گلگت بلتستان صرف زمین نہیں، انسانوں کی بستی بھی ہے
آج گلگت بلتستان کا یومِ آزادی ہے؛ یکم نومبر انیس سو سینتالیس کو گلگت بلتستان کے عوام نے ڈوگرہ راج سے آزادی حاصل کی اور پندرہ دن آزاد رہنے کے بعد پاکستان سے الحاق کا اعلان کر دیا۔
لیکن اس آزادی کا پھل آج بھی وہاں کے عوام کو میسر نہیں۔ اس خطے کو کشمیر تنازع سے نتھی کرنے کے باعث اس کی آئینی حیثیت ایک معمّہ ہے، اور طاقت ور حلقےاس قانونی خلاء کا استعمال کر کے اس خطے کے وسائل کے ساتھ کھلواڑ کر رہے ہیں۔
دوسری طرف جہاں انہیں suit کرے وہاں یہ سیاسی احتجاج کی سزا کے طور پر انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کا استعمال کر کے سیاسی کارکنوں کے نام شیڈول فور میں ڈال دیتے ہیں، یا انہیں بابا جان اور افتخار کربلائی کی طرح طویل اسیری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
جس طرح سوات کا ذکر آتے ہی لوگ وہاں کی تاریخی وَرثے، فوڈاکانومی (یہ ملحقہ خطوں کے لیے فوڈ باسکٹ کا کردار ادا کرتا آ رہا ہے، ایک وقت میں ملک کی ٹماٹر کی پیداوار کا چودہ فیصد یہاں سے آتا رہا ہے،) سے لا علم ہیں۔ بس سب طوطے کی طرح سیاحتی مقام، سیاحتی مقام، tourist destination کی گردان شروع کر دیتے ہیں، اور بدلے میں اسے plastic garbage کے کوڑے دان میں بدل دیا ہے۔
ویسا ہی معاملہ گلگت بلتستان کا ہے، جہاں لوگ اس کا نام سن کر ہنزہ، شیندور میلہ، پولو، اور شنگریلا کی رَٹی رٹائی کہانی دُہرا دیتے ہیں۔ حالاں کہ یہ علاقہ تہذیبی، ثقافتی اور لسانی تنوّع کے حوالے سے ملک سب سے شان دار خطہ ہے؛ یہاں بولی جانے والی زبانوں کے صرف ناموں کے لیے آپ کے ہاتھوں کی انگلیاں کم پڑ جائیں گی، لیکن جیسے بلوچستان کا نام سن کر لوگوں کو وہاں بسنے والے انسان اور ان کی تاریخ، کلچر وغیرہ نہیں بَل کہ، سوئی گیس، سرداروں کا قصور کا گِھسا پِٹا راگ یاد آتا ہے ویسے ہی گلگت بلتستان کا نام سن کر لوگ کشمیر کا تذکرہ لے بیٹھتے ہیں (جو اپنی جگہ نہایت اہم موضوع ہے لیکن یہاں بحث کا رخ بدلنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
اے کاش کہ انسان اوّلیّت اور ترجیح پانا شروع کریں تو ہم گلگت کے گیتوں اور موسیقی، اور چہاردہ کے سروں کی بات کریں؛ اور ساتھ یہ کہیں کہ یہاں کی چیری کی برآمد بَہ راستہ لاہور کیوں ضروری ہے؟
کچھ نہیں یہ بحث اپنی جگہ، چلیں جد و. جہد کی راہ میں یکم نومبر کا سنگِ میل تو جان و دل سے مَس کریں، سب کو گلگت بلتستان کا یوم آزادی مبارک ہو۔
از، علی ارقم