غزالی اور مسئلہ تکفیر
از، وارث مظہری
امام غزالی نے جس عہد اور ماحول میں آنکھیں کھولیں اس کی ایک اہم خصو صیت اسلامی فرقوں کی کثرت اور ان کے درمیان کش مکش اور جدال و مناظرے کی فضا تھی۔ خصوصیت کے ساتھ معتزلہ اور اشاعرہ نے عالم اسلام کے قلب کوفکری معرکہ آرائیوں کا میدان کارزار بنا دیا تھا۔ دوسری طرف فلاسفہ اور باطنیہ کی جماعت تھی۔ جواپنی عقلی اور باطنی تاویلات سے اسلامی عقائد و مسلمات کے بنیادی ڈھانچے کو مسمار کرنے میں مصروف تھی۔ فلسفے اور علم کلام کے علاوہ فقہ اور تصو ف کے میدان میں بھی فکری انتشار کی شدید کیفیت پائی جاتی تھی۔ چناں چہ غزالی نے احیاء العلوم سمیت دوسری کتابوں میں دنیا پرست فقہا اور خواہش پرست صوفیا کی شدید مذمت کی ہے۔ خاص طورپروہ اول الذکر طبقے میں پیدا ہوجانے والی مختلف اخلاقی خرابیوں: حسد و ریا ، جا ہ پسندی ،سلاطین وقت سے تعلق اور ان کی خوشامد و چاپلوسی اور فقہ کوحصول دنیا کا ذریعہ بنا لینا وغیرہ شکارہو چکے تھے۔ حالاں کہ وہ خو د فقیہ بھی تھے اور بحر معرفت و تصوف کے شناور بھی ۔ فقہا کے تعلق سے ان کا انقباض اس حد تک بڑھا ہوا تھا کہ وہ خود کو فقیہ کہلانا بھی پسند نہیں فرماتے تھے۔(1)
امام غزالی کے امتیازات میں ایک اہم امتیاز ان کی فکری اعتدال پسندی ہے۔ ایک ایسے دور اور ماحول میں جب باہم مختلف اسلامی جماعتیں ایک دوسرے کی تکفیر و تفسیق کو دین متین کی سب سے بڑی خدمت تصور کیے بیٹھی تھیں۔ فقہا کا ایک بہت بڑا اور مؤثر طبقہ خشک فقہی بحثوں کو سرمایہ دین و ہنر سمجھ کر اس میں الجھا ہوا تھا. غزالی نے اسلامی فکر وعمل کے اخلاقی پہلوؤں کو اپنی توجہ کا مرکز بنایا۔ فقہ کے پہلو بہ پہلو مقاصد فقہ و شریعت کے خد وخال کو ابھارنے کی کوشش کی اور بین جماعتی کش مکش کے خاتمے کے لیے کفر وایمان کے حدود و معیارات اس نظریاتی کش مکش کے تناظر میں متعین کرنے کی کوشش کی ۔ ان کوششوں کا ہدف اس بات کا اثبات تھا کہ مختلف اسلامی جماعتوں کے درمیان اختلافات کی حیثیت فروعی ہے ،اصولی نہیں ہے۔اس لیے ان کی بنیاد پر ایک دوسرے کی تکفیر نہیں کی جاسکتی۔
اس حوالے سے ان کی دو کتابیں نہایت اہم ہیں: فیصل التفرقہ بین الاسلام والزندقہ اور الاقتصاد فی الاعتقاد ۔خاص طور پر پہلی کتاب اوردوسری کتاب کا چوتھا باب اس موضوع کے تمام اہم اورضروری نکات اور پہلوؤں پر حاوی ہے۔غزالی نے ان کے حوالے سے اسلامی شریعت کی رواداری اور توسیع پسندی کی روشنی میں جو اصول طے کیے ہیں ان سے تکفیر مسلم کا دائرہ بہت محدود ہوجاتا ہے۔ غزالی کی شخصیت پر لکھنے والوں نے اس کوان کے نہایت اہم کارناموں میں شمار کیا ہے۔تاہم اسی کے ساتھ ان پر تنقید کرتے ہوئے انہیں تکفیر کے باب میں حد سے زیادہ رواداری برتنے والا بھی قرار دیا ہے(2)
الاقتصاد فی الاعتقاد میں لکھتے ہیں: والذی ینبغی ان یمیل المحصل الیہ الاحتراز من التکفیر ما وجد الیہ سبیلا فان استباحۃ الدماء والاموال من المصلین الی القبلۃ المصرحین بقول لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ، خطا ء والخطأ فی ترک الف کافر فی الحیاۃ أھون من الخطا ء فی سفک محجمۃ من دم مسلم (3)’’ حق وباطل میں تمیز کرنے والے کے لیے مناسب ہے کہ وہ جہاں تک ممکن ہو تکفیرسے احتراز کرے ۔اس لیے کہ قبلہ کی طرف رخ کرکے نماز ادا کرنے والوں اور کلمہ شہادت کا اقرار کرنے والوں کے جان ومال کو مباح قرار دینا خطا ہے اور ایک ہزار کفار کوزندہ چھوڑنے میں غلطی کرنا اس کی بہ نسبت آسان ہے کہ کسی فرد مسلم کے خون بہانے میں غلطی کی جائے‘‘۔
