سے بہت کم سوچا اور لکھا گیا۔ سلیم احمد نے اس سلسلے میں ایک مضمون میں اپنے عہد کی تہذیبی جدلیاتی فضا کا جائزہ لیتے ہوئے بڑی عمدہ بات کہی ہے کہ ’’ہماری تہذیب میں ایک غیر تہذیب کی مداخلت کے بعد جو تبدیلیاں آئی ہیں، اُن میں توڑنے اور جوڑنے کا عمل مرکزی اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ اور ہمارے شعور اور لاشعور کو بری طرح متاثر کر رہا ہے۔ اس کی وجہ سے ہم ایک لاینحل کشمکش میں مبتلا ہیں۔ ‘‘(۱۴)

جمیل جالبی نے بھی سلیم احمد کے اسلوبِ غزل کو شعور و لاشعور کی اسی جنگ کے باعث اختلالِ اعصاب (نروس بریک ڈاون ) قرار دیا ہے۔ (۱۵)

سلیم احمد کی غزل کا ایک پہلو جنسی اسلوب کا وہ تجربہ بھی ہے جس کے باعث غزل میں پہلی بار جنسی معاملات کو بڑے واضح انداز میں بیان کیا گیا۔ اُن کے اس تجربے کو معاصر تنقید نے کئی زاویوں سے دیکھا ہے لیکن اُن نفسیاتی کیفیتوں تک رسائی کی کوشش بہت کم تجزیہ کاروں کے ہاں نظر آتی ہے جن سے عہد نو کا انسان دو چار ہے۔ اُن کے چند اشعار ملاحظہ ہوں جن میں جنسی اسلوب کے ذریعے عہد نو کے انسان کا مسخاکہ (Caricature)کھینچا گیا ہے :

مرد نامرد ہیں اس دور کی زن ہے نازن

اور دنیا کی ہر اک شے ہے اسی کا سمبل

سخت بیوی کو شکایت ہے جہانِ نو سے

گاڑی آتی نہیں اور گر جاتا ہے پہلے سگنل

عشق اور اتنا مہذب چھوڑ کے دیوانہ پن

بند نیچے سے گلے تک شیروانی کے بٹن

دھرا کیا ہے زبانی پیار کے رنگیں فسانوں میں

کھرے کھوٹے کا سب احوال کھل جائے گا رانوں میں

ڈاکٹر حنیف فوق نے اس نوعیت کے اشعار کو فراقؔ کی اثر پذیری قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ سلیم احمد نے فراق سے اُن کی جمالیاتی سرشاری کے جز و کو خارج کر کے اُن کی جسم پرستی کے رجحان کو لے لیا ہے۔ ‘‘(۱۶)

سلیم احمد کے ان اشعار کا جائزہ لیا جائے تو ان میں جسم پرستی یا شہوت پسندی کا کوئی مریضانہ رجحان نہیں ملتا، نہ ہی یہ کسی فردِ واحد کے جذباتی ابال کا اظہار ہیں۔ اس معاملے میں جب تک اُس تہذیبی عمل کی شکست و ریخت سے اعتنا نہ کیا جائے، قضیہ حل نہیں ہوتا۔ سلیم احمد فکری طور پر دبستان عسکری سے وابستہ تھے، جن کا بنیادی مسئلہ اُس مشرق کی بازیافت تھا کہ عشق جس کی بنیادی قدروں میں شمار ہوتا تھا۔ عسکری صاحب کا یہ خیال تھا کہ ’’سرسید و حالی کی عقلیت کی تحریک کے بعد جو روش ابھری تھی اُس نے جنس و جذبے کا وہ خوف پیدا کر دیا تھا، جس کا پورا اردو ادب شکار ہو چکا تھا۔ ‘‘(۱۷)

سلیم احمد کے جنسی اسلوب کی حامل غزلوں میں کوئی مریضانہ شہوت پسندی نہیں بلکہ یہ عہدِ حاضر کی اُس عقلی، مشینی، کاروباری اور تجارتی فضا پر اظہار تضحیک ہیں جس میں سانس لینے والا انسان آدھے وجود کا کسری آدمی ہے اور عشق دماغ کا خلل ہے۔ یہ وہ جدید ماحول ہے جس میں انسان کا باطن روحانی سرشاری سے عاری ہو کر محض مادی سطح پر ترقی کر رہا ہے۔

سلیم احمد کے تجربات کے سلسلے میں یہ امر خوش آئند نہیں ہے کہ اسلوب اور لفظیات میں تبدیلی کی ان کوششوں نے ابھی کوئی واضح شکل نہیں اختیار کی تھی کہ وہ خود سلیم احمد کی عدم توجہی کا شکار ہو گئے۔ جس قوّت اور شدّت سے انھوں نے عہدِ حاضر کی مادی سوچ کے زاویوں کے خلاف غزل کے محاذ پر مقابلہ کیا، اگر وہ پس قدمی کا فیصلہ اتنے جلدی نہ کرتے تو اسلو بِ غزل کے تجربات کو اپنے ہاں کسی واضح امکان سے روشن ضرور کرتے۔

