پشتونوں کے درد اور اُن پر ڈھائے گئے جبر کا گِلہ بہ زبان گِلہ من پشتین

Gillaman wazir
گلہ من وزیر

پشتونوں کے درد اور اُن پر ڈھائے گئے جبر کا گِلہ بہ زبان گِلہ من پشتین

از، رشتین خان یوسف زئی

انقلابِ کیوبا کے نام ور رہ نُما اور بہ قولِ ژاں پال سارتر ‘بیسویں صدی کے مکمل انسان’ ارنسٹو چی گویرا نے دنیا کے ترقی پذیر ممالک کے دیگر حصوں میں انقلاب پھیلانے کے فیصلے کے بعد جانے سے پہلے اپنے بچوں کے نام ایک خط میں لکھا:

’تمھارا باپ ایک ایسا آدمی تھا جس نے جو سوچا اُس پر عمل کیا۔ یقین رکھو وہ اپنے نظریات سے مکمل طور پر وفادار رہا۔ یاد رکھو اگر کوئی چیز اہم ہے تو انقلاب، اس کے مقابلے میں ہماری ذات، ہمارا وجود کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔‘

جب میں گِلہ من پشتین کی مختصر زندگی، خصوصاً اُن کی زندگی کے آخری سات سالوں پہ نگاہ ڈالتا ہوں تو مجھے چے کی یہ باتیں صد فی صد اِس باشعور اور اپنی قوم کے درد میں ڈوبے نوجوان کی زندگی پر صادق لگتی ہیں۔ 

گِلہ من وزیر جن کا اصل نام حضرت نعیم تھا، ظلم و جبر کو نا صرف محسوس کرنے والا بَل کہ اس کے خلاف عملی زندگی میں سر کی پرواہ نا کرتے ہوئے جدوجہد کرنے والا باضمیر انسان تھا۔ وہ اپنی شاعری میں گِلے (شکوے) کرتا تھا نا صرف اِس ریاست سے، جس نے پختونوں کی بربادی میں بے حسی کی ہر حد پار کی، بل کہ اس معاشرے کے مَلک و مُلّا سے بھی جو معصوم و بے گناہ پختونوں کے قتلِ عام، اِغواء، لوٹ مار، ٹارگٹ کلنگ، کاروبار کی تباہی، معاشی بدحالی، گھروں سے بے دخلی، مہاجر کیمپوں میں اُن کی کَسمپُرسی کی زندگی، اور ہزاروں کی تعداد میں جبری لاپتا پختونوں کے بارے میں حقیقی عوامی نمائندگی کی صحیح ترجمانی کرنے کی بجائے یا تو ظالموں کے آلۂِ کار بنے ہوئے ہیں، یا شتر مرغ کی طرح ریت میں سر دے کر اپنے ہونٹ سی کر جابروں کے خاموش حامی بنے بیٹھے ہیں۔

اُسے پتا تھا کہ پختونوں کے درد کو سمجھنے والی نا ریاست ہے اور نا خود کو عوام کے نمائندے کہنے والے نام نہاد سیاست دان، مَلک اور مُلا۔ جب تک لوگ خود اس جبر و ظلم کے خلاف نہیں اُٹھیں گے تب تک امن اور سکون کی زندگی کی خواہش رکھنا عبث ہے۔

گِلہ من پر لاکھوں کروڑوں شہریوں کی طرح ریاست کا پہلا جبر یہ تھا کہ وہ غربت و افلاس کی وجہ سے تعلیم کے زیور سے آراستہ نا ہو سکا۔ وہ جوانی کے شروعات میں ہی لاکھوں پشتون نوجوانوں کی طرح اپنا گھر بار چھوڑ کر روزی کمانے اور مزدوری کرنے گلف (بحرین) گیا۔ اس دوران پختون خطے خصوصاً تب کے فاٹا اور پختون خوا میں جاری ملٹری آپریشنز کے نتیجے میں ہونے والی تباہی اور ہزاروں بے گناہ پختونوں کے قتال سے مزید حساس ہوتا چلا گیا۔ اُس کا بس نہیں چلتا کہ وہ اس تباہی و بربادی کو کیسے روکے۔

وہ ضمیر جھنجھوڑنے والا ایک انقلابی شاعر تھا۔ الفاظ کو درد کی چادر اوڑھا کر اس ظلم و جبر کو آشکارا کرنا اُس نے اپنا نصب العین بنا لیا۔ وہ شعر کہتا؛ رومانوی قصے اور زلف و رخسار کی تعریف و توصیف کی بجائے اپنی قوم پر ہو رہے جبر و استبداد کی رُوداد سناتا تو سننے والوں کا جذبۂِ احتجاج و مزاحمت آسمان کو چھوتا۔ 

اُس کے الفاظ درد کی داستان کا استعارہ بنتے اور قوم کی تکلیف کو آواز مل جاتی۔ پختون جو کئی عشروں سے اس درد و ظلم سے آشنا ہو کر بھی بیان کرنے سے قاصر تھے اُس درد کو گلہ من نے ایک مؤثر اور توانا آواز بخشی۔

ظالم اور استعمار مظلوم قوم میں ہر اُس آواز کو خاموش کرنے کی سعی کرتا ہے جو اپنے لوگوں کے حقوق کے دفاع میں استعماری پالیسیوں پہ اُٹھتی ہے۔ بجائے اس کے کہ گلہ من کی باتوں کو نوِشتۂِ دیوار سمجھ کر پختونوں کے درد پہ مرہم لگا کر ان کے شکوؤں کا آزالہ کرنے کی کوشش کی جاتی، اس ملک کے مالکان نے گَلہ من کو بحرین سے انٹر پول کے ذریعے ڈی پورٹ کیا اور یہاں پر ٹارچر سَیلوں میں رکھ کر اُن پر ظلم کے وہ سارے پہاڑ توڑے جو ان کی طرح ہزاروں نوجوان سالوں سے سہتے چلے آ رہے تھے اور جن کو گَلہ من وزیر کے پائے کا حساس و درد رکھنے والا انسان ہی الفاظ میں پِرو کر بیان کر سکتا تھا۔ 

آٹھ مہینوں تک گِلہ من اور اُس کے ساتھیوں کو ٹارچر کیا جاتا رہا۔ وہاں سے اُسے بنّوں جیل منتقل کیا گیا۔ چُوں کہ مقدمہ من گَھڑت اور جھوٹا تھا اس لیے عدالت کو بالآخر اسےساتھیوں سمیت ضمانت پہ رہا کرنا پڑا۔ 

جیل سے رہائی پر گِلامن خاموش ہونے کی بجائے مزید فعّال ہوئے۔ ایک انٹرویو میں جب اُن سے پوچھا گیا کہ جو شاعری کر رہے ہو اور جو تحریک چلا رہے ہو یہ تو بہت سخت مؤقف ہے، آپ کی جان بھی جا سکتی ہے، گھر والے روکتے نہیں؟ تو اُنھوں وہی جواب دیا جو عزمِِ مصمم رکھنے والا ایک با شعور انسان کا ہوتا ہے۔ انھوں نے کہا:

‘قوم کی بہتری کے لیے ہر درد و تکلیف سے گزرنے اور ہر قربانی دینے کے لیے تیار ہوں۔ میں جانتا ہوں اس راہ میں کسی بھی وقت جان جا سکتی ہے۔ مجھے مسلسل دھمکیاں ملتی ہیں کہ باز آ جاؤ ورنہ تمھیں نہیں چھوڑیں گے۔ میری ماں اور بچوں نے اس حقیقت کو تسلیم کر لیا ہے۔ بس ماں کہتی ہے اپنا خیال رکھا کرو’۔

باہر نکلنے کے بعد گِلہ من پشتین نے ٹارچر سیل کے دنوں کو اپنی شاعری میں بیان کیا جو بہت درد سے بھری ہے اور ظلم کی ایک ایسی داستان بیان کرتی ہے جو نارمل اور حسّاس انسان سننے اور پڑھنے کی سکّت نہیں رکھتے۔ کافی لمبی نظم ہے۔ اُس شاعری کے مختصر حصے کا ترجمہ لکھ رہا ہوں، جس سے معصوم لوگوں پر جاری ظلم و جبر کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔

وہاں ایک لوہے کی کُرسی پڑی تھی

گِرد جس کے فولاد کی زنجیر کَسّی تھی

مجھے اُسی کُرسی پر پھر باندھا گیا

سانس تک لینے کو مُشکل بنایا گیا

کُرسی کے نیچے لگی آگ بڑھتی رہی

میرے جامۂِ تن کے جلنے کی بُو مجھ میں بستی رہی

کچھ سزائیں فقط احساس میں ہیں 

اور ان سے جلتے لمحے بیان سے باہر 

سانپوں بچھوؤں سے ڈسوایا گیا

ایک سانس لیتے انسان کا گوشت کتوں کو کھلایا گیا

اور پھر ایک شخص آتا کہ کل صبح پھانسی دیں گے

میں خوش ہوا کہ اذیت ختم ہو گی

 دل کو مسرت ہوتی کہ جلد مروں گا

بُزدلی کی آمد سے قبل عزت سے مروں گا

ہر رات وہ کہتے مجھے تیّار رہو

پھانسی کا وقت ہے نزدیک بیدار رہو

مجھے اپنی ماں اور معصوم بیٹی کی یاد آتی

اور پھر اس دیس کی ہر مجبور ماں یاد آ جاتی

سوچتا کہ اچھا ہے کہ یہ موت وطن کے سب مجبور لوگوں کے لیے ہے 

صبح ہوتی تو دھکے دے کر روانہ کرتے

ٹھڈوں اور ڈنڈوں سے روانہ کرتے

آنکھوں پر پٹی اور زخمی پاؤں لیے روانہ کرتے

کچھ وقت بعد عجیب حادثے کی منزل ہوتی

ہر طرف قبریں اور مردوں کا بسیرا تھا

میری آنکھوں کے سامنے کئی کم عمر جوان مار دیے

چند ساعتوں میں پانچ سات انسان مار دیے

وہ سب تیار تھے اور مجھے زندہ قبر میں اُتار دیا

کوئی ہاتھ میں کُدال اور بیلچے لیے

کئیوں نے بندوقیں میرے سر پر تانی

مُنھ ڈھاٹوں سے چھپائے ہاتھوں پر خون

وہ انسانوں کے روپ میں قصاب کھڑے تھے

فرمان تھا بتاؤ ہماری بات تسلیم ہے کہ نہیں

آخری وارننگ ہے اپنی جان عزیز ہے کہ نہیں

آٹھ جولائی کے دن اسلام آباد میں اس با ضمیر اور حسّاس انسان کو دس سے بارہ لوگوں نے چُھریوں، ڈنڈوں اور پستولوں سے حملہ کر کے شدید زخمی کیا اور تین دن تک پِمز ہسپتال میں رشتے داروں اور ہزاروں دوستوں و غم خواروں کی آہ و بکا میں زندگی کی جنگ لڑتے لڑتے آخرِ کار اس ظالم اور بے رحم معاشرے کو الوداع کہہ گیا۔ 

اس باشعور انسان کی شہادت نے ریاست اور اس کی مشینری کے کردار پر اہم سوال اُٹھا دیے ہیں جن کے تسلی بخش جواب ملنے تک پختونوں کے دِلوں میں ریاست اور اس کے شہریوں کے تحفظ کی قسم لینے والے قانونی اداروں کے کردار کے بارے میں شکوک و شبہات موجزن رہیں گے: 

۱. کیا ایک مہذب ریاست اپنے ایک شہری کو اسی ریاست کے بے گناہ شہریوں کے حقوق کے بارے میں محض آواز بلند کرنے پر ڈی پورٹ کر سکتی ہے؟

۲. کیا قانون کے مطابق بغیر کوئی مقدمہ دائر کیے ایک آزاد ریاست اپنے ایک آزاد شہری کو ٹارچر سیل میں مہینوں تک رکھ کر بد ترین تشدد کا نشانہ بنا سکتی ہے؟

۳. کیا ایک بے گناہ شہری کو حقوق مانگنے کی پاداش میں زد و کوب کیا جاسکتا ہے؟

۴. آزاد ملک کے ایک شہری کو مہینوں اور سالوں تک جان سے مارنے کی دھمکیاں ملتی ہیں، شہریوں کے تحفظ کی قسم کھانے والے ادارے دھمکیاں دینے والوں کا سراغ لگا کر گرفتار کیوں نہیں کرتے؟

۵. ایک آزاد ملک میں کیسے اور کیوں انسانی حقوق کے لیے بولنے پر لوگوں پر جھوٹے مقدمے بنا کر جیلوں میں ڈالا جاتا ہے اور اصل قاتل اور ظالم کے خلاف قانون کیوں حرکت میں نہیں آتا؟

۶. ایسا کیوں ہے کہ قاتل آزاد گھومتے اور معصوم جیلوں و ٹارچر سیلوں میں اذِیّتیں جھیلتے ہیں؟

۷. ملک کے دارُ الحکومت میں دن دہہاڑے بیچ بازار میں کیسے دس سے بارہ بندے ایک نہتے انسان پر حملہ کرتے ہیں اور پولیس کو خبر تک نہیں ہوتی؟

۸. سیف سٹی کہلانے والے اسلام آباد میں ایک انسان پر قاتلانہ حملہ ہوتا ہے، قاتل آرام سے گاڑی میں بیٹھ کر نکل جاتے ہیں، تین دن تک کیوں نا کیس میں کوئی بیش رفت ہوتی ہے اور نا کوئی گرفتاری عمل میں آتی ہے؟

۹. جب پہلے دن سے قاتلوں کا پتا تھا تو ان کی گرفتاری کے لیے کیوں چھاپے نہیں مارے گئے اور ان کا نام ای سی ایل میں کیوں نہیں ڈالا گیا؟ 

۱۰۔ جب قاتل بِلا کسی تردّد، روک ٹوک کے آسانی سے ایئرپورٹ سے متحدہ عرب امارات بھاگ رہا تھا تو قانون نافذ کرنے والے ادارے کہاں سوئے ہوئے تھے؟

۱۱۔ وفاقی حکومت کیوں تین دن تک کوما میں پڑے زندگی و موت سے لڑتے شہری کو ہزاروں لاکھوں لوگوں کے بار بار یاد دہانی کے باوجود نا تو اس کا نام ای سی ایل سے نکالنے پر غور کرتی ہے اور نا ہی ایئر ایمبولینس فراہم کرتی ہے؟

۱۲. ملکی میڈیا پر ایک اونٹنی کی ٹانگ کاٹنے پر کئی دنوں تک کوریج دی جاتی ہے شور و غوغا ہوتا ہے لیکن ایک باشعور اور لاکھوں لوگوں کے درد کے نمائندہ انسان پر قاتلانہ حملے کی کیوں کوئی خبر نہیں چلتی، کیوں قاتلوں کی گرفتاری اور اسے درکار علاج کی سہولیات کی بات اسی میڈیا پہ نہیں کی جاتی‌؟ 

۱۳. سوشل میڈیا پر گلہ من کی کردار کشی میں کون لوگ کیمپین چلاتے ہیں اور 2016 کے پیکا جیسے قوانین اور 2021 سوشل میڈیا رولز جو ہر باضمیر اور انسانی حقوق کے کارکنوں کے خلاف ہر وقت حرکت میں آتے ہیں، یہاں کیوں خاموش تماشائی بنے رہے؟ 

بس کیجیے صاحب! ورنہ لوگ مزید متنفّر ہوجائیں گے۔ میں جب لوگوں سے بات کرتا ہوں تو وہ انتہائی ناراضی اور مایوسی کا اظہار کرتے ہیں۔ عوام بالخصوص پختون اور بلوچ لاشیں اُٹھا اُٹھا کر تھک چُکے ہیں۔ 

گِلہ من کے آخری سفر پر اسلام آباد سے ان کے گاؤں اسد خیل (شمالی وزیرستان) تک فقیدالمثال استقبال ہوا۔ اُنھیں رخصت کرنے لوگ اُس کو لے جانے والی ایمبولینس سے لپٹ لپٹ کر روئے. مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ دو تہائی ملک کو معلوم ہی نہیں کہ وہ کون تھا اور اُس کے ساتھ ہوا کیا۔

اُس کی شاعری میں مظلومیت کا بیان ہے جو جبر کے خلاف اُبھارتی ہے۔ حکومت کی طرف سے اس قتل پر مجرمانہ خاموشی دیکھ کر گِلہ من کا یہ گِلہ بجا لگتا ہے کہ:

خیر ہے اگر میرے قتل پر باقی دنیا خاموش ہے

لیکن اے مسمان! میں تو تیرا کلمہ گو بھائی ہوں 

اور

اے استاد! وطن کا حال کیسا ہے

بچے سکول آتے ہیں کہ نہیں 

اے پختونوں کے قاتل بتاؤ 

تمھاری قبر میں سانپ آتے ہیں کہ نہیں

اور

اے پختونوں کے قتلِ عام پہ خاموش مَلک اور مُلا

تم سے اتنا گِلہ مند ہوں جس کی کوئی حد نہیں

کوئی پرواہ نہیں اگر اِن کی محبت میں دار بھی چڑھ جاؤں

(مجھے) پختون قوم سے اتنی محبت ہے جس کی کوئی حد نہیں

کبھی (مجھے) مہاجر بناتے ہو تو کبھی دہشت گرد کہتے ہو

اپنے وطن میں اتنا ذلیل ہوا ہوں جس کی کوئی حد نہیں

پختونوں کی بے عزتی کی جاتی ہے اور میں چُپ ہوں

میں گِلہ مند اتنا ڈرپوک ہوں جس کی کوئی حد نہیں