فیصل التفرقہ میں دوسری جگہ تقریبا ایسی ہی بات انہوں نے اپنی وصیت کے عنوان سے درج کی ہے اور لکھا ہے کہ :’’تکفیر میں بہرحال خطرہ ہے جب کہ اس میں خاموشی کا رویہ اختیار کرنے میں کوئی خطرہ نہیں ہے۔(فان التکفیر فیہ خطر والسکوت لاخطر فیہ)۔(4) اس سے اس مسئلے میں ان کی حساس ذہنیت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
کفر وایمان کی اصو لی بحث:
امام غزالی نے فیصل التفرقہ میں کفر وایمان کی حقیقت کی توضیح میں نہایت دقیق اصو لی بحث کی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ یہ انہی جیسے علما ے روزگار کا خاصہ تھا، جن کی فکر علوم شریعت سے مستنیر اور جن کا قلب روحانیت کی لذتوں سے سرشار تھا۔ امام غزالی خود لکھتے ہیں کہ کفر وایمان کی حقیقت ایسے لوگوں پرظاہر نہیں ہوتی جن کے دل جاہ و مال کی طلب اور ان کی محبت کی گندگی میں ملوث ہوں بلکہ وہ ایسے لوگوں پر ظاہر ہوتی ہے، جن کے دل دنیا کے خس خاشاک سے پاک ہوں۔کامل ریاضت سے صیقل ہوچکے ہوں، ذکرالہی سے روشن ہوں،فکرصائب سے معمور اورحدود شرع کی پابندی سے مزین ہوں۔(5 ) ان کی نظرمیں وہ فقہا جن کے علم کا سرمایہ نجاست اور آب زعفران کے مسائل میں سمٹا ہوا ہے۔وہ اصحاب جنہوں نے سلاطین کی چوکھٹوں کو سجدہ گا ہ بنا لیا ہے۔اورجو درہم و دینا ر کے پجاری بن گئے ہیں ان پراس طرح کے حقائق و معارف کا انکشاف ممکن نہیں ہے۔( 6)
غزالی کے نزدیک کفر و ایمان کے حوالے سے سب سے بنیادی بات کفر کی ایسی جامع ومانع تعریف ہے، جواپنے مشتملات و متعلقات پر پوری طرح حاوی ہو اور اس کا رخ کسی متعین فرقے اور جماعت کی طرف نہ ہو ۔ فیصل التفرقہ میں وہ لکھتے ہیں:’’اگرکوئی کفر کی وہ تعریف کرے جو اشاعرہ ، معتزلہ یا حنابلہ کے خلاف ہو تو سمجھ لینا چاہیے کہ ایسا شخص سادہ لوح اور احمق ہے اور تقلید کے پھندے میں گرفتار ہوچکا ہے۔( 7) اسی طرح ایک جگہ لکھتے ہیں کہ اگرتم انصاف سے کام لوتوتمہیں یہ بات سمجھ میں آجائے گی کہ جو شخص حق کو کسی ایک صاحب فکرونظر پر موقوف رکھتا ہے تو ایسا شخص کفر اور تناقض سے زیادہ قریب ہے۔ (ان انصفت علمت ان من جعل الحق وقفا علی واحد من النظار بعینہ فہو الی الکفر والتناقض اقرب)(8) اہم بات یہ ہے کہ غزالی خود اشعری تھے، البتہ ابوالحسن اشعری کے مقلد نہ تھے،نہ ہی اشاعرہ کے تمام اصول و تفریعات سے اتفاق کرتے تھے۔ فیصل التفرقہ کی تالیف کا پس منظر یہی ہے ہے کہ اشاعرہ کے ساتھ بعض نظریاتی اختلافات کی بنا پر ان کی تکفیرکی جانے لگی توانہوں نے ایک دوست کے اس تعلق کے خط لکھنے پر یہ کتاب تالیف کی۔
امام غزالی نے کفر کی دو قسمیں کی ہیں: کفر عملی اور کفر اعتقادی۔ کفر عملی ان کی نظر میں وہ ہے جسے فسق اور بدعت وضلالت سے تعبیرکیا جاتا ہے اور کفراعتقادی باضابطہ کسی اصل دین کا عقیدے کی سطح پرانکار ہے۔جیسے حشرو نشر ،قیامت یا نماز روزے کا انکار۔کفراعتقادی میں ملوث لوگوں کی انہوں نے کھل کرتکفیرکی ہے اور اس میں کسی رعایت اورسہل پسندی کا مظاہرہ نہیں کیا ہے۔تکفیر کے تعلق سے غزالی نے یہ اہم اصو ل یہ بیان کیا ہے کہ تکفیر کا ماخذ (مأ خذ التکفیر)عقل نہیں بلکہ شرع ہے۔اگرکوئی شخص ضروریات عقلی کا انکارکرتا ہے۔مثال کے طور پر اندرائن کے کڑوے پھل کومیٹھا کہتا ہے تو یہ کہا جائے گا کہ اس نے مخالف عقل بات کہی ۔لیکن اس بنیاد پر اس کی تکفیر و تفسیق نہیں کی جاسکتی۔ غز الی کی یہ بات بظاہر سادہ لیکن نہایت دقیق اوراہم ہے۔دراصل اس اصول کے ذریعے وہ یونانی فلسفے اور علم کلام کی بنیاد پر کفر وایمان کے باب میں اٹھائے گئے سوالات اور مباحث کا رد کرنا چاہتے ہیں۔ان کی نظر میں معتزلہ واشاعرہ اسی طرح دیگر کلامی فرقوں کا کلامی اصول نظریات کی بنیاد پر ثابت ہونے والے عقلیاتی حقائق کے منکرین یا نا واقف افراد کی تکفیر وتفسیق کرنا اصولی طور غلط ہے اور شریعت سے اس کے حق میں کوئی دلیل فراہم نہیں کی جاسکتی۔ کیوں کہ عہد نبوی و عہد صحابہ میں دائرہ ایمان میں داخل ہونے والوں کا ذہن اس طرح کی عقلی موشگافیوں سے با لکل خالی تھا۔بھلا رسول ﷺ اصحاب رسولﷺ سے یہ کہاں ثابت ہے کہ انہوں نے ،مثال کے طور پر، مسلمان ہونے والے اعرابی کو بلا کر یہ سوال کیا ہو کہ عالم حادث ہے اور اللہ تعالی ایسے علم اورایسی قدرت کی صفت کے ساتھ عالم وقادر ہے جواس کی ذات پرزائد ہے۔(9)
غزالی کفرکی تعریف اس طرح کرتے ہیں:الکفر ہو تکذیب الرسول علیہ الصلاۃ والسلام فی شیء مما جاء بہ والایمان تصدیقہ فی جمیع ما جاء بہ(10)۔…..والاصل المقطوع بہ ان کل من کذب محمدا ﷺ فہو کافر مخلد فی النار بعد الموت۔’’ (11) ’’رسول اللہ جن احکام دین وشریعت کے ساتھ مبعوث کیے گئے ہیں ان میں آپ کی تکذیب کا نا م کفر ہے اور ایمان یہ ہے کہ رسول اللہﷺ کی لائی ہوئی تمام باتوں کی تصدیق کی جائے…… اور اصول قطعی یہ ہے کہ جس نے محمدﷺ کی تکذیب کی وہ کافر ہے اورموت کے بعد وہ جہنم کے دائمی عذاب کا مستحق ہوگا‘‘۔انہوں نے شریعت کوچارحصوں میں تقسیم کیا ہے:اصول ،فروع، متواتر اور آحاد اور ایمان کے تین بنیادی اصول بیان کیے ہیں: 1- -اللہ پر ایمان2۔ رسول پرایمان 3۔یوم آخر یعنی حشر ونشر پرایمان۔ ان کے علاوہ ان کے نزدیک دوسری چیزیں فروعات کی قبیل سے ہیں۔اور ان کے انکار سے تکفیر لازم نہیں آتی ،الا یہ کہ اصول دین میں سے کسی ایسی اصل کا انکار کیا جائے جو رسول اللہ ﷺ سے تواترکے ساتھ ثابت ہو۔ یہاں یہ بات خاص طور پر قابل ملاحظہ ہے کہ غزالی نے ایمان کی اصل صرف تین قرار دی ہے۔حالاں کہ عقائد کے ذیل میں چھ اصولوں کا ذکرکیا جاتا ہے یعنی مذکورہ تینوں کے علاوہ فرشتوں،کتابوں ،اور تقدیر پر ایمان۔بعض لوگ تقدیر کواس میں شمار نہیں کرتے اور اس کوذات باری پر ایمان لانے سے ہی متعلق کردیتے ہیں۔لیکن بقیہ دواصولوں کا ذکر عقائد پر لکھی گئی اکثر کتابوں میں موجود ہے اور یہی عوام کی زبان پر بھی ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ اس تعلق سے کسی بھی غلط فہمی کوراہ دینے کی ضرورت نہیں۔دیکھا جائے تو ملائکہ اور کتابوں پرایمان رسولوں کی تصدیق کے ضمن میں آجاتا ہے۔یا پھر یہ کہنا چاہیے کہ عدد مراد نہیں ہے بلکہ مراد یہ ہے کہ اصو ل دین وایمان وہ ہیں جو قطعی شکل میں تواتر کے ساتھ ثابت ہوں۔جو امور آحاد سے ثابت ہوں ان کے انکار پر کفر کا ترتب نہیں ہوسکتا۔اس لیے کہ آحاد کے ذریعہ حکم قطعی ثابت نہیں ہوتا۔ وہ اجماع کے انکار کو بھی کفر کے لیے مستلزم قرار نہیں دیتے کیوں کہ اجماع کے حجت قاطعہ ہونے میں غموض وابہام ہے اوراس لیے وہ مختلف فیہ ہونے کے درجے میں ہے۔(12) اس ضمن میں اہم بات انہوں نے یہ کہی ہے کہ جس برہان یا دلیل قطعی کی بنیا د پر کوئی شخص کسی کی تکفیر کرتا ہے،اس برہان کی معرفت بھی آسان نہیں ہے۔اس لیے ضروری ہے کہ برہان کوبھی منضبط کرنے والا کوئی ضابطہ ہو جومتفق علیہ ہو اورتمام لوگ اس کے معترف ہوں۔13
تکذیب وتصدیق کے تعلق سے ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ ہر فرقہ دوسرے فرقے کے تعلق سے اس بات کا دعوا کرتا ہے کہ اس نے رسول کی تکذیب کی ہے اور اس لیے وہ کافر ہے۔وہ اس ضمن میں فریق مخالف کی باتوں کی حسب منشا تاویل و ترجمانی کرتا ہے۔غزالی لکھتے ہیں: ’’اشعری معتزلی کی تکذیب کرتا ہے اور یہ گمان کرتا ہے کہ اس نے روئیت باری کے جواز کو تسلیم نہ کرتے ہوئے اور خدا کے لیے علم و قدرت جیسی صفات کو ثابت نہ مانتے ہوئے رسول اللہ کی تکفیر کی ہے اور معتزلی اشعری کو تکذیب کرنے والا گردانتا ہے کہ خدا کے لیے صفات کے اثبات سے قدما کی کثرت لازم آتی ہے۔‘‘(14)استوی علی العرش کے مسئلے میں حنابلہ اشاعرہ کواستوا کامنکر اور مکذب گردانتے ہیں جب کہ اشاعرہ کا دعوا ہے کہ استوا کا جو مفہوم حنابلہ نے متعین کیا ہے ا س سے خدا کی تشبیہ لازم آتی ہے۔اندازہ کیا جاسکتا کہ ہر زمانے میں اور اس زمانے میں بھی مسلکی اختلاف و تنازع میں یہی صورت حال قائم ہے۔تقریبا یہی ذہنیت اور نظریاتی تصادم کی یہی نوعیت مختلف مکاتب فکر کے مابین پائی جاتی ہے۔خواہ یہ جماعتیں باہم ایک دوسرے کی تکفیر میں مبتلا ہوں یا تفسیق و تبدیع یعنی بدعتی ٹھہرانے میں۔غزالی کے بقول اس گرداب شر(vicious circle) سے نکلنے کے لیے تصدیق و تکذیب کی حقیقت کا معلوم ہونااز بس ضروری ہے۔تصدیق کی حقیقت یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جس چیز کے وجود کی خبر دی ہے اس کوتسلیم کیا جائے۔اس وجود کے ان کی نظر میں پانچ مراتب ہیں:وجود ذاتی، وجود حسی، وجود خیالی ،وجود عقلی اور وجود شبہی۔وجود ذاتی وجود خارجی یا بدیہی وجود ہے جس کے اثبات کے لیے حس اور عقل کی ضرورت نہیں ہے۔جیسے زمین وآسمان اورچرند و پرند کا وجود۔وجود حسی جس کا تعلق صرف حاسے سے ہو جیسے خواب میں دیکھی جانے والی چیز کہ خواب سے الگ اس کا کوئی وجود نہیں ہوتا یا جیسے شعلہ کو گردش دینے پر اس کے دائرے کی صورت جو اصلا دائرہ نہیں ہوتی لیکن ہمیں دائرے کی صورت میں نظر آتی ہے ۔ وجود خیالی کسی بھی محسوس چیز کی تصور اور خیال میں پائی جانے والی شکل ہے۔وجود عقلی : کسی شے کے ظاہرکی بجائے اس کی اصل حقیقت جیسے کسی چیز کا ہاتھ میں ہونا دراصل قوت اختیار میں ہونے کا معنی رکھتا ہے ۔اس صورت میں قدرت و اختیار ہاتھ کا وجودعقلی ہے۔وجود شبہی سرے کوئی وجود نہیں رکھتا بلکہ ایک دوسرا وجود اس کے مشابہ ہوتا ہے۔رسول اللہ ﷺ نے کسی امر حقیقی کے وجود کی جو خبر دی ہے اگرکوئی شخص ا س کے وجود کی ان انواع خمسہ میں سے کسی بھی نوع کے تحت اعتراف کر رہا ہو تواسے رسول کی تکذیب کرنے والا قرار نہیں دیا جاسکتا بلکہ اسے تصدیق کرنے والا شمار کیا جائے گا۔ان کے بقول مکذب وہ ہے جو ان تمام معانی کی نفی کردے اور یہ خیال کرے کہ رسول نے جو کچھ بھی کہا وہ کذب محض ہے‘‘۔ (15)
غزالی نے تکذیب کے چھ مراتب کا ذکرکیا ہے اورمحسوس مثالوں کے ذریعہ اس کے اطلاق سے بھی بحث کی ہے۔(1) یہود نصاری ،مجوس اور بت پرست۔ان کی تکذیب اور اس بنیاد پران کی تکفیرمنصوص ہے اور امت کا اس پراتفاق ہے(2)دوسری قسم براہمہ اور دہریہ کی ہے ۔براہمہ اصل نبوت کے اور دہریہ صانع عالم کے منکر ہیں۔(3)تیسرے فلاسفہ ہیں جوصانع عالم کے وجود اور نبی کی نبوت کے قائل ہیں لیکن وہ کہتے ہیں کہ نبی نے بہت سی باتیں چھپالیں اور انہیں صراحت کے ساتھ عوام کونہیں بتایا کیوں کہ وہ ان کی حقیقت کے ادراک سے قاصر تھے۔(4) چوتھے معتزلہ اورمشبہ اوران کی طرح کے بعض دوسرے فرقے ہیں جوبراہ راست رسول کی تکذیب نہیں کرتے البتہ تاویل کے ذریعہ وہ رسول کی تکذیب کو درست رکھتے ہیں۔غزالی کے نزدیک یہ طبقہ محل اجتہا د میں ہے۔تاہم احتیاط اسی میں ہے کہ ان کی تکفیرنہ کی جائے۔(5) پانچواں طبقہ وہ ہے جو کسی اصول دین کا انکار کرے جیسے پنج وقتہ نماز کے فرض ہونے کا تو اس کی بھی تکفیرکی جائے گی۔(6) چھٹا طبقہ وہ ہے جوکس ایسے امر دین کا صراحت کے ساتھ انکار نہ کرے جو تواترکے ساتھ قطعی طور پرثابت ہو ۔یہ بھی محل اجتہا د میں ہے۔تاہم وہ کہتے ہیں کہ اس سے بڑے مفاسد کے پیدا ہونے کا اندیشہ ہے۔مثلا اگرکوئی شخص محمد ﷺ کے بعد کسی نبی کی آمد کا قائل ہو تو اس کی تکفیرمیں توقف کرنا صحیح نہیں ہوگا۔(16)
ان امور کا خلاصہ غزالی کی اپنی تشریح کے مطابق یہ ہے کہ امورمکفرہ تین ہیں۔1۔صانع عالم کے وجود وصفات اور نبوت کے انکارکا اعتقاد رکھنا2-۔وہ چیز جوایک شخص کو خدا کی ذات وصفات کے اقرارسے روک دے اوراس سے ایسا تناقض لازم آتا ہوجوان کے انکارکوہی مستلزم ہو3-۔تیسرے ایسا عمل جو کسی کافر سے ہی صادر ہو۔جیسے آگ کی پرستش یا بت کوسجدہ کرنا یا بعض رسولوں کا انکار یا زنا اورشراب کو حلال سمجھنا یعنی تواتر سے ثابت شدہ ضروریات کا انکارکرنا۔
تاویل کا مسئلہ اور اس کی حقیقت:
تکفیرکے مسئلے میں سب سے اہم معاملہ تاویل کا ہے یعنی امور دین اور معاملات شرع میں کس قسم کی تاویل قابل قبول اور کون سی تاویل قابل رد ہے۔ان کی نظر میں یہ اصول طے شدہ ہے کہ تاویل کرنے والے کی تکفیر کی تکفیر نہیں کی جائے گی۔اس لیے کہ تاویل سے کسی کو بھی مفر نہیں ہے۔سب سے کم تاویل کرنے والے امام احمد بن حنبلؒ ہیں۔ تین مسائل میں انہوں نے بھی تاویل سے کام لیا ہے(17)۔امام غزالی کی نگاہ میں تاویل کی دوقسمیں ہیں: وہ تاویل جو غلبہ ظن پر قائم ہو دوسرے وہ جو بر ہان قاطع یا قطعی دلیل پرقائم ہو۔ انہوں نے لکھا ہے کہ:بعض لوگ بغیر کسی واضح وروشن دلیل کے غلبہ ظن کی بنیاد پر تاویل کرتے ہیں ان کی تاویل کے تعلق سے دیکھا جائے گا کہ اس کا تعلق اصول عقائدسے ہے یا نہیں اور جیسا کہ اوپر گزرا غزالی کی نظر میں اصول عقائد تین ہیں:اللہ، رسول اور یوم آخرت پر ایمان (ان کے علاوہ باقی سب فروع ہیں۔) چناں چہ اگر تاویل کا تعلق اصو ل عقائدسے نہیں ہے تو پھر تاویل کرنے والے کی تکفیر نہیں کی جائے گی۔جیسے صوفیا کا یہ کہنا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے آفتاب و ماہتاب کو ’’ہذا ربی‘‘ نہیں کہا تھا۔کیوں کہ یہ ان کی شان سے فروترتھا۔ بلکہ غیرمحسوس نورانی جواہر کوکہا تھا ۔اس طرح بعض لوگ حضرت موسی علیہ السلام کے عصا(طہ:69) اور نعلین(طہ:12) کی تاویل کرتے ہیں؛ایسی تاویل کرنے والوں کو کافر توکجا بدعتی بھی اس لیے قرار نہیں دیا جاسکتا کہ ان کے بقول اس صو رت میں یہ اندیشہ ہے کہ عوام ہر اس چیز کو جواسلاف سے ثابت نہ ہو،بدعت تصو ر کرنے لگیں۔ہاں اگرتاویل کا تعلق بنیادی عقائد سے ہو جیسے حشرو نشر یا آخرت کا عذاب محسوس توایسے شخص کی تکفیر کی جائے گی کیوں کہ حشر ونشر کے ممکن نہ ہونے پرسرے سے کوئی دلیل نہیں ہے۔
فروع دین کے تعلق سے ان کا نقطہ نظر یہ ہے کہ فروع میں تکفیرنہیں کی جائے گی سوائے اس صورت کہ جب کہ رسول سے ثابت شدہ کسی اصل دینی کا انکارکردیا جائے،لیکن ان کی نظر میں اس معاملے کی بھی بعض صورتوں متعلق شخص کو خطا کا ر یا بدعتی تصور کیا جائے گا کافر نہیں چناں چہ اہل تشیع کا امامت کے تعلق سے نظریہ اسی قبیل سے ہے ۔البتہ اگراس صورت میں تکذیب پائی جائے جیسے کو ئی شخص مکہ میں موجود کعبے کا انکار کردے یا وہ حضرت عائشہ پر تہمت طرازی کرے جب کہ ان کی برأت قرآن سے ثابت ہوچکی ہے توایسے شخص کی تکفیر کی جائے گی اس لیے کہ اس صورت میں تکذیب رسول اور انکار تواتر دونوں پایا جاتا ہے۔تاہم اس صورت میں بھی وہ ان لوگوں کا استثنا کرتے ہیں جوابھی حال ہی میں دائرہ اسلام میں داخل ہوئے ہوں اورضروریات وحقائق دین سے ابھی پوری طرح واقف نہ ہوسکے ہوں۔
فلاسفہ اور باطنیہ کی تکفیر:
فیصل التفرقہ میں امام غزالی کا نقطہ نظر تکفیر کے باب میں اس قدر نرمی اور لچک رکھتا ہے کہ بعض لوگوں کو محسوس ہوا ہے کہ وہ اس معاملے میں افراط تفریط یا مداہنت کا شکار ہوگئے ہوں۔ لیکن ایسا ہرگز نہیں ہے۔ وہ فلاسفہ ،باطنیہ اور اعتقادی سطح پر شریعت سے منحرف صوفیا کے ایک گروہ کی کھل کر تکفیر کرتے ہیں اورایسے صوفیا سے متعلق جو اس بات کے مدعی ہیں کہ روحانی ریاضتوں کے بعد ان سے تکلیف شرعی ساقط ہوچکی ہے غزالی لکھتے ہیں کہ ان کا قتل واجب ہے ۔ اتنا ہی نہیں بلکہ ان کے بقول ان میں سے ایک کو قتل کرنا سو کفار کوقتل کرنے سے بہترہے۔(18) اس لیے کہ اس طرح کے اعتقاد رکھنے کی شناعت اور ضرر کفرسے بڑھا ہوا ہے۔ اس سے اباحیت کا دروازہ کھلتا ہے اور یہ اباحیت عام اباحیت سے بہت زیادہ خطرنا ک ہے ۔اس لیے کہ دین بیزارلوگوں کی اباحیت کی خرابیاں ہرصاحب عقل وہوش پر واضح ہوجاتی ہیں لیکن دین کے پردے میں چھپی ہوئی اس طرح کی اباحیت بہت سے لوگوں کے لیے غارت گر دین وایمان بن جاتی ہے۔تاہم کیا ایسے صوفیاے سو کے تعلق سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ ہمیشہ ہمیش جہنم میں رہیں گے؟غزالی کے نزدیک یہ بات محل نظر ہے۔
فلاسفہ کی تکفیر کی وجہ ان کی نظر میں ان کے تین نظر یات ہیں کہ:1- ۔عالم قدیم ہے۔2-۔ یہ کہ خدا کوکلیات کا علم حاصل ہے ،جزئیات کا علم حاصل نہیں ہے۔3-۔ قیامت کے دن حشر ونشر جسمانی نہیں ہوگا اور نہ گنہ گاروں کو اللہ تعالی کی طرف سے محسوس عذا ب دیا جائے گا۔ باطنیہ کی تکفیروہ اس لیے کرتے ہیں کہ باطنی بھی فلاسفہ کی طرح حشر ونشر کی غلط تاویل کرتے ہیں۔اسی طرح وہ اپنے اس عقیدے کی بنیاد پر کہ شریعت کا ایک ظاہر ہے اورایک باطن وہ عقائد وامور شریعت سے تعلق رکھنے والے اکثر امور کی تاویل کرتے ہیں اور انہیں ظاہرنص سے سمجھ میںآنے والی حقیقت کی بجائے ا نہیں اصل حقیقت کارمز اورعلامت قرار دیتے ہیں۔
خدا کی رحمت واسعہ کا تصور:
خدا کی وسیع رحمت کا جوتصور امام غزالی کے یہاں نظر آتا ہے۔علماے اسلاف میں اس کی زیادہ نظیریں نہیں ملتیں۔اس کی ایک وجہ غالبا صوفیا کے افکار کا ان پراثر بھی ہے۔صوفیاے کرام کی جماعت کا ایک اہم امتیاز ان کی شمولیت پسندانہ (inclusive) فکر ہے۔انہوں نے دنیا و آخرت دونوں کے تعلق بندگان خدا کے لیے خدا کی رحمت کو زیادہ وسیع تناظر میں دیکھنے اور اس کے اطلاقات کو عام کرنے کی کوشش کی جس کی وجہ سے خشک فقہا ومتکلمین کی ایک جماعت ان سے نالا ں رہی۔قرآن میں خدا کی رحمت واسعہ کا ذکرکئی آیات میں آیا ہے۔ :قال عذابی اصیب بہ من أشاء ورحمتی وسعت کل شی ء’’ اللہ نے فرمایاکہ میں اپنا عذاب اسی پرواقع کرتاہوں جس پرچاہتا ہوں اور میری رحمت تمام اشیا پر محیط ہے‘‘(الاعراف:156) قرطبی نے اس آیت کے ذیل میں لکھا ہے :بعض مفسرین کا قول ہے کہ اس آیت کے تحت ہرچیز کو خدا کی رحمت کی توقع ہوئی یہاں تک کہ ابلیس کو بھی ۔چناں چہ ابلیس نے کہا کہ میں بھی توشے ہوں‘‘۔(19) ایک ضعیف حدیث سے بھی،جس کا ذکرابن کثیرنے اپنی تفسیر میں کیا ہے، ابلیس کے اس قول اور اظہار امید کا ثبوت ملتا ہے(20)۔امام غزالی کہتے ہیں کہ اللہ کی رحمت ہمارے تصو رسے بہت زیادہ وسیع ہے۔وہ لکھتے ہیں: ’’اللہ کی وسیع ترین رحمت کا تصور کرو ۔اور امورالہیہ کو اپنے مختصر اور رسمی پیمانے سے مت ناپو۔‘‘(فاستوسع رحمۃ اللہ تعالی ولا تزن الامور الالھیہ بالموازین المختصرۃ الرسمیۃ)(21) فیصل التفرقہ میں ایک جگہ انہوں نے بڑی بلند آہنگی کے ساتھ یہ بات کہی ہے کہ : أ نا اقول ان الرحمۃ تشمل کثیر ا من الامم السالفہ…. بل اقول ان اکثر نصاری الروم والترک فی ہذا الزمان تشملہم الرحمۃ ان شاء اللہ تعالی ۔اعنی الذین ہم فی اقاصی الروم والترک ولم تبلغہم الدعوۃ۔(22) یعنی میں کہتا ہوں کہ اللہ کی رحمت سابق امتوں میں سے بھی بہت سوں کے شامل حال ہوگی …. بلکہ میں کہتا ہوں کہ آج کے زمانے کے روم و ترک کے اکثر نصاری اللہ کی رحمت سے فیضیاب ہوں گے۔ ان نصاری سے میری مراد وہ ہیں جو ممالک روم وترک کے دور دراز حصوں میں رہتے ہیں اور ان تک اسلام کی دوعوت نہیں پہنچی۔ ایسے لوگوں کی انہوں نے تین قسمیں کی ہیں:پہلی قسم میں وہ لوگ شامل ہیں جن تک رسول اللہ ﷺ کا نا م ہیں نہیں پہنچا یا دوسرے لفظوں میں آپ ﷺ کی بعثت کی ان کو خبرہی نہ ہوسکی۔ یہ معذور ہیں۔دوسری قسم میں وہ لوگ داخل ہیں جو اسلامی ممالک کے پڑوس میں رہتے ہیں۔انہیں مسلمانوں کے ساتھ ملنے جلنے کے مواقع حاصل ہیں اوران تک اللہ کے رسول کا نام اورآپ کی سیرت وصفات کے بارے میں معلومات پہنچیں،لیکن وہ اپنے انکار پرمصررہے ۔یہ لوگ کفارو ملحدین میں سے ہیں ۔تیسری قسم ان لوگوں پر مشتمل ہے جن تک آپ کا نام تو پہنچا یا نام کی خبرتوہوئی لیکن سیرت و صفات کا ان کوعلم نہ ہوسکا۔بلکہ آپ کے بارے میں انہیں اس طرح اطلاع ملی کہ جیسے ہمارے محلے کے بچے سن لیتے ہیں کہ ابن مقفع نام کے ایک شخص نے نبوت کا دعوا کیا تھا۔تو چوں کہ انہوں نے آپ ﷺ کی اصل صفات کی بجائے اس کا برعکس سنا ۔اس لیے صرف اتنی بات ایسے لوگوں کے اندر طلب وجستجوکے داعیے کوابھارنے کے لیے کافی نہیں ہے۔اس لیے یہ لوگ بھی پہلی ہی قسم میں داخل ہیں۔(23)
اسی طرح وہ کہتے ہیں کہ کسی مذہب کا وہ شخص جو خدا اور آخرت پر یقین رکھتا ہو ،حقیقت یہ کہ تلاش حق سے دور نہیں رہ سکتا توا یسا جوشخص تلاش حق کے راستے میں ہو اور اس میں پوری طرح کوشاں ہولیکن حق کی دریافت سے قبل اس کی موت واقع ہوجائے خدا کی رحمت ومغفرت اس کے بھی شامل حال ہوگی۔ (24)اسی طرح ان کا یہ نقطہ نظر بھی نہایت اہم اور قابل غور ہے کہ حدیث میں تہتر مسلم فرقوں میں سے صرف ایک مسلم فرقے کی نجات کی جوبات کہی گئی ہے،اس کا تعلق ان لوگوں سے ہے جن سے کوئی حساب و کتاب نہیں لیا جائے گا اور ان کواس کے بغیر جنت میں بھیج دیا جائے گا۔اسی طرح جس حدیث میں ہزار میں سے ۹۹۹ افراد کے جہنم میں ڈالے جانے کی خبردی گئی ہے،اس سے متعلق بھی امام غزالی فرماتے ہیں کہ اس سے مراد یہ ہے کہ ہزار میں سے صرف ایک شخص معصو م عن المعاصی ہوگا۔باقی لوگ گناہ گار ہوں گے۔جنہیں شفاعت کے بعد اور معمولی سزا کاٹ کر جہنم سے نکال کر بالآخر جنت میں پہنچا دیا جائے گا۔(25)
خلاصہ یہ ہے کہ امام غزالی نے تکفیر کے باب کو حتی الامکان بند کرنے اور شریعت کی وسعت اورخدا کی رحمت شاملہ کو سامنے لانے کی سعی کی ہے۔موجودہ دور میں اگر غزالی کے اصول ونظریات کوبرتنے کی کوشش کی جا ئے تو بین مسلکی وجماعتی کش مکش تصادم کوکم کرنے میں اس سے مدد مل سکتی ہے۔غزالی کی شخصیت فقہ اورتصوف دونوں کی جامع تھی۔وہ صاحب نظرہونے کے ساتھ صاحب دل بھی تھے۔فکرونظر کے افراط تفریط کو کم کرنے اور بین جماعتی ہم آہنگی کے قیام کے لیے فقیہ کی عمیق نظر کے ساتھ صوفی کے وسیع دل کی بھی ضرورت ہے۔غور و فکر کا ایک اہم پہلوجو غزالی کے خد ا کی رحمت واسعہ کے تصور کے سیاق میں سامنے آتا ہے،وہ موجودہ دور میں اسلام کی دعوت کو اقوام عالم تک پہنچانے کی ذمہ داری ہے۔یہ ذمہ داری عمومی سطح پر تمام مسلمانوں اور خصوصی سطح پر تمام اسلامی جماعتوں اور علما و دعاۃ پر عائد ہوتی ہے۔یہ اہم سوال ہے کہ کیا ہم نے اسلام کی بے کم وکاست دعوت کو دوسروں تک پہنچانے کی ذمہ داری پوری کردی ہے تاکہ کل یہ نہ کہا جاسکے کہ وہ انہی معذورین میں سے ہیں جن کا ذکرغزالی نے کیا ہے؟
حواشی و حوالہ جات
1۔ الدکتور حسن الفاتح قریب اللہ: دور الغزالی فی الفکر ،مطبعہ الامانتہ ،مصر ،1978 ص،157-158)
2۔ یوسف قرضاوی:الغزالی بین مادحیہ وناقدیہ ، مؤسسۃ الرسا لۃ،بیروت، 1994،دیکھیے ،ص،71 و ،ص،76-77
3۔ الاقتصاد فی الاعتقاد ، ( ضبط و قدم لہ :مونس الفوزی الجسر)ط،1،1994، ص، 211
4۔فیصل التفرقہ بین الاسلام والزندقہ تعلیق و تخریج محمود بیجو، مکتبہ دار البیروتی ، ط:1،1992،ص،61
5۔ایضا: ص،71
6۔ایضا
7۔ایضا،19
8۔ایضا ص،22
9۔ایضا،ص:76
10۔ ایضا۔ ص،25
11۔ الاقتصاد فی اصول الاعتقاد ص،209
12۔ فیصل التفرقہ ص، 63-64
13۔ ایضا ص،49
14۔ایضا ص،27
15۔ایضا ص،27 تا31
16۔الاقتصاد فی الاعتقاد ص213
17۔ فیصل التفرقہ ص،65
18۔پہلی حدیث یہ ہے:الحجر الاسود یمین اللہ فی الارض’’حجراسودزمین میں اللہ تعالی کا داہنا ہاتھ ہے۔(الدیلمی،مسند الفردوس ،حدیث نمبر:2630)دوسری حدیث ہے:قلب المؤمن بین اصبعین من اصابع الرحمن’’مؤمن کا دل کی دوانگلیوں کے درمیان ہے‘‘۔(مسلم، حدیث نمبر:2654 ،ترمذی ،حدیث نمبر:2240) تیسری حدیث ہے: انی لاجد نفس الرحمن من قبل یمن ۔’’ یمن کی طرف سے نفس رحمن کا ادراک کرتا ہوں‘‘۔
-19الجامع لاحکام القرآن ، دار الکتب العلمیہ ،بیروت ،ط:1۱۹۸۸،ج،7ص،189
20۔ابن کثیر: (المجلد الثانی )دار عالم الکتب للطباعۃ والنشر والتوزیع ،1997ص،317
21۔فیصل التفرقہ ص،87
22۔ ایضا ص،84
23۔ ایضا
24۔ ص،87
25۔ ایضا ص،81-83
بشکریہ: جریدہ تجدید، بھارت