قطع نظراس کے کہ سلیم احمد اپنی وضع کلاسیکی کے باعث بغاوت کے راستے پر زیادہ دور نہیں گئے، اُن کے تجربات نے ایک جہت نمائی کا کام ضرور کیا، دوسری طرف ظفر اقبال کے لسانی تجربوں نے بھی لفظ اور اسلوب کے بعض نئے اشارے روشن کیے تو اس عہد کی ایک پوری نسل جو اپنی سماج کی لایعنی صورت حال سے پہلے ہی بیزار تھی اپنے غصہ اور فکری برہمی کا ا ظہار غزل میں کرنے لگی۔ خصوصاً اُس غیر تہذیب جس کے خلل کا ذکر سلیم احمد نے اپنے مضمون میں کیا، اُس کے تصادم کے نتیجے میں پیدا ہونے والی تمدنی شکل کی تصویر کشی اس نسل کے غزل گوؤں کا مرکز و محور نظر آتی ہے۔ ساتھ ساتھ وہ اختلالِ ذہنی بھی نظر آتا ہے۔ جس سے نئے عہد کا انسان دوچار ہے۔ اگر چہ اس نوع کے الفاظ اور اسلوب کو بعض لوگوں نے تخلیقی تجربے کے بجائے بطور فیشن بھی اختیار کیا:

چڑیا بیٹھی چھاؤں میں

بلی بیٹھی داؤں میں

گھر میں سب کے قفل پڑے تھے

باہر کیوں گائے بندھی تھی

(ساحل احمد )

ہاں وہ بھی گجرات کا تھا

تم اُس کو پہچانتے ہو

اپنا کیا لے جائے گا

آتا ہے تو آنے دو

اُس نے یہ کہلایا ہے

تم مجھ سے شادی کر لو

گھر میں بھی سب راضی ہیں

دل کہتا ہے ہاں کَہ دو

سیکل پہ ٹیڈی گرل گلی سے گزر گئی

کتا بھی ساتھ دور تلک بھونکتا گیا

(عادل منصوری)

اتنی مدّت بعد ملے ہو کیسے ہو

تم بھی کیا اب امریکہ میں رہتے ہو

ایک خرگوش جو جھاڑی سے نکل کر بھاگا

میرے ساتھی نے ہوا ہی میں چلا دی گولی

(خلیل رامپوری)

شیخ کے دل میں حوریں ہیں فردوس کی

میرے دل میں ہیں لاہور کی لڑکیاں

(عباس اطہر)

یادوں کے ٹیلی وژن پر گریاں دیکھ کر اُس کو

تاج محل میں تنہا بیٹھا سگریٹ پھونک رہا ہوں

کھوج میں تیری ان گنت ٹرامیں اور بسیں چھانی ہیں

تارکول کی سڑکوں پر میں میلوں پیدل گھوما ہوں

(صادق)

ٹہنی گلاب کی مرے سینے سے آ لگی

جھٹکے کے ساتھ کار کا رکنا غضب ہوا

سورج کو چونچ میں لیے مرغا کھڑا رہا

کھڑکی کا پردہ کھینچ دیا رات ہو گئی

(بشیر بدر)

ادبی رائے عامہ نے غزل کے اس رجحان کو ردِّ غزل، منفی غزل، ہجویہ غزل اور اینٹی غزل کا نام دیا اور اسے تہذیبی طور پر ٹیڈی ازم کے زیر اثر ایک منفی میلان گردان کر ’’بری شاعری کا سر چشمہ قرار دیا۔ (۱۸) بعض ناقدین کے نزدیک یہ ’’غزل کی مضحک پیروڈی ‘‘(۱۹)بلکہ ’’ہزل ‘‘ (۲۰) ہے اور بعض کی رائے میں اس نوع کی غزل کا ماضی کے ادبی سرمائے کے تناظر میں جائزہ لیں تو یہ ’’ریختی اور واسوخت کے قریب ہے۔ ‘‘(۲۱)

اس بات سے ان کار ممکن نہیں کہ سلیم احمد اور اُن کے بعض معاصرین کا مذکورہ رجحان غزل، اردو کی شعری روایت اور اُس کے تہذیبی مزاج کے خلاف ہے۔ اس رجحان کے تحت کہے گئے اشعار اکہرے ہیں اور غزل کے ایمائی اور رمزیاتی مزاج کو مجروح کرتے ہیں۔ ان شعراء نے غزل کی گہری معنویت اور داخلی آہنگ کو نظرانداز کرتے ہوئے بڑے کھردرے، درشت اور کسیلے الفاظ استعمال کیے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ شعرا نہ تو مزاجاً غیر سنجیدہ تھے نہ ہی اردو غزل کی روایت سے ناواقف۔ یہ لوگ در اصل ایک رد عمل کے طور پر سامنے آئے اور اپنے رویّوں میں شدید تر ہو گئے، چنانچہ اردو غزل کی ان کے تجربوں نے دھچکا بھی لگایا اور اس تخریبی عمل سے اردو غزل کا ایوان کچھ نقصان آشنابھی ہوا۔

اس تمام تر صورتِ حال کے تناظر میں ان تجربات کو شعری جدلیات سے تعبیر کیا جائے تو غلط نہ ہو گا، جس نے ہمارے ادبی ماحول میں ایک بحث کا دروازہ کھولا اور دونوں اطراف کے زاویہ نظر اور فکر و خیال کو اظہار کا موقع ملا۔ مختلف ادبی حلقوں اور رسائل و جرائد میں مذکورہ مباحث کے باعث اسلوب اور زبان کے نئے برتاؤ کے سلسلے میں شعراء کی غزل کے نئے امکانات سے آشنائی ہوئی۔ ان مباحث نے ’’جہاں نوجوانوں کو بالآخر راہ اعتدال دکھائی وہاں بزرگوں میں بھی رفتہ رفتہ اس نئی راہِ سخن کے محاسن اجاگر ہونے لگے۔ ‘‘(۲۲)

استفادہ

۱ عتیق اللہ۔ مضمون ’’جدید نظم۔ ہیئت اور تجربے ‘‘(مشمولہ ) ’’اردو نظم ۱۹۶۰ ء کے بعد‘‘ (مرتبہ، زبیر رضوی)اردو اکیڈمی دہلی ۱۹۹۵ ص: ۱۰۲
۲ اختر احسن۔ مضمون ’’ نئی شاعری کا منشور‘‘ مشمولہ ’’نئی شاعری‘‘ ( مرتبہ افتخار جالب ) نئی مطبوعات لاہور ۱۹۶۶ ص: ۳۸
۳ ڈاکٹر سید محمد عقیل۔ ’’ نئی علامت نگاری‘‘ انجمن تہذیب نو پبلیکیشنز الہ آباد، سن ص: ۱۱۵
۴ سلیم احمد۔ ’’بیاض‘‘ ۱۹۶۶ ص: ۱۰
۵ سجاد باقر رضوی۔ مضمون ’’ سلیم احمد کی غزل‘‘ مشمولہ ’’روایت ‘‘ نمبر ۴۔ ۱۹۸۶ء ص: ۱۴۰
۶ فتح محمد ملک۔ مضمون ’’ سلیم احمد کی شاعری ‘‘ ایضاً ص: ۱۶۱
۷ ساقی فاروقی۔ ’’بازگشت و بازیافت ‘‘ مکتبہ اسلوب کراچی ۱۹۸۷ ص: ۱۳۴
۸ مجتبیٰ حسین۔ مضمون ’’بیاض پر ایک نظر‘‘ مطبوعہ ’’ فنون‘‘ (جدید غزل نمبر) جنوری ۱۹۶۹ء ص: ۳۱۷
۹ ایضاً ص: ۳۱۷
۱۰ سجاد باقر رضوی۔ مضمون ’’ سلیم احمد کی غزل ‘‘ مشمولہ ’’روایت ‘‘ نمبر ۴ ص: ۱۴۵
۱۱ سلیم احمد۔ مضمون ’’ روایتی غزل کے بارے میں ‘‘ مطبوعہ ’’نیا دور ‘‘ کراچی شمارہ ۸۰؍ ۱۷۹ ص: ۳۱۷
۱۲ نظیر صدیقی۔ ’’جدید اردو غزل۔ ایک مطالعہ ‘‘ ص: ۲۲۹
۱۳ ڈاکٹر حنیف فوق۔ مضمون ’’ اردو غزل کے نئے زاویے ‘‘ مطبوعہ ’’ فنون‘‘ (جدید غزل نمبر) ص:۱۲۰
۱۴ سلیم احمد۔ مضمون ’’روایتی غزل کے بارے میں ‘‘ مطبوعہ نیا دور کراچی ص: ۳۱۶
۱۵ ڈاکٹر جمیل جالبی۔ مضمون ’’کچھ سلیم احمد کے تخلیقی سفر کے بارے میں ‘‘مشمولہ روایت نمبر ۴ ص: ۱۰۵
۱۶ ڈاکٹر حنیف فوق۔ مضمون ’’اردو غزل کے نئے زاویے ‘‘ مطبوعہ ’’ فنون ‘‘(جدید غزل نمبر ) ص: ۱۳۰
۱۷ بحوالہ سجاد باقر رضوی۔ مضمون ’’سلیم احمد کی غزل ‘‘ مشمولہ ’’ روایت‘‘ نمبر ۴ ص: ۱۳۸
۱۸ نظیر صدیقی۔ ’’جدید اردو غزل۔ ایک مطالعہ‘‘ گلوب پبلشرز لاہور ۱۹۸۴ ص: ۳۶۱
۱۹ انور سدید۔ ’’اردو ادب کی مختصر تاریخ ‘‘ مقتدرہ قومی زبان ص: ۵۱۳
۲۰ ایضاً ص۵۱۳
۲۱ ڈاکٹر بشیر بدر۔ ’’آزادی کے بعد غزل کا تنقیدی مطالعہ ‘‘ انجمن ترقی اردو دہلی۱۹۸۱ ص: ۱۵۹
۲۲ فتح محمد ملک۔ مضمون ’’سلیم احمد کی شاعری ‘‘ مشمولہ روایت نمبر ۴ ص: ۱۶